Search This Blog

Sunday 5 February 2012

اے نوید مسیحا تیری قوم کا حال موسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر

اے نوید مسیحا تیری قوم کا حال موسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا۔صفدر ھمدانی
صفدر ھمدانی۔ لندن
 
مجھے اللہ کے آخری نبی کی عطا کردہ ایک نعت کے تین شعر یاد آ رہے ہیں اور یہی تین شعر آج کی اس تحریر کی تحریک بنے ہیں۔ یہ نعت رسول میں نے 1974میں لکھی تھی

اُمت پہ سخت وقت ہے امداد یانبی
بیٹھے ہوئے ہیں تاک میں صیاد یا نبی
۔۔۔
تقسیم ہو گیا ہوں میں اپنے وجود میں
کس کو سناؤں جا کے یہ روداد یا نبی
۔۔۔
ہاتھوں میں ہے یزید کے پھر سے زمامِ دہر
پھر سر اٹھا رہے ہیں یہ شداد یا نبی

اپنی اس تحریر کا عنوان میں نے جس مصرعے کو بنایا ہے وہ اللہ کے حبیب کے منتخب اور خالص نعت کے شاعر حفیظ تائب کی ایک نہایت مقبول نعت کا مصرعہ ہے جسے آگے چل کر مکمل آپکی خدمت میں پیش کر ؤنگا

یہ سب نعت بھی ہے،امت مسلمہ کا نوحہ بھی اور ایسے حالات کا مرثیہ بھی جو مسلم دنیا کے ننانوے فیصد عوام دشمن حاکموں کی وجہ سے اسلام کی بے عزتی اور مسلمانوں کے ساتھ حقارت کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی تاریکی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ جہل کے سائے میں اور عوام دشمنی کے منشور کی روشنی میں یہ مسلم حکومتیں اپنے ضمیر تو فروخت کر چکی ہیں بڑی طاقتوں خصوصی طور پر امریکہ کے ہاتھوں لیکن بیچارے بے زبان عوام کا بھی سودا کر چکی ہیں۔

اپنی حکومتوں کو قائم رکھنے کی خاطر ان ابرہہ صفت حاکموں نے امریکہ اور مغربی ممالک کا آنکھیں بند کر کے ساتھ دیا۔عراق کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی، اکثر نے مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کو تسلیم کر لیا، امریکہ،برطانیہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا اور اپنے عوام کو بھوکا مارا، اب ایران اور شام کو تباہ کروانے کے لیئے امریکی ایجنڈے کو خود اپنے ہاتھوں سے پورا کروا رہے ہیں۔ یہ بے غیرت حاکم نہ جانے اس بےضمیری اور نجس زبانوں سے کیسے عالمین کے لیئے رحمت نشان اللہ کے آخری نبی کا نام لیتے ہیں،درود پڑھتے ہیں اور میلاد کی محفلوں میں نعتوں پر جیسے حضور کے دیوانے نظر آتے ہیں۔

مسلم معاشروں میں اب لگ بھگ ہر چیز جیسے روایت اور دکھاوا بن گیاہے۔ اللہ کے آخری نبی، وارث ختم نبوت، خِلق اول،خَلقِ اول، مزمل،مدثر،صادق،امین،یاسین،طہٰ اور ایسے ہی نورانی ناموں کے حامل نبی کا یوم ولادت بھی بس جیسے اب ایک روایت بن کے رہ گیا ہے جسکا کا عمل یا اس دن کی روح سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔وہ ہستی جسے خالق کون و مکاں نے اپنا حبیب کہا اور جس کے لیئے عالمین خلق کیئے اور جسے عالمین کے لیئے رحمت بنایا اس ہستی کا یوم ولادت مسلمان ملکوں اور مسلمانوں کی اکثریت کے ہاں بس ایک چھٹی کا دن بن گیا ہے یا پھر نعت کی چند محفلیں اور نیاز لنگر کی تقسیم، سرکاری درباری تقریبات میں اللہ اور اسکے آخری نبی کے فرمودات کی حکم عدولی کرنے والوں کی شرکت اورمیلاد نبی کے جلسوں کی صدارت علمائے حقہ کا لباس پہنے ہوئے علمائے سو کرتے نظر آتے ہیں۔ جلوسوں کے سامنے پھولوں کے ہار پہنے میلاد کی ریلیوں کی قیادت ایسے ایسے لوگ کر رہے ہوتے ہیں جنکی زندگیوں میں کہیں بھی ایمان اور دین رسول کی ایک جھلک نظر نہیں آتی۔

کیا اللہ کے حبیب کے یوم ولادت پر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت کریں گے کہ کیا ہم انفرادی طور پر اور مسلم امہ کے طور پر اسلام اور اللہ کے آخری نبی کے نام کی لاج رکھنے والے ہیں یا پھر شرمندگی کا باعث ہیں۔ ہم اگر سال میں اسی ایک دن کے موقع پر ہی اپنا احتساب کر لیں تو زندگی کی کتنی ہی تاریک راہیں روشن ہو جائیں۔ کبھی کیا آپ نے یہ سوچا کہ چودہ سو سال پہلے اللہ کے حبیب نے جن کافر عربوں کے درمیان اپنی زندگی کے اہم ترین چالیس سال گزارے انہوں نے آپ سرکار کی ایسی تکریم کی کہ کبھی حضور کا نام لیکر انہیں مخاطب نہیں کیا بلکہ جب بھی کہا انکے کردار اور وصف کی مناسبت سے فقط یا صادق کہا یا امین کہا۔ اور اللہ کے حبیب نے خود اس دور کے کافروں کو بھی کافر نہیں کہا بلکہ اپنے کردار سے انکے دلوں میں اسلام کا نور اتارا اور انہیں دین حقہ کی جانب بلایا۔

