Search This Blog

Tuesday 31 January 2012

"رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں

"رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں
ُنحمد ہ و نضلی علی رسولہ الکریم

ذوالقعد 5 ھجرہ
رات کا تیسرا پہر شروع ھی ھوا تھا کہ رسول اللہ نماز تہجد کے لۓ بیدار ہوۓ یہ -آپ کا معمول تھا آج کی رات آپ عائشہ ر ض کے حجرے میں تھے- باقی ازواج مطھرات کے حجرے بھی متصل تھے مدینے کا اسمان ستاروں سے جھلملا رھا تھا ھلکی سردی تھی آپ نے دیا جلایا عائشہ رض بہی بیدار ھوئں -باہر جا کر چولہا جلایا غسل اور وضو کے لۓ پانی گرم کیا 
 
رسول اللہ بآواز بلند سحر خیزی اور تھجد کی دعایین پڑھتے رھے عائشہ بھی ساتہ دہراتی رھیں دیگر ازوواج بھی جاگ چکی تھیں اور وضو کی تیاری کر رھی تھین تہجد کے آٹھ نوافل لمبی قرآت سے ادا کرنے کے بعد آپ   نے صلاۃ الوتر ادا کی  اگلا روز جمعرات کا تھا اور آپ نفلی روزہ رکہتے تہے ازوواج میں بھی زیادہ تر ساتہ دیتین تھیں سحری کے لۓ کھجوریں، دودھ ، اور رات کی بچی ھوئ روٹی تھی- اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ساتہ آپ نے پانچ کھجور لۓ دودھ کا پیالہ لےکر اس میں روٹی ڈال کر کھائ - یہ کھجوریں ابو دحدح کی باغ کی تھیں -انکے باغ کی کھجوریں پورے مدینہ میں مشھور تھیں- جیسے ھی تیار ھوتیں وہ سب سے پھلے آپ کو پہنچاتے-سحری کرنے کے بعد شروع کی-آپ نے سنتیں ادا کیں-اتنے میں بلال رض نے فجر کی ازان  شروع کی-


مدہنے کےافق پر تا رہکی سے روشنی کی لکیر بلند ہو رھی تہی اور فجر کا وقت ہوا چاھتا تھا- اپ نے وضو تازہ کیا اور حجرے سے متصل مسجد نبوی میںداخل ھوۓ -صحابہ کرام رض مسجد میں جمع ھو رھے تھے- پچھلے دو دنوں کی بارش سے چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی اور فرش پر کھیں کہیں کیچڑ تھا - ابوبکر رض نے اقا مت ادا کی 'صفیں درست ھویں ازوواج مطھرات اور دیگر صحابیات پچھلی صفوں میں کھڑی ھویئں-آپ نے پھلی رکعت میں الاعلی اور دوسری میں الاخلاص تلاوت کی -نماز فجر سے فارغ ہوۓ تو صحابہ کرام آ پ کے گرد حلقہ کر کے بیٹھ گۓ -ابو ھریرہ اور عبداللہ بن عمر تو آ پ کی ھر بات کو ذہن نشین کر رہے تہے تا کہ فورا کاتیب سے لکھوالیں آ پ ﷺ نے فرمایا " لا یو من احد کم حتی یکو ن ھواہ تبعا لما حبت بہ' تم میں کوئ اسوقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اسکی خواہشات میری لائ ہوئ ھدائت کے مطا بق نہ ھو جائین –

عمر رض نے اطلاع دی کہ سورج نکلنے کے ایک پیر کے بعد ایک وفد آپ کی خدمت میں حا ضری چا ہتا ھے- آپ ﷺ باتیں کرتے ہوۓ خاموش ھوۓ ،چہرے کا رنگ سرخ ھونے لگا ،جبین مبارک پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے-صحا بہ کرام سمجھ گۓ کہ وحی کی آمد ھے ،خاموشی اختیا ر کی اور  رخ مبا رک کی طرف دیکھنے لگے- علی رض کاتب وحی کو لینے چلے گۓ –آپ ﷺ کافی دیر اسی کیفیت میں رہے- وحی کی ایات آپﷺ کی زبان مبارک پر جاری ھوییں –یہ سورہ الاحزاب کی ایات 53 تا 85 تھہں  
 
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيۡرَ نَـٰظِرِينَ إِنَٮٰهُ وَلَـٰكِنۡ إِذَا دُعِيتُمۡ فَٱدۡخُلُواْ فَإِذَا طَعِمۡتُمۡ فَٱنتَشِرُواْ وَلَا مُسۡتَـٔۡنِسِينَ لِحَدِيثٍۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ يُؤۡذِى ٱلنَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىِۦ مِنڪُمۡۖ وَٱللَّهُ لَا يَسۡتَحۡىِۦ مِنَ ٱلۡحَقِّۚ وَإِذَا سَأَلۡتُمُوهُنَّ مَتَـٰعً۬ا فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ۬ۚ ذَٲلِڪُمۡ أَطۡهَرُ لِقُلُوبِكُمۡ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَڪُمۡ أَن تُؤۡذُواْ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓاْ أَزۡوَٲجَهُ ۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦۤ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمًا (٥٣) إِن تُبۡدُواْ شَيۡـًٔا أَوۡ تُخۡفُوهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيمً۬ا (٥٤) لَّا جُنَاحَ عَلَيۡہِنَّ فِىٓ ءَابَآٮِٕہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآٮِٕهِنَّ وَلَآ إِخۡوَٲنِہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ إِخۡوَٲنِہِنَّ وَلَآ أَبۡنَآءِ أَخَوَٲتِهِنَّ وَلَا نِسَآٮِٕهِنَّ وَلَا مَا مَلَڪَتۡ أَيۡمَـٰنُہُنَّۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ شَهِيدًا (٥٥) إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓٮِٕڪَتَهُ ۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّۚ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا (٥٦) إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ لَعَنَہُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابً۬ا مُّهِينً۬ا (٥٧) وَٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ بِغَيۡرِ مَا ٱڪۡتَسَبُواْ فَقَدِ ٱحۡتَمَلُواْ بُهۡتَـٰنً۬ا وَإِثۡمً۬ا مُّبِينً۬ا (٥٨)
تر جمہ :اے ایمان والو نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو مگر اس وقت کہ تمہیں کھانے کےلئے اجازت دی جائے نہ اس کی تیاری کا انتظام کرتے ہوئے لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہو پھر جب تم کھا چکو تو اٹھ کر چلے جاؤ اور باتوں کے لیے جم کر نہ بیٹھو کیوں کہ اس سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتا ہے اور حق بات کہنے سے الله شرم نہیں کرتا اور جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے باہر سے مانگا کرو اس میں تمہارے اوران کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی ہے اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم رسول الله کو ایذا دو اور نہ یہ کہ تم اپ کی بیویوں سے آپ کے بعد کبھی بھی نکاح کرو بے شک یہ الله کےنزدیک بڑا گناہ ہے (۵۳) اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ تو بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے (۵۴) ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اورنہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور الله سے ڈرتی رہو بے شک ہر چیز الله کے سامنے ہے (۵۵) بے شک الله اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی اسپر دورد اور سلام بھیجو (۵۶) جو لوگ الله اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر الله نے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے (۵۷) اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں (۵۸)

بنو قریظہ کا وفد حاضر ٰی کی اجازت طلب کر رھا تھا
اللہم صل علی سید نا محمد و آلہ و اصحا بہ اجمعین و سلمو تسلیما کثیرا کثیرا بعدد کل معلوم لکٗ--

Monday 30 January 2012

مریکہ اور مغربی طاقتوں کے زوال کے واضح آثار

مریکہ اور مغربی طاقتوں کے زوال کے واضح آثار
  تحریر: عبدالقیوم

 2012ء کا سال بہت اہم ہے اس میں امریکہ، فرانس اور روس کے صدارتی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ کا زوال بھی شروع رہے گا اور جیو پولیٹیکل، جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامکس ماحول اپنا رنگ مزید بدلے گا۔ مالی اور انسانی سرمائے کی مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت جاری رہے گی۔

یورپ کے قرضوں کا بحران اب مزید گھمبیر ہو چکا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یورپ میں اب مالیاتی بم پھٹنے شروع ہو گئے ہیں۔ 13 جنوری کو جب امریکہ فینانشل مارکیٹ بند ہوئی تو 9 یورپین ممالک کی کریڈٹ ریٹینگ دھڑم کر کے ایسی گری کہ پورے یورپ کی مالیاتی منڈیوں میں تہلکہ مچ گیا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان ممالک میں فرانس اور آسٹریا جیسے بہت اہم ممالک بھی شامل ہیں، جن کی کریڈٹ رئیٹنگ AAAسے نیچے جا گری۔ جب کسی ملک کی کریڈٹ ریٹنگ گرتی ہے تو دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اُن کو اول تو قرضہ دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں یا پھر قرضے پر سود کی شرح کو بڑھا دیتے ہیں۔

جب ان ممالک کو قرضے نہیں ملتے یا مہنگے قرضے ملتے ہیں تو ان ممالک کے ترقیاتی منصوبے بند ہو جاتے ہیں، بے روزگاری جنم لیتی ہے۔ اس طرح مالی اور معاشی معاملات اور دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ دنیا اب ایک مزید زبردست گلوبل Double Dip ارلیشسن میں داخل ہونے والی ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ماضی میں بھی گرتی رہی ہیں لیکن 13جنوری کو جو کچھ ہوا، اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مثلاً فرانس اور آسٹریا کے علاوہ اٹلی، سپین، پرتگال، سائپرس، مالٹا، سلوواکیا اور سلووانیا سمیت بہت سارے ممالک کی کریڈٹ ریٹنگ کا گر جانا بہت غیر معمولی ہے۔

کچھ مغربی معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ساحل پر بنے ہوئے ایک ریت کے گھروندے سے کم نہیں۔ 2008ء کے معاشی بدحالی کی پہلی لہر نے کئی ملین امریکیوں کو نہ صرف بےروزگار کیا بلکہ کروڑوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ اب معاشی بدحالی کی دوسری سونامی اس ساحل سمندر سے ٹکرا رہی ہے۔ جس پر امریکہ اور یورپ کے ریت کے خستہ حال محل موجود ہیں۔ ایک ماہر معاشیات نے کہا:۔

"Economic Collapse takes time. The US greatest economic machine is most definitely declining. An other wave is comming. Many more will come some day America will be such a horror that it will be hard to believe that it is same place that many of us grew up in"
یعنی معاشی دیوالیہ پن اچانک نہیں بلکہ آہستہ آہستہ آتا ہے امریکی معاشی مشین یقیناً زوال کا شکار ہے۔ اب معاشی بدحالی کی اگلی لہر دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔ اس کے بعد اور بہت ساری لہریں بھی آئیں گی اور امریکی معاشی نظام ایسے تباہ ہو گا کہ ہم امریکن پہچان بھی نہ سکیں گے کہ یہ وہ امریکہ ہے جہاں ہم نے پرورش پائی تھی۔

Simon Black لکھتا ہے کہ اب امریکہ سمیت مغربی ممالک اتنے مقروض ہو چکے ہیں کہ وہ یہ قرضے نہیں اتار سکتے۔ ایسی صورتحال میں جب آپ کی GDP کا بڑا حصہ سود ادا کرنے پر صرف ہو جائے تو معاشی ترقی ممکن نہیں۔ بیمار معیشت کو سیاسی اور کچھ مالی ٹیکے لگانے سے کام نہیں چلتا۔ ایک ایسا بین الاقوامی مالیاتی نظام جس کا سارا دارومدار بے معنی کاغذی کرنسی پر ہو، وہ ضرور ایک طویل مدت معاشی Depression کو جنم دے گا۔ اس کے ساتھ جب کسی ملک میں معاشی بدحالی آجائے وہاں Civil Unrest کی تحریکیں بھی جنم لیتی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ماضی میں یہ عروج و زوال آتے رہے، مثلاً 27قبل مسیح میں عظیم رومن ایمپائر کا زوال اس وقت شروع ہوا جبAugustus بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے بعد Tiberius ،Caligula ،Claudiusاور Nero کے ادوار میں صدیوں رومن سلطنت معاشی اعتبار سے سکڑتی رہی اور پانچویں صدی عیسوی میں جب رومن زوال پذیر ہوئے تو اس وقت آخری صرف پچاس سالوں میں دنیا کے تاریخی شہر روم سے تقریباً 75 فیصدی آبادی نقل مکانی کر چکی تھی۔ مغربی تجزیہ نگار کے مطابق جس طرح رومن ایمپائر، سویت یونین اور سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوئے، بالکل اسی طرح اب مغربی سلطنت کا زوال شروع ہو چکا ہے۔

2012ء کا سال بہت اہم ہے اس میں امریکہ، فرانس اور روس کے صدارتی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ کا زوال بھی شروع رہے گا اور جیو پولیٹیکل، جیو اسٹرٹیجک اور جیو اکنامکس ماحول اپنا رنگ مزید بدلے گا۔ مالی اور انسانی سرمائے کی مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت جاری رہے گی۔
 قارئین کرام، اب دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر 2012 میں اور کونسے strategic مسائل قوموں کی برادری پر اپنے اثرات چھوڑیں گے۔ 

(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ سال 2012ء میں بھی دنیا معاشی بدحالی اور مالی مشکلات کے چنگل میں رہے گی۔ اس سال بھی امریکہ، یورپ اور جاپان کا معاشی مشکلات سے باہر آنا مشکل نظر آتا ہے۔ چین، ہندوستان اور برازیل کے بھی مغربی معاشی مفکر 2012ء کے سال کو کوئی اچھا سال تصور نہیں کر رہے۔ چین کا Yuan ساری کوششوں کے باوجود گلوبل کرنسی نہیں بن سکے گا۔ مغربی دنیا کا غیر تسلی بخش Debt-to-GDP ریشو ایک سب سے بڑا مسئلہ رہے گا۔

(2) 2012ء میں دنیا کا ایک اور Strategically بہت اہم مسئلہ توانائی کے لیے زبردست بین الاقوامی رسہ کشی ہو گا۔ یہ تناؤ نہ صرف جاری رہے گا، بلکہ یہ بڑھ جائے گا۔ امریکہ جو پوری دنیا کی آبادی کا صرف 5% ہے وہ دنیا کی 25 فیصدی انرجی استعمال کرتا ہے۔ امریکہ روزانہ 20 ملین بیرل تیل استعمال کرتا ہے۔ جس میں سے صرف 8 ملین بیرل وہ خود پیدا کرتا ہے اور 12 ملین بیرل تیل ہرروز اس کو درآمد کرنا پڑتا ہے اور بیرونی انرجی پر اس کا انحصار جو پہلے 44 فیصدی تھا اب 64فیصدی ہو گیا ہے۔ یہ تیل زیادہ تر خلیج فارس کی ریاستوں اور سعودی عریبیہ سے آتا ہے۔ جہاں دنیا کے کل Proven تیل کے ذخائر کا تقریباً دوتہائی موجود ہے۔ سعودی عریبیہ دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے، جو ہر روز دس ملین بیرل تیل فروخت کرتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے امریکہ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ایران کو کہتا ہے کہ ایٹمی ہتھیار نہ بناؤ اور ایران پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ اگر یہ پابندیاں حد سے بڑھیں تو ایران سٹریٹ آف ہرمز کو بند کر دے گا۔ امریکہ کہتا ہے اس کا مطلب اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔ امریکہ افغانستان میں بھی اس لئے مار کھا رہا ہے چونکہ اس کی نظریں وسطی ایشائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر پر مرکوز ہیں۔ یہ دنگل سال 2012ء میں بھی جاری رہے گا۔ چونکہ گلوبل انرجی کی مانگ دن بدن بڑھ رہی ہے۔ شمالی افریقہ، خلیج فارس اور گلف آفGuinea سے اگر یورپ کو تیل میں رکاوٹ آئی تو یورپ کا روس پر دارومدار مزید بڑھ جائے گا۔

(3) مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق 2012ء میں امریکہ کی گلوبل اسٹرٹیجک کریڈیبلٹی بہتر ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔ معاشی مشکلات اور امریکہ کی اپنی رعونت اور غلط پالیسیاں بھی امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر نہیں ہونے دیں گی۔

(4) یورپ کی بدحالی کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی اور فرانس، معاشی اور مالیاتی معاملات کو یورپین کرنسی زون سے الگ کر کے نہیں دیکھنا چاہیے۔ جس سے یورپ کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صورتِحال بھی 2012ء میں برقرار رہے گی۔

(5) عرب سپرینگ کے طوفان میں اگر مصر، انڈونیشا، لیبیا، یمن، بحرین اور شام میں اسلامسٹ آ گئے، جیسے مصر میں اخوان المسلمین 47 فیصدی نشستیں جیت چکے ہیں۔ تو یہ بھی امریکہ کے لیے باعث پریشانی ہے، چونکہ یہ امریکی زوال میں تیزی لائے گی۔

(6) 2012ء میں نائجیریا کی صورتِحال بھی بدتر ہو سکتی ہیں۔ نائجیریا میں انرجی کے ذخائر ہیں۔ امریکہ اور یورپ ان ذخائر میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن نائجیریا میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ چونکہ وہاں زبردست تناؤ ہے۔ نائیجریا میں اگر خانہ جنگی چھڑی تو یہ امریکہ اور مغرب کے لئے کوئی اچھی خبر نہ ہو گی۔
 

بدن کی خاک سمیٹوں کہ روح کی خوشبو

بدن کی خاک سمیٹوں کہ روح کی خوشبو


-کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے حالانکہ موسیقی روح کو کھاجاتی ہے۔ علم ک ے بار ے میں کہا گیا ہ ے کہ ہضم ہو جاءے تو تریاق، ہضم نہ ہو تو زہر، ہضم ہو جاءے تو انسان نظام الملک بن جاتا ہ ے اور سیاست نامہ جیسی تصنیف وجود میں آ جاتی ہ ے اور ہضم نہ ہو تو حسن بن صباح بن کر ظاہر اور باطن کی تاویلیں گھڑ کر قلعہ الموت میں چھپ کر فتن ے جگان ے لگتا ہ ے ”پرواز ہ ے دونوں کی اسی ایک فضا میں شاہین کا جہاں اور ہ ے کرگس کا جہاں اور“ پھر روح کی یہ غذا بدن کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر نفس کی ادا بن جاتی ہے۔ ابھی پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ امن کی آشا کا دیپ ہاتھوں میں لی ے ہوس کی آگ بھڑکان ے وال ے اس ے آتش زیر پا سمجھ کر رقص بسمل کی مثال ہو گئے۔ ادھر خبروں کی آڑ میں اشارہ ابرو دیا ادھر خدایان زر اور ان ک ے زور س ے کٹھ پتلی بن ے زبان ک ے تاجر اور قلم ک ے مہاجر کہ روز اپنا مقام اور قیام بدلن ے ک ے عادی ہیں وہ بھی سرگرم ہو گئے۔ بات صرف تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی پہ پابندی کی تھی نہ کہ میخانوں میں گھنگرو کی جھنکار پہ بندش کی۔ جن ماں باپ کی جوان اولاد ان اداروں میں زیر تعلیم ہ ے ان س ے پوچھ لیا ہوتا کہ وہ کیا چاہت ے ہیں۔ دن رات جمہوریت کا راگ الاپن ے وال ے ایسا کوئی سرو ے کیوں نہیں کروالیت ے جو یہ مٹھی بھر مراعات یافتہ طبق ے ک ے طبلچی اپنی تاک دھنا دھن کو اکثریت پہ تھوپنا چاہت ے ہیں، ہوس چھپ چھپ کر سینوں میں بنا لیتی ہ ے گھر اپنا۔ اور وہ جو گاہ ے گاہ ے خوننابہ لال مسجد کا ماتم کرت ے ہیں اگر اپن ے ٹاک شو میں جو اسمال نہیں کیپیٹل کہلاتا ہ ے اگر یہ کہیں کہ ”ہیرا منڈی اور ڈیفنس ک ے مجروں کو نہیں روکا جا سکتا تو پھر یہ پابندی کیوں“ تو حیرت ہوتی ہے۔ کیا اس بازار کی رسم وروایات کو مدرسہ میں رواج دینا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہ ے کہ جب کوئی بچہ علم حاصل کرن ے گھر س ے نکلتا ہ ے تو واپس آن ے تک کا وقفہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ آپ اس عبادت کو کس غلاظت میں ملوث کرنا چاہت ے ہیں۔ کیا مجروں کی زینت کو مسجدوں میں عبادت کی رسم قرار دینا اور گھنگرو کی جھنکار کو اذان کی جگہ دلوانا چاہت ے ہیں کیوں کہ ان کا ادارہ ویس ے بھی مندر کی گھنٹیوں کو گھروں کی خلوت میں ل ے آیا ہے۔ وہ کون اور کس قماش ک ے لوگ ہوت ے ہیں جو اس طرح ک ے پروگراموں میں مہمان خصوصی ہوت ے ہیں اور کن ترغیبات س ے کچ ے ذہنوں کو اپن ے مذموم مقاصد ک ے لی ے ہموار کیا جاتا ہ ے اس کی بیشمار داستانیں اخبارات اور کہانیوں میں بکھری پڑی ہیں، کسی ن ے نہیں روکا کہ آپ سر بازار می رقصم کا نعرہ مستانہ بلند کریں اور ب ے حجابانہ اپن ے اعضاءکی شاعری کی داد وصول کریں لیکن اس کی جگہ وہ گلیاں اور چو بار ے ہیں جہاں ہیر ے بکت ے ہیں وہ ادار ے نہیں جہاں کردار ڈھلت ے ہیں۔ حیرت ہوتی ہ ے عمران خان پہ کہ انہوں ن ے دوسر ے ک ے چباءے ہوءے لقم ے س ے داد لذّت دی، کیا صرف اس لی ے کہ کمپنی کی مشہوری مطلوب تھی یا اینکر کی خوشنودی۔ بہت س ے لوگ انہیں تبدیلی کا نقیب اور روشن کل کی نوید سمجھ ے بہت کچھ آس لگاءے بیٹھ ے ہیں انہیں مجبور و مایوس نہ کریں کہ وہ یہ سمجھیں کہ عشروں پہل ے کا عمران خان اب بھی کہیں نہ کہیں ان ک ے اندر انگڑائی لین ے لگتا ہے۔ اور یہ شعلہ مستعجل بھڑکن ے س ے پہل ے ہی جل بجھ ے ۔ان کا ووٹ بنک بھٹو صاحب والی نتھ فورس نہیں بلکہ گلیوں اور محلوں میں بسن ے وال ے وہ عوام ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ انہیں یہ شوق ہ ے نہ ہی ان کی پہنچ جسم ک ے ان پیچ و خم تک۔ جو امن ک ے نام پہ اپنی ہوس کی آشاو ¿ں ک ے دیپ لی ے نغمہ سرا یا محفل آرا ہوت ے ہیں وہ آٹ ے میں نمک ک ے برابر ہیں ان ک ے لی ے اس ملک کی عظیم اکثریت کو مایوس نہ کریں۔

قیامِ عدل یا سیاسی بصیرت !

قیامِ عدل یا سیاسی بصیرت !

