پھرکوئی انکاؤنٹر کروگے؟
ایم ودود ساجد
نو سال قبل مجھے صحافتی ضرورت کے تحت نئی دہلی میں غاصب اسرائیل کے سفیرڈیوڈدانیال سے قضیہ فلسطین پرانٹرویوکرنے کا اتفاق ہوا توعملی تجربہ ہوا کہ اسرائیلی اپنی سیکیورٹی کے تئیں کتنے حساس‘ کتنے محتاط اورکتنے خوفزدہ ہیں۔ انٹرویو کا وقت ایک ہفتہ پہلے طے ہوا تھا۔ اس دوران کبھی سفارتخانہ سے اور کبھی دوسرے سرکاری اداروں سے مختلف سوالات کئے جاتے رہے۔مجھے بتایا گیا کہ سفارتخانہ کے اندر داخل ہونے کیلئے آپکو اپنا پاسپورٹ دفتر استقبالیہ میں جمع کرانا ہوگا۔ اگر کوٹ میں اسٹیل یاٹین کا بٹن ہے تو کوٹ باہر ہی چھوڑنا پڑیگا۔بیلٹ بھی اتارنی پڑیگی اور اگر قلم پلاسٹک کا نہیں ہے تو وہ بھی چھوڑنا پڑیگا۔کیمرہ لے جانے پر بھی پابندی ہے ۔ البتہ اچھی طرح چیک کرانے کے بعدچھوٹا ٹیپ ریکارڈر ساتھ لے جانے کی اجازت تھی کیونکہ اس میں انٹر ویوریکارڈ کرنا تھا۔اس عمل سے بروقت فراغت کیلئے طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے بلایا گیا تھا۔گاڑی پارک کرنے کیلئے سفارت خانے کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دو سو میٹرکے دائرہ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔اسلئے کہ سفارت خانے کے ارد گردہماری مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کے اور خود اسرائیل کی سیکریٹ سروس کے لوگ بھی مستعد تھے۔ لہذا آٹو سے جانا پڑااور اس کو بھی کافی پہلے روک لیا گیا۔احتیاط کے طور پرآٹو کا نمبر بھی نوٹ کیا گیا۔ہندوستانی اور اسرائیلی اہلکار دوڑکرآئے اورمشترکہ طور پرکئی سوالات کئے۔ انہوں نے اپنے طور پریقین حاصل کرکے ہی صدر دروازے تک جانے دیا۔
اس غیرضروری تفصیل کو یہاں ضرورتاً بیان کرنا پڑا۔نو سال پہلے دہلی میں کسی اسرائیلی سفارتکاریا عام اسرائیلی شہری کی شکل بڑی مشکل سے نظر آتی تھی۔لیکن آج حال یہ ہے کہ مبینہ طورپر کوئی بائیک سوار اسرائیلی سفارتخانے میں برسر کارخاتون کی کار پرسر راہ اتنی آسانی کے ساتھ مقناطیسی بم چپکاکر چلاجاتا ہے اور دھماکہ ہوجاتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی سفارتکار یا اسرائیلی شہری یہاں محفوظ نہیں ہیں۔انسانیت کے ناطے ہم اس طرح کے حملوں کی تائید نہیں کرسکتے۔ایسا کرنااس لئے بھی درست نہیں کہ گناہ کسی کا ہو اور سزا کسی کوملے۔ کسی فرد واحد یا کسی گروپ کو شرعاً بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر کسی قصوروارسے انتقام لے۔اب یہ بحث بیکار ہے کہ ہندوستان نے کئی دہائیوں تک فلسطینیوں سے یکجہتی کی خاطر اسرائیل سے بیزار ی کرتے رہنے کے بعد اس سے اتنے گہرے سفارتی ‘تجارتی اور عسکری رشتے کیوں استوار کرلئے ہیں۔عام اسرائیلیوں کا خیال یہ ہے کہ ہندوستان ان کا’ دوسرا گھر ‘ہے۔یقین نہ آئے تواسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبارات ‘خاص طور پر’ احرنوط اور حارث‘ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے۔اسرائیلیوں میں یہ تبدیلی بلا سبب نہیں ہے۔وہ ہندوستان کو اسلئے پسند کرتے ہیں کہ ہماری حکومت اسرائیل سے تباہ کن ہتھیار اور جنگی ساز وسامان خریدکراسکے دفاع کا چوتھائی بجٹ پورا کرتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کیلئے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا خریدارملک ہے۔اب تو اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں ہمارے جوانوں کو دہشت گردی سے لڑنے کی تربیت بھی دیتی ہیں۔جموں وکشمیر‘ ہماچل پردیش اور پنجاب میں ان کی موجودگی ریکارڈ پر ہے۔