امام الہند مولانا ابولکلام آزادؒ
محقق ،مفسر،صاحب طرز ادیب اوربے باک سیاستداں
محقق ،مفسر،صاحب طرز ادیب اوربے باک سیاستداں
سمیع احمد قریشی
مولانا ابوالکلام آزاد 11نومبر1888ئ کو مکہ معظمہ سرزمین حجاز میںپیدا ہوئے۔ گویا 11نومبر1888ئ کی صبح نے اک نئے آفتاب کو خوش آمدید کہا۔ اسی آفتاب و مآتاب کی روشنی نے خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں کو اندھیرے میں راستہ دکھلایا۔ وہ راستہ جو ہم بھٹک چکے تھے۔ مولانا آزاد کے والد مولانا خیرالدین بھی اک عالم تھے۔ مولانا خیرالدین اپنے اہل و عیال کے ساتھ 1898ئ میں کلکتہ آگئے۔ مولانا آزاد کا تعلیمی سلسلہ بڑے بھائی ابوالنصر غلام یٰسین کے ساتھ مکے ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ اب وہ کلکتہ کے اساتذہ سے گھر ہی پر 15برس کی عمر میں روایتی اور رائج مذہبی تعلیم کی مناسبت سے تعلیم کا نصاب پورا کیا اور ’عالم‘ بن گئے۔ عام طور پر طلبہ اس عمر میں نصف مسافت بھی کم طے کرپاتے ہےں۔ اس کے بعد وہ خود درس دینے لگے۔ مولانا کی والدہ مکہ کے اک علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ مولانا بچپن ہی سے ذہین تھے۔ وہ روایات سے ہٹ کر افکار کی نئی دُنیا میں رہتے۔ جس کا محور مذہب اسلام ہی رہتا۔ اُن کے سامنے جو کچھ ہورہاہے، ہوچکا۔ مزیدکیا بہتر ہو سکتا اُس پر غور کرتے، اُن کی ساری سوچ عمل غور و فکر کا محور مذہب اسلام ، قرآن اور سنت نبوی رہی۔ اس پر مرتے دم تک قائم رہے۔ علماءکے اک قدامت پسند خاندان کے چشم و چراغ اور تقریباً تمام اسلامی علوم میں گہری بصیرت کے حامل مولانا آزاد نے اپنے علم و دانشمندی کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں پر اک تعمیری اور مثبت اثر چھوڑا۔ یقینا مولانا آزاد جو کچھ چھوڑ گئے چاہے وہ ترجمان القرآن کی قرآنی تفسیر و مطالب یا قومیت کے تعلق سے مسلمانوں کو بتلایا ہوا درس، تاقیامت ، ہم خاص طور پر برصغیر کے مسلمان، استفادہ کرتے رہےں گے۔ آزادؒکے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ بہت سے گوشے اب بھی باقی ہےں۔ جو کچھ لکھا گیا ان کے کارناموں کا اک جزوی جائزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ مولانا آزاد قرآن مجید اور اسلام کے بڑے عالم تھے جس کا معترف اک عالم ہے۔ انہیں عربی، فارسی پر دسترس تھی۔ انگریزی اور فارسی بخوبی جانتے تھے۔ اک عظیم مقرر تھے۔ سامعین کو گھنٹوں اپنی مدلل باتوںسے مسحور کردیتے تھے۔ وہ ایک غیر لچک نیشنلسٹ تھے۔ تحریک آزادی کے زبردست مجاہد تھے۔ اُن کے جیسا قابل عامِل فاضل اُن کے ہم عصر مسلمانوں میں کوئی نہ تھا۔ نہ آج تک ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے دلدادہ ، عقیدت مند، غیرمسلموں میں بھی خاطر خواہ تعداد میں تھے۔ جو آج بھی ہےں۔ ادب، انشائ، اسلامی علوم ، تحریک آزادی کا سچا سپاہی، بہترین خطیب، متعدد زبانوں پر عبور وغیرہ وغیرہ مولانا میں کیا خوبیاں نہ تھیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے متعدد خوبیوں کواک انسان کے سانچہ میں ڈھال دیا۔ جس کا نام مولانا ابولکلام آزادپڑا۔ مولانا آزاد کی خوبی یہ اہم رہی کہ وہ گفتار کے غازی نہ تھے کردار کے غازی تھے۔ وہ چاہتے تو موروثی اعتبار سے پیری مریدی ہی میں پڑے رہتے، چاہتے تو اک خانقاہ میں بیٹھ کر درس و تدریس کا کام انجام دیتے یا جلسے جلوسوں میں جاکر صرف اپنی آواز کا سحر چلاتے۔ مگر ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے غالباً سوچا کہ زندگی کا جو مشن ہے وہ بے پناہ عملی جدوجہد کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو وقت کا مورخ ’گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا، کے نام سے یاد رکھے گا۔ ابتداءکم عمری ہی سے مولانا آزاد غور و فکر کے ساتھ ساتھ عمل کی جانب رواں دواں تھے۔ خود کہتے ہےں ”واقعہ یہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہ ہوئی تھی اور زیادہ سے زیادہ میری عمر 13سال برس کی تھی کہ میرا دِل اچانک اپنی موجودہ حالت اور اِردگرد کے حالات سے اُچاٹ ہوگیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں کسی اچھی حالت میں نہیں ہوں۔ یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی حتیٰ کہ مجھے ان ساری باتوں سے جو لوگوں کی نظروں میں انتہا درجہ عزت اور احترام کی باتیں تھیں اک طرح کی نفرت ہوگئی۔ میں اندر ہی اندر ان باتوں پر شرم اور ذلت محسوس کرنے لگا۔ اب جو لوگ میرا ہاتھ چومتے، تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا اک بہت ہی سخت بُرائی کا کام ہورہا ہے۔ چند دن پہلے یہی منظر میرے لےے نہایت ہی فخر و غرور کا باعث تھا“۔
ابتداءمیں مولانا آزادؒ سرسید سے ذہنی و فکری سطح پر قریب آئے۔ مگر بعد کو وہ سرسیدؒ سے دور ہوگئے۔ جس کی خاص وجہ سرسیدؒ کی انگریزوں کو مشروط وفاداری رہی۔ آزادؒ مولانا شبلی نعمانیؒ کے کافی دلدادہ رہے۔ شبلیؒ گویا اک جوہری تھے۔ یقینی طور پر وہ آزادؒ کی ذہانت، علمی دینی قابلیت و خطابت سے متاثر ہوں گے۔ اُنہوں نے مولانا آزاد کو اُس وقت کے اپنے مشہور ماہنامہ الند وہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ مولانا راضی ہوگئے کہ اس وقت اُنہیں اک ایسے عالم کی سرپرستی ضروری تھی جس کے زیر سایہ رہ کر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکیں۔ الند وہ میں صرف 6ماہ ، مولانا آزاد، نائب مدیر کی حیثیت سے رہے۔ اس سے پہلے مولانا آزاد کی تحریریں دوسرے اخبارات و رسائل کے ذریعہ عوام الناس میں پہنچ چکی تھیں۔ مقبول ہوچکی تھیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ الند وہ کی ادارت میں شامل ہوکر آزادؒ اپنے قلم کے ذریعہ کمال دکھاتے رہے۔ قلم میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ علامہ شبلی کی علمی تربیت گاہ میں پوری ہوگئی۔ وہ مزید خوب سے خوب تر ہوگئے۔ مولانا سید سلیمانی ندوی نے ٹھیک ہی لکھا۔ ”1905ئ میں وہ مولانا شبلی سے ممبئی میں ملے اور یہ ملاقات ایسی تاریخی ثابت ہوئی کہ ابوالکلام کو مولانا ابوالکلام بنادیا۔ مولانا شبلی مرحوم ان کو اپنے ساتھ ندوہ لائے اور اک زمانہ تک ان کو اپنے پاس ندوہ میں رکھا وہ ان کی خلوت جلوت کی علمی صحبتوں میں شریک رہنے اور اپنی مستثنیٰ فطری صلاحیتوں کی بدولت ہر روز آگے بڑھتے گئے“۔مولانا آزاد اور علامہ شبلی کے درمیان، تعلقات بہت عمدہ اور غایت درجہ کے رہے۔ اک دوسرے کو عزیز رکھنے کا رشتہ مولانا شبلی کی حیات تک ہی نہیں بلکہ وفات کے بعد بھی قائم رہا۔ مولانا آزاد اور شبلی کی اک دوسرے سے قربت کی بناءپر مولانا آزاد اور مولانا سید سلیمانی ندوی کے درمیان مخلصانہ رشتہ بھی قائم ہوا۔ مولانا آزاد نے 1912ءمیں ’الہلال‘ نام سے اُردو ہفتہ وار نکالا۔ جس کا اہم مقصد مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا۔ الہلال نے شروع دن سے عام مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کرلی۔ مسلمان ہی کیا اُسے خاطر خواہ تعداد میں غیر مسلم اُردو داں بھی پڑھتے تھے۔ کئی مضامین الہلال میں مولانا سید سلیمان ندوی کے شائع ہوئے۔ الہلال اک بین الاقوامی سیاسی تحریک سمجھی جاتی تھی۔ مولانا آزاد شروع ہی سے متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ اُنہیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ مسلمان تحریک آزادی میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ ہندوﺅں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ مولانا آزاد نے یکم دسمبر کے الہلال میں لکھا ”مسلمانوں کی بڑی غلطی یہی ہے کہ وہ تعداد کی قلت و کثرت کے چکر میں پڑ گئے۔ تعداد کو قوی کرنا چاہتے ہےں مگر دِلوں کو نہیں۔ حالانکہ اسلام کی نظر میں تعداد کوئی چیز نہیں یہ تعداد کی قلت و کثرت کا وسوسہ لذات کا ڈالا ہوا ہے۔“ الہلال کے 18دسمبر1912ئ کے شمارے میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے لکھا کہ ”ہندوﺅں کے مُلک کی آزادی کے لےے جدوجہد کرنا داخل حُب الوطنی ہے، مگر آپ کے لےے فرض اور داخل جہاد فی سبیل اللہ جہاد کے معنی میں ہر وہ کوشش داخَل ہے جو حق و صداقت ، انسانی بندو استبداد اور غلامی کو توڑنے کے لےے کی جاتی ہے۔ پس اُٹھ کھڑے ہو کہ خدا اب تم کو اُٹھانا چاہتا ہے اور اُس کی مرضی یہی ہے کہ مسلمان جہاں کہیں ہےں بیدار ہوں اور اپنے فراموش کردہ جہاد کو زندہ رکھیں“۔
جید عالم و سرکردہ مسلم شخصیت شیخ الہندؒ نے الہلال کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اپنا اصلی کام بھولے ہوئے تھے۔ الہلال نے یاد دلایا۔ آزاد ہندو و مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ 25اکتوبر1921ئ کو آگرہ میں مجلس خلافت سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”اگر رسولِ خدا مٹھی بھرقریش کے مقابلہ میں (ابوسفیان کے مقابلہ میں) اطراف مدینہ کے قبائل سے اتفاق کرسکتے تھے تو آج اس عظیم الشان قوت کے غرور ، گھمنڈ، خونخواری کے مقابلہ میں جو تمام مشرق کی آزادی کو پامال کرنا چاہتی ہے تو کیا ہندوستان کے مسلمانوں کا فرض نہیں ہے کہ 22کروڑ ہندوﺅں کے ساتھ مل کر اک ہوجائیں۔ “
خلافت تحریک نے ہندومسلمانوں کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ پھر تحریک ختم ہوگئی۔ ہندو مسلم اتحاد پر بھی اثر پڑا۔ 15ستمبر1923 ءکو دہلی میں کانگریس کا اہم اجلاس ہوا۔ جس کی صدارت مولانا آزادؒ نے کی۔ ان کی عمر اُس وقت 35سال تھی۔ صدارت کے لےے وہ کم عمر سمجھے جاتے تھے۔ اس کو کیا کیجےے کہ اُن میں بلا کی ذہانت، قابلیت بدرجہ اتم تھی۔ جس کی برادران وطن میں بعد انتقال کے بھی کافی پذیرائی ہے۔ خطبہ صدارت کرتے ہوئے مولانا نے کہا۔ ”آج اک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اُتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج 24گھنٹہ میں مل سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہندوستان، ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاﺅں گا۔ مگر اس سے دست بردار نہ ہوں۔ کیوں کہ سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔“
مولانا آزاد پر اُن کے دور میں ہی طرح طرح کی تنقیدیں ہوئیں۔ الزامات لگائے لگائے۔ سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ اسلام سے مایوس ہوچکے تھے۔ نیشنلزم کا نیا فلسفہ لائے تھے وغیرہ وغیرہ ۔کہیں کہا گیا ۔ وہ کانگریس کے شو بوائے ہےں وغیرہ جو آج بھی جاری ہے۔ دراصل سینکڑوں سال پرانی تاریخ ہے کہ حق پرستوں اور سچائی پر چلنے والوں کو طرح طرح کی تنقیدوں ، تکالیف اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا تو پھر مولانا ابوالکلام آزادؒ کیوں اس سے مبرارہ پاتے۔اگر الزام لگانے والے کے مطابق اسلام سے مولانا مایوس ہوگئے تھے تو جنوری 1928ئ میں سائمن کمیشن ہندوستان آیا۔ سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی دعوت پر لاہور آئے۔ ساتھ میں مولانا محمد علی اور ڈاکٹر انصاری بھی تھے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں طلبہ کو تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ”مسلمانوں کے لےے راہ اعتدال اک ہی ہے اور وہ ہے خُدا کے کلام اور رسول اللہ صلعم کے احکام کی پیروی اور پابندی۔ مسلمانوں کو قرآن مجید کے مطالعے پر زیادہ توجہ کرنی چاہےے۔ جوہر حال اور ہرزمانے میں اِن کا رہنما ہے۔ یہی اِن کی فلاح و کامیابی کا وسیلہ ہے۔“ مولانا پر تنقید و الزامات لگانے والوں کو تاریخی حقائق کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اسی سلسلہ میں بحیثیت کانگریسی صدر مولانا نے کیا خطبہ دیا جان لینا ضروری ہے۔ ”میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہےں۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ ، اسلام کے علوم و فنون ، اسلام کی تہذیب، میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی اِک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ کوئی اس میں مداخلت کرے میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی اک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا اک عنصر ہوں۔ میں اس متحدہ قومیت کا اک ایسا عنصر ہو ںجس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا اک ناگزیر (Factor) ہوں۔ میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا تاریخ کی پوری گیارہ صدیاں اس موقع پر گزر چکی ہےں۔ اب اسلام بھی اس سرزمین پر ایسے ہی دعویٰ رکھتا ہے جیسا دعویٰ ہندو مذہب کا ہے۔ اگر ہندو مذہب کئی ہزار برس سے اس کے باشندوں کا چلا آتا ہے جس طرح آج اک ہندو فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندو مذہب کا پیرو کار ہے۔ ٹھیک اُسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہےں کہ ہم ہندوستانی ہےں اور مذہب اسلام کے پیرو ہےں ۔
15اگست کو ملک کی آزادی ہوئی۔ مولانا آزاد کی بے انتہا کوشش اور جدوجہد کے باوجود آخر ملک تقسیم ہوا۔ بٹوارہ ہوا۔ پاکستان کے نام سے اک نئی حکومت عالم وجود میں آئی۔ نا نا کرتے ہوئے بھی، مہاتما گاندھی ، کانگریس نے ملک کی تقسیم پوری ہونے دی۔ جناح نے ناعاقبت پسندی کی۔ ملک پاکستان بنا کر رہے۔ مذہب اسلام کے نام پربنا کر رہے۔ یہ اک غیر منطقی کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی حرکت تھی۔ مولانا آزاد نے پیشن گوئی کی تھی کہ مذہب کے نام اور جغرافیائی خدوخال کی بناءپر اسلام کے نام پر پاکستان قائم نہ رہ سکے گا اور وہی ہوا۔ قیام پاکستان کے 1314برسوں بعد بنگالی کے نام پر مشرقی پاکستان کی جگہ پر بنگلہ دیش بنا۔ اُس کے بعد ہم دیکھ رہے ہےں کہ وہاں صوبہ سرحد پر کیا ہورہا ہے۔ پشتو، پنچاجی، سندھی کا جھگڑا انتہائی تلخ ہو اُٹھتا ہے۔ ہندوستان سے گئے لاکھوں مسلمان، جنہوںنے پاکستان کو اپنا اسلامی ملک سمجھ کر ، ہندوستان چھوڑا، پاکستان میں اُنہیں آج تک مہاجرین کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ یہ جانی و مالی نقصانات اُٹھا کر اپنے بہترین مستقبل کے لےے گئے تھے۔ کیا مدینہ کے انصار نے مکہ کے مہاجرین کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ انہوں نے مکہ کے مہاجرین کو برابر کا حصہ دار بنایا۔ اپنی جائیداد میں حصہ دیا۔ بہترین مہمان نوازی کی پاکستان کے عوام اور حکومت نے ایسا سلوک ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا؟ پھر دعویٰ مملکت خداداد کا بٹوارے کی بناءپر ہندوستانی مسلمانوں کو کس قدر صعوبتیں اور تکالیف برداشت کرنی پڑی یہ اک لمبی داستان ہے۔ جناح کے مقابلہ میں ، وقت نے دکھلا دیاکہ مولانا آزادؒ کی سیاسی فکر بہت وسیع تھی جو مذہب اسلام سے میل کھاتی تھی۔ کاش کہ جناح اُسے سمجھتے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ سمجھتا۔ بہرحال جو ہونا تھا ہوگیا۔ تقسیم کے فوراً بعد مسلمان اس ملک میں اپنے مستقبل کے لےے فکرمند تھا۔ مولانا آزاد اُسے مایوسی کے غار سے نکالنے کے لےے میدان عمل میں تھے۔ اکتوبر1947ئ کو جامع مسجد دہلی سے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے، مولانا نے کہا جس کی حیثیت انتہائی تاریخی ہے۔ ”یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہےں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاںگم کردیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔
عزیز و ! اپنے اندر اک بنیادی تبدیلی پیدا کرو، جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بے جاتھا۔ اسی طرح یہ تمہارا خوف و ہراس بھی بے جا ہے۔ مسلمان اور بزدلی یا مسلمان اور اشتعال، اک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ سچے مسلمانوں کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوتے ڈرو نہیں! انہوں نے تمہیں جانے کے لےے اکٹھا کیا تھا۔ آج انہوںنے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ تو یہ عیب کی بات نہیں ۔ یہ دیکھو تمہارے دل تو اُن کے ساتھ رخصت نہیں ہوگئے! اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہے تو اسے خدا کا جلوہ گاہ بناﺅ۔ جس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے عرب کے اک امی کی معرفت فرمایا تھا ”جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کے لےے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم۔ہوائیں آتی ہےں اور گزر جاتی ہےں۔ یہ صرصر سہی لیکن اُس کی عمر کچھ زیادہ نہیں دیکھتی آنکھوں ابتلاءکا موسم گزرنے والا ہے۔ یوں بدل جاﺅ جیسے تم پہلے کبھی اس حالت ہی میں نہ تھے“ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو کبھی تم خود اک زلزلہ تھے ۔ آج اندھیرے سے کانپتے ہو، کیا یاد نہیں کہ تمہارا وجود اک اجالا تھا! یہ بادلوں نے میلا پانی برسایا ہے، تم نے بھیگ جانے کے خدشے سے اپنے پائینچے چڑھا لےے ہےں۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندوں میں اُتر گئے۔ پہاڑیوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرا دےے۔ بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا
عزیزو! میرے پاس تمہارے لےے کوئی نیا نسخہ نہیں ہے۔ وہی پُرانا نسخہ ہے۔ جو برسوں پہلے کا ہے۔ وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا۔ وہ نسخہ ہے قرآن کا۔ یہ اعلان ”تم نہ سستی کرواور نہ غمگین ہو،تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان والے ہو“ (آل عمران ۹۳۱)
22فروری 1958ئ کو مولانا ابوالکلام آزادؒ کا انتقال دہلی میں ہوا۔ جو آفتاب و ماہتاب 11نومبر1888ئ کو مبارک سرزمین حجاز میں پیدا ہوا۔ اللہ کی مرضی سے سرزمین ہند میں مسلمانوں ہی کو نہیں سارے انسانوں کو سچائی و صداقت کی راہ دکھا کر ہمیشہ کے لےے سوگیا۔ جسم کی موت ہوگئی ۔ روح کی ہرگز نہیں۔ مولانا کی بتلائی ہوئی ساری ہدایتیں مذہب اسلام ہی سے میل کھاتی ہوئی تھیں۔ جو صرف مسلمانوں کے لےے راہ ہدایت نہیں۔ عام انسانیت کے لےے راہ ہدایت ہے۔ آخر اسلام ساری انسانیت ہی کے لےے تو ہے۔
سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر،
ممبئی400014
فون نمبر: 9323986725
No comments:
Post a Comment