Search This Blog

Sunday 5 February 2012

میلاد النبی ﷺ

میلاد النبی ﷺ ۔۔۔!

طیبہ ضیاء 
اللہ کے محبوب آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ کا یوم پیدائش تمام ایام اور تہواروں سے افضل ہے مگر آپ کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کے لئے ایک دن مقرر نہیں بلکہ نماز پنجگانہ کی صورت میں ہر روز خوشی منائی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی مساجد سے سُنائی دینے والی پانچ اذانیں اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت کا پیغام سُناتی ہیں اور سچے عاشق نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کے شکرانے میں سجدے میں گر جاتے ہیں اور گڑگڑا کر کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، اگر آپ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس جہان میں نہ بھیجا ہوتا تو ہم آپ تک رسائی پانے سے محروم رہتے۔ ادائیگی نماز کے دوران نبی کریم ﷺ پر صلوٰة و سلام بھیجنا درحقیقت آپ کی ولادت باسعادت پر اظہار مسرت و تشکر ہے لیکن جو مسلمان نماز پنجگانہ سے غفلت برتے، وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ تو کر تا ہے مگر نبی کے ساتھ محبت کا عملی اظہار نہیں کرتا۔ جس کی نسبت آپ ﷺ کے ساتھ جُڑ جائے وہ خواہ جاندار ہو یا بے جان،آپ سے لمحہ بھر کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔ مسجد نبوی میں منبر سے پہلے لکڑی کے ایک ستون کے ساتھ آپ ﷺ ٹیک لگا کر خطبہ فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو حضور ﷺ نے اس پر خطبہ دینا شروع فرما دیا۔ اچانک اس ستون سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ یہ دیکھ کر حضور ﷺ منبر سے اتر آئے اور ستون پر ہاتھ پھیرا تواس ستون نے رونا بند کر دیا۔ ستون حضور ﷺکی جدائی برداشت نہ کر سکا اور بے اختیار فریاد کرنے لگا۔ مکہ معظمہ میں مشرکین کے ہاتھوں حضور ﷺ اور ان کے اصحابؓ پر مظالم نے انہیں ہجرت پر مجبور کر دیا ورنہ آبائی وطن اور شہر بیت اللہ چھوڑنا آسان نہ تھا۔ شہر مکہ اور خاندان والوں کی جدائی کے غم میں اکثر صحابہؓ بیمار ہو گئے ۔ حضور ﷺ نے شہر مکہ کی جانب آخری بار مُڑ کر دیکھا اور رنجیدہ ہوتے ہوئے فرمایا ”اے شہر مکہ، تو پاکیزہ شہر ہے اور مجھے بے حد عزیز ہے۔ اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں کسی اور جگہ نہ جاتا۔“ جدائی کا وہ منظر ناقابل بیان ہے۔ حضور ﷺ کی اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمة الزہرہؓ سے جو محبت تھی، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ آپ نے اپنے آخری ایام میںصاحبزادی کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ فرمایا جس کو سُن کرآپ رو دیں، حضور ﷺ نے جب لاڈلی بیٹی کو روتے دیکھا تو ان کے کان میں پھر کچھ فرمایا جس پر وہ مسکرا دیں۔ آپ کے وصال کے بعد خاتون جنت حضرت فاطمہؓ نے بتایا کہ حضور ﷺ نے میرے کان میں فرمایا کہ میں اس مرض میں انتقال کروں گا، تو میں رونے لگی پھر فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکر ملو گی تو میں ہنسنے لگی۔ باپ کی لاڈلی بیٹی سے اور بیٹی کی اپنے بابا سے جدائی کا غم خدا سے بھی برداشت نہ ہو سکا اور باپ بیٹی کی جلد ملاقات کی خوشخبری سنا دی۔ نسبت کا معاملہ بڑا عجیب ہوتا ہے۔ حضور ﷺ اپنی محبوب زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے ساتھ بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کی جدائی آپ پر گراں گزری۔ بی بی خدیجہؓ کے وصال کے بعد شاید ہی کوئی دن حضرت خدیجہ ؓ کے ذکر کے بغیر گزرا ہو۔ جب تک سیّدہ خدیجہؓ زندہ رہیں، آپ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ”جتنا رشک مجھے خدیجہؓ پر تھا کسی بیوی پر نہ تھا۔ آپ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کا بھی بے حد احترام کرتے تھے حتیٰ کہ ان سے منسوب ہر چیز کو عزیز رکھتے تھے۔ حضور کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے جہیز میں ایک ہار تھا جو ان کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ ؓ نے انہیںدیا تھا۔ حضرت زینبؓ کی شادی قبل از اسلام ہوئی تھی۔ ان کے شوہر مشرک تھے۔ مشرکین کے ہمراہ غزوہ ¿ بدر میں شریک تھے۔ دوسرے قیدیوں کے ساتھ وہ بھی گرفتار ہوئے۔ حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے فدیہ میں اپنا ہار بھیجا۔ حضور ﷺ کی خدمت میں وہ ہار پیش کیا گیا۔ یہ وہی ہار تھا جو حضرت خدیجہ ؓ نے اپنی بیٹی زینبؓ کو دیا تھا۔ حضور نے جب اپنی محبوب بیوی کا ہار دیکھا تو جدائی میں آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ صحابہ ؓ نے حضور ﷺ کی یہ کیفیت دیکھی تو وجہ جاننا چاہی۔ آپ نے فرمایا کہ ”اگر تم مناسب سمجھو تو میری بیٹی زینبؓ کے شوہر کو رہا کر دو اور اس کا یہ ہار اسے واپس کر دو۔ یہ ہار اس کی ماں کا ہے جو انہوں نے بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔“ صحابہ کرامؓ نے حضور کے فرمان کے مطابق ہار آپ کی صاحبزادی کو لوٹا دیا اور ان کے شوہر کو بھی رہا کر دیا۔ حضرت زینبؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور شہید کر دی گئیں۔ ان کے بعد ان کی چھوٹی بہنیں حضرت رقیہؓ اور اُم کلثوم ؓ بھی انتقال فرما گئیں۔ حضور ﷺ نے اپنی تین جوان بیٹیوں کے جنازوں کو کاندھا دیا۔ کم سن بیٹوں قاسمؓ اور ابراہیمؓ کی جدائی کا صدمہ بھی دیکھا۔ آپ نے کمسنی میں اپنی والدہ کو بھی قبر میں اترتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے جدائی کے غم اٹھائے۔ اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنے سے بڑا امتحان کوئی نہیں ہے۔ ایک شوہر کے لئے اپنی محبوب بیوی کی جدائی کا غم بھی کم نہ تھا کہ اولاد کو بھی اپنے ہاتھوں سے قبروں میں اتارنے کی اذیت ناک آزمائش سے گزرنا پڑا۔ سب سے بڑی جدائی حضور ﷺ کا اس دنیا سے کوچ فرمانا تھا۔ حضور ﷺ کی جدائی آپ کے خاندان اور اصحابؓ کے لئے قیامت تھی۔ صحابہ ؓ پر سکتہ طاری تھا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ دل غم سے پھٹ رہے تھے۔ مدینہ منورہ کی فضا ئیں سوگوار تھیں۔ اس جدائی سے پہاڑ اور شجر گریہ زاری کر رہے تھے۔ وہ نظریں جو جمال مصطفی کو دیکھ دیکھ کر زندگی کے ایام گزارا کرتی تھیں، ان کے لئے جدائی اور غم کی طویل رات آگئی۔ بلال حبشیؓ نے حضور ﷺ کے پردہ فرما نے کے بعد جدائی کی تاب نہ لاتے ہوئے شہر مدینہ ہی چھوڑ دیا۔ حضرت عمرؓ غم سے نڈھال ہو گئے اور میان سے تلوار نکال کر کہنے لگے کہ ’خدا کی قسم میں ان کا سر قلم کر دوں گا جو یہ کہتے ہیں کہ محمد کو موت آ گئی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا‘ ہمارے حضور ﷺ کو ہرگز موت نہیں آئی بلکہ آپ اپنے رب کی طرف گئے ہیں جیسا کہ موسیٰ گئے تھے اور چالیس روز بعد لوٹ آئے تھے۔ اللہ کی قسم رسول ﷺ بھی لوٹ آئیں گے۔‘ اہل بیت کا جدائی سے جو حال تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ یہ وہ گھرانہ اور اصحابؓ ہیں جو جنت کی حقیقت کو جانتے تھے، جنت کی شہزادیاں اور شہزادے تھے، حضور ﷺ کے مقام کے عینی شاہد تھے، جنت میں ملاقات اور کبھی نہ جدا ہونے کی حقیقت کو بھی تسلیم کرتے تھے، اس کے باوجود جدائی کا غم یہ لوگ بھی برداشت نہیں کر سکے۔ حضور ﷺ سے جب نسبت ہو جاتی ہے تو دنیا سے تعلق بے معنی ہو جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ”جب تک تمہارے والدین، مال، اولاد الغرض دنیا کی ہر چیز پر میری محبت غالب نہیں ہو جاتی، تمہارا ایمان نامکمل ہے۔“ میلادلنبی ﷺ منانے والو، اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو، کیا ہم حضور ﷺ کے ارشاد مبارک پر پورے اترتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment