اردو صحافت : ذرا نم ہو تو یہ مٹی ۔۔۔
سہیل انجم
ہندوستان میں گذشتہ چند
برسوں میں میڈیا کے شعبے میں زبردست فروغ ہوا ہے۔ جس میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ
ساتھ پرنٹ میڈیا کا بھی خاطر خواہ حصہ ہے۔ جس طرح ملک میں ٹی وی چینلوں اور بالخصوص
نیوز چینلوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح پرنٹ میڈیا یا مطبوعہ صحافت بھی
مائل بہ نمو ہے۔ ٹی وی چینلوں کی تعداد میں اضافہ کے باوجود تعلیم یافتہ طبقہ نے
اخبار بینی بند نہیں کی ہے۔ حالانکہ اخباروں کو پہلے جتنا وقت دیا جاتا تھا اب اس
میں کمی آئی ہے لیکن اخبار بینی کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ اس کے اوقات میں کمی آگئی
ہے۔ اخباربینی کے اوقات میں کمی کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اخبارات کی
تعداد میں بھی تخفیف ہوتی اور پرنٹ میڈیا کو زوال ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ سال یعنی 2011میں اخبارات کی تعداد بڑھی ہے۔ ہندی
اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو اخبارات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان
میں 760 ٹی وی چینل ہیں جن میں چار سو سے زائد نیوز چینل ہیں۔ اس کے باوجود پرنٹ
میڈیا میں8.23فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ حیرت انگیز ہے۔ اس میدان میں اردو اخبارات
بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
رجسٹریشن آف نیوز پیپرس ان انڈیا (آر این آئی) کی
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سال 2010-11 میں اردو اخبارات تعداد کے اعتبار سے تیسرے
نمبر پر رہے ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ ہندی کے اخبار شائع ہوتے
ہیں۔ ان کی تعداد 7910 ہے۔ اور ان کی مجموعی سرکولیشن 15,54,94,770 ہے۔ دوسرے نمبر
پر انگریزی ہے، اس کے روزنامہ اخباروں کی تعداد 1406 ہے اور ان کی مجموعی سرکولیشن
5,53,17,184 ہے۔اردو روزنامہ اخبار تیسرے نمبر پر ہیں، ان کی تعداد 938 ہے اور ان
کی مجموعی سرکولیشن دو کروڑ سولہ لاکھ انتالیس ہزار دو سو تیس (2,16,39,230)
ہے۔چوتھے نمبر پر گجراتی(761) ، پانچویں نمبر پر تیلگو (603) ، چھٹے نمبر پر مراٹھی
(521) ساتویں پر بنگالی(472) ، آٹھویں پر اڑیہ (245)، نویں پر کنڑ (200)اور دسویں
نمبر پر ملیالم (192) ہیں۔ ملک میں کل رجسٹرڈ اخبارات کی تعدا د 82,237ہے۔ آر این
آئی نے 2010میں یعنی 31مارچ2011تک مجموعی طور پر 13,229اخباروں کو منظوری دی۔ (یہ
رپورٹ 31مارچ 2011تک محدود ہے)۔ہندی میں سب سے زیادہ32,793اخبار رجسٹرڈ کیے گئے۔
انگریزی دوسرے نمبر پر رہی۔ اس کے رجسٹرڈ اخباروں کی تعداد 11,478رہی۔ اس وقفے میں
پورے ملک میں تمام زبانوں کی مجموعی سرکولیشن 32,92,04,841ہے۔ جبکہ اس سے ایک سال
قبل یہ تعداد 30,88,16,563رہی ہے۔ آر این آئی کی اس 55ویں رپورٹ کے مطابق اتر پردیش
میں سب سے زیادہ 3,671اخبار شائع ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر دہلی ہے جہاں شائع ہونے
والے اخبارات کی تعداد1,933ہے اور تیسرے نمبر پر مدھیہ پردیش ہے جہاں 1234اخبار
شائع ہوتے ہیں۔ سرکولیشن کے اعتبار سے بھی اتر پردیش سب سے آگے ہے۔ اس ریاست میں
اخباروں کی تعداد اشاعت 6کروڑ 97لاکھ ہے۔ دہلی میں 5کروڑ27لاکھ کاپیاں چھپتی ہیں تو
مہاراشٹرا میں 2کروڑ 90لاکھ۔ حیدر آباد سے شائع ہونے والے تیلگو اخبار ’’اناڈو‘‘ کی
سرکولیشن سب سے زیادہ 16,74,305ہے۔ یہ سنگل ایڈیشن اخبار ہے۔اس کے بعد چنئی سے شائع
ہونے والا روزنامہ ’’ہندو‘‘ ہے جس کی سرکولیشن14,82,658ہے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والا
