Search This Blog

Friday, 17 February 2012

شیشے کے پھولدان ۔۔۔۔ از ۔۔۔۔ ابو طارق حجازی

شیشے کے پھولدان ۔۔۔۔
از ۔۔۔۔ ابو طارق حجازی

 
ایک بار جب میں اپنے پرانے دوست محمود احسن سے جو ایک کمپنی میں منیجر تھے ان کے دفتر ملنے گیا تو دیکھا کہ وہ بہت مصروف ہیں اتنے میں ایک ٹائپسٹ لڑکی ایک رپورٹ ٹائپ کرکے لائی۔ انہوں نے اس کو دیکھا اس میں کچھ غلطیاں تھیں ۔ بس پھر کیا تھا محمود صاحب اس لڑکی پر برس پڑے۔ ’’کس نے کہا تم سے نوکری کرو۔ دس بار کہا ہے دیکھ کر ٹائپ کیا کرو کیا آنکھیں نہیں ہیں تمہارے۔لے جاؤ اس کو ورنہ پھاڑ کر پھینک دوں گا۔‘‘ یہ کہتے کہتے انہوں نے فائل لڑکی کے اوپر پھینک دی۔ 
لڑکی نے وہ فائل جھک کر اٹھائی میں نے دیکھا دو موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھ سے ڈھلک کر رخسار پر آگئے ۔ لڑکی خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجھ سے یہ منظر برداشت نہ ہوسکا محمود کی میز پر ایک پیتل کا عمدہ لیمپ رکھا تھا جس کی شیشے کی چمنی بڑی خوبصورت تھی ۔ میں نے وہ لیمپ اٹھاکر زمین پر پھینک دیا۔ ایک چھناکے سے شیشہ کی چمنی چورچورہوگئی۔ پیتل کا لیمپ ایک طرف لڑھک گیا۔  
’’یہ تم نے کیا کیا؟ ‘‘محمود نے چمک کر مجھ سے کہا ۔ 
’’میں نے وہی کیا جو تم نے کیا‘‘۔میں نے جواب دیا ۔ 
تھوڑی دیر بعد ہم دونوں اٹھ کر کیفے میں چلے گئے تب میں نے محمود سے کہا۔ عورت مرد کی طرح نہیں ہے وہ شیشہ کا پھولدان ہے۔ تم دونوں کے ساتھ ایک معاملہ نہیں کرسکتے تم نے دیکھا لیمپ کی چمنی چورچور ہوگئی لیکن پیتل کا لیمپ لڑھک کر ایک طرف چلاگیا۔ اسلام نے عورت کو برابر کا مقام ہی نہیں دیا بلکہ اس سے بلند مقام دیا ہے۔ اس کے نان ،نفقہ ، سکن اور حفاظت کی ذمہ داری مرد پر ڈال دی۔ اللہ کے حبیبﷺ نے فرمایا۔
 
’’الرفق مع القواریر‘‘ترجمہ: شیشے (کے نازک گلدان) کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ 
اسلام نے عورت کو صدف کی طرح چھپاکررکھا ہے چونکہ اس میں سے موتی نکلتا ہے یہ کوئی گھونگا نہیں ہے جو ساحل پر پڑا رہے۔ غیر عورت کو چھونا تو درکنار اس کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنا بھی منع ہے۔عورت اور مرد کار کی بیٹری کے دو ٹرمینل (Terminal)کی طرح ہیں اگر صحیح استعمال کیا جائے تو پوری گاڑی چلتی ہے لیکن اگر بے قاعدگی سے ایک ٹرمینل دوسرے کو (Touch)لمس کرے تو چنگاریاں نکلتی ہیں۔ 
 
جب ہماری منگنی طے ہوئی تھی تو تین ماہ تک ہم اسی تاک جھانک میں لگے رہے کہ ایک نظر تمہاری بھابی کو دیکھ لیں لیکن نہ دیکھ سکے ۔ شادی کے بعد ہی پتہ چلا کہ گلفام تو نہیں ہیں لیکن سیاہ فام بھی نہیں ہیں۔  
 
منیلا میں میرے دوست ہنری کے دفتر میں ایک سکریٹری کھلی شرٹ اور ہاف پینٹ پہنے بیٹھی تھی۔ مسٹر ہنری نے بتایا کہ اگلے ہفتے ان کی شادی ہورہی ہے ۔میں خوشی سے اچھل پڑا اور پوچھا کہاں ہے وہ پری جمال۔ تو وہ سکریٹری کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے یہ بیٹھی تمہارے سامنے ۔ بس ہمارے ارمانوں پر اوس نہیں اولے پڑگئے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے میرے کان میں انگریزی میں کہا ’’تعلقات تو پرانے ہیں بس ذرا تصدیق کرانی ہے‘‘۔ 

اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی کہ ایک غیر مرد کسی غیر عورت کو ہاتھ لگائے ۔ اللہ کے حبیبﷺ نے فرمایا ’’جو غیر عورتوں سے ہاتھ ملائے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ عورتوں کا پردہ کرنا اسلام کا شعار ہے مسلمان خاتون کا تشخص ہے۔ گزشتہ صدی میں نواب بیگم بھوپال نے برقعہ پہن کر منہ ڈھک کر لندن میں قصر بکنگھم کا دورہ کیا ۔ اس سے کچھ سال پہلے جب ملکہ وکٹوریہ نے ہندوستان میں اپنے جشن کا دربار منعقد کیا جس میں داخلہ کے لئے بڑے بڑے نواب اور خان بہارد تمنا کررہے تھے تو وہاں ایک مولانا صاحب کو بھی مدعو کیا گیا ۔ ملکہ عالیہ نے تمام مہمانوں سے ہاتھ ملایا جو ان لوگوں کے لئے بڑے عزت و شرف کا مقام تھا لیکن جب مولانا کی باری آئی تو انہوں نے فوراً اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ لیا اور ہاتھ ملایا۔ ملکہ وکٹوریہ فوراً بھانپ گئی اور پوچھا کہ ’’کیا آپ کے ہاتھ میں کچھ تکلیف ہے‘‘ مولانا نے برطانیہ کی عظیم ترین ملکہ سے صاف کہا ’’ہمارے مذہب میں عورتوں سے ہاتھ ملانا منع ہے‘‘۔ 

ہمارے زمانہ میں بیماریوں کا علاج حکیم کیا کرتے تھے۔ ہر شہر میں چند حکیم ہوتے تھے ، بیماریاں بھی کم تھیں اب جیسے جیسے ڈاکٹر بڑھتے جارہے ہیں بیماریاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔پہلے ہر مریض کا نسخہ الگ الگ انفرادی ہوتا تھا۔ اب سب کی دوا پیٹنٹ ہوتی ہے کسی کو بینگن باورے، کسی کو بینگن پتھ کی بھی کسی کو پرواہ نہیں۔ 
پہلے عورتیں حکیم صاحب کو ہاتھ دکھاتے ہوئے بھی شرماتی تھیں اب پیٹ کھول کر بھی دکھادیتی ہیں۔ ہمارے یہاں کے ایک حکیم صاحب کسی عورت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اگر کسی عورت کی نبض دیکھنی ہوتو اس کے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر نبض دیکھتے تھے ۔ اس سے کچھ زمانہ پہلے دہلی کے مشہور و معروف حکیم نابینا صاحب عورت کے ہاتھ کو بھی ہاتھ نہیں لگاتے تھے بلکہ مریضہ کی کلائی پر تاگا لپیٹ کر ا س تاگے پر نبض دیکھا کرتے تھے لوگوں کو کسی طرح یقین نہیں آتا تھا ۔ حکیم صاحب نابینا تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے امتحان لینے کے لئے بلی کی کلائی پر تاگہ باندھ کر حکیم صاحب کوپکڑادیا۔ حکیم صاحب نے بڑے غور سے اپنی مریضہ کی نبض دیکھی اور فرمایا دودن سے بھوکی ہے اسے گوشت کے چھیچڑے کھلائے جائیں۔  

یہ تو ابھی دوسال پہلے کی بات ہے کہ حج پر جانے کی تیاری کیلئے ہم ایک بڑے اسپتال میں ٹیکہ لگوانے گئے۔ اسپتال کے کمرے میں ایسے کئی آدمی جمع ہوگئے۔ ڈیوٹی پر ایک نقاب پوش نرس تھی۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ہمارے کاغذات لیکر دوا الماری سے نکال لی لیکن انہوں نے ٹیکہ نہیں لگایا بلکہ ادھر ادھر کمروں میں دوڑتی رہیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے ہمیں ایک کمرے میں بلایا اور مرد کمپونڈر سے ہمارے ٹیکہ لگوادیا۔ ہم ان کی پاک بازی پر حیران رہ گئے کہ انہوں نے غیرمردوں کا بازو اپنے ہاتھ سے بلا شدید ضرورت کے چھونا پسند نہیں کیا ۔ جس طرح مردوں کو غیرعورتوں سے ہاتھ ملانا منع ہے اسی طرح عورتوں کو بھی غیر مردوں کو چھونا منع ہے۔ 

جاپان کے دورے میں معلوم ہوا کہ وہاں مردوں سے زیادہ عورتیں اسلام قبول کررہی ہیں۔ ایک خاتون سے جب ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا۔ تمہارے یہاں عورت کی ایک عزت ہے۔وہ اپنے گھر کی ملکہ ہے یہاں کی طرح نہیں کہ وہ گھر میں بھی ملازمہ ہے اور دفتر میں بھی۔ اپنے شوہر سے زیادہ اسے اپنے (Boss)کی ناز برداری کرنی پڑتی ہے۔ 

الغرض مسلم خاتون شیشے کا ایک گلدان ہے جسے بہت احتیاط اور حفاظت سے گھر میں سنبھال کر رکھا جاتا ہے اس کی نمائش بازار میں نہیں کی جاتی کہ کوئی بھی اسے چھین لے یا ٹکراکر اس میں بال ڈال دے۔

No comments:

Post a Comment