Search This Blog

Sunday 5 February 2012

رسول اکرم ﷺ کا تعمیر کردہ معاشرہ

رسول اکرم ﷺ کا تعمیر کردہ معاشرہ

   عتیق الرحمن صدیقی

حضرت عبداللہ بن عمرؓ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے اپنے تعلق کا آغاز 13 برس کی عمر میں کیا۔ آپ حضرت عمر فاروقؓ کے لخت ِجگر اور اُم المومنین حضرت حفصہؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ آپؓ میں جذبہ اتباعِ رسول اوجِ کمال تک پہنچا ہوا تھا۔ ایک موقع پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمر سے بڑا نقوشِ نبوی کی اتباع کرنے والا کوئی نہیں“۔ آپؓ اُس وقت تک کوئی حدیث بیان نہیں کرتے تھے جب تک اس کا ایک ایک حرف یاد نہ آجاتا۔ آپؓ کے ہم عصر کہتے ہیں کہ ”اصحاب ِرسول میں عبداللہ بن عمرؓ سے بڑھ کر اس بات سے خوف کھانے والا کوئی نہیں کہ وہ حدیث میں کوئی کمی بیشی کرے“۔ امام مالکؒ اور زہری کا قول ہے کہ ”حضرت عبداللہ بن عمرؓ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے امور میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی“۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھی: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک جواب دہ ہی‘ اپنے ماتحتوں کے معاملے میں: (ا) امام (اسلامی ریاست کا خلیفہ یا صدر) نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (ب) ہر شخص اپنے گھر میں (بال بچوں کا) حاکم ہے اور اپنی ذمہ داریوں کے لیے (خدا کے ہاں) جواب دہ ہے۔ (ج) عورت اپنے شوہر کے گھر میں (اس کے بچوں اور مال و دولت کی) ذمہ دار ہی‘ اور ان کے سلسلے میں اس سے بازپرس ہوگی۔ (د) نوکر اپنے آقا کی جائداد کا امین و محافظ ہی‘ اور اللہ کے ہاں اس پر اُس سے محاسبہ ہوگا“۔ ]راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ”اور آدمی اپنے باپ کے مال کا نگران اور امین ہے اور اپنی امانت پر جواب دہ ہے“[ (غور سے سنو) تم میں سے ہر ایک (اپنے اپنے دائرے میں) حاکم اور نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کی بابت پوچھا جائے گا جو اس کی نگرانی میں ہیں۔“ (صحیح البخاری‘ کتاب الجمعتہ‘ صحیح مسلم‘ کتاب الامارة) حقوق و فرائض کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زنجیر کی کڑیوں کی مانند یہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہ پیوستگی جتنی زیادہ توانا اور تنومند ہوگی معاشرہ اتنا ہی صحت مند ہوگا۔ ایک مسلم معاشرے میں ایک فرد جو برضا و رغبت اللہ کی ربوبیت کا اقرار کری‘ اسلام کو دین حق تسلیم کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے اس کی ذمہ داریاں دوچند ہوجاتی ہیں۔ وہ اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ جو امانتیں اللہ نے اس کے سپرد کی ہیں ان کی نگرانی اور حفاظت کرے اور خیانت سے مجتنب رہی‘ اسے ہر لحظہ یہ خیال دامن گیر رہے کہ وہ خودمختار اور آزاد ہرگز نہیں‘ بلکہ اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کے معاملے میں جو اس کے رب نے اسے دی ہیں اور جو دائرہ ¿ کار اس کے لیے متعین کیا ہے اس میں وہ اس کے سامنے جواب دہ ہی‘ اللہ کی عدالت میں اس کا پورا پورا احتساب کیا جائے گا اور اس کی عطا کردہ نعمت میں خیانت کی صورت میں اس کا مواخذہ ہوگا۔ یہاں اسلامی ریاست کے سربراہ کو بڑی صراحت کے ساتھ اور اسی تناظر میں ریاست کے تمام چھوٹے بڑے حاکموں اور عہدیداروں کو انتباہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی کی تکمیل میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں سے خدا خوفی کے ساتھ عہدہ برا ہوں۔ اپنے زیردستوں کے حقوق ادا کرنے میں اگر وہ کوتاہی اور تغافل سے کام لیں گے تو قیامت کے دن وہ اللہ کی بازپرس سے ہرگز نہ بچ سکیں گی‘ اللہ تعالیٰ کے حضور ان سے پوچھا جائے گا کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی آیا انہوں نے اس کا حق ادا کیا یا اس سے پہلوتہی کی؟ حضرت معقل بن یسارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: ”جو شخص مسلمانوںکے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار مقرر ہوا‘ پھر اس کی موت اس حال میں آئی کہ وہ ان کے ساتھ خیانت کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام کردی ہے۔“ (صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام) ایک دوسری حدیث میں حضرت معقل بن یسارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا: ”جس کسی شخص نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ کی ذمہ داری قبول کی‘ پھر اس نے ان کے ساتھ خیرخواہی نہیں کی اور ان کے کام کی انجام دہی میں اپنے آپ کو اس طرح نہیں تھکایا جس طرح وہ اپنی ذات کے لیے اپنے آپ کو تھکاتا ہے۔ ]اور ابن عباسؓ کی روایت میں ہی: ”پھر ان کی حفاظت ایسے طریقے سے نہیں کی جس طریقے سے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہے“[ تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو منہ کے بل جہنم میں گرادے گا۔“ (طبرانی‘ کتاب الخراج) یزید بن ابی سفیانؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھے سپہ سالار بناکر شام کی طرف روانہ کیا تو اُس وقت یہ نصیحت فرمائی: ”اے یزید! تمہارے کچھ رشتہ دار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ان کو ذمہ داریاں سونپنے میں ترجیح دو۔ یہ سب سے بڑا اندیشہ ہے جو مجھے تمہاری طرف سے لاحق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے کہ جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اور وہ مسلمانوں پر کسی کو حکمران بنائے محض رشتہ داری اور دوستی کی وجہ سی‘ تو اس کے اوپر اللہ کی لعنت ہوگی‘ اللہ اس کی طرف سے کوئی فدیہ قبول نہیں کرے گا‘ یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈال دے گا“۔ (کتاب الخراج‘ امام ابو یوسف) حضرت اسما بنت ِعمیسؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو خطاب کرکے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹی! میں نے مسلمانوں پر شفقت کے پیش نظر تمہیں خلیفہ منتخب کیا ہے اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہی‘ تم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ہم کو اپنے اوپر اور ہمارے گھر والوں کو اپنے گھر والوں کے اوپر ترجیح دیتے تھی‘ یہاں تک کہ ہم کو جو کچھ آپ کی طرف سے ملتا اس میں سے جو کچھ بچ جاتا وہ ہم نبی کے گھر والوں کو ہدیہ بھیجتے تھے“۔ (کتاب الخراج‘ امام ابویوسف) زیر مطالعہ حدیث میں ایک جہانِ معنی پنہاں ہی‘ اس میں ایک اہم بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ ہر آدمی اپنے بال بچوں کے دین‘ اخلاق‘ اصلاح اور تربیت کا بھی نگران اور محافظ ہی‘ اس سے ان کے حقوق کے متعلق بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: ”اے ایمان والو! تم بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی‘ اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خو‘ سخت مزاج ہیں‘ نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جس کا اس نے انہیں حکم دیا ہی‘ اور فوراً بجا لاتے ہیں جو حکم انہیں دیا جاتا ہے۔“ (التحریم:6) اس آیہ کریمہ میں ایمان والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائیں‘ اور مزید یہ کہ وہ اس ذمہ داری کو اپنے آپ تک محدود نہ رکھیں‘ بلکہ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کو بھی دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے فکرمند ہوں۔ یہ ان کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اپنے آپ کو آتشِ جہنم سے بچانے کی بات تو سمجھ میں آگئی‘ ہم اپنے اہل و عیال کو کیونکر جہنم سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم انہیں اس طرح بچا سکتے ہو کہ جن چیزوں سے اللہ نے تمہیں روکا ہے تم اپنے بال بچوں کو بھی ان سے روکو‘ اور جن کاموں کو بجا لانے کا اس نے تمہیں حکم دیا تم انہیں بھی ان کے بجا لانے کا حکم دو“۔ جناب مقاتل کہتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو‘ اپنی اولاد کو‘ اپنی بیوی اور اپنے خدام کو عذابِ جہنم سے بچانے کی سعی کرے۔ علامہ قرطبی نے الکیا کا قول نقل کیا ہی: ”ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کو دین کی تعلیم دیں‘ اچھی باتیں سکھائیں اور ادب و ہنر جس کے بغیر چارہ نہیں اس کی تعلیم دیں“۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ ارشاد بھی ہی: ” باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ (جب وہ پیدا ہوں تو) ان کے لیے عمدہ نام تجویز کرے اور (جب وہ بڑے ہوں تو) ان کی تعلیم و تربیت کرے“۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان‘ بحوالہ السلسلة الضعیفة:199) ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں‘ اور نماز کے لیے ان کو مارو جب وہ دس سال کی عمر کے ہوجائیں‘ اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو“۔ (سنن ابی داود‘ کتاب الصلوٰة) گویا سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کی تلقین کی جانی چاہیے اور دس سال کی عمر میں اگر وہ نماز نہ پڑھیں تو انہیں سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس عمر میں وہ ایک ہی چارپائی پر نہ لیٹیں‘ ان کی خواب گاہیں جدا کردینی چاہئیں۔ بچوں کی دینی تعلیم اور تربیت کا اہتمام بچپن ہی سے کیا جانا چاہیے۔ اوائل عمر میں جو سبق دیا جاتا ہے اور جو طور اطوار سکھائے جاتے ہیں ان کے نقوش ان کے لوحِ دل پر مرتسم ہوجاتے ہیں‘ اور وہ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے۔ والدین کا احترام‘ بڑوںکا ادب‘ چھوٹوں پر شفقت‘ دوسروں کے لیے ایثار‘ خوراک‘ پوشاک‘ نشست و برخاست‘ سچ بولنی‘ سچی بات کہنی‘ سلیقے سے گفتگو کرنے کی بہتر انداز میں ترغیب اس عمر میں دی جانی ضروری ہے۔ لمحاتِ فرصت کا صحیح استعمال‘ مطالعہ کی تشویق اور اچھی صحبت کا پابند بنانے کے لیے یہ نہایت موزوں وقت ہوتا ہے۔ اولاد کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے کہ والدین حزم و احتیاط سے کام لیں اور ان کی نگرانی پر خاص توجہ دیں‘ رات کا اندھیرا چھا جائے تو انہیں گھروں میں سمیٹ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام کے وقت اپنے بچوں کو (گھروں میں) روک لیا کرو‘ کیونکہ اس وقت شیاطین کھلی فضا میں پھرتے ہیں“۔ (المستدرک للحاکم 4/284‘ کتاب الادب۔ امام حاکم‘ الذہبی اور الالبانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: السلسلة الصحیحة:905) نیک بیویوں کے اوصاف قرآن پاک نے یوں بیان فرمائی: ”تو نیک بیویاں (شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں اور (شوہر کی) پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں (شوہر کے مال و دولت اور عزت و آبرو کی) حفاظت کرتی ہیں“۔ (النسا: 34) ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” وہ (تمہاری بیویاں) تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو“۔ (البقرة: 187) مولانا سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں: ” تم ان کے ستر پوش ہو‘ وہ تمہارے لیی‘ تم ان کی زینت ہو وہ تمہاری‘ تم ان کی خوب صورتی ہو وہ تمہاری‘ تم ان کی تکمیل کا ذریعہ ہو وہ تمہاری‘ یہی نکاح کے اغراض ہیں اور انہی اغراض کو پورا کرنا حقوقِ زوجین کو ادا کرنا ہے“۔ (سیرت النبی‘ جلد ششم) رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا: ”ہاں عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو کہ وہ اللہ کی امانت کے طور پر تمہارے بس میں ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو بس اتنا مارو کہ تکلیف دہ نہ ہو“۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الحج) نبی اکرم نے فرمایا: ”عورت جبکہ وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھی‘ رمضان کے روزے رکھی‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا کہ تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاو“۔ (مسند احمد) اولاد کی پرورش اور ان کی نشوونما کا خیال ماں اور باپ دونوں کا ایک مشترک فریضہ ہے۔ دونوں مل کر ہی اپنے حسنِ عمل کے ذریعے اپنے بچوں کو رفعت ِکردار سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ ان کے فکر و فہم کی تربیت میں دونوں کا حصہ ضروری ہی‘ البتہ خرچ کی کفالت تنہا باپ کی ذمہ داری ہے۔ عورت کا حقیقی میدان اس کا گھر ہے اور اس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کا فرض خوش اسلوبی سے نبھائے۔ اسی تناظر میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران اور ذمہ دار ہے اور اس سے ان افراد اور چیزوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جن کی وہ نگران بنائی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھروں کی دیکھ بھال تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہی تمہارا جہاد ہے“۔ (مسند احمد) نیز فرمایا: ”ایک خاتون کی اپنے گھر میں گھر گرہستی کی محنت و مصروفیت مجاہدوں کے عملِ جہاد کو پالے گی اگر اللہ نے چاہا“۔ (کنزالعمال) ہندوستان کے معروف عالم دین اور مفکر مولانا محمد یوسف اصلاحی فرماتے ہیں: ”مسلمان ماں کسی وقت بھی اس حقیقت کو ذہن سے اوجھل نہ ہونے دے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور دین و ایمان سے غافل ہوکر اس زندگی کی کامیابی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ آپ کی اولاد کا شاندار مستقبل یہ ہے کہ وہ دینی علوم سے آراستہ ہو‘ دین میں گہری سوجھ بوجھ انہیں حاصل ہو‘ پاکیزہ اخلاق اور اسلامی تہذیب کے وہ نمائندے ہوں‘ سماجی حقوق ادا کرنے میں وہ چاق و چوبند ہوں‘ ان کی زندگیاں پاکیزگی‘ خدا ترسی اور پرہیزگاری کا نمونہ ہوں۔ والدین کے اطاعت شعار اور خدمت گزار ہوں اور وہ دنیوی زندگی کے اونچے سے اونچے منصب پر ہوتے ہوئے بھی دینِ حق کے سچے نمائندے اور مخلص خادم ہوں“۔ (حسن معاشرت) اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت صدقہ ¿ جاریہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہی: ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اپنے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہی‘ مگر تین چیزیں (ایسی ہیں جن کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہی): صدقہ جاریہ‘ یا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں‘ یا نیک لڑکا جو اس کے لیے دعا کرتا رہے“۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الوصیة) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر آقا نے اپنے خادم کو اپنی جائداد کا امین بنایا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس کی پوری پوری محافظت کرے۔ اولاد بھی اپنے ماں باپ کی جائداد میں ان کی مرضی و منشا اور اجازت کے بغیر تصرف کرنے کی مجاز نہیں‘ محافظ اور نگران ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن اسے جواب دہی کے لیے حاضر کیا جائے گا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جتنا کچھ اختیار عطا کیا ہے اور اسے تھوڑے یا زیادہ جتنے لوگوں پر بھی اقتدار بخشا ہی‘ آخرت میں اس کا محاسبہ ضرور ہوگا اور وہ بازپرس سے ہرگز نہ بچ سکے گا۔

No comments:

Post a Comment