Search This Blog

Thursday, 9 February 2012

ا ے ظہور ِ تو شابِ زندگی“ .... (آخری قسط)

ا ے ظہور ِ تو شابِ زندگی“ .... (آخری قسط)

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

رحمت عالم
ص کی مصائب سے بھری مکی زندگی ہو یا مزاحمتی معرکہ آرائیوں سے بھرپور مدنی دور، نبوت سے مستنےر 32سالہ دورانیہ ہو یا بعثت سے قبل کی چالیس سالہ حیاتِ طیبہ۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ انسانیت کو امن، محبت ،مروت، عدل ،احسان اور ایثار و قربانی تقسیم کرتے گزرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور ص کا انقلاب تاریخ کا سب سے منفرد انقلاب ہے جس نے، دنیا کی سیاست، معاشرت اور معیشت کو بدل کر رکھ دیا۔ 

تاریخ جانب دار نہیں ہوتی، اسکے صفحات پر نظر دوڑائیں اور ابتدائی اسلامی معرکوں میں جانی نقصان کے اعداد و شمار دیکھیں، آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جن نبوی غزوات کو عالم کفر انسانی امن کےخلاف جنگ کا آغاز قرار دے رہا ہے، انکی کل تعداد 7ہے۔ غزوہ بدر میں 22 مسلمان شہید ہوئے جبکہ 70 کفار لقمہ اجل بنے ۔اسی طرح غزوہ احد میں 70 صحابہ عروسِ شہادت سے ہمکنار ہوئے اور 30 کافر کام آئے۔غزوہ احزاب میں صرف 6 مسلمان شہید ہوئے اور 10 کفار رزق خاک ہوئے۔ یہود مدینہ کی سازشوں کی سرکوبی کیلئے غزوہ خیبر بپا ہوا تو اس میں 18 صحابہ نے مرتبہ شہادت حاصل کیا جبکہ 93 یہود و منافقین واصل جہنم ہوئے۔ فتح مکہ کے وقت اہل مکہ نے ابتداًمزاحمت کی جس میں صرف 2 مسلمان جان بحق ہوئے اور 12 کفار کا خاتمہ ہوا۔۔۔پھر غزوہ حنین وطائف ہوا تواس میں 6 مسلمان اور 71 دشمن کام آئے۔۔۔ اسی طرح موتہ کے معرکے میں بھی 12 صحابہ نے جام شہادت نوش کیا اور مخالفین کے جانی نقصان کی کوئی تاریخی گواہی موجود نہیں۔ آپ اب ساتوں معرکوں میں جانی نقصان کا چارٹ بنائیں تو صرف 136 مسلمان اور 286 کافر نظر آئیں گے، ان دونوں طبقات کو جمع کرلیں تو یہ تعداد 422 بنتی ہے۔ یہ ہیں وہ ہلاکتیں جو سرور عالم کے دور میں دونوں اطراف کی جنگوں میں ہوئیں۔ اسکے مقابلے میں ہم صرف ان چیدہ چیدہ جنگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو موجودہ اور گزشتہ صدی کے ”مہذب“ اقوام نے بپا کیں۔

٭سترویں صدی میں 1618ءسے 1648ءتک جرمنی، فرانس، آسٹریا اور سویڈن کی باہمی جنگ 30 سال جاری رہی اس میں صرف جرمنی کے ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ مارے گئے۔

٭1857ءکی جنگ آزادی میں ہندوستان میں 27 ہزار مسلمانوں کو تاج برطانیہ کے قانون کے تحت پھانسی ہوئی، دیگر قتل و غارتگری کا کوئی حساب ہی نہیں۔
٭1861ءسے 1865ءتک امریکہ کی خانہ جنگی میں 18 لاکھ افراد مارے گئے اور بے پناہ مالی نقصان ہوا۔

٭بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں جنگ عظیم اوّل سے قبل بلقان اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان معرکہ آرائی جاری رہی جس میں اڑھائی لاکھ مسلمان مارے گئے۔
٭جنگ عظیم اول جو 1914ءسے 1918ءتک جاری رہی، فریقین کی جو تعداد تہہ تیغ ہوئی، ان کی محتاط تعداد 75 لاکھ تھی جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ ایک کھرب اور 86 ارب ڈالر لگایا گیا۔