- اطالوی فلسفی نکولو میکاولی(NICCOLO MACHIAVELLI) (1527-1469ئ) ن ے اپنی مشہور کتابTHE PRINCEمیں حکومت اور اخلاقیات میں عملی طور پر مکمل علیحدگی کرک ے اخلاقی اصولوں س ے سیاست کی آزادی کا اعلان کر دیا اور اس ن ے اپنا یہ نقط نظرعام کیا کہ امورِ سلطنت میں اخلاقی اصولوں کے نفاذ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس ن ے حکمراں ک  لیے یہ جائز قرار دیا کہ وہ عام طور پر رحمت و سفقت اور انسانیت نوازی و دین داری کا مظاہرہ کری، لیکن اگر مصلحت کا تقاضا ہوتو وہ اس کے بالکل برعکس عمل کر سکتا ہے۔ اس کا مفروضا تھا کہ انسان کا مزاج مطلب پرستی اور خود پسندی کاہی، اس لی ے اس ن ے سیاست دانوں کو نصیحت کی کہ عوام پر حکومت ک ے وقت اسی حقیقت کو اپن ے پیش نظر رکھیں۔اس کا خیال تھا کہ انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے شرارت پسند ہ ے اور عقل مند حکمراں کو اپنی سیاست کی بنیاد اسی نقطہ پر رکھنی چاہیے۔ بیرونی سیاست میں میکاولی چھوٹی ریاستوں ک ے مقابلہ میں بڑی سلطنتوں کی تشکیل کا قائل تھا۔ اسی طرح اس کا خیال تھا کہ حکمراں کو اپن ے تصرّفات و اعمال میں انسان و حیوان دونوں ک ے اسالیب کو جمع کرنا چاہیے۔ اگر حیوانی وسائل کی ضرورت پڑ ے تو اس کو لومڑی اور شیر کی مثال سامن ے رکھنی چاہیے۔ اس کو بیک وقت لومڑی اور شیر بننا چاہیے۔ اگر وہ شیر نہیں ہوگا تو وہ اس جال کو ہر گز نہیں دیکھ سک ے گا جو اس ک ے لی ے نصب کیا جاءے گا اور اگر وہ لومڑی نہ ہو تو بھیڑیوں س ے مقابلہ نہ کر سک ے گا، اس لی ے اس کو ایک ساتھ لومڑی اور شیر ہونا چاہیی، یہ بھی یاد رہ ے کہ وسائل کا نہیں بلکہ نتائج کا اعتبار ہوتا ہی، یعنی مقصد کا حصول وسیلہ ک ے جواز ک ے لی ے کافی ہے۔ میکاولی کی تعلیمات عام ہوئیں تو ان کو یورپ ن ے اپنایا، بادشاہوں اور فوجی قائدین ن ے انھیں اپنا شعار بنایا، سیاست دانوں ک ے رجحانات اخلاقی انارکی کی طرف مائل اور جعل و فریب، مکر و سازش کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ اس ک ے نتیج ے میں انتہائی ظلم، دھوکہ و سنگ دلی پر مبنی جنگیں برپا ہوئیں، جن میں عورتیں، بوڑھوں، بچوں اور رحم مادر میں پرورش پان ے وال ے جنینوں تک کو انتہائی سفاکی س ے قتل کیا گیا، ممالک تباہ و برباد کی ے گئی، زمین میں ہر طرح کا فساد پھیلایا گیا اور قیدیوں کو سخت ترین تکلیفیں دی گئیں، حتّٰی کہ انھیں موت ک ے گھاٹ اتار دیا گیا۔میکاولی کا تو 1527ءمیں انتقال ہو گیا لیکن اس کا مسلک اس کی موت ک ے تقریباً ایک صدی بعد تک یورپی ممالک ک ے حکم رانوں میں رائج رہا جنھوں ن ے اعلیٰ اخلاقی قیود و حدود س ے آزاد ہوکر میکاولی فلسفہ کا خوش دلی س ے استقبال کیا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مطلب پرستی اور ذاتی منفعت حکومت کا سیاسی شعار ہے۔ اگرچہ بعد میں بعض سیاست دانوں ن ے میکاولی ک ے خیالات و افکار ک ے خلاف جنگ بھی کی لیکن وہ از سرِ نو لوٹ کر آج دنیا ک ے بیش تر ممالک کا مقبول ِ عام مذہب بن چکا ہے۔ چنانچہ آج ہم جو مطلب پرستی، خودغرضی، ظالمانہ تسلط، دوہر ے معیار کی بدولت عالمی سیاسی تعلقات میں انحراف، اعلیٰ اخلاقی اقدار س ے محرومی دیکھت ے ہیں وہ اسی نقطہ ¿ نظر ک ے مظاہر ہیں۔جدید زمانوں میں میکاولی اور اس جیس ے دیگر افکار یورپ میں عام ہوئے۔ بعد میں ان کی کچھ مخالفت بھی ہوئی اور بعض مصلحین ن ے ان ک ے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی اور بسا اوقات ان پر سخت حمل ے بھی کی ے لیکن عملی دنیا میں لوگ انہیں اصولوں کو اپنا راہنما بناءے رہے۔ اس کا ثبوت یہ ہ ے کہ معاصر عالمی سیاسی تعلقات میں ظلم و استبداد، تسلّط اور غلبہ، رسوخ و نفوذ کی کش مکش اور طاقت و قوت ک ے متنوع وسائل حاصل کرن ے کی کوشش عام ہے۔صورتحال یہ ہ ے کہ آج د نیا میں پائی جان ے والی چھوٹی و بڑی طاقتیں اپنی اندورنی سیاست میں ان ہی اخلاقی برائیوں کا شکارہیں۔اس ک ے باوجود نہ سیاسی قائدین کی کمی ہ ے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کی۔معاملہ یہ ہ ے کہ ہر صبح ایک نئی سیاسی پارٹی عوام الناس کی فلاح و بہبود ک ے نعروں ک ے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔دیکھنا یہ ہ ے کہ سیاسیات ہ ے کیا؟ آئی ے اس کو ماہرین علم سیاسیات کی تعریفات کی روشنی میں سمجھاجائے۔ سیاسیات کیا ہی؟ لغوی مفہوم ک ے اعتبار س ے علم سیاسیات( science political) س ے مراد ریاست کا علم ہے۔ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تر قی ک ے باعث ریاست کی ہیت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان تبدیلیوں ک ے باعث علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل ط ے کرتا چلا گیا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف کرت ے ہوءے ارسطو کہتا ہ ے کہ “علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“ یہ تعریف بہت سادہ ہ ے اور علم سیاسیات ک ے جدید تصور کا احاطہ نہیں کرتی۔ دور جدید ک ے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف ک ے ضمن میں مختلف گروہوں میں بٹ ے ہوءے ہیں۔ بعض علم سیاسیات کو ریاست کا علم کہ کر پکارت ے ہیں اور بعض حکومت کا علم جبکہ بعض مصنفین علم سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیت ے ہیں۔ چند ماہرین علم سیاسیات کو صرف ریاست کا علم ہی سمجھت ے ہیں ان ک ے نزدیک اس علم کا مطالعہ صرف ریاست تک محدود ہے۔ ان مصنفین کی تعریفات درج ذیل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر گارنر ( Prof. Dr. Garner) : "علم سیاسیات کی ابتدا اور انتہا ریاست ہے۔" گریس (Gareis): " تمام اختیارات کا سر چشمہ ریاست ہ ے اور علم سیاسیات ریاست کی اہمیت مقاصد اور معاشی و معاشرتی مسائل س ے بحث کرتا ہے۔" بلخچلی (Bluntschli): " علم سیاسیات ریاست کا علم ہ ے جو ریاست ک ے بنیادی حالات اسکی نوعیت اور اسکی ظاہری حیثیت کی روشنی میں اس ادارہ کو سمجھن ے کی کوشش کرتا ہے۔" جی ایچ جیمز (G.H.James): " علم سیاسیات ریاست س ے شروع ہوتا ہ ے اور ریاست پر ہی ختم ہوتا ہے۔" ان تعریفات کا مرکزی خیال ایک ہی ہ ے کہ علم سیاسیات بنیادی طور پر ریاست س ے متعلق ہے۔ اور اس علم میں مختلف پہلووں س ے ریاست کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ گویا یہ مصنفین حکومت ک ے مسائل کو علم سیاسیات کی بحث میں شامل نہیں سمجھتے۔ مزید براں ان تعریفات میں بہت س ے سیاسی موضوعات و نظریات مثلاً راءے عامہ، سیاسی جماعتوں، انتخابات، آزادی اور مساوات وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ بعض مصنفین ک ے نزدیک علم سیاسیات صرف حکومت س ے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ ان مصنفین میں س ے اہم تعریفات درج ذیل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن لیکاک (Prof. Dr. Stephen Leacock): "سیاسیات ایسا علم ہ ے جو حکومت س ے تعلق رکھتا ہے۔" پروفیسر سیل ے ( Prof.Seeley): علم سیاسیات حکومت ک ے حقائق کی جستجو کرتا ہ ے جس طرح کہ معاشیات دولت س ے تعلق رکھتا ہے۔ بیالوجی زندگی سی، الجبرا اعداد س ے اور جیومیٹری ، جگہ اور اسکی وسعت سے۔ ان تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ علم سیاسیات ک ے مطالعہ کو فقط حکومت تک محدود کرنا درست نہیں کیونکہ ا س طرح اس علم کی وسعت محدود ہو جاتی ہے۔ بعض مصنفین زیادہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیت ے ہوءے اس بات کی وضاحت کرت ے ہیں کہ علم سیاسیات کا تعلق حکومت اور ریاست دونوں س ے ہے۔ اس ے صرف ریاست یا حکومت کا علم کہ دینا مناسب نہیں۔ ایسی تعریفات درج ذیل ہیں۔ پروفیسر گلکرائسٹ ( Prof. Gilchrist): "علم سیاسیات ایسا علم ہ ے جو ریاست اور حکومت دونوں کی نوعیت س ے بحث کرتا ہے۔" گیٹل (Gettell): " علم سیاسیات ریاست اور ریاستوں ک ے مابین تعلقات س ے تعلق رکھن ے والا علم ہ ے اور یہ حکومت ک ے مختلف اداروں س ے بھی بحث کرتا ہے۔" پال جینٹ ( Paul Janet): " فرانسیسی مصنف پال جینٹ کا کہنا ہ ے کہ علم سیاسیات عمرانی علوم کا وہ حصہ ہ ے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت ک ے اصولوں س ے تعلق رکھتا ہے۔" پروفیسر ڈاکٹر لاسکی ( Prof.Dr.Laski): " علم سیاسیات ریاست ک ے علاوہ حکومت کی تنظیم اور ارتقاءکا بھی احاطہ کرتا ہے۔" ای سی سمتھ (E.C.Smith): " علم سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہ ے جو ریاست ک ے نظری ے اور تنظیم اور حکومت اور اسکی کارکردگی س ے متعلق ہے۔" اصل میں سیاست (Politics) "ساس" س ے مشتق ہ ے جو یونانی لفظ ہ ے ، اس ک ے معنی شہر و شہرنشین ک ے ہیں ۔ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہت ے ہیں جس ک ے انجام دین ے س ے لوگ اصلاح س ے قریب اور فساد س ے دو رہوجائیں۔اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہت ے ہیں ،امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھن ے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔ قرآن میں سیاست کا ذکر: قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست ک ے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہی، مثلاً عدل و انصاف ، ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ،مظلوموں س ے اظہارِ ہمدردی وحمایت ،ظالم اور ظلم س ے نفرت اور اس ک ے علاوہ انبیائاور اولیءکرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ (سورہ بقرہ: ۲۴۷ ) "ان ک ے نبی ن ے ان س ے کہا کہ اللہ ن ے طالوت کو تمہار ے لی ے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولی: ”ہم پر بادشاہ بنن ے کا وہ کیس ے حقدار ہو گیا؟ اس ک ے مقابل ے میں بادشاہی ک ے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے“۔ نبی ن ے جواب دیا:”اللہ ن ے تمہار ے مقابل ے میں اسی کو منتخب کیا ہ ے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی ک ے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہ ے کہ اپنا ملک جس ے چاہ ے دی، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہ ے او ر سب کچھ اس ک ے علم میں ہ ے "۔ اس آیت س ے ان لوگوں ک ے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہ ے جو سیاست ک ے لءے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیت ے ہیں ،سیاست ک ے لءے ذاتی طور پر ” غنی “ ہونا کا فی نہیں ہ ے بلکہ اس ے عالم وشجاع ہونا چاہئے۔ اس نفی میں یہ بات بھی مخفی ہ ے کہ سیاست داں جہلا نہ ہوں اوروہ ایس ے افرادبھی نہ ہوں جو ذاتی اغراض ک ے تحت لوگوں کی خدمت کا دم بھرت ے ہوں۔ اس ک ے برخلاف اسلام خدمت انسانیت اور فلاح و بہبود ک ے کام کو مذہبی عبادت کا درجہ اور خدمت ِ خلق کی ذمہ داری کو روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ اس ک ے برخلاف آج دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہ ے اس کا بنیادی سبب یہی ہ ے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہ ے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت ک ے ساتھ استعمال کر رہا ہ ے ، یا وہ ب ے رحم اور سنگدل ہ ے ، یا بخیل اور تنگ دل ہ ے ، یا بد خو اور بد کردار ہ ے ، طاقت ک ے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اقتدار کا سر چشمہ کیونکہ اللہ کی ذات ک ے سوا کوئی نہیںاسی لی ے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز ک ے ساتھ اس ک ے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہون ے کا ذکر لازماً کیا گیا ہ ے تاکہ انسان یہ جان ل ے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہ ے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہ ے کہ زمین س ے ل ے کر آسمانوں تک کوئی اس ک ے فیصلوں کو نافذ ہون ے س ے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہ ے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہ ے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہ ے ٹھیک ٹھیک علم ک ے مطابق کر تا ہے۔ رحیم بھی ہ ے ، اپن ے ب ے پناہ اقتدا کو ب ے رحمی ک ے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہ ے ، اپن ے زیر دستوں ک ے ساتھ خر ±دہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔ وہاب بھی ہ ے ، اپنی رعیت ک ے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ ب ے انتہا فیاضی کا برتاو ¿ کر رہا ہے۔ اور حمید بھی ہ ے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اب یہ صفات اگر ان لوگوں میں پیدا ہو جائیں جو اللہ کی زمین پر اللہ ک ے نظام کو نافذ کرن ے وال ے ہوں تو انسانیت ک ے لی ے وہ خیر و فلاح کا ذریعہ بنیں گے۔عوام کی نظر میں محبوب ہوں گ ے اور لازماً اقتدار میں آئیں گی، قبل اس ک ے کہ وہ عظیم قربانیاں پیش کر چک ے ہوں! قیامِ عدل اور موجودہ سیاست: موجودہ حالات ک ے تناظر میں دیکھا جاءے تو معلوم ہوتا ہ ے کہ فل الوقت نظام ِ حکومت اور ریاست کا نظم و نسق جن بنیادوں پر قائم ہ ے اس میں میکاولی ک ے نظریہ و فلسفہ پرہمار ے سیاستداں منجملہ عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہ ے کہ ملک کی صورتحال پر نگاہ ڈالی جاءے یا عالمی سیاست ،دونوں ہی مقامات پر ان طور طریقوں کو اپنایا جا رہا ہ ے جس س ے عوام الناس پریشان ہیں ۔چونکہ اسلام رفاہ عامہ کے کاموں کو عبادت سے تعبیر کرتا ہے ،یہاں انسان تو انسان بھوکے جانوروں کو چارہ ڈالنا اور پانی پلانا آخرت میں نجات کا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے پس اسی نکتہ کے تحت مسلمان سیاسی باگ دوڑ اپن ے ہاتھ میں لینا چاہت ے ہیں۔اب جو لوگ اس نکتہ ک ے گرد جمع ہو جائیں ،ان کی قدر کی جانی چاہیی،ان ک ے حوصلوں کو بلندکرنا چاہیی، ان کی مدد اور تعاون کیا جانا چاہی ے اور ان ک ے ساتھ کاندھ ے س ے کاندھا ملا کر اتحاد و یگانگت کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔یہ وہ لوگ ہیںجو ذاتی اغراض س ے اوپر اٹھ کر انسانیت کی فلاح و بہود ک ے لی ے اٹھ ے ہیں۔اُن حالات میں جہاں ظلم و ذیادتی اور ناانصافی اپن ے عروج پر ہے۔ایس ے لمحہ اگر اسلامی جذبہ خدمت خلق ، رفاہ عامہ اور قیام عدل ک ے لی ے کوئی اٹھ ے تو کیونکر وہ اللہ یا اس کے بندوں کی نگاہ میں سزا کا مرتکب ٹھہری!

