Search This Blog

Wednesday, 22 February 2012

بھارتی معیشت پر کارپوریٹ اداروں کا غلبہ

 بھارتی معیشت پر کارپوریٹ اداروں کا غلبہزراعت کیلئے صنعتی انفراسٹر کچر ضرررساں
ایس اے ساگر

 بجٹ کے ذریعے ملک کو سمجھنا اور ملک کو سمجھ کر بجٹ بنانا، دونوں دومختلف نوعیتیں ہیں۔ نئی معاشیات اس کی اجازت نہیں دیتی کہ سارے ملک کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ ماہرین اس مفروضے پر عمل پیرا ہیںکہ کہ آزادی کے بعد کم از کم ضروریات کو بنیادی ڈھانچے کے دائرے میں لانے کا جتناکام ہونا تھا، وہ یا تو ہو چکا ہی نہیں یا پھر بنیادی ڈھانچہ کو نئے طریقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ماہر اقتصادیات کا مشورہ ہے کہ اب ریئل اسٹیٹ کے ذریعے شہر اور علاقوں کی ترقی کو بنیادی ڈھانچے سے جوڑ دیا جائے۔ نجی کمپنیوں کی پروازوں سے جو ائیرلائنس مارکیٹ پھل پھول رہی ہے اس میں تیزی لانے کیلئے انفراسٹرکچرکے دائرے میں ائیرلائنس کو شامل کیا جائے۔
ان دو نوںشعبوں کی ترقی کیلئے سب سے بڑا بحران زمین کا ہے۔ اگر یہ دونوں شعبے بنیادی ڈھانچہ کے دائرے میں آ جائیں تو حکومت کیلئے بھی ان شعبوں کے لئے زمین کی مشکل دور کرنے کا راستہ کھل جائے گا اور نجی کمپنیاں اس شعبہ میں تیزی سے پیر پھیلا سکیں گی۔ اسی طرز پر منموہن سنگھ دور کے ماہر ین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکس کے دائرے میں کھیتی سے ہونے والی آمدنی کو بھی لانا ضروری ہے۔ یعنی کھیتی سے ہونے والی روایتی آمدنی پر ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر نقدی فصل سے لے کر کارپوریٹ فصل سے ہونے والی آمدنی پر بھی ٹیکس لگنا چاہئے، اس سے ملک کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ ایسی بہت سی تجاویز ماہر اقتصادیات نے وزیر خزانہ کو دی ہیں۔
لیکن جو سوال اس مذاکرے میں زیر بحث نہیں آیا‘ وہ پیداوار بڑھانے کے طریقوں کا ہے‘کھیتی کو صنعت کی طرز پر انفراسٹرکچر مہیا کروانے کا ہے، دیہی زندگی سے روزگار کو شامل کرنے کی سمت میں قدم بڑھانے کا ہے، معدنی املاک کے ذریعے شہر اور گاؤں کے مابین فاصلے ختم کرنے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان تمام اسکیموں سے رسنے ہونے والا پیسہ جاتاکہاں ہے اس پرغورکرنا کیا ضروری نہیں ہے؟ دراصل مفاد عامہ سے محروم معاشیات بازار، صارفین، کارپوریٹ، نجکاری اور منافع میں ہی پورے ملک کی ترقی سمجھ رہی ہے۔ ایک جگہ سے منافع کمانااور سیاسی فائدہ کیلئے دوسری جگہ اس منافع کا ایک حصہ لگا دینا اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔ سیاسی فائدہ کسے کتنا دیا جائے ‘یہ منافع کی سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔ منافع کیسے کمایایا جا سکتا ہے‘اسی علم کا نام معاشیات ہے۔
اس تعریف کے مطابق ملک اور عوام کی کیا صورتحال ہے‘ یہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہیں سے سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر معاشیات کا کونسا سبق اس دور میں بھلا دیا گیا اور اب اسے دوہرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی نظر میں محسوس ہو کہ سوال محض سبق کا نہیں ہے بلکہ اقتصادیات کے جو اصول معاشرے میں معاشیات پریلغار کر رہے ہیں ‘ضرورت تو انہیں الٹنے کی ہے۔اقتصادی اصلاحات نے سماجی اور اقتصادی حالات میںکچھ انقلابی تبدیلیاں برپا کی ہیں۔ مثلا، بنیادی ڈھانچے کی ترقی کاحکومت کے ہاتھوں سے نکل کر کافی حد تک کارپوریٹ ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے۔ مثال کے طور پرپینے کا پانی، تعلیم، بنیادی علاج، سڑک ‘ بس کا سفر وغیرہ۔ دوسری طرف جن چیزوں کا شمار تعیشات میں ہوتا تھا اب ان چیزوں کا شمار ضروریات میں ہونے لگا ہے۔ مثال کے طور پر شہر میں رہنے والوںکے پاس دوپہیہ گاڑی یا کار، کپڑا دھونے کی مشین، فریج، ٹی وی، موبائل فونوں سمیت متعدد اشیاء کو کم از کم ضرورت کی چیزیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔
یعنی مارکیٹ کی معیشت نے اس معاشیات کو ہی تبدیل کر دیا جس کے سہارے کم از کم ضروریات کا پیمانہ پورے ملک کے لئے ایک مشترک ہوتا تھا۔ اب نچلے طبقے کی ضرورت اور درمیانی طبقے کی ضروریات اور اعلی طبقہ کی بھی کم از کم ضروریات مساوی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کسان سے لے کر کارپوریٹ گھرانوں تک کی سبھی کی اپنی اپنی کم از کم ضروریات ہیں۔ اگر کسان کو بیج، کھاد، آبپاشی سے لے کر بازار تک پیداوار پہنچانے کا راستہ صاف چاہئے تو کارپوریٹ کو خام املاک، زمین اور صنعت کیلئے وہ بنیادی ڈھانچہ کی ضرورت ہے جس کے اوپر وہ ترقی کامینار قائم کر سکے۔
مشکل یہ ہے کہ کارپوریٹ کوجو کچھ ضروریات درپیش ہوتی ہیں انھیں پورا کرنے کے لئے حکومت اپنی سیاسی سودے بازی کے ذریعے، لائسنس یا منصوبوں کے ذریعے الاٹ کردیتی ہے لیکن کسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے‘ ذاتی کمپنیاں چاہئے وہ بھی حکومت سے لے لیتی ہیں، اس کے بعد کسان کو اپنی انگلیوں پر نہ صرف قیمتوں بلکہ کھیتی کے طریقوں اور بیج کی فراہمی  پر بھی نچاتی ہیں۔
قیمتیں حکومت نہیںبلکہ ذاتی کمپنیاں طے کرتی ہیں ۔معاملہ چاہے بیج کا ہو یا کھادکا‘ آبپاشی کا ڈھانچہ تو دور کی بات ہے، اس کے برعکس کھیتی کی زمین کو ہی کالونیاں بنانے، بجلی منصوبوں کو روبہ عمل لانے اور اسٹیل سیمنٹ فیکٹری سے لے کر سیج بنانے کے نام پر ہڑپنے کا ایسا سلسلہ چلا دیا گیا ہے کہ آبپاشی کیلئے زمین کے نیچے جوقدرتی نظام پانی کی شکل میں میسر تھا وہ بھی کسان سے دور ہو چکا ہے۔ زمین کے نیچے کا پانی کارپوریٹوں کی اسکیموں نیچے اتنا دب گیا ہے کہ کسانوںکو آبپاشی کرنے کیلئے انہی کمپنیوں کو منافع دے کراورڈیزل خرید کر موٹر چلانی پڑتی ہے۔ یعنی صنعتی منصوبوں کیلئے قائم کیا جانے والا انفراسٹرکچرکھیتی کے ڈھانچہ کو ختم کر رہا ہے جبکہ سرمایہ کاری کا مطلب مارکیٹ کی توسیع ہے۔ اس تفصیل کا مطلب ہندوستان کی معیشت کی دیسی قیمت کو بین الاقوامی طور پر جانچتے ہوئے کثیر ملکی کمپنیوں کو خام مال سے لے کر لیبر تک سب کچھ سستے میں فراہم کروانا ہے۔ یعنی جس معدنی املاک کی قیمت ہندوستان میں کرڑوں کی ہے اسے باہر بھیجنے کے مقصد سے حکومت نجی کمپنیوں کیلئے ہروہ تدبیر اختیار کرتی ہے جس سے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع بین الاقوامی مارکیٹ میں کما سکیں۔
عوامی آلات کو کیسے چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کیلئے ترقی منصوبے کیسے بنائی جاتی ہیں، یہ سبق نئی معاشیات سے غائب ہوچکاہے۔ معاشیات کی نئی سوجھ بوجھ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ حکومت کا مفاد ات عام لوگوں سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ سوال محض بیلاری سے لے کر مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور اوڈیشا کی معدنی املاک کی لوٹ کھسوٹ کا نہیں ہے جہاں سے تقریبا پچاس لاکھ کروڑ سے زیادہ کی آمدنی کا چونا لگ چکا ہے بلکہ حکومتوں کی پالیسی کا مقصدنجی کمپنیوں کے حوالے سب کچھ کرکے محض ترقی کے ڈھول پیٹنا رہ گیا ہے۔