بنگالی روزنامہ آنند بازار پتریکا تیسرے نمبر ہے۔مذکورہ سال میں اخباروں کی جانب سے
سالانہ اسٹیٹمنٹ بھیجنے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 15جون 2011تک 14508اسٹیٹمنٹ جمع کیے
گئے جبکہ اس سے پہلے کے سال میں 13134اسٹیٹمنٹ جمع کیے گئے تھے۔ گویا اس میں
10.46فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ سے اردو اخباروں کی تعداد اشاعت کے تعلق سے
جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ کیونکہ اردو زبان کے بارے
میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ زوال پذیر ہے۔ لیکن جو صورت حال سامنے آئی ہے وہ
پرکشش بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں اردو
اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ بھی ایک نا قابل تردید سچائی ہے کہ
اخباروں کی تعداد میں اضافہ کے باوجود قارئین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اخبارات کے
ایڈیشن بڑھے ہیں لیکن ان کی اشاعت کم ہوئی ہے۔ اس وقت کئی اردو اخبار ایسے ہیں جو
ملٹی ایڈیشن ہیں۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ اور ’’راشٹریہ سہارا‘‘ کم از کم ایک ایک درجن
شہروں سے شائع ہو رہے ہیں۔ ’’اودھ نامہ‘‘اور ’’صحافت‘‘ چار چار شہروں سے نکل رہے
ہیں۔ ’’ہمارا سماج‘‘ اور ’’اخبار مشرق‘‘ دو دو شہروں سے۔ اور بھی دوسرے اخبارات
ایسے ہیں جو زائد از ایک شہروں سے نکل رہے ہیں۔ ا س روشنی میں دیکھا جائے تو حالیہ
دور کو اردو صحافت کا زریں دور کہا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا واقعتاً ایسا ہے؟ اگر اردو
زبان اور اس کی موجودہ مجموعی صورت حال کے تناظر میں جواب تلاش کیا جائے تو مایوسی
ہوتی ہے۔ اخبارات کی تعداد میں اضافہ کا یہ مطلب نہیں کہ اردو زبان ترقی پر ہے۔ سچ
تو یہ ہے کہ بیشتر اردو اخبارات مالکوں اور مدیروں کے ذاتی مفادات کی تکمیل کا
ذریعہ ہیں اور کچھ نہیں۔ صرف دارالحکومت دہلی کی بات کی جائے تو یہاں اشتہارات کے
سرکاری ادارے ڈی اے وی پی سے رجسٹرڈ اردو اخباروں کی تعداد پچاس سے زائد ہے لیکن
مارکیٹ میں محض چار پانچ ہی ہیں۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی حالت ہے۔ ابھی چند روز
قبل سرکاری ادبی ماہنامہ ’’آجکل‘‘ کے سابق مدیر جناب محبوب الرحمن فاروقی کا ایک
مضمون ایک اخبار میں شائع ہوا ہے جس میں انہو ں نے لکھا ہے کہ سرکاری اخبار
’’روزگار سماچار‘‘ جو کہ ہندی اور انگریزی میں لاکھو ں کی تعداد میں شائع ہوتا ہے،
اس کے اردو ایڈیشن کی تعداد محض ڈیڑھ سو ہے۔ اسی طرح سرکاری اردو رسالے ’’آجکل‘‘،
’’یوجنا‘‘، ’’سینک سماچار‘‘ ، ’’نیا دور‘‘ اور ’’دہلی‘‘ جیسے رسائل کی تعداد اشاعت
کم ہو گئی ہے۔ ان کی اشاعت بڑھانے کی طرف حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی۔ جہاں تک
پرائیویٹ اخبارات و رسائل کی بات ہے تو ان کی بھی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ متعدد
پرائیویٹ ادبی رسائل شاعروں اور ادیبوں کے گوشے شائع کرکے اپنے لیے کچھ مزید سانسوں
کا بند وبست کر لیتے ہیں۔ خلیجی ملکوں یا امریکہ اور یوروپی ملکوں میں رہائش پذیر
اردو ادبا وشعرا بھی ایسے رسائل کے لیے ’’آکسیجن‘‘ کی فراہمی کرتے ہیں۔ کئی غیر
ادبی جریدے ایسے ہیں جن کے مالکان اشتہاروں کے لیے تگ ودو کرتے ہیں اور جب کچھ
اشتہارات مل جاتے ہیں تو وہ یکمشت کئی شمارے شائع کر دیتے ہیں۔ کچھ ایک ہی شمارے
میں کئی شمارے یکجا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کئی ہفت روزہ رسالے ایسے ہیں جو صرف خصوصی