آج اللہ کے اس حبیب کی امت کا حال کیا ہےِ حفیظ تائب کا یہ مصرعہ اس کا سچا عکاس ہے۔۔۔۔اے نوید مسیحا تیری قوم کا حال موسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا۔۔۔مسلمان جو کام سب سے آسانی سے اور بے خوف ہو کر کر رہا ہے وہ دوسرے مسلمان کو کافر قرار دینا ہے۔ ایک مسلمان اسلام کے نام پر ہی دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے،مسجد ومنبر نوے فیصد تجارت بن گیا ہے اور جہالت کے نمائیندے مسجد ومحراب و منبر کو اپنے ذاتی مقاصد اور مالی منفعت کے لیئے استعمال کر رہے ہیں، علمائے دین کے لباس میں دین فروش سر عام معصوم اور بے علم مسلمان کو بے وقوف بنا رہا ہے، منبروں پر کھلی آنکھوں اور بے خوفی سے جھوٹ بولا جاتا ہے، عبادات میں دکھاوا ہی دکھاوا ہے،حج جیسے فیشن بن گیا ہے، زکوات خمس اور صدقات کے پیسے سے نام نہاد دینی قائدین حصص کی منڈی میں شیئرز خریدتے ہیں۔ مدرسوں میں دینی تعلیم کے لیئے آنے والے بچوں کے ساتھ کیسا گھناؤنا سلوک کیا جاتا ہے، حرام راستے سے مال کمانے پر شب قدر کی نمازیں اللہ کے گھر میں ادا کرتے ہیں، محرم کے جلوسوں میں شامل افراد کو کافر کہہ کر بم سے اڑایا جاتا ہے، امت فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے اوراس تقسیم پر یہ کہہ کر خوش ہوتی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کی حدیث پر عمل کیا ہے، بے حیائی کو حیا کانام دیا جاتا ہے۔ منبروں پر اداکاری ہوتی ہے، اللہ کے دین کو خوب خوب بیچا جاتا ہے، اپنے مقاصد کے لیئے جھوٹی حدیثیں گھڑی جا تی ہیں، خوف خدا جیسے قصہ پارینہ بن چکا ہے، نظام اسلام کا شور مچانے والے خود پر اس نظام کو لاگو کرنے سے عاری ہیں ، عزتوں کے جیسے جنازے نکل گئے ہیں، اہل علم گھروں میں مقید ہیں اور جاہل و بے عمل ان پر حکمران ہیں،دین کی قیادت بے عمل کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس پر بھی انکو یہ زعم ہے کہ روز محشر اللہ کے حبیب انکی شفاعت کریں گے۔

اللہ بے شک غفور الرحیم ہے لیکن مسلمان شاید اللہ کی رحمت اور غفاریت کا امتحان لینا چاہتا ہے۔

ہمارے گناہوں کی فہرست ایسی طویل اور گھناؤنی ہے کہ جہنم بھی ہمارے لیئے انعام ہو گا سزا نہیں۔ ہم نے کلمہ پڑھ کر کلمہ گو کو قتل کیا ہے، ہم نے اسلام کے چہرے کو مسخ کیا ہے۔ہم نے حضور کو بھی ایک شخصیت سمجھ کر پوجا ہے انکے کردار کو اپنی روح میں نہیں اتارا۔

ایسے ماحول میں ذرا مرحوم حفیظ تائب جنت مکانی کی یہ نعت پڑھیئے جو نوحہ بھی ہے اور نہ بدلنے والے حالات کا مرثیہ بھی۔

دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک تلخ وتاریک ہے زندگی یا نبی
اے نوید مسیحا تیری قوم کا حال موسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اسکے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبی
کام ہم نے رکھا صرف اذکارسے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے ناکردہ کار امتی یانبی
روح ویران ہے آنکھ حیران ہے ایک بحران تھا ایک بحران ہے
گلشنوں شہروں قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یانبی
سچ میرے دور میں‌جرم ہے عیب ہےجھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی ایک آزار ہے آگہی یانبی
رازداں اس جہاں میں بناؤں کسے روح کے زخم جاکر دکھاؤں‌کسے
ٍغیر کے سامنے کیوں‌تماشا بنوں کیوں‌کرؤں دوستوں‌کو دُ کھی یانبی
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہر ی ہوگی شاخ تمنا میری کب مٹے گی میری تشنگی یانبی
یانبی اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلادیئے
دیکھ لے تیرے  تائب کی نغمہ گری بنتی جاتی ہے نوحہ گری یانبی

No comments:

Post a Comment