حکومت بھلے جوہری توانائی پر تکیہ لگائے ہوئے ہو لیکن دنیا کے تمام ملک یہ سمجھ چکے ہیں کہ ایک وقت کے بعد سورج اور ہوا کے ذریعے پیدا ہونے والی توانائی محض ضروری ہی نہیں بلکہ منافع بخش بھی ہو گی۔ یوں ہندوستان میں متبادل توانائی کے نام پر ایک الگ وزارت کام کر رہی ہے لیکن اس کا کام متبادل توانائی والے علاقوں کو کمیشن لے کر محض فروخت کردیناہے۔ سمندری علاقے کی وہ ساری زمین جہاں ہوئی چکیاں چل سکتی ہیں اور جہاںنئی سورج کی توانائی میسر ہوتی ،وہ نجی کمپنیوں کو فروخت کی جا چکی ہے۔ وہ تمام ابھی سے این ٹی پی سی کو بجلی فروخت کرتی ہیں۔ دس برس بعد جب اس کی ضرورت اور قیمت دونوں آسمان باتیںکرنے لگیں گی تو حکومت نجی کمپنیوں کی من مانی قیمت کے سامنے ویسے ہی دبی ہوئی ہے جیسے آج امبانی کے ہاتھ میں گیس اور کئی دیگر نجی کمپنیوں کو پیٹرول‘ ڈیزل سونپ کر ملک کی ضرورت کی سودے بازی کر رہی ہے ۔
ایسی بہت سی حقیقتیں ہیں جو ذہن میں یہ سوال پیدا کر سکتی ہیں کہ کیا حکومت کے پاس کوئی اپنی معاشیات نہیں ہے جس کے ذریعہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق ملک کو آگے بڑھایا جا سکے؟اقتصادی ترقی کی جو شکل بن گئی ہے اسے الٹنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اقتدار کے رہنما خطوط یا اس کی اپنی معاشیات نے ہی اس تثلیث کو قائم کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کے اس کے پس پشت معاشیات کے کئی قوانین کام کر رہے ہوںلیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتاکہ اس کی ضرورت حکمراں کے اقتدار میںقائم رہنے کے مقصد سے شروع ہوئی ۔
ظاہر ہے یہاں سوال جمہوریت کی ان عقائد پرقائم ہوں گے جو پارلیمانی انتخابات کو ہی جمہوریت کا مترادف قرار دیتے ہیں، اسی طرح جیسے ماہر اقتصادیات نے ترقی کی شرح کو ہی پورے ملک کی اقتصادی ترقی کا معیار بنا دیا ہے۔ انتخابات کا فیصلہ بھلے ووٹوں کی گنتی سے ہوتا ہو لیکن اس کے پس پشت یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ وہی کارپوریٹ کمپنیاں پارٹیوں کو پیسہ دے رہی ہیں جنہیں امید ہے کہ انتخابات کے بعد انہیں کے مطابق پالیسیاں بنیں گی اور فیصلے ہوں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کے ووٹ کی حیثیت مساوی ہے لیکن نئی معاشیات کو اس انتخابی جمہوریت میں شامل کردیا جائے تو کئی سوال ایک ساتھ پیدا ہوں گے ‘جیسے کہ ووٹروں کا جو طبقے کھیتی کے سہارے پیٹ پال رہا ہے ان کی ضرورت ایک عدد اسکول یا بنیادی صحت مرکز کی ہے۔ اگر وہاں کی کھیتی کی زمین پر کوئی صنعت بجلی پلانٹ لگانا چاہتا ہے تو اقتدار کیا کرے گا؟ ظاہر ہے، یہاں اقتدار کی ترجیح میں وہ لاکھوں ووٹر نہیں ہوتے بلکہ ایک کارپوریٹ گھرانہ ہوتا ہے جو پلانٹ لگانا چاہتا ہے۔ ترقی کے نام پر ہزاروں خاندانوں کی کھیتی کی زمین معاوضے کے ذریعے حکومت نجی کمپنیوں کو دے دیتی ہے۔ کسان کو روزی روٹی کیلئے گاؤں چھوڑنا پڑتا ہے اور جو لوگ وہاں رہ جاتے ہیں وہ مزدور بن کر اسی پلانٹ میں کام کرنے لگتے ہیں۔ حکومت اس کے بعد بتاتی ہے کہ گاؤں کے شہربسانے کی سمت میں اس نے کیا کیا کمالات کئے ہیں۔
اتر پردیش کو ہی لیں تو جو بھی اقتدار میں آئے گا اسے بجلی، کان کنی، انفراسٹرکچر، ٹاؤن شپ، اسٹیل، چینی مل سے لے کر تعلیم اور صحت جیسے شعبوںمیں اولین چھ ماہ کے اندر ہی کل ساٹھ لاکھ کروڑ سے زیادہ کے لائسنس تقسیم کرنے ہیں۔ یوںکہاجاسکتاہے کہ منصوبوں کی بندربانٹ ہوگی۔ اس کے علاوہ، چھوٹے بڑے دھندوں کے ذریعے کس طرح اربوں کا کھیل ہوتا ہے ۔
اقتدار کی اہمیت کس کیلئے کتنی ہے اور اقتدار کی ضرورت کس کیلئے زیادہ ہے‘ یہ سمجھنا اب مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ سیاسی معاشیات کے نئے پیمانے ہی نہیں بلکہ تعلیم کے نئے معیار بھی ترتیب دئے جا رہے ہیں۔ اب آئی بی ایم اور آئی آئی ٹی میں اس کی پڑھائی ہونے لگی ہے کہ کس طرح کارپوریٹ کمپنیوں کا انتخاب پر اثر بڑھتاجارہا ہے اور یہ اثرات ملک میں ترقی کی رفتار کو کیسے بڑھا رہا ہیں۔ گویا ہندوستان اب پوری طرح بازارمیں تبدیل ہو چکا ہے۔ایسے حالات میں عام انسان کیسے سلامت رہے گا ؟

No comments:

Post a Comment