ہماچل پردیش میں باقاعدہ اسرائیل کے یہودیوں کی بستی آباد ہوگئی ہے جہاں کا رکشہ والا بھی ہبروزبان بولتا ہے۔دوکانوں کے سائن بورڈزبھی ہبرو میں لکھے ملتے ہیں۔اب نئی دہلی میں اس پر اسرار حملے کے بعد تو اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی تفتیش کیلئے یہاں وارد ہوگئے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میںآسٹریلیا‘ برطانیہ ‘فرانس اور امریکہ میں سینکڑوں ہندوستانیوں پر حملے ہوچکے ہیں‘کیا ان حملوں کی تفتیش کے لئے ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں بھی ان ملکوں میں جاسکتی ہیں؟
آئیے اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔اسرائیلی سفارتکار پرحملہ کے بعدمسلم علاقوں کی صورتحال کو سمجھنے کیلئے ماضی کی ایک داستان کا اعادہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرسے کوئی دوماہ قبل اوکھلا کے مسلمانوں اور علما کا ایک وفداس وقت کے وزیر داخلہ شوراج پاٹل سے ملنے گیا تھا۔اس وفد نے ملک بھر میں اور خاص طور پر مدھیہ پردیش میں مسلم نوجوانوں پر پولس مظا لم کی شکایت کی تھی۔ ایک بزرگ عالم دین نے درد بھرے لہجے میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ’ شو راج جی کیا ہم نے اور ہمارے اسلاف نے ملک کی جدوجہدآزادی میں اسی لئے قربانیاں دی تھیں کہ ہمارے نوجوانوں کو بے گناہی کی سزا دی جائے اور ہر مسلمان کو دہشت گرد بناکر پیش کیا جائے؟‘اس پر شوراج بھڑک گئے تھے۔انہوں نے اپنا ہاتھ لہراکر بزرگ عالم دین کو اپنی بات آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔ انہوں نے اپنے سیکریٹریوں سمیت انٹلی جنس کے افسران کو بھی وفد کی ’نقل وحرکت ‘پر نظر رکھنے کیلئے بلا رکھا تھا۔ شوراج غصہ میں کھڑے ہوگئے اور چلتے وقت رسمی سلام کلام بھی نہ ہوا۔سکے بعددہلی اوراوکھلا کی مسلم بستیوں میں پولس کی نقل وحرکت بڑھ گئی۔مسجدوں اور مدرسوں کی تفصیلات جمع کی جانے لگیں۔اسی دوران 13ستمبر کا وہ دن دہلی کے متعددعلاقوں کیلئے قیامت خیزی لے کر آیاجب ایک ساتھ کئی بم دھماکے ہوئے اور درجنوں بے قصور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ دھماکے انتہائی قابل مذمت تھے۔ مسلمانوں ان کی تنظیموں اور قائدین نے ان دھماکوں کی بھرپور مذمت کی اور ذمہ داروں کو انصاف کے آستانے تک گھسیٹ کر لانے کا مطالبہ کیاگیا۔ پرائیویٹ چینلوں نے وزیر داخلہ کی پورے دن کی نقل وحرکت کو اور خاص طور پر ان کے باربارلباس تبدیل کرنے کوٹیلی کاسٹ کردیا۔اس طرح وزیر داخلہ براہ راست زد پر آگئے۔97فیصد ناظرین نے ان کے استعفی کا مطالبہ کر ڈالا۔اس کے بعد تو اوکھلا کو زد پر لے لیا گیا۔درجنوں بے گناہوں کی جان بچانے میں ناکام پولس اور انٹلی جنس ایجنسیوں نے ساری گتھی چند دنوں میں ہی سلجھا لی۔14ستمبر(2008)سے16ستمبر تک اوکھلا میں رہائش پزیر متعدد معزز شہریوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔بزرگوں اور نوجوانوں کو پکڑپکڑ کر اسپیشل سیل لے جایا گیا۔روزہ دار مسلمانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ان واقعات پر شاہی امام ‘جماعت اسلامی‘جمعیت علما اور دوسری متعدد ملی جماعتوں نے تشویش ظاہر کی اور 17ستمبر کو دعوت نگر(دہلی) میں ایک کل جماعتی میٹنگ ہوئی۔اس میں حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ وہ معزز مسلمانوں کی اس طرح پکڑ دھکڑ کو روکے ورنہ تحریک چلائی جائیگی۔ان جماعتوں نے خیال ظاہر کیا کہ پولس اور انٹلی جنس کی یہ مہم در اصل اس علاقہ کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔18ستمبر کو اخبارات نے کل جماعتی میٹنگ کی خبر شائع کی اور 19ستمبر کی صبح بٹلہ ہاؤس میں ’تصادم‘ ہوگیا۔