شمارہ ہی شائع کرتے ہیں۔
تقریباً ایک دو دہائی قبل ایسا کہا جاتا تھا کہ اب اردو
صحافیوں کی نئی کھیپ پیدا ہونا بند ہو گئی ہے۔ لیکن مذکورہ حوصلہ شکن صورت حال کے
باوجود اردو صحافیوں کی نئی کھیپ پیدا ہو رہی ہے او ر اردو صحافت کے کارواں کو آگے
بڑھا رہی ہے۔ بارہ سال قبل جب ’’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘‘ جاری ہوا تھا تو اس میں
ایڈیٹوریل میں کام کرنے والے زیادہ تر نئے صحافی تھے۔ اب جو نئے اخبار نکلتے ہیں ان
میں نئے صحافیوں ہی کی بھرتی ہوتی ہے۔ البتہ ایڈیٹروں پر کمپیوٹر آپریٹروں کو ترجیح
دینے سے صحافت کی کوالٹی گری ہے او رمعیار بھی متاثر ہوا ہے۔ اگر اخبار میں کام
کرنے کے لیے کمپیوٹر کا علم ضروی ہو گیا ہے تو نئے اردو اخباروں کو چاہیے کہ اگر وہ
پرانے اور تجربہ کار صحافی رکھیں تو ان کو کمپیوٹر کی تربیت دلوائیں۔ اور اگر
کمپیوٹر آپریٹروں کو سب ایڈیٹر یا رپورٹر کے طور پر اپائنٹ کرنا ہو تو ان کو
ایڈیٹوریل میں کام کرنے کی ٹریننگ دیں۔ لیکن ان باتوں کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے
اردو اخباروں کا معیار گر رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں بہت سے نئے اردو صحافی میدان
صحافت میں آئے ہیں۔ان کی اکثریت مدارس کے فارغین کی ہے۔ جو کھیپ یونیورسٹیوں سے آتی
ہے ان میں بھی بیشتر کا بیک گراؤنڈ دینی مدارس کا ہوتا ہے لیکن یونیورسٹی میں تعلیم
حاصل کرنے کی وجہ سے ان کا ذہنی افق کشادہ ہو جاتا ہے اور وہ کامیاب صحافی کے طور
پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب اردو صحافت کے ذمہ دارو ں کو زمانے کے مطابق خود
کو ڈھالنا ہوگا۔ اردو صحافت کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مشن کے طور
پر شروع ہوئی تھی۔ اس کی صداقت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں لیکن اب حالات بدل رہے ہیں
اور مشن کے خمیر میں بزنس کی مہک ڈالنے کی ضرورت ہے جبھی اردو صحافت کی بقا کے
راستے وا ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی صحافت کو جذبات کی منڈی بنانے سے بھی گریز کرنا
چاہیے۔ قارئین کی جذباتیت کو مشتعل کرنے اور زرد صحافت کو رائج کرنے کی بجائے ان کے
اندر تعمیری سوچ پیدا کرنے والی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ مسائل کی نمائندگی کی
کوشش میں جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اکثر یہ بات اٹھائی جاتی ہے
کہ اردو زبان کا رشتہ روزی روٹی سے منقطع ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بات کلی طور پر درست
نہیں ہے۔ آر این آئی کی مذکورہ رپورٹ سے یہ معلوم ہوا کہ اس وقت پورے ملک میں اردو
کے 938روزنامہ اخبار نکل رہے ہیں۔ جبکہ ہفت روزہ، پندرہ روزہ، ماہنامہ اور سہ ماہی
رسائل وجرائد اس سے الگ ہیں۔ اگر روزنامہ سے لے کر سہ ماہی اور شش ماہی جرائد تک کا
شمار کیا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ ان میں کام کرنے والے بھی ہوں گے۔
جن کی تعداد ملکی سطح پر یقیناً لاکھوں میں پہنچے گی۔یہ صورت حال مجموعی طور پر
صحافت کے زوال کے باوجود بڑی خوش کن ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ اردو صحافت اتنی
آسانی سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔ جس طرح اردو زبان بہت سخت جان ہے اور لاکھ سازشوں
کے باوجود زندہ ہے اسی طرح اردو صحافت بھی نا مساعد حالات کے باوجود زندہ رہے گی
اور اردو صحافیوں کی نئی کھیپ سامنے آکر اس کو سہارا دیتی رہے گی۔
M-09818195929-09582078862
No comments:
Post a Comment