Search This Blog

Sunday, 5 February 2012

زمانوں پہ محیط یہ دن!...

زمانوں پہ محیط یہ دن!...
نقش خیال…عرفان صدیقی    

گردش لیل و نہار کے درمیان یہ دن کس تمکنت کے ساتھ جگمگاتا رہتا ہے۔
خوش نصیب ہے وہ امت جو اس دن کو یاد رکھتی ہے۔ جسے اس دن کی خبر ہے۔ بظاہر سورج اپنے لگے بندھے معمول کے مطابق طلوع ہوتا ، اور اپنے متعین راستے پر چلتے ہوئے افق مغرب میں غروب ہو جاتا ہے لیکن ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان دلوں کے خاکستان میں دیر تک چمنستانوں کی مہک محسوس کرتے رہتے ہیں۔ وہ دن جو پیمائش کے پیمانوں سے بے نیاز، ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے، صدیوں، قرنوں اور زمانوں پر محیط ہے۔ وہ دن جو ساری کائنات کے لئے ایک نوید جانفزا بن کر آیا، ابر عطا بن کر برسا اور انسانیت کی بانجھ کھیتی کو سرسبز و شاداب کرگیا۔ صدیوں قبل بھی یہ دن، بظاہر عمومی دستور کے مطابق ہی مکہ کی گھاٹیوں پر اترا اور گزر گیا ہوگا لیکن جہانوں کے خالق و مالک کو خبر تھی کہ سیدہ آمنہ  کی گود میں کھلنے والا پھول، آنے والے زمانوں میں انسانیت اور انسان کو کن رفعتوں سے ہم کنار کرنے والا ہے۔

حضور سرور کائنات کی ولادت کا دن ایک نئے عہد، ایک نئے فلسفہ حیات، ایک نئے اسلوب زندگی، ایک نئے انداز فکر و عمل، ایک نئے معیار حق و صداقت، ایک نئی میزان اقدار اورایک نئے انسان کی نمو کا دن تھا۔ یہ دن کرئہ ارض پر بسنے والے انسانوں کے لئے بے کراں برکتیں، رحمتیں اور سعادتیں لے کر آیا۔ جب بھی یہ دن آتا ہے۔ہماری بستیاں جیسے انگڑائی سی لیتی ہیں۔ میں چار سو نگاہیں ڈالتا ہوں تو زندگی مہکتی اورہمکتی نظر آتی ہے۔ نعتوں کی مشکبو صدائیں، سلام و درود کے روح پرور زمزمے، عقیدت سے تمتماتے چہرے، جگمگاتے درو دیوار، پھولوں کی لڑیاں، قمقموں کی جھالریں، یوں لگتا ہے جیسے دل نکال کر بارہ ربیع الاول کے قدموں میں ڈال دیئے گئے ہوں۔ میں سال ہا سال سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔ آنے والے ہر سال اس کی آب و تاب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رنگ و نور میں ڈھلے یہ منظر یاد دلا جاتے ہیں کہ ہمارے دلوں کے تار کس مضراب سے جڑے ہیں اور ہماری روح کی شادابیاں کن سرچشموں کا احسان و فیضان ہیں۔

مدینہ بھولتا ہی کب ہے لیکن آج کے دن شہر جاناں ٹوٹ کر یاد آتا ہے۔ وہ مدینہ کم کم جو میں حج و عمرے کے ہر مبارک سفر میں دیکھتا ہوں۔ جو آج کل فلموں اور اعلیٰ آفسیٹ کاغذ پر چھپی تصویروں میں نظر آتا ہے۔ وہ جو پانچ ستارہ ہوٹل کے پر آسائش کمروں کے دریچوں سے دکھائی دیتا ہے۔ مجھے تو وہ مدینہ یاد آتا ہے جو میں نے دیکھا نہ میرے ماں باپ نے نہ ان کے والدین نے لیکن جو میرے جد امجد ابو بکر صدیق  نے دیکھا تھا۔ جو میری آنکھوں کی پتلیوں میں منقش ہے۔ جو میرے دل کے اندر تنبو تانے بیٹھا ہے۔ مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھروندوں، ٹیڑی میڑھی گلیوں، کھجور کے پتوں کی چھت والی مسجد، اس مسجد میں لگی کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر میرے حضور خطبہ دیا کرتے تھے اور جب لکڑی کا منبر بنااور حضور نے اس پر نشست فرما کر خطبہ دیا تو کھجور کا وہ تنا احساس محرومی سے گریہ و زاری کرنے لگا تھا۔ مجھے وہ مدینہ یاد آتا ہے جہاں رونقیں تھیں نہ رعنائیاں، فلک بوس عمارتیں تھیں نہ لشکارے مارتی مارکیٹیں، رنگا رنگ گاڑیاں تھیں نہ مصفیٰ سڑکیں۔ بس کہیں کہیں کھجور کے جھنڈ تھے۔ ممیاتی بکریاں، ذرا ذرا سی گھاس پر منہ مارتے اونٹ اور اس سب کچھ کے بیچوں بیچ پورے بانکپن کے ساتھ کروٹیں لیتا ایک جہان تازہ، میرے حضور پر نور کہ جن کی درخشاں پیشانی سے، گہری تاریکیوں کو منور کرنے والا جاودانی نور پھوٹ رہا تھا اور وہ خوشبو جو بنجر دماغوں اور ویران دلوں میں شادابیاں بو رہی تھی۔ میں اکثر اس مدینہ کے در و دیوار کو بوسے دیتا رہتا ہوں۔ اس کی تلاش و جستجو میں مدینہ منورہ جاتا رہتا ہوں۔ پرہجوم اور رونقوں بھری سڑکوں پر گھومتے پھرتے، اسی مدینہ کو کھوجتا رہتا ہوں۔