تازہ صورتحال بھی تقریباً ویسی ہی ہے۔ اسرائیلی سفارتکار پر حملہ کے اگلے ہی دن اوکھلا کی مسلم بستیوں میں پولس نے چھاپہ ماری شروع کردی۔دیر رات لوگوں کے گھروں پر سادہ وردی میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار گھس جاتے ہیں۔کبھی بنگلہ دیشیوں کے بہانے اور کبھی چوری کے واقعات کے بہانے بے قصور مسلم نوجوانوں کو اغوا کرکے لیجانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہرچند کہ یہ عمل پچھلے ایک ماہ سے جاری تھا لیکن اب ایک ہفتہ سے اس میں شدت آگئی ہے۔مقامی پولس اعتراف کرچکی ہے کہ اسپیشل سیل والے غلطی پرہیں۔اب علاقے کے باشندے پھر خوفزدہ ہیں ۔اب تو ایسے مسلم نوجوانوں کو ہی دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو پولس کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔نقی اور تقی نامی دو حقیقی بھائیوں کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ مہاراشٹر کی اے ٹی ایس انہیں دہشت گردوں کا حامی کہتی ہے جبکہ دہلی پولس انہیں دہشت گردوں کو پکڑوانے والا بتاتی ہے۔خود دہلی پولس کے مختلف ونگ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں آکر مسلم نوجوانوں کو پکڑ کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ایک واقعہ میں خودمقامی پولس نے ایف آئی آر کی ہے۔ایسے میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر جھوٹے آنسو بہانے والے تو یوپی میں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے میں مصروف ہیں لیکن دہلی کے مسلمان خوفزدہ ہیں کہ کہیں پھر ایک اور فرضی انکاؤنٹر کی تیاری تو نہیں ہے؟کیا ہمارے مسلم وزرا اس ہنگامی صورت حال پر توجہ دیں گے؟
--
ایم ودود ساجد
نو سال قبل مجھے صحافتی ضرورت کے تحت نئی دہلی میں غاصب اسرائیل کے سفیرڈیوڈدانیال سے قضیہ فلسطین پرانٹرویوکرنے کا اتفاق ہوا توعملی تجربہ ہوا کہ اسرائیلی اپنی سیکیورٹی کے تئیں کتنے حساس‘ کتنے محتاط اورکتنے خوفزدہ ہیں۔ انٹرویو کا وقت ایک ہفتہ پہلے طے ہوا تھا۔ اس دوران کبھی سفارتخانہ سے اور کبھی دوسرے سرکاری اداروں سے مختلف سوالات کئے جاتے رہے۔مجھے بتایا گیا کہ سفارتخانہ کے اندر داخل ہونے کیلئے آپکو اپنا پاسپورٹ دفتر استقبالیہ میں جمع کرانا ہوگا۔ اگر کوٹ میں اسٹیل یاٹین کا بٹن ہے تو کوٹ باہر ہی چھوڑنا پڑیگا۔بیلٹ بھی اتارنی پڑیگی اور اگر قلم پلاسٹک کا نہیں ہے تو وہ بھی چھوڑنا پڑیگا۔کیمرہ لے جانے پر بھی پابندی ہے ۔ البتہ اچھی طرح چیک کرانے کے بعدچھوٹا ٹیپ ریکارڈر ساتھ لے جانے کی اجازت تھی کیونکہ اس میں انٹر ویوریکارڈ کرنا تھا۔اس عمل سے بروقت فراغت کیلئے طے شدہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے بلایا گیا تھا۔گاڑی پارک کرنے کیلئے سفارت خانے کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دو سو میٹرکے دائرہ میں کوئی جگہ نہیں تھی۔اسلئے کہ سفارت خانے کے ارد گردہماری مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کے اور خود اسرائیل کی سیکریٹ سروس کے لوگ بھی مستعد تھے۔ لہذا آٹو سے جانا پڑااور اس کو بھی کافی پہلے روک لیا گیا۔احتیاط کے طور پرآٹو کا نمبر بھی نوٹ کیا گیا۔ہندوستانی اور اسرائیلی اہلکار دوڑکرآئے اورمشترکہ طور پرکئی سوالات کئے۔ انہوں نے اپنے طور پریقین حاصل کرکے ہی صدر دروازے تک جانے دیا۔
