Search This Blog

Friday 17 February 2012

کیا مارکسزم اب بھی زندہ ہی

کیا مارکسزم اب بھی زندہ ہی

شاہ نواز فاروقی
   
-سوویت یونین کے خاتمے اور کمیونزم کے تحلیل ہونے کے بعد مسلم دنیا میں تین طرح کے کمیونسٹ‘ سوشلسٹ یا مارکسٹ سامنے آئے۔ ان کی ایک قسم وہ تھی جس نے تسلیم کیا کہ مارکسزم ایک نظریے کی حیثیت سے فنا ہوچکا ہے اور اب دنیا میں اس نظریے کا کوئی وجود نہیں۔ اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ ہی یہ لوگ اسلام اور اسلامی جماعتوں کی طرف مائل ہوگئے اور انہوں نے اپنے ماضی سے یکسر قطع تعلق کرلیا۔ یہ کمیونسٹوں‘ سوشلسٹوں یا مارکسسٹوں کا وہ عنصر تھا جس کے لیے کمیونزم محض ایک معاشی فلسفہ تھا اور ان میں سے اکثر نے مارکسزم کی مذہب دشمنی کو یا تو تسلیم نہیں کیا ہوا تھا یا وہ مارکسزم کے اس پہلو کو اپنے خاندانی یا مذہبی پس منظر کی وجہ سے پسند نہیں کرتے تھے۔ مارکسسٹوں کی دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے کمیونزم کے زوال کا کھلے عام تو اعتراف نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنے دل میں اس حقیقت کو تسلیم کرلیا کہ مارکسزم کا عہد گزر چکا اور مارکسزم ماضی کی یاد کے سوا کچھ نہیں۔ اس اعتراف کے ساتھ ہی امریکی کیمپ میں جابیٹھے۔ یہ اس اعتبار سے ایک عجیب و غریب منظر تھا کہ جن لوگوں نے ساری زندگی امریکا کی مخالفت کی تھی وہ اچانک امریکا کے حاشیہ بردار بن گئے تھے۔ مگر یہ طرز عمل ناقابل فہم نہیں تھا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ مذہب بیزاری اور اسلام دشمنی تھا۔ جب تک سوویت یونین اور کمیونزم موجود تھا ان کی مذہب دشمنی اور اسلام بیزاری کمیونسٹ پس منظر میں طلوع ہورہی تھی لیکن سوویت یونین کے خاتمے اور کمیونزم کی تحلیل نے انہیں ان کی اسلام دشمنی کے حوالے سے بے یارومددگار کردیا اور انہیں محسوس ہوا کہ امریکا کے سوا ان کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے حکمرانوں نے اسلام کو ہدف بنالیا تھا۔ کمیونسٹوں کی تیسری قسم وہ تھی جنہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ سوویت یونین بلاشبہ ٹوٹ گیا ہے لیکن کمیونزم زندہ ہے اس لیے کہ نظریے کبھی مرا نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کیوبا کو مثال بنایا اور کہا کہ اگر ایک ملک میں بھی مارکسزم موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مارکسزم زندہ ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ مارکسسٹوں کی وہ قسم تھی جس کے لیے مارکسزم نظریہ نہیں بلکہ عقیدہ تھا اور عقیدے کی شکست کو تسلیم کرنا محال ہوتا ہے اس لیے کہ عقیدہ زندگی کے ہم معنی ہوتا ہے اور عقیدے کے خاتمے کا مطلب زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعتاً مارکسزم زندہ ہے اور کیا عالمی اسٹیج پر اس کی واپسی کا کوئی امکان موجود ہی؟ مارکسزم بلاشبہ ایک عالمگیر نظریہ تھا لیکن مارکسزم کی شکست و ریخت اور اس کا خاتمہ خود مارکسزم میں موجود تھا۔ مارکس کا کہنا تھا کہ پوری انسانی تاریخ کو دعویٰ یعنی Thesis جواب دعویٰ یعنی Antithesis اور ان کے تصادم کے حاصل یعنی Synthesisکے اصطلاحوں میں بیان کیا جاسکتا ہی، مارکس کے اس خیال کا مفہوم یہ تھا کہ تاریخ کے سفر میں ایک خیالی دعویٰ یا Thesis نمودار ہوتا ہے اور ایک مدت تک لوگ اس خیال‘ دعوے یا Thesis کے مطابق زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک مرحلے پر جاکر اس خیال‘ دعوے یا Thesis سے اس کی ضد جوابِ دعویٰ یا Antithesis جنم لیتا ہے جس کی بعد دعوے یعنی Thesis اور جوابِ دعویٰ یعنی Antithesis میں تصادم شروع ہوجاتا ہے۔ اس تصادم، پیکار اور کشمکش سے ایک نئی چیز یعنی Sysnthesis حاصل ہوتا ہے جو Thesis اور Antithesis کے بہتر یا صالح عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر یہی synthesis ایک طویل عرصے تک دعویٰ یعنی Thesis بنا رہتا ہے اور لوگ اس کے زیر اثر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک مخصوص مدت کے بعد پھر اس دعوے کی بھی ضد پیدا ہوجاتی ہے۔ مارکس کے اس نظریے کے تحت خود مارکسزم بھی ایک دعویٰ یا Thesis تھا اور ایک مدت کے بعد اس کا بھی جوابِ دعویٰ یا Antithesis پیدا ہونا تھا اور مارکسزم کو ماضی کی یادگار بن جانا تھا۔ لیکن مارکسسٹوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مارکس کے اس نظریے کو پوری تاریخ پر منطبق کرتے تھے مگر مارکسزم کو اس نظریے سے بے نیاز سمجھتے تھے۔ لیکن مارکسزم کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا وہ دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔ مارکس کے خیال کے مطابق مارکسزم سے اس کی ضد یعنی مارکسزم کے Antithesis کو برآمد ہونا تھا اور نتیجتاً تاریخ کے سفر کو آگے بڑھنا تھا۔ لیکن مارکسزم سے اس کی کوئی ضد برآمد نہ ہوسکی اس کے برعکس مارکسزم اپنے تضادات کی نذر ہوگیا اور اس کی جگہ اس کا دشمن یعنی سرمایہ دارانہ نظام آکر بیٹھ گیا۔ اس طرح تاریخ کا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ گیا۔ یعنی تاریخ پیشقدمی کرنے کے بجائے بری طرح پسپا ہوگئی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ مارکس کے بنیادی نظریے کو کسی فلسفے نے نہیں ایک بہت بڑے تاریخی تجربے نے سو فیصد غلط ثابت کردیا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ نظریات کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن بغاوتوں کی مزاحمت بھی ہوتی ہے لیکن مارکسزم کا معاملہ اس حوالے سے بھی عجیب ہے۔ سابق سوویت یونین اور پورے مشرقی یورپ میں مارکسزم‘ سوشلزم یا کمیونزم کے خلاف بغاوت ہوئی لیکن بغاوت کی مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ سوویت یونین مارکسزم کا سب سے مضبوط قلعہ تھا۔ وہاں کروڑوں تربیت یافتہ کمیونسٹ موجود تھے لیکن کمیونزم کے خلاف بغاوت کرنے والے بورس یلسن نے ایک ٹینک پر سوار ہوکر پورا سوویت یونین فتح کرلیا اور ان کی راہ روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس صورتحال سے ثابت ہوتا ہے کہ مارکسزم کا انہدام کامل تھا اور عالمی اسٹیج پر اس کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مارکسزم کی کمزوری کا ایک پہلو یہ ہے کہ مارکسزم کی ساری طاقت ریاست کی طاقت ثابت ہوئی سوویت یونین جب تک قائم رہا مارکسزم ایک نظام کی حیثیت سے کام کرتا رہا لیکن سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی مارکسزم منہدم ہوگیا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ صورتحال صرف سوویت یونین ہی میں پیش نہیں آئی بلکہ مشرقی یورپ میں بھی یہی ہوا۔ مارکسزم ریاستی طاقت کے بغیر ایک سال بھی کھڑا رہ جاتا تو اس کے حوالے سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مستقل میں ایک بار پھر ایک بڑی قوت بن کر ابھر سکتا ہے۔ مارکسزم کے ساتھ یہ سانحہ بھی ہوا کہ اس کے انہدام سے پیدا ہونے والا خلا کو دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ دارانہ نظام نے پُر کردیا اور تمام سابق کمیونسٹ ریاستوں میں سرمایہ داری کو ایک برتر نظام کے طور پر والہانہ پن کے ساتھ قبول کیا۔ اس صورتحال نے سابق کمیونسٹ دنیا میں مارکسزم کے بیج ہی کو مار دیا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مارکسٹ مفکرین نہ مارکسزم کے انہدام کی توجیہہ پیش کرسکے اور نہ ہی وہ نئے عالمی منظرنامے میں مارکسزم کی ضرورت اور اہمیت پر کوئی قابل ذکر دانشورانہ بات کہہ سکے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مارکسزم کی موجودگی اور عالمی اسٹیج پر اس کی واپسی کی بات محض ایک افواہ کے سوا کچھ نہیں۔

No comments:

Post a Comment