اور ایک کھوج بھی میرے دل و دماغ میں کدالیں چلاتا رہتا ہے۔ محمد عربی سے اتنی گہری، اتنی بے کراں، اتنی پختہ، اتنی گرم جوش، اتنی پاکیزہ، اوراتنی لامحدود محبت اور لطافت و پاکیزگی کے زمزم میں دھلی بے پایاں عقیدت، اور اس محبت و عقیدت کے رنگا رنگ مظاہروں کے باوجود، ہم کیوں تبدل نہیں ہوتے، ہمارے دلوں کا میل کیوں نہیں دھلتا، ہمارے دماغوں کی کدورت کیوں دور نہیں ہوتی، ہم محروموں میں کیوں گنے جاتے ہیں، ہمارے مقدر کا ستارا کیوں نہیں چمکتا۔ ہم پیچھے ہی پیچھے کیوں لڑھک رہے ہیں۔ علم، فن، سائنس، تحقیق ہر شعبے میں زوال کا شکار کیوں ہیں۔ ترقی و خوشحالی کے ہر اشارے میں امت مسلمہ بہت نیچے کیوں رہتی ہے۔ ہمیں اپنے آبا سے کوئی نسبت کیوں نہیں رہی۔ ہمارے جلسے ، ہمارے جلوس ہماری محفلیں، ہمارے نعرے، ہمارے خطبے اس انقلاب کی طرف کوئی پیش رفت کیوں نہیں کرتے، جو انقلاب محسن انسانیت نے بپا کیا اور جس کی جلوہ گری ہمیں دنیا میں جا بجا نظر آتی ہے۔ دونوں جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی کی امت ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے کی گردنیں کیوں اڑاتے رہتے ہیں، نفرتوں کے الاؤ کیوں بھڑکاتے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے فرقہ پرستی کی دیواریں کیوں اٹھاتے رہتے ہیں؟ علامہ نے کوئی ایک سو سال قبل کہا تھا۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

وہ ”تو“ کیوں باقی نہیں رہا؟ ہماری محبتیں، ہماری عقیدتیں، ہماری عبادتیں اور ہماری مناجاتیں، بے بال و پر سی کیوں ہوگئی ہیں؟ علامہ ہی کی ایک مشہور نظم میں، ابلیس اپنے چیلوں سے کہتا ہے۔
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بارالحذر
حافظ ناموس زن مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لئے
نے کوئی فغفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
اور ابلیس اپنے فرزندوں کو یہ حتمی پیغام دیتا ہے۔
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ اسی طرح کے جادو کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہم نے محبتوں اور عقیدتوں کے کچھ مظاہر بنا لئے ہیں۔ جن سے ہم تسکین تو ضرور پاتے ہیں لیکن یہ مظاہر ہماری سیرت کا جزو بنتے ہیں نہ ہمارے کردار کی تراش خراش کرتے ہیں۔ محبت کا اولیں تقاضا، محبوب کے روپ میں ڈھل جانا ہوتا ہے لیکن ہم دعوائے محبت کے باوجود، اس سانچے میں ڈھلنے کو اپنی ترجیح نہیں سمجھتے جس کا ارفع و کامل نمونہ پیغمبر آخر الزماں نے پیش کیا اور جس نمونے کی تقلید کرنے والوں نے ایک عالم کو انقلاب آشنا کردیا۔ ہمارا ہی دامن کیوں خالی ہے؟ شاید اس لئے کہ ہم پیغمبر سے محبت و عقیدت کو اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں لیکن ”شرع پیغمبر“ اور ”آئین پیغمبر“ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی آرزو سے محروم ہیں۔
کیا کوئی ہم سا خوش بخت بھی ہوگا؟
یا کوئی ہم سا کم نصیب بھی ہے؟
   

No comments:

Post a Comment