اس غیرضروری تفصیل کو یہاں ضرورتاً بیان کرنا پڑا۔نو سال پہلے دہلی میں کسی اسرائیلی سفارتکاریا عام اسرائیلی شہری کی شکل بڑی مشکل سے نظر آتی تھی۔لیکن آج حال یہ ہے کہ مبینہ طورپر کوئی بائیک سوار اسرائیلی سفارتخانے میں برسر کارخاتون کی کار پرسر راہ اتنی آسانی کے ساتھ مقناطیسی بم چپکاکر چلاجاتا ہے اور دھماکہ ہوجاتا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی سفارتکار یا اسرائیلی شہری یہاں محفوظ نہیں ہیں۔انسانیت کے ناطے ہم اس طرح کے حملوں کی تائید نہیں کرسکتے۔ایسا کرنااس لئے بھی درست نہیں کہ گناہ کسی کا ہو اور سزا کسی کوملے۔ کسی فرد واحد یا کسی گروپ کو شرعاً بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر کسی قصوروارسے انتقام لے۔اب یہ بحث بیکار ہے کہ ہندوستان نے کئی دہائیوں تک فلسطینیوں سے یکجہتی کی خاطر اسرائیل سے بیزار ی کرتے رہنے کے بعد اس سے اتنے گہرے سفارتی ‘تجارتی اور عسکری رشتے کیوں استوار کرلئے ہیں۔عام اسرائیلیوں کا خیال یہ ہے کہ ہندوستان ان کا’ دوسرا گھر ‘ہے۔یقین نہ آئے تواسرائیل کے عبرانی زبان کے اخبارات ‘خاص طور پر’ احرنوط اور حارث‘ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے۔اسرائیلیوں میں یہ تبدیلی بلا سبب نہیں ہے۔وہ ہندوستان کو اسلئے پسند کرتے ہیں کہ ہماری حکومت اسرائیل سے تباہ کن ہتھیار اور جنگی ساز وسامان خریدکراسکے دفاع کا چوتھائی بجٹ پورا کرتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کیلئے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا خریدارملک ہے۔اب تو اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں ہمارے جوانوں کو دہشت گردی سے لڑنے کی تربیت بھی دیتی ہیں۔جموں وکشمیر‘ ہماچل پردیش اور پنجاب میں ان کی موجودگی ریکارڈ پر ہے۔ہماچل پردیش میں باقاعدہ اسرائیل کے یہودیوں کی بستی آباد ہوگئی ہے جہاں کا رکشہ والا بھی ہبروزبان بولتا ہے۔دوکانوں کے سائن بورڈزبھی ہبرو میں لکھے ملتے ہیں۔اب نئی دہلی میں اس پر اسرار حملے کے بعد تو اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی تفتیش کیلئے یہاں وارد ہوگئے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میںآسٹریلیا‘ برطانیہ ‘فرانس اور امریکہ میں سینکڑوں ہندوستانیوں پر حملے ہوچکے ہیں‘کیا ان حملوں کی تفتیش کے لئے ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں بھی ان ملکوں میں جاسکتی ہیں؟
آئیے اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔اسرائیلی سفارتکار پرحملہ کے بعدمسلم علاقوں کی صورتحال کو سمجھنے کیلئے ماضی کی ایک داستان کا اعادہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹرسے کوئی دوماہ قبل اوکھلا کے مسلمانوں اور علما کا ایک وفداس وقت کے وزیر داخلہ شوراج پاٹل سے ملنے گیا تھا۔اس وفد نے ملک بھر میں اور خاص طور پر مدھیہ پردیش میں مسلم نوجوانوں پر پولس مظا لم کی شکایت کی تھی۔ ایک بزرگ عالم دین نے درد بھرے لہجے میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ’ شو راج جی کیا ہم نے اور ہمارے اسلاف نے ملک کی جدوجہدآزادی میں اسی لئے قربانیاں دی تھیں کہ ہمارے نوجوانوں کو بے گناہی کی سزا دی جائے اور ہر مسلمان کو دہشت گرد بناکر پیش کیا جائے؟‘اس پر شوراج بھڑک گئے تھے۔انہوں نے اپنا ہاتھ لہراکر بزرگ عالم دین کو اپنی بات آگے بڑھانے سے روک دیا تھا۔ انہوں نے اپنے سیکریٹریوں سمیت انٹلی جنس کے افسران کو بھی وفد کی ’نقل وحرکت ‘پر نظر رکھنے کیلئے بلا رکھا تھا۔ شوراج غصہ میں کھڑے ہوگئے اور چلتے وقت رسمی سلام کلام بھی نہ ہوا۔سکے بعددہلی اوراوکھلا کی مسلم بستیوں میں پولس کی نقل وحرکت بڑھ گئی۔مسجدوں اور مدرسوں کی تفصیلات جمع کی جانے لگیں۔