Search This Blog

Friday 10 February 2012

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود“

لعبدالقیوم ـ اللہ غفور الرحیم انسانی زندگی کی ابتدا اور اس کے اختتام پر قادر ہے کچھ بچے پیدا ہوتے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ کچھ لڑکپن میں مختلف بیماریوں اور حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ جوانی میں اموات کی تعداد بھی کوئی کم نہیں اور بڑھاپا تو زندگی کی آخری سیڑھی مانا جاتا ہے اسلئے اس میں شک نہیں کہ انسانی زندگی ایک دائمی عمل بالکل نہیں۔ یہ ایک بہت ہی عارضی چیز ہے جس سے آپ کسی وقت بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ ابتدا میں انسان اپنی زندگی کو ایک لامتناہی سلسلہ تصور کرتا ہے۔ بڑے بڑے قبرستانوں کو دیکھ کر اور لاتعداد جنازے پڑھ کر بھی وہ دنیاوی لذتوں میں ایسا مگن رہتا ہے جیسے موت کا اطلاق صرف دوسروں کی زندگیوں پر ہی ہوتا ہے لیکن جیسے ہی وہ زندگی کی عصر تک جا پہنچتا ہے یا پھر کوئی مہلک بیماری اسے گھیر لیتی ہے تو پھر بسر کی ہوئی طویل عمر اس کو ایک خواب نظر آتی ہے اور زندگی کو وہ ایک پانی کا ایسا بلبلہ تصور کرنے لگتا ہے جو لمحوں میں جنم لیتا ہے اور پلک جھپکنے میں ختم ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا....
نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانشمند
حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

No comments:

Post a Comment