جشن صبح بہاراں کا پیغام ۔۔۔۔ از ۔۔۔۔۔۔ محمد احمد ترازی

جشن صبح بہاراں کا پیغام ۔۔۔۔ از ۔۔۔۔۔۔ محمد احمد ترازی
محمد احمد ترازی
 
ماہ ربیع الاوّل اور اِس ماہ مبارکہ میں 12،ربیع الاوّل کے دن کا ہر لمحہ اور ہر گھڑی اہل ایمان کیلئے بہار ِجاودانی کا پیغام لے کر آتی ہے۔کائناتِ ہست و بود کو ہمیشہ تاریخ کے اِن مقدس لمحات پر ناز رہے گاجو 12،ربیع الاوّل کی صبح سعادت کے دامن میں سمٹ آئے اور اِن مقدس لمحات نے اِس دن کو پوری تاریخ ِانسانی میں دیگر تمام ایام سے ایسا جدا اور ممتاز کردیا کہ اب اِس دن کے بعد قیامت تک کوئی بھی دن اِس دن سے زیادہ معزز،مکرّم،افضل اور مقدس نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ دن ”وجہ وجود ِکائنات“ کے عالمِ دنیا میں ظہور کا دن ہے ۔
بارہ ربیع الاوّل کا دن صرف تاریخ ِانسانی کا ہی نہیں پوری کائناتِ عالم کا وہ عظیم ترین دن ہے۔جس کے انتظار میں گردش شام و سحر نے ماہ و سال کی لاکھوں کروٹیں بدلی تھیں۔اِس دن فضائے عالم مسرتوں کے دلآویز نغموں سے گونج اٹھی اور اِس صبح نور کے پاکیزہ اُجالے نے شمس و قمر کو روشی اور ستاروں کو ضو فشانی بخشی ۔اِس دن کی صبح انقلاب کی اثر آفرینی نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔وہ تاریخ جس کا ورق ورق درماندگی اور انسان دشمنی کی گواہی دے رہا تھا۔وہ تاریخ جس کا دامن ظلم و بربریت سے تار تار تھا۔
وہ تاریخ جس میں قیصر و کسریٰ کا جبر و استبداد لوگوں کا مقدر بن چکا تھا۔لیکن ظہور قدسی کے اِن مبارک لمحات نے تہذیب انسانی کو وقار،ثقافت کو تقدس،علم کو وسعت،فکر کو ندرت،عمل کو طہارت اور جذبوں کو پاکیزگی بخشی اورنفرتوں اور عداوتوں کے خار زار لامتناہی صحرا میں محبت و اُخوت اورمروت و خلوص کے گلستان آباد کئے۔یہی وہ دن جس کیلئے قدرت نے شعور انسانی کو تمام ارتقائی منازل سے گزار کر بلوغت کے اُس مقام پر پہنچادیا تھا جہاں اب اُسے ہدایت و رہنمائی کیلئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی نمونہ کما ل اور جامع الصّفات ہستی کی شدت سے ضرورت تھی۔

بارہ ربیع الاوّل کا دن توحید باری تعالیٰ کی پرچم کشائی اور ظلم و ستم میں جکڑی ہوئی اقوام اور سسکتی ہوئی انسانیت کی رہائی کا دن ہے۔یہ دن صداقتوں کا امین اور سعادتوں کا پیامبر ہے۔اِس دن طلوع ہونے والے سورج کی روشنی نے انسانیت کو افراط و تفریط کی دلدل سے نکال کر توازن و اعتدال کی راہ پر گامزن کردیا۔اِس دن نے تمام نسلی،لسانی،طبقاتی اور جغرافیائی بتوں کو توڑ کر صفحہ ہستی پر ایک ایسے خدائی نظام کو جنم دیا جس نے روئے زمین پر امن و محبت،اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کرکے تمام جھوٹے باطل امتیازات کا خاتمہ کردیا اور بھٹکی ہوئی مخلوق کو خالق حقیقی کی دہلیز پر لاکر سجدہ ریز کردیا ۔
یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم نجات ہے شرک سے،جہالت سے،ظلم سے،غلامی کی زنجیروں سے،شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں سے اور جھوٹے خداؤں کی خدائی سے،یوم میلاد دراصل اُس انقلاب کی صبحِ نو کی نوید ہے جس نے انسانیت کے دامن سے ظلم و درندگی کے بدنما دھبوں کوصاف کرکے اُسے رحمت و رافت کے خوشبودار اورصدا بہار پھولوں سے بھر دیا اوراِس انقلاب نے عرب کے صحرا نوردوں کو خضرِ راہ بنادیا۔چرواہوں کو قافلہ سالاری عطا کی اور غلاموں کو وہ ہمت و حوصلہ اور مرتبہ و مقام دیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سیّدنا بلال(میرے آقا بلال رضی اللہ عنہ) کہلائے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے یتیموں،بے کسوں اور مفلسوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوئے جس کے حقدار اِس انقلاب سے قبل صاحب ِجاہ و حشمت و ثروت ہوا کرتے تھے۔ گویایوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عظمت انسانی کا محافظ و پاسباں قرار پایاجس کی بدولت انسانیت کو عظمت و شرف کی معراج عطا ہوئی۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل پوری کائنات کیلئے ربّ کائنات کے اُس نظام کا اجراء ہے جس کی حکمرانی تما م قومی،لسانی اور جغرافیائی بتوں کو پامال کرکے برابری کے حقوق عطا کرتی ہے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کا وہ آخری ورلڈ آرڈر ہے جس کے بعد دنیاکو کسی نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں رہتی۔لاکھوں درود و سلام اُس ذات اقدس پر جس کے سر انور پر ربّ کائنات نے خاتم ُ النبین،رحمتہ ُاللعالمین اور سیّد المرسلٰین صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج سجا کر پوری کائنات کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ بنادیا۔ابتدائے آفرنیش سے لے کر تا قیامت اور مابعد قیامت جس کو جو کچھ بھی ملا یا ملے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ کرم کا تصدق ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی ہر چیز کا وجود اور اِن اشیاءمیں موجود رنگ و نور اور حسن و رعنائی کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی وجود کی برکت ہے ۔
پیغمبر انقلاب،سپہ سالار اعظم،امام المجاہدین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ہر ہر گوشہ اور ہرہر پہلو ہمہ گیر،جامع اور کامل نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ بنی نوع انساں کیلئے روحانی، اخلاقی، معاشی، سیاسی اور سماجی تمام مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلامی ریاست” مدینہ “کی بنیاد رکھی اور جہاد کے زریعے اس کی حدود کو وسیع کیا۔اس لیئے کہ دین حق کو شرق سے غرب تک غالب کردینے کی جدوجہد ”وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اِسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے“(الصّف :9)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض ِمنصبی کا حصہ تھی اور اسی مقصد کے حصول کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر باطل قوتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں۔چشم ِ زمانہ دیکھتی ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر مکہ کی گلی کوچوں میں لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے دکھائی دیتے ہیں۔کبھی دعوت ِ حق کی پاداش میں طائف کے بازاروں میں پتھروں سے لہولہان ہوتے ہیں۔ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں معاشی و معاشرتی بائیکاٹ برداشت کرتے ہیں۔دشمنوں کی برہنہ تلواریں درِ دولت کا محاصرہ کرتی ہیں۔
ہجرت مدینہ ہوتی ہے۔کبھی معرکہ بدر میں صحابہ کرام کو صف آراء کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی انہیں اُحد کے مورچوں پر متعین کرتے نظرآتے ہیں۔کبھی دندان مبارک کی شہادت،کبھی چہرہ انور کا زخمی ہونا،کبھی شکم مبارک پر پتھر باندھ کر اسلام کے دفاع کیلئے خندقیں کھودنااور کبھی خیبر،کبھی حُنین،کبھی قریضہ کی جنگیں۔غرض کہ پے درپے مہمات و غزوات۔دس سالہ مدنی زندگی میں کم و بیش 27غزوات میں بنفس ِ نفیس شرکت اور56سرایا میں دشمن اسلام کی جانب لشکر کی روانگی۔انِ تمام غزوات و سرایا اور مصائب و آلام کو برداشت کرنے کابنیادی مقصد دین حق کو دنیا میں غالب کردینے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔اس لیئے کہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک دین صرف عبادات و ریاضات کی ادائیگی اور تکمیل کا نام نہیں تھا ۔
آج عام آدمی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک اُمت مسلمہ کے افراد مایوسی و بے بسی اور اپنے مقصد سے عدم آشنائی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔باطل طاغوتی اور سامراجی طاقتیں اِسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ کشمیر، فلسطین،عراق،افغانستان،بوسنییا،چیجینیا،مراکش،الجزائر اوربرماسے اُٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل اُمت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ بنے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کے خون سے زمین کا دامن سرخ ہورہا ہے اوروقت کے چنگیز و ہلاکو انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کررہے ہیں۔

اُن کی آتش انتقام بجھنے نہیں پارہی۔دنیا بھر میں مظلوم مسلمان یہود و نصاریٰ کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے سسکیاں لے رہے ہیں۔لیکن جینوا کے کسی معاہدے،اقوام متحدہ کے کسی چارٹرڈ اور سلامتی کونسل کی کسی قرار داد سے اُن کی داد رسی نہیں ہورہی ہے۔طاغوتی اور سامراجی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے جو چاہتی ہیں کر گزرتی ہیں۔عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وحشیانہ جنگی کاروائیاں،فلسطین میں صہیونیت کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام،آئے دن مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی،بوسینیا کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی،اور اجتماعی قبروں میں تدفین،چیچینیا میں سرخ سامراج کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام اور جذبہ آزادی کا کچلا جانا۔
بھارت میں قوم پرست ہندوؤں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام اور بابری مسجد کی شہادت،کشمیر میں بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں مظلوم کشمیری مسلمانوں کا قتل،دختران کشمیر کی بے حرمتی اور افغانستان میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی جیسے واقعات جہاں آج عالمی ضمیر کے دوہرے معیار کی شرمناک علامتیں ہیں۔وہاں دنیا میں پانڈوں اور آبی و جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والی این،جی اوز اور امن ِ عالم کے نام نہاد علمبردار وں اور ٹھکیداروں کی اِن واقعات پر پراسرار خاموشی بھی اُن کے مسلمانوں کے خلاف اندرونی جذبہ نفرت کی آئینہ دار ہے۔
آج اُمت مسلمہ کے افراد،حکمران اور ادارے جن مقتدر افراد اور اداروں سے اپنے بنیادی حقوق کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں وہ خود مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔آج پوری دنیا میں اُمت مسلمہ کیلئے موجودہ صوتحال دراصل اُن صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے ۔جن میں اہل صلیب نے مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز عبرت ناک شکست کھائی تھی۔آج وہ عالم اسلام کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں سے اپنی اُسی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لے رہے ہیں۔