اسی دوران 13ستمبر کا وہ دن دہلی کے متعددعلاقوں کیلئے قیامت خیزی لے کر آیاجب ایک ساتھ کئی بم دھماکے ہوئے اور درجنوں بے قصور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ دھماکے انتہائی قابل مذمت تھے۔ مسلمانوں ان کی تنظیموں اور قائدین نے ان دھماکوں کی بھرپور مذمت کی اور ذمہ داروں کو انصاف کے آستانے تک گھسیٹ کر لانے کا مطالبہ کیاگیا۔ پرائیویٹ چینلوں نے وزیر داخلہ کی پورے دن کی نقل وحرکت کو اور خاص طور پر ان کے باربارلباس تبدیل کرنے کوٹیلی کاسٹ کردیا۔اس طرح وزیر داخلہ براہ راست زد پر آگئے۔97فیصد ناظرین نے ان کے استعفی کا مطالبہ کر ڈالا۔اس کے بعد تو اوکھلا کو زد پر لے لیا گیا۔درجنوں بے گناہوں کی جان بچانے میں ناکام پولس اور انٹلی جنس ایجنسیوں نے ساری گتھی چند دنوں میں ہی سلجھا لی۔14ستمبر(2008)سے16ستمبر تک اوکھلا میں رہائش پزیر متعدد معزز شہریوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔بزرگوں اور نوجوانوں کو پکڑپکڑ کر اسپیشل سیل لے جایا گیا۔روزہ دار مسلمانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ان واقعات پر شاہی امام ‘جماعت اسلامی‘جمعیت علما اور دوسری متعدد ملی جماعتوں نے تشویش ظاہر کی اور 17ستمبر کو دعوت نگر(دہلی) میں ایک کل جماعتی میٹنگ ہوئی۔اس میں حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ وہ معزز مسلمانوں کی اس طرح پکڑ دھکڑ کو روکے ورنہ تحریک چلائی جائیگی۔ان جماعتوں نے خیال ظاہر کیا کہ پولس اور انٹلی جنس کی یہ مہم در اصل اس علاقہ کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔18ستمبر کو اخبارات نے کل جماعتی میٹنگ کی خبر شائع کی اور 19ستمبر کی صبح بٹلہ ہاؤس میں ’تصادم‘ ہوگیا۔
تازہ صورتحال بھی تقریباً ویسی ہی ہے۔ اسرائیلی سفارتکار پر حملہ کے اگلے ہی دن اوکھلا کی مسلم بستیوں میں پولس نے چھاپہ ماری شروع کردی۔دیر رات لوگوں کے گھروں پر سادہ وردی میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار گھس جاتے ہیں۔کبھی بنگلہ دیشیوں کے بہانے اور کبھی چوری کے واقعات کے بہانے بے قصور مسلم نوجوانوں کو اغوا کرکے لیجانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہرچند کہ یہ عمل پچھلے ایک ماہ سے جاری تھا لیکن اب ایک ہفتہ سے اس میں شدت آگئی ہے۔مقامی پولس اعتراف کرچکی ہے کہ اسپیشل سیل والے غلطی پرہیں۔اب علاقے کے باشندے پھر خوفزدہ ہیں ۔اب تو ایسے مسلم نوجوانوں کو ہی دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو پولس کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔نقی اور تقی نامی دو حقیقی بھائیوں کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ مہاراشٹر کی اے ٹی ایس انہیں دہشت گردوں کا حامی کہتی ہے جبکہ دہلی پولس انہیں دہشت گردوں کو پکڑوانے والا بتاتی ہے۔خود دہلی پولس کے مختلف ونگ بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں آکر مسلم نوجوانوں کو پکڑ کر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ایک واقعہ میں خودمقامی پولس نے ایف آئی آر کی ہے۔ایسے میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر جھوٹے آنسو بہانے والے تو یوپی میں مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنانے میں مصروف ہیں لیکن دہلی کے مسلمان خوفزدہ ہیں کہ کہیں پھر ایک اور فرضی انکاؤنٹر کی تیاری تو نہیں ہے؟کیا ہمارے مسلم وزرا اس ہنگامی صورت حال پر توجہ دیں گے؟
--
Wadood Sajid
Editor-in-chief
VNI New Delhi.
VNI New Delhi.
9810041211
No comments:
Post a Comment