٭1918ءمیں سویت یونین نے عثمانی خلافت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سنٹرل ایشیائی مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرلیا، ہزاروں مساجد اور مدارس کو بلڈوز کردیا گیا جبکہ دینی اساتذہ اور طلباءکو قطاروں میں کھڑے کر کے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان ظالمانہ کارروائیوں میں 10 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔

٭جنگ عظیم دوم 1939ءسے 1945ءتک جاری رہی۔ یہ جنگ بھی یورپی اقوام، امریکہ، سوویت یونین اور جاپان وغیرہ کے درمیان ہوئی اور اب تک کی تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہلاکت کا موجب بنی، اس میں 5 کروڑ انسانی جانیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ سٹالن گراڈ کے ایک شہر میں ایک ہی روز دس لاکھ لوگوں کو زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔

٭الغرض ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا واقعہ ہو یا یوگو سلاویہ میں کمیونسٹوں کے دور میں مسلمانوں کا قتل عام، روس اور امریکہ کی جنگ میں 15 لاکھ افغان مسلمانوں کا قتل ہو یا سربیائی انتہاءپسندوں کے ہاتھوں ڈھائی لاکھ بوسنیائی مسلمانوں کی ہلاکت کا المیہ۔۔۔ قیام اسرائیل کے بعد اب تک فلسطینی اور عرب مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہو یا          میں  مسلمانوں کی ہلاکت۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک انسانی ہلاکت کے واقعات ہیں جن کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔ انسانی حقوق کے ان علمبرداروں کو اپنے بریدہ دامن کے یہ داغ تو نظر نہیں آتے البتہ اسلام کی تعلیمات اور شخصیات پر کیچڑ اچھالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

علاوہ ازیں گذشتہ دو تین صدیوں سے دنیا مختلف قسم کے سیاسی معاشی اور معاشرتی انقلابات سے ہمکنار ہوئی ہے۔ ہر انقلاب پہلے کا ردعمل تھا اور ایک انتہاءسے دوسری انتہاءتک کا غیر فطری سفر۔ دنیا نے سرمایہ دارانہ نظام کا انجام بھی دیکھ لیا ہے اور کمیونزم کے معاشی انقلاب سے بھی اپنا دامن تار تار کرچکی ہے۔ آج امریکہ سے لیکر یورپ اور آسٹریلیا کی سڑکوں پر ہر قوم ہر مذہب اور ہر رنگ کے انسانوں نے پلاسٹک منی نظام کےخلاف علم بغاوت بلند کردیا ہے اور اسکے ساتھ انہوں نے اسلامی معیشت اور نظام بنکاری کو انسانیت کے دکھوں کا علاج قرار دیا ہے۔ اس مہذب دور کے ان کروڑوں تباہ حال لوگوں کو سودی نظام معیشت میں موجود نقصانات کا علم آج ہو رہا ہے اور ادھر حضور سرور عالم
ص کے خطبہ حجة الوداع کو پڑھیں آپ نے آج سے 15,14 صدیاں پہلے سودی نظام کو انسانیت کا دشمن قرار دیا تھا۔ قرآن نے سود خوری کو اللہ کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا تھا۔ رحمت عالم ص نے غلاموں، مزدوروں، عورتوں اور بچوں کے جن حقوق کی تاکید اس خطبہ میں فرمائی تھی مغرب صدیوں کا سفر طے کر کے جنیوا کنونشن تک پہنچا لیکن اسکے باوجود یہ قانون فرمانِ رسول کی تاثیر کے مقابلے میں فی الحقیقت بے روح اور کھوکھلا ہے ۔
شاعر مشرق نے پیغمبر انسانیت
ص کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
اے ظہورِ تو شباب زندگی
در جہاں شمع حیات افروختی
جلوہ ات تعبیر خوابِ زندگی
بندگاں را خواجگی آموختی!

”پیغمبر اکرم ص کی تشریف آوری انسانی زندگی میں رعنائیوں کی ضمانت ہے۔ آپ سے ان جلوں کی نمود ہوتی ہے جو اب تک سینہ کائنات میں ایک راز کی مانند مستور تھے۔ رسول اکرم
ص نے دنیا میں نور و ہدایت کی ایسی شمعیں روشن کی ہیں کہ انسان کو گمراہی کے پست مقام سے اٹھا کر دنیا کا مقتداءبنا دیا ہے۔“





No comments:

Post a Comment