اُسی انتقام کی آگ نے آج اُمت مسلمہ کو دنیا بھر میں لہو رنگ کر رکھا ہے۔بدقسمتی سے اہلِ صلیب کو مسلمانوں کے خون سے آتش انتقام بجھانے کا موقع خود اُمت نے دیا ہے۔وہ لمحہ غفلت جس نے ہماری نظروں سے ہماری منزل اوجھل کردی اور اُمت کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دیا،اب ہمیں اس لمحہ غفلت سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔عالم اسلام کو اپنی مجرمانہ خاموشی کو ترک کرنا ہوگا۔اور اپنے جذبہ حریت کو بیدار کرکے میدان کارزار کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اوریہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب ہم انفرادی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت پیدا کرکے مقصد بعثت نبوی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اوردین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کردینے کیلئے” انقلاب نظام ِ مصطفی“ کا راستہ اختیار کریں گے ۔

یہ بار امانت اٹھانے کیلئے ہمیں اُس سفر انقلاب کامسافر بننا پڑے گا۔جس کے قافلہ سالار پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ماہ ربیع الاوّل ہمیں پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا پیغام دیتا ہے۔آج اِس عشق و محبت کو اَمر کرنے اور دائمی بقاء کے حصول کیلئے مقصد بعثت نبوی سے بھی عشق و محبت کی شدید ضرورت ہے ۔اِس مرتبہ ہمیں جشن میلاد مناتے ہوئے اپنی انفرادی،قومی اور عالمی حیثیت پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے اورجہاں تک بھی ممکن ہو اُنہیں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگنے کی اُمنگ پیدا کرنا چاہیے۔
اپنے وجود کی بقاء اور اپنی سلامتی کی ضمانت کیلئے ہمیں اپنے اندر وحدت اور دینی عصبیت پیدا کرنا ہوگی۔غور طلب بات یہ ہے کہ ہم پر حملہ آور قوتیں متحد ہورہی ہیں۔اُن کے صدیوں کے باہمی اختلافات ختم ہو رہے ہیں اور وہ اپنے انفرادی مفادات پر اپنے قومی مفادات کوترجیح دیتے ہوئے عالم اسلام کے گردگھیرا تنگ کررہے ہیں۔دوسری طرف ہم ایک خدا،ایک رسول،ایک دین اور ایک کعبہ کو ماننے والے باہم منتشر اور متفرق ایک بکھرے ہوئے ریوڑ کی طرح خونخوار بھیڑیوں کی زد میں ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اُمت اپنے محسن آقا پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے کے بجائے اغیار کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے ۔
آج ملت ِ اسلامیہ کو درپیش داخلی،خارجی،نظریاتی اور جغرافیائی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی وابستگی اختیار کرنا ہوگی۔اپنے اسلاف کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔باہم متحدو منظم ہوکر تمام استحصالی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا اور اپنی عظمت رفتہ کے حصول کیلئے مصائب و آلام اور قربانیوں کی تاریخ دہرا کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وطن عزیز پاکستان پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے سرفروشوں،جانثاروں اور غلاموں کا ملک ہے اور یہ زمین انقلابِ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روح پرور جذبوں کی امین ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کی اساس و بنیاد اسلام کی اولین ریاست، ریاست مد ینہ کا ایسا عکس ہے۔
جس کا نصب العین ہی غلبہ دین کی جدوجہد کیلئے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نفاذ ہے۔یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح سعادت سے لے کر آج تک ہر سال پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اِس صبح سعید کا شایان شان طریقے سے استقبال کرتے ہیں۔درود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔بیان و نعت کی محفلیں سجاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب پر تقاریر ہوتی ہیں۔جلسے اور جلوسوں کا ا ہتمام کیا جاتا ہے ۔گلی محلوں اور شہروں کو سجایا جاتا ہے ۔چراغاں کیا جاتا ہے ۔
اس لیئے کہ یہ دن اُمت ِ مسلمہ کیلئے افضل ترین دن ہے اور اِس دن کو جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر منانا اہل ایمان کیلئے باعث ذریعہ نجات ہے۔یہ سب درحقیقت تحدیث نعمت،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ اپنے تعلق کے اظہار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام ہدایت کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ ہے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی تعلق کے اظہار کا حق تب ہی ادا ہوسکتا ہے۔جب ہم متذکرہ بالا امور کے ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر شعبہ زندگی کو مکمل طور پر پیغمبر انقلاب آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سنت مطہرہ کے سانچے میں ڈھال لیں۔
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات سے اپنے ظاہرو باطن کو انقلاب آشنا کریں اورجشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم تجدید عہد اور یوم انقلاب کے طور پر منائیں۔جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والے خوش بخت مسلمانوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ جشن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ مسرت و شادانی تمہیں مبارک ہو ۔لیکن یاد رہے کہ اِس دن کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ مقصد بعثت نبوی کو سمجھا جائےاور اس مقصد کو سمجھ کر تجدید عہدکیا جائے کہ ہم پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں غالب کر دینے کی جدوجہد میں تن من اور دھن کی بازی لگادیں گے۔کیونکہ یہی مقصد بعثت نبوی کی تکمیل اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل پیغام ہے۔جس پر عمل کے بغیر نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کاحق ادا ہوسکتا ہے اور نہ ہی یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے ہوسکتے ہیں ۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تودوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو

Sunday 29 January 2012

ہمارے آقا (ص) سراپا قر آن تھے ۔۔۔از شمس جیلانی ۔ وینکوور

ہمارے آقا (ص) سراپا قر آن تھے ۔۔۔
از شمس جیلانی ۔ وینکوور
ہرسال کی طرح اس سال بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہم دا خل ہو چکے ہیں جسے ہم پورے مہینے بڑے دھوم دھام سے منا تے ہیں اورہر طرح حضور(ص) سے الفت کا اظہار کرتےہیں جوکہ بلا شبہ کر نا چاہیئے۔ عملمائے کرام سیرت بیان فرما تے ہیں ،نعت گو اور نعت خواں حضور (ص) تعریف بیان فرما تے ہیں۔ مگر جہاں تک اتباع ِ رسول (ص)  کاتعلق ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا ،بلکہ ہم نے تو ایک مولوی صاحب کویہ فرماتےسنا  ہےکہ میلاد منانے کے لیئے ہوتی ہے اور سیرت عمل کر نے کے لیئے ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک طبقہ جس کو اپنی پاکبازی پر ناز ہے اور وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا، وہ سارا مہینہ اپنا زور ان کو بد عتی کہنے پر صرف کرتا ہے۔اگر بغور جا ئزہ لیا جا ئے تو دونوں کے یہاں مقصدیت کا فقدان ہے کہ وہ  ہےحضور (ص) کے اسوہ حسنہ کا ذکر کے لوگوں کو عمل کی طرف راغب کر نا ۔ جو دونوں طبقے بھولےہو ئے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک بہن نے ہم سب کی توجہ بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طبقہ کی بے عملی کی طرف دلا ئی تھی جوکہ اب قصے کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے؟ ۔ میں آگے اسی کو قارئین کی نذر کر نے جا رہا ہوں ۔ کیونکہ وہ تحریر ادب میں تھی  وہاں سےبلاگ میں آئی تھی ،  وہاں بہت تھوڑے لوگ پڑھتے ہیں۔ میں  اسےآج اپنے کالم میں اس لیئے پیش کر رہا ہوں کہ زیادہ لوگوں تک پہونچے، دوسرے یہ کہ ہمارے اخبار کی پالیسی ہی یہ ہے کہ ہم عمل کی طرف لوگوں کو راغب کریں اور یہ  ہی مقصد اس آیت کے دینے کا ہے جو سرورق پر روز ِ روشن کی طرح جگ مگا رہی کہ “ مسلمانوں وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو “ قر آن میں یہ ہی ایک آیت اس مضمون کی نہیں ہے بلکہ اس کےعلاوہ بھی جتنی آیتوں میں ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے فورا بعد نیک عمل پر عامل  ہونے کا حکم  بھی ہے۔ عمل کی ظاہر کسوٹی خدا نے ایک ہی رکھی  ہےوہ ہے نماز  جس کی بے انتہا تاکید فرما ئی ہے “ کیونکہ اس کے علاوہ نیکیا ں ریاکاری سے بچنے کے لیئےنہ دکھانے کا حکم ہے “ جبکہ ان کی کچھ شقیں، جیسے زکات ،حج ،وغیرہ کے لیئے صاحب ِ نصاب ہو نا شرط ہے  لیکن نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں ہے اور مردوں کو با جماعت ادا کرنے کا حکم ہے؟ اس کے لیئے ہادیِ برحق (ص) نے ارشاد فرما یا کہ مومن اورکافر میں فرق ہی یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے جب کہ کافر نماز نہیں پڑھتا  “
اور نماز کی افادیت میں اللہ تعالیٰ نے قر آن میں فرما یا کہ یہ تمام برائیوں سے بچاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے اور لوگوں کو کہتے بھی سنا ہے کہ نماز فرض ہے وہ ہم ادا کرتے ہیں اورجو ہم ہیر پھیر کرتے ہیں وہ ہما را کاروبار ہے ؟ جبکہ اس سلسلہ میں بھی حضور (ص)  نےفرمایا کہ اللہ تو اپنی رحمت سے  وہ گناہ معاف کر دے گا جو بندے نے اس کی فرا ئض کی ادا ئگی میں کوتاہی برتی ہوگی مگر وہ معاف نہیں کرے گا جو بندوں کے حقوق اس کی طرف ہو نگے وہ صرف صا حب ِمعاملہ ہی معاف کر یں گے؟ یہاں تک تو ہم  نےعام لوگوں کی بات کی تھی اب آگے ان کی بات کرتے ہیں جوادارہ اور  اس کے بانی افراد کبھی سر چشمہ ہدا یت تھے اور وہاں سے لوگ  کامل ہوکر نکلتے تھے۔آج وہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے؟  یعنی سلسلہ تصوف جس کے سربراہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ “ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں اور عمل بغیر ایمان کچھ نہیں  “ دونوں چیزین لازم و ملزوم ہیں “ ان جملوں میں باب ِعلم نے پورا اسلام بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ قر آن کے مطابق جس کا خدا پر ایمان نہیں ہے اس کابھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور جس کا خدا پر ایمان تو ہے مگر بے عمل ہے اس کا  بھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا یہاں آخرت اچھی بنانے کے لیئے تھا۔
 اب آگے میں اپنے مضمون کو اور واضح کرنے کے لیئے ان کے سوالوں جواب پیش کر رہا ہوں۔
  “  پہلا سوال تو آپ کا یہ ہے کہ اس دور میں اللہ والے نہیں رہے۔ اس پر پھر اس سلسلہ میں دو صوفیوں کی مثالیں بھی دی ہیں۔ایک صاحب کی آپ نے مثال دی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں دو بیویوں کو طلاق دے کر صوفیانہ زندگی گزار رہےہیں۔ دوسری خاتون ہیں جو آپ کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو اب سب سے لا تعلق ہو کر صوفیانہ زندگی گزار رہی ہیں ۔ اس میں یہ آپکی بڑائی ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کی بڑائی بیان نہیں کی حالانکہ آپ بھی ایک ایسے ہی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں، جو ہم جیسوں کو پتہ ہے کہ کبھی وہ بھی ہدایت کا سر چشمہ تھا۔چونکہ آپ نے کبھی ہمیں یا قارئین کو نہیں بتایا؟  اس لیئےہم بھی اپنے پڑھنے والوں کو نہیں بتا ئیں گے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوا؟ 
اب جواب حاضر ہے۔ جبکہ میں جواب دیتے ہوئے اس کی صرف تر تیب بدلنا چاہو نگا کہ آخری سوال کا جواب بعد میں دونگا۔ جبکہ دوسرا پہلے اور تیسرا اس کے بعد؟
 پہلے کا جواب یہ ہے۔ ہم لوگوں کے یہاں شخصیت پرستی اس قدر آگئی ہے جو بڑھ کر بت پرستی تک پہونچ گئی ہے؟ آپ معلوم تا ریخ میں جا ئیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی بت پرستی شخصیت پر ستی سے  ہی شروع ہو ئی ؟ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بعد چار بزرگ ایسے گزر ے جن کے نام قر آن میں موجود ہیں ۔ ان کی اولاد اور ان کے ماننے والوں نے ان کی یاد زندہ رکھنے کے لیئے کچھ کرنا چاہا، شیطان نے انہیں راستہ  دکھا یا کہ ان کی تصویر یں بنالی جا ئیں ۔ پھر اس نے اس سلسلہ میں مزید ترقی کی راہ دکھائی کہ انہیں کے بت بنا دیئے اور رفتہ رفتہ ان کی پو جا ہو نے لگی۔ جب لوگ گمرا ہی کی انتہا پر پہونچ گئے تو حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا گیا جوکہ تقریباً اتنے ہی عرصے تک تبلیغ کر تے رہے کہ جتنا عرصہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد انہیں بگڑنے میں لگا یعنی کم و بیش ایک ہزار سال؟ آخرمیں انہوں نے بد دعا فر مائی؟
 اللہ سبحانہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب تک وہ عذاب نازل نہیں فرماتا تب تک کہ اس دور کے نبی (ع)بد عا نہ کریں ۔ وہاں طوفا ن آیا اور ان (ع) کے ہی ایک صاحبزادے کوڈبو کے یہ بتا دیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نبی کابیٹا بھی نبی (ع)جیسا ہو؟اس سلسلہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ جو آپ سب نے پڑ ھ رکھیں ہیں لہذا میں مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا۔ یہ اس کا جواب ہے جوکہ آپکی پہلی مثال ہے؟
 دوسری مثال میں جن خاتون کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کو میں نہیں جانتا مگر قیافے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بھی کسی ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں شخصیت پرستی را ئج ہے؟ اور کوئی شخصیت جب مایوس ہو جاتی ہے تو اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ لہذا وہ بھی اسی طرف لوٹیں تو، مگر ان کے سامنے وہ اصل تعلیمات عملی طور پر بظاہر کہیں موجود نہیں تھیں جسکو وہ معیار بنا سکتیں ؟ لہذا جو اب اس کی بگڑی ہوئی شکل ہے وہ اس پر عامل ہوگئی ہیں ؟
 اب رہا آپ کے تیسرے سوال کاجواب کہ کیا اللہ والوں سے جہاں خالی ہو گیا؟ تو عرض یہ ہے کہ جب ایسا ہو جا تا ہے توعذاب نازل ہو جا تا ہے۔ کیونکہ قرآن میں موجود ہے کہ جب تک کسی شہر میں اللہ والے موجودرہتے ہیں تب تک وہاں عذاب نازل نہیں ہو تا؟ جس کو قر آن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً مکہ معظمہ کے بارے میں فرما یا کہ جب تک آپ (ص) اوراللہ والے وہا ں موجود ہیں، کفار کے عذاب طلب کرنے باوجود ان کا مطالبہ پو رانہیں کیا جا سکتا ؟
 جبکہ لوگوں کو ڈرانے کے لیئے وہ اپنی نشانی دکھاتا رہتا ہے وہ بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ “ کیا تم دیکھتے نہیں کہ سال میں جو چھوٹی موٹی آفات آتی رہتی ہیں وہ ڈرانے کے لیئے ہوتی ہیں “
 جنکا ہم آجکل آئے دن اپنے ہاں مشاہدہ کر رہے ہیں؟
 اوپر کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا کے قائم رہنے کے لیئے۔ اللہ والوں کا موجود رہنا ضروری ہے اور وہ موجود ہیں؟ اب آپکا سوال یہ کہ وہ دکھا ئی کیوں نہیں دیتے ؟ اس کےجواب کے لیئے جو لوگ اس سلسلہ کے ماہر اور رہنما تھے۔ ان کی طرف دیکھنا پڑے گا ۔ چونکہ آپ کوئی بھی صوفیا ئے کرام کا شجرہ اٹھا کر دیکھیں تو وہ حضور (ص) سے شروع ہو تا ہے؟ ان (ص) کے بعد سترہ یا اٹھارہ سلسلوں میں بالاتفاق را ئے دوسرا نام جو آتا ہے ،وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہے۔ جبکہ ایک سلسلہ حضرت ابو بکرصدیق (رض) سے بھی مو سوم ہے ؟ اب ہما رے سامنے ان تینوں کی زندگی موجود ہے انہیں میں اور ان کے تابعین کی سیرتوں میں آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہے؟
 پہلے حضور (ص) سے شروع کر تے ہیں جو جیتا جاگتا قر آن تھے؟ جن کے اسوہ حسنہ کے مثالی ہونے کی تصدیق خود قر آ ن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمادی اور اپنی محبت کو بھی اس سے مشروط فرمادیاکہ ً آپ فرمادیجئے اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ً ان (ص) کی سیرت ہمارے سامنے ہے جو ان کی یہ صفت ثابت کرتی ہے کہ وہ (ص)سراپا عمل تھے ۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابو بکر (رض) کا کردار دیکھئے کیا وہ اپنے کر دار میں حضور (ص) کا پرتو نہیں تھے کیا ان کے یہاں کہیں پر حضور(ص) سے سرو مو فرق نظر آتا ہے ؟اس کاجواب ہر ایک یہ ہی دے گا کہ نہیں !
 اب حضور (ص) کا یہ ارشادِ گرامی پڑھ لیجئے۔   “وہ فلاح پاگیا جس نے میرا اتباع کیا یا میرے ان صحابہ (رض) کا اتباع کیا جو کہ آج پوری طرح میرا اتباع کر رہے ہیں ً“؟ ان تمام مثالوں سے یہ بات میرے خیال میں ثابت ہوجاتی ہے کہ کوئی بے عمل انکا ماننے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے اتباع اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو جتنا قریب ہو گا وہ عمل میں بھی ان ہی جیسا ہی ہوگا؟
 لہذاجواب یہ ہی ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی ایسا نہیں ہے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے ،اور مسلمان نہ ہو تو صوفی کیسے ہو گا، کیونکہ قرآن ہر جگہ جہاں ایمان لا نے کی بات کرتا ہے اس کے فوراً بعد عمل کی بات کرتا ہے ،کہیں صرف کلمہ پڑھ لیناکافی نہیں کہتا؟ اس لیئے کہ اسلام نام ہی عمل کا ہے۔ا س کی روشنی میں کسی بے عمل، مغرور ، بد اخلاق اور گوشہ نشین کی گنجا ئش کہاں ہے؟ جواب ہمیشہ کی طرح قارئین پر چھوڑ تا ہوں ؟
 یہ تو ہم جڑ کی بات کر رہے تھے اب تنوں کی بات کرتے ہیں پھر شاخوں کی بات کرینگے؟
 پھر یہ سلسلہ امام حسن ، امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہو کر دوسرے نامور بزرگوں سے ہو تا ہوا گزرتا ہے، ان تمام مشہور بزرگوں میں سنت کے خلاف کوئی بات ملتی ہے، یا قول و فعل میں تضاد ملتا ہے ؟ جواب یقینی طور میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب کابھی یہی ہوگاکہ نہیں ؟اب اسی جواب سے پھر یہ سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہو گا کہ اب جو خود کو انکا جانشین کہلاتے ہیں۔ ان میں یہ خرابیاں کہاں سے آئیں؟ جواب میں وہی بات دہراؤنگا کہ وراثت کی بناپر شخصیت پرستی سے۔ جبکہ ابتداء میں اس کی بنیاد تقویٰ پر تھی جوکہ ہم نے شخصیت پرستی کی دھول میں نظر انداز کردی۔جس طرح ہمیں حضور(ص) کے اخلاق اور کردار سے بحیثیت مسلمان کوئی نسبت نہیں ہے، اسی طرح ان کے جانشینوں کو اپنے اجداد (رض)سے کوئی نسبت نہیں ہے کیونکہ حضور (ص) کی ذاتِ گرامی ان کے لیئےمنبہ ہدایت تھی ؟ نہ ان میں بے عملی تھی نہ ان میں بد اخلاقی تھی نہ غرور تھا۔ ہر ایک کا زور اس بات پر تھاکہ کو ئی انکا (رض)فعل خلاف ِقرآن اور سنت نہ ہو ؟ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر یہاں ایک مثال دیکر بات ختم کر تا ہوں۔ سنیوں میں تمام سلسلوں میں جہاں ولایت کاسلسلہ ہے وہاں حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ کو اپنا رہنما ماناجاتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ ً ایک شخص ہوا میں اڑ رہا ہو، پانی پر چل رہا ہومگر اس کا ایک فعل بھی خلاف سنت ہو تووہ شیطان ہے، ولی نہیں ً جبکہ ان کے ماننے والے ان کی کرامات تو بیان کر تے ہیں مگر کردار نہیں کہ وہ خلیفہ وقت اور اس وقت کے بے علمل علما ء اور صوفیا ئے کرام کے بارے میں ان کے منھ پر کیا ارشاد فرماتے تھے۔ وہ ان کی کتابوں پڑھ لیجئے؟
 اب سوال یہ ہے کہ اللہ والے دکھائی کیوں دیتے ؟ اس پر بھی میں حضرت عبد القادر جیلانی (رض) کی کتاب غنیہ الطالبین سے سندپیش کرتا ہوں کہ انہوں نے فرما یا کہ دنیا میں ہر وقت ٣٥ ہزار ولی موجود رہتے ہیں، جن میں سے بہت سوں کوخود پتہ نہیں ہو تا کہ وہ ولی ہیں اور اللہ جو چاہتا ہے وہ ان سےکام لیتا ہے؟ رہا یہ کہ وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چودہ سو سال میں  اس حساب سے  وہ کتنے اب تک گزر ے ہونگے اور ہم ان میں سے کتنوں کو جانتے ہیں ؟ ہم جنہیں جانتے ہیں انکی تعداد ہزاروں میں بھی بمشکل ہو گی جب کہ دنیا کی تا ریخ دیکھتے ہو ئے ، تعدادکرو ڑوں میں ہو نا چا ہیئے؟ وجہ یہ ہےکہ جن کے سپرد تبلیغ تھی وہی ظاہر ہو ئے انہیں کو ہم جانتے ہیں، جو دوسرے کاموں پر مامور تھے ان کو چونکہ شہرت اور کرا مات دکھانے کی ضرورت نہیں تھی لہذا نہ وہ مشہور ہوئے نہ ہم انہیں جانتے ہیں جبکہ نبی (ع)کو نبوت ظاہر کرنے کا حکم ہے اور ولی جوتبلیغ پر مامور نہیں ان کو خود کو مخفی رکھنے کا حکم ہے ؟جب کہ یہ سلسلہ بھی پہلے دن سے تھا۔ جس کا ثبوت قر آن میں حضرت خضر (ع)اور موسیٰ (ع) کے قصے میں موجود ہے۔ چونکہ اب اللہ کی کتاب مکمل ہو چکی تھی حضور(ص) کے بعد کوئی نبی (ع) نہیں آنا تھا، لہذا دین کو بچانے کے لیئے یہ سلسلہ اولیا ء بھی قائم رکھا گیا، جس نے جب بھی کوئی دین میں بگاڑ پیدا ہوا آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کی اگر یہ سلسلہ بھی آج کی طرح پہلے ہی گمراہ ہو گیا ہو تا تو دین ہی نہیں ہوتا، مگر اللہ نے اس کی بقا کا وعدہ کیا ہوا ہے لہذا یہ بظاہر اضافی چیز پہلے حضور (ص) کوعطا فرما ئی گئی اور ان سے امت کو منتقل ہوئی؟ کیونکہ اس سے پہلے جو نبی(ع) آپکو قر آن میں ملیں گے ان کے ذمہ یتلو علیہم  (آیات پڑھ کر سنانے)کی خدمت تھی ، جبکہ اس کے ساتھ   یزکیھہم (تزکیہ کرنے) کی خدمت صر ف حضور (ص) کے ساتھ مقرر ہوئی ۔ یعنی اور نبی (ع) صرف اللہ کاکلام پڑھ کر سناتے تھے جبکہ ہمارے آقا (ص) کے سپرد اک اضافی خدمت یہ تھی کہ وہ ان کو پاک بھی فر ما ئیں۔ کیونکہ عملی طور انہیں ہی کو دین کو نافذ کرنا تھا اور ان کے بعد یہ ہی تربیت یافتہ لوگ اقامت دین کر نے اور اللہ کا نظام چلانے کے ذمہ دار تھے ۔ اب رہا یہ سوال کہ ان کی پہچان کیا ہے۔ وہ سورہ البقر ہ میں آیت نمبر ٢٥٦، ٢٥٧میں بیان ہو ئی ہے ۔ کہ پہلی تاکید تو یہ ہے کہ “ زبردستی کسی کومسلمان مت بنا ؤ اس لیئے کہ ہم نے گمراہی سے ہدایت کو ممتاز فرمادیاہے اور ایمان والے وہی ہیں جو کفر اور طاغوت سے تا ئب ہوگئے اور اللہ پر ایمان لا ئے اور اس کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے “اللہ ایمان والوں کا ولی ہے اور جوکہ اندھیرے سے نکال کراجا لے کی طرف لاتا ہے۔اور کفار کا ولی طاغوت ہے جو نور سے ظلمات کی طرف کھینچتاہے یہ ہی لوگ کافر ہیں جو ہمیشہ جہنم میں پڑے رہیں گے

SHADIYON MEY ISRAF . SIASAT REPORT


حکمت

حکمت

شاہ نواز فاروقی 

ایک زمانہ تھا کہ لفظ حکمت یا Wisdom انسانی تہذیب کا مرکزی حوالہ تھا اور اس کے بغیر فکری کائنات کا تصور ممکن نہیں تھا۔ لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ اسلامی تہذیب تک میں حکمت کا لفظ اجنبی اور غیرمانوس ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ ”حکیم“ کی اصطلاح طب یونانی کے ماہر یعنی طبیب کے لیے وقف ہوگئی ہی۔ جدید طب نے لفظ حکیم کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کردی ہے۔ کروڑوں لوگ ڈاکٹرکے تناظر میں حکیم کا ذکر تحقیر کے ساتھ کرتے ہیں اور لفظ حکیم سے ہمارے ذہن میں دقیانوسیت اور پسماندگی کا تصور آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکمت کا مفہوم کیا ہے؟
حکمت کے بارے میں دو باتیں بنیادی ہیں
:(1) حکمت غیر شخصی یا None Personal چیز ہے۔(2) حکمت زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان باتوں کے معنی کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ذہانت کی دو اقسام ہیں: شخصی ذہانت اور غیر شخصی ذہانت۔ ہماری تہذیب میں شخصی ذہانت کا مرکز ذہن ہے اور غیر شخصی ذہانت کا مرکز دل۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمت دراصل غیر شخصی ذہانت کا دوسرا نام ہی، اسی لیے ہماری تہذیب میں دل کو دارالحکمت یعنی حکمت کا گھر کہا جاتا ہے۔ شخصی ذہانت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا بھی انا مرکز یا Ego Centric ہوتی ہے اور اس کی انتہا اور کمال بھی انا مرکز یا Ego Centric ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دل کے غور و فکر کا انا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انا مرکز ذہانت اور انا مرکز علم فرد کے مشاہدی، تجربی، مفادات اور تعصبات کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر غیر شخصی ذہانت اور غیر شخصی علم کا ان امراض سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شخصی ذہانت ذہن سے برآمد ہوتی ہی، اور ذہن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو ٹکڑوں میں بانٹ کر سمجھتا ہے جسے عرفِ عام میں تجزیہ کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس دل چیزوں کو ان کی کلیت یا ان کی Totality میں سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تہذیب میں ذہن کی ذہانت کے لیے عام طور پر فکر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور دل کی ذہانت اور اس کے غور و فکر کے لیے فراست اور عرفان کی اصطلاحیں مروج رہی ہیں۔
حکمت کے زمان و مکان سے بلند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انا مرکز یعنی شخصی ذہانت اپنے مشاہدے اور تجربے ہی کی نہیں، اپنے ماحول اور اپنے عصر کی بھی اسیر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر مقامیت کا بھی غلبہ ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شخصی ذہانت یا انا مرکز ذہانت اپنے عصر کی معاشیات، سیاست، سماجیات اور اپنے جغرافیے کی اسیر ہوتی ہی، اور اگر وہ اپنے زمانے اور اپنے مقام کی تنقید بھی پیدا کرتی ہے تو انہی کے دائرے میں رہ کر۔ یہی وجہ ہے کہ شخصی ذہانت، شخصی فکر بہت جلد پرانی ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس غیر شخصی ذہانت اور غیر شخصی فکر ہر زمانے اور ہر مقام کے لیے ہوتی ہے اور وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی۔
جدید مغربی فلسفہ شخصی اور انا مرکز ذہانت و فکر کا سب سے بڑا اشتہار ہے۔ مغرب میں رینے ڈیکارٹ کو جدید فلسفے کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ کا مشہور زمانہ فقرہ ہی: I think there fore i am۔ یعنی ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس فقرے کے ذریعے ڈیکارٹ نے فکر کو انسان کی اصل بنادیا ہے اور جدید مغربی فلسفے میں فکر کا مرکز ذہن ہے۔ ہمارے یہاں مرزا غالب نے فکر کی اہمیت کو اس طرح نشان زد کیا ہے کہ ان کا تناظر ڈیکارٹ کی فکر سے آگے نکل گیا ہے۔ غالب نے کہا ہی:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ ¿ دامِ خیال ہی
غالب نے اس شعر میں فرمایا ہے کہ انسان اپنی ہستی، اپنے وجود یا اپنے Existence کو حقیقی سمجھتا ہی، حالانکہ ہمارا وجود خیالات کی کڑیوں یا حلقوں سے بننے والے ایک جال کے سوا کچھ نہیں۔ یہ جال ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارا وجود حقیقی ہی، مگر یہ محض ایک فریب ِنظر ہی، کیونکہ ہمارا وجود حقیقی نہیں بلکہ خیالات کا ایک نظام ہے اور بس۔ غالب مسلمان تھے اور اسلامی فکر کا یہ ایک بنیادی خیال ہے کہ حقیقی وجود صرف اللہ تعالیٰ کا ہی، اس کے مقابلے پر انسان کا وجود محض ایک امکان یا Possibility ہے۔ چنانچہ غالب کے اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقی وجود تو صرف اللہ کا ہی، اس کے مقابلے پر انسان کا وجود تو محض ایک فریب ہے جو خیالات کے جال سے عبارت ہے۔ لیکن غالب کی فکر پر جدیدیت کا گہرا سایہ تھا، چنانچہ ان کے شعر کا پہلا مفہوم زیادہ قرین قیاس ہے۔ غالب کا ایک شعر ہی:
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس شعر میں انسانوںکو غالب کا مشورہ یہ ہے کہ تمہاری ذات ہی سب کچھ ہی، اسی پر انحصار کرو، ممکن ہے اس طرح تمہیں آگہی کے بجائے غفلت فراہم ہو، لیکن مانگے کی آگہی سے ذاتی غفلت اچھی ہے۔ غالب کے اس شعر میں خدا اور بندے کا تعلق بھی محتاجی کا تعلق ہے اور غالب کو یہ محتاجی پسند نہیں خواہ یہ محتاجی انسان کو اشرف المخلوقات ہی کیوں نہ بناتی ہو۔ شخصی یا انا مرکز فکر انسان کو اکثر ایسے ہی نتائج تک پہنچاتی ہے۔
جدید مغربی فلسفے میں شخصی فکر کی بنیاد پر سب سے عظیم الشان نظام وضع کرنے والا ہیگل تھا۔ لیکن ہیگل کے بارے میں اقبال نے اصل اور بنیادی بات کہہ دی ہے۔ اقبال نے کہا ہی:
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
اصنام اُس کے سب خیالی
یعنی ہیگل کا صدف موتی سے محروم ہے۔ اس نے فکر کے جتنے بت بنائے ہیں وہ سب وہم و گمان سے عبارت ہیں۔ اس کا کوئی بت نہ خود حقیقت ہے نہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔ مغربی فلسفے کی ہولناک حد تک شخصی فکر نے ڈیوڈ ہیوم کو پیدا کیا جو تشکیک یا Scepticism کا امام تھا۔ ہیوم نے شک کو نظام بنادیا۔ اس کی تشکیک اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دن وہ بلیرڈ کھیل رہا تھا، اچانک اس کو شک کا شدید دورہ پڑا اور اسے خیال آیا کہ خود اس کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ اس خیال سے وہ وحشت زدہ ہوکر کمرے سے نکل کر بھاگا۔ پھر اس نے ایک جگہ کھڑے ہوکر خود کو بہت زور سے نوچا۔ نوچنے سے تکلیف ہوئی۔ اس تکلیف سے اسے ”یقین“ آیا کہ وہ موجود ہے۔ کارل مارکس کا کمال یہ ہے کہ اس نے شخصی یا انا مرکز فکر کو نہ صرف یہ کہ عمل بنادیا بلکہ اس کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ لیکن یہ انقلاب دنیا میں صرف 70 سال تک زندہ رہا اور بالآخر اس طرح فنا ہوا کہ جیسے روئے زمین پر اس کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
مذاہب ِعالم کی تاریخ غیر شخصی فکر یا غیرشخصی ذہانت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس تاریخ میں یہودیت کی تاریخ ہے جو ایک مسخ شدہ روایت ہی، لیکن اس کے باوجود یہودیت زندہ ہے اس لیے کہ اس میں ابھی تک حکمت یا غیر شخصی فکر کا عنصر موجود ہے۔ ہندو ازم کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے اور مقبولِ عوام ہندو ازم خود اپنی مقدس کتابوں یعنی ویدوں اور گیتا سے بہت دور نکل آیا ہی، مگر ہندو ازم زندہ ہے اس لیے کہ اس میں بھی غیر شخصی فکر کا عنصر موجود ہے۔ عیسائیت کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے اور عیسائیت کی روایت بھی ایک مسخ شدہ روایت ہی، مگر اس کے باوجود عیسائیت دنیا کے تین بڑے مذاہب میں سے ایک ہی، اس لیے کہ اس کی روایت میں حکمت کا جلوہ موجود ہے۔ سقراط اور افلاطون کی فکر دو افراد کی فکر ہونے کے باوجود غیر شخصی فکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عیسائیت سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہونے کے باوجود آج تک نئی ہے اور انسانیت آج بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ حکمت کی اس اہمیت کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ آخر حکمت آتی کہاں سے ہی؟ اس سوال کا مولانا رومؒ نے دو ٹوک جواب دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا ہی:
عشق و رقّت آید، از نانِ حلال
علم و حکمت زاید از نانِ حلال
ہماری تہذیب میں عشق و رقت کا مقام بلند ترین ہے اور مولانا نے فرمایا ہے کہ عشق و رقت رزقِ حلال پر ”قناعت“ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں رزقِ حلال کا مفہوم جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور روحانی غذا پر محیط ہے۔ اس کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا عہد ہی، جس میں ایک طرف جسمانی غذا میں قناعت کی اعلیٰ ترین مثالیں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف نفسیاتی، جذباتی اور روحانی غذا میں بھی قناعت کا دور دورہ ہے۔ لیکن بعدازاں تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں ایک جانب عرب بڑے تاجر بن کر ابھرے اور دوسری جانب قرآن مجید کی تفسیر کی نفسیاتی، جذباتی اور روحانی ضرورت پیدا ہوئی۔ مسلمانوں کو ایسی ہی ضروریات کے تحت علم حدیث مدون کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو دوسری اقوام کے فلسفوں سے سابقہ درپیش ہوا تو ”علمِ کلام” ایجاد ہوا۔ مسلمانوں نے نفسیاتی، جذباتی اور روحانی تقاضوں کے تحت بڑی شاعری پیدا کی، داستان کی ایک بہت بڑی روایت کو جنم دیا، فنِ تعمیر کے شاہکار تخلیق کیے۔ غور کیا جائے تو یہ تمام چیزیں ”زاید از نانِ حلال“ ہی کے تحت آتی ہیں۔ حکمت کی اس اہمیت اور معنویت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا حکمت کے تصور اور روایت سے کیا تعلق ہی؟
اس سوال کا بہترین اور مکمل جواب وہ حدیثِ مبارکہ ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہی، یہ جہاں سے ملے حاصل کرو۔ اسلام کی فکری روایت حق و باطل کی روایت ہے۔ حکمت حق ہے اور انا مرکز فکر باطل ہی، اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ حق اور باطل کو ہر صورت میں پہچاننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ایساکرنا اس لیے ضروری ہے کہ حق و باطل کے اظہار کے سانچے اور اسالیب بدلتے رہتے ہیں۔ ان کی اصطلاحیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل کو مخصوص اصطلاحوں اور مخصوص اسالیب میں پہچاننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس کے دو نقصانات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ حق کی وسیع تر عالمی روایت سے استفادے کے قابل نہیں رہتی، دوسری جانب وہ باطل کو بدلی ہوئی صورت میں پہچان نہیں پاتے اور بسا اوقات اس کی ظاہری صورت سے دھوکہ کھاکر اسے حق سمجھ لیتے ہیں۔ اس تناظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت مسلمانوں کے لیے یہ ہے کہ مسلمان صرف اپنے علوم و فنون، اپنی مخصوص زبانوں اور اپنی مخصوص اصطلاحوں ہی میں حق کو پہچاننے والے نہ بنیں بلکہ انہیں اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنی چاہیے کہ پوری عالمی برادری اور پورے عالمی منظرنامے میں جہاں کہیں حق حکمت کی صورت میں موجود ہی، مسلمان اسے پہچانیں اور اس سے خود بھی استفادہ کریں اور وسیع تر انسانی برادری کو بھی فیض پہنچائیں۔

آواز تھی یا زلزلہ؟

آواز تھی یا زلزلہ؟

- محمد اکرام اللہ خان اشرفی
 
رب کریم نے بے شمار مخلوقات کو کوئی نہ کوئی کام سونپ دیا ہے۔ جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں جن و انس کو زیادہ احکامات دیئے گئے ہیں۔ ان احکامات کے بارے میں سوال ضرور کیا جائے گا۔ انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی کائنات کا علم بھی سکھایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ تمام مخلوقات کو مسخر کرنے کی قوت بھی رب کائنات نے عطا کردی۔
تخلیقِ کائنات کے بعد رب کریم نے بغرضِ کرم حضرتِ انسان کو اپنی تعلیم دینے کے لیے نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ جاری رکھا۔ انسانوں کی تخلیق کے بعد رب العالمین نے انسانوں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہو زندگی گزار دو، بلکہ ہردور میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم نبیوں، رسولوں کے ذریعے انسانوں تک آتی رہی اور اس تعلیم اور نبیوں کے احکامات کے مطابق جو لوگ اپنی زندگی گزارنے لگے وہی صالحین میں شمار کیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کہلائے جن کے نیک ہونے کا ذکر الہامی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔
اور جب عیسیٰ ابن مریم کا دور بھی ختم ہوگیا، لوگ ایک اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر غیر اللہ کی جانب مکمل طور پر اپنا رخ کرچکے تھے۔ دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ ہر طرف بتوں کی ہی عبادت ہوتی تھی۔ ہر انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیمات کو یکسر بھلا بیٹھا تھا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے کچھ نیک لوگوں کی شکل و صورت کو پتھر پر تراش خراش کر بت خانے میں رکھ دیا گیا اور باقاعدہ ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ یہ سب شیطان کے چکر میں آگئے اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کی عبادت میں لگ کر اللہ تعالیٰ کو بھول گئے۔ وہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو مدد کے لیے پکارا کرتے تھے۔ گمراہی کی وجہ سے جو سر تا پیر شرک میں ملوث تھے مگر اشرف المخلوقات میں سے تھے، جو غیر اللہ کے آستانے پر سر رکھ کر مدد مدد کی پکار لگایا کرتے تھے، وہ سب کے سب اپنی مشرکانہ زندگی سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی میں ڈبو دیئے گئے اور سب مشرک جہنم میں جاگرے جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ اپنی دوسری مخلوق کو بھیج دیا۔
یہ غیر اللہ کو ماننے والے خانہ کعبہ میں بھی بت رکھ کر ان کی عبادت میں مشغول ہوگئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یکسر بھلادیا اور شب و روز مشرکانہ زندگی گزارنے لگے۔ بتوں کو اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور ہر بگڑی کا بنانے والا تسلیم کرلیا گیا، انہی کے قدموں پر نذر و نیاز کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے.... کہ اچانک شہر مکہ میں ایک گونج سنائی دی: لاالہ الااللہ۔ لوگو! گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
یہ کیسی گونج تھی کہ جس نے سارے شہر مکہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ آواز محمد بن عبداللہ کی تھی۔ سردارانِ مکہ تڑپ اٹھے کہ محمد بن عبداللہ نے یہ کیا کہہ دیا۔ ہمارے آباو اجداد کے معبودوں اور تمام رسم و رواج کو یکسر مسترد کردیا۔ یہ صدا انسانوں کو ان کے حقیقی پروردگار سے آگاہ کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
عرب اپنی زبان دانی کی بدولت ”اللہ“ کا مفہوم اور لاالہ الااللہ کا مدعا خوب سمجھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے خودساختہ نظاموں، ان کی پیشوائی اور قیادت کے ساتھ یہ دعوت کیا سلوک کرنا چاہتی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس پیامِ انقلاب کا اس تشدد اور غیظ و غضب کے ساتھ استقبال کیا اور اس کے خلاف وہ معرکہ آرائی کی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ آپ نے تمام تکالیف برداشت کیں اور اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے رہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن نازل کرتا رہا اور جگہ جگہ اپنے پیارے نبی کی شان بھی بیان کرتا رہا۔
اس آیت سے ایمان لانے والوں کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرما رہا ہی:
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔“ (الفتح:4)
اسی طرح (سورہ ¿ محمد:1 میں) رب کائنات فرماتا ہی: ”اور وہ اس (کلام) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوا اور وہ برحق ہے ان کے پروردگار کی جانب سے“۔
نبی پاک شب و روز اللہ کی ہدایت کے مطابق شرک مٹانے اور اللہ کی وحدانیت قائم کرنے کی سعی فرما رہے ہیں اور قرآن کا نزول جاری ہے۔
رب کائنات کا فرمان آیا: ”اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے سب لوگوں کو پہنچادو۔“ (المائدہ: 67)
حکم پہنچانے کا وقت آگیا تو آپ نے اللہ کا نازل کردہ پیغام، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت کرنے کا حکم اللہ کے بتائے ہوئے الفاظ میں بیان کردیا: ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا کہ شاید تم پرہیزگار بن جاو“۔
رب العالمین کو تسلیم کرلیا کہ ”نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے“۔ اب معبود کی عبادت کا حکم رب کریم کی طرف سے آرہا ہے کہ ”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔“ حکم بھی دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ طریقہ بھی اپنے پیارے نبی کے ذریعے بتارہا ہی: ”آپ کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے پچھلے گناہ معاف فرمادے گا اور (آئندہ گناہ سے بچائے گا) اللہ غفور الرحیم ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا حکم ایمان لانے والوں کے لیے نازل ہوتا ہے کہ پیروی کرو تو صرف نبی پاک ہی کی۔
”جو کچھ اللہ کا رسول تمہیں دے اسے اختیارکرو اور جس چیز سے وہ منع کردے اس سے رک جاو“۔
نبی کریم فرمان الٰہی سناکر مسلمانانِ کائنات کو آنے والے وقت سے آگاہ فرما رہے ہیں کہ آنے والا وقت قیامت کا ہے۔ اس دن کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔
عرب کی سرزمین حیران تھی، ان کے سامنے قرآن کا نزول جاری تھا اور اللہ تعالیٰ ان کے دل پر قرآن اور صاحبِ قرآن کی محبت بٹھاتا جاتا تھا۔ مکہ شہر میں دینِ حق کی بجلی کڑک رہی تھی۔ دینِ حق کی تیز ہوا طوفانی ہوا بن کر دل و دماغ کو الٹ پلٹ کر رکھ رہی تھی۔
شاعر نے کیا خوب کہا:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگادی
دین حق کے طوفانی بھنور میں حضرت عمرؓ بن خطاب بھی آگئے۔ ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر گھر سے نکلے کہ مکہ شہر کا امن و امان خراب ہورہا ہے، آج محمد بن عبداللہ کو (نعوذ باللہ) قتل کرکے معاملہ ختم کردوں گا اور مکہ میں امن قائم کردوں گا۔ مگر اللہ کا اپنا کام تھا۔ عمرؓ بن خطاب بہن کے گھر گئے، بہن بہنوئی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ آخر تھک ہارکر کہا: دکھاو مجھے کیا پڑھ رہے تھے۔ قرآن کے اوراق پر نظر ڈالے، وہ دل تک جاپہنچی۔ تڑپ اٹھے۔ سیدھے دار ارقم کی جانب لپکے۔ دل کا برا حال تھا۔ دستک دی۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا عمرؓ بن خطاب اور ہاتھ میں ننگی تلوار۔ آپ نے حکم دیا دروازہ کھول دو۔ وہ اندر آئے تو پوچھا: عمرؓ بن خطاب کیوں آئے ہو؟
شاعر نے کیا خوب کہا:
کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھاگی
دیے سر جھکا ان کے مالک کے آگی
فرمایا عمرؓ بن خطاب نے ”دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں“۔
یہ سننا تھا کہ صحابہؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
پڑا ہر طرف غل یہ پیام حق سی
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سی
یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جس کو جب چاہے دین کی نہ صرف سمجھ عطا کرے بلکہ دینِ اسلام کا امیر بھی مقرر کردے اور قیامت تک دنیا و آخرت میں عزت بھی بخشے۔

یوم میلاد النبی اور اس کے تقاضے

یوم میلاد النبی اور اس کے تقاضے

  عتیق الرحمن صدیقی
 
ربیع الاوّل کا مہینہ اس بنا پر مقدس اور متبرک ہے کہ اس مہینہ میں فخرِ دوجہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سرزمین عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا ورودِ مسعود عالم انسانیت کے لیے ابرِ رحمت تھا۔ یہ رحمت و سعادت کا بادل ایسا برسا کہ اس نے دنیا کی ویران و خشک کھیتی کو ہرا بھرا اور تروتازہ کردیا۔ چمنستانِ انسانیت میں بہار آگئی‘ خیرونیکی کے عنادل نے سریلے اور رس بھرے گیت سنانے شروع کردیے‘ صداقت و امانت کی کوئلیں چہچہانے لگیں‘ نیکی و پاکیزگی کے گل کھلنے لگے اور عدل و انصاف کے چمن لہلہانے لگے۔ یہاں تک کہ بوستانِ آدمیت زیب و زینت کا گہوارہ بن گیا۔ اسی روح پرور عالم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانِ وحی سے اعلان فرمایا:
”آج کے روز میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا۔“ (المائدہ 3)
اسی محسنِ انسانیت کی یادِ ولادت باسعادت ہم ہر سال مناتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بڑی بڑی روح پرور تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے‘ قمقمے روشن کیے جاتے ہیں اور فضاوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ گلاب و یاسمین کی خوشبو سے معطر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جلوس بھی ترتیب دیے جاتے ہیں‘ علماءو فضلا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ پر اپنے نادر اور گراں مایہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں‘ شعرا اپنی عقیدت کو شعروں میں سمو کر پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر شیرینی بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ اہتمام 12 ربیع الاوّل تک رہتا ہے اور اس کے بعد ولولے سرد پڑجاتے ہیں‘ اور یہ چنگاری پھر اُس وقت سلگتی ہے جب آئندہ سال ربیع الاوّل کا چاند طلوع ہوتا ہے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے‘ ہمارا یہ طرزِعمل کس بات کی نشان دہی کرتا ہے؟ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و بزرگانِ دین کا طرزعمل بھی یہی تھا؟ آیئے اور ان سوالات کا سامنا کیجیے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے خالی ہوچکی ہے اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہوم کو ہم نے اپنی خواہشات اور چند رسومات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے تاکہ اپنے مذہبی جذبہ کو تسکین دے سکیں اور اس طرح دیگر اقوام و ملل کو باور کراسکیں کہ ہم مسلم ہیں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی ہیں۔ مگر یہ تصنع اور بناوٹ، یہ ملمع سازی اور یہ ہنگامہ آرائیاں دوسرے کو مرعوب کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کی دنیا نظریات کی ظاہری چکاچوند سے مسحور و مرعوب ہونے کے بجائے ان نظریات کے داعیوں کی عملی زندگی کی حقیقت کی متلاشی ہے۔ درحقیقت کردار کی بلندی ہی دوسروں کو متاثر کرتی ہے اور کردار کی پستی ہی سے دوسرے متنفر ہوتے ہیں۔
پھر کیا یہ طرزِعمل اس بات کی نشان دہی نہیں کرتا کہ اسلام ہماری زندگی کے رگ و ریشہ میں نہیں سمایا بلکہ چند ظاہری عبادات و رسوم کی پابندی کا نام بن کر رہ گیا ہے اور دنیوی زندگی کلی طور پر شیطان کے حوالے کی جاچکی ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات نے دین و دنیا کی دوئی کے تصور کو مٹا کے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم نے راہبانہ طرزِفکر کو بھی ناپسند کیا ہے اور دونوں انتہاوں کے درمیان ایک متوازن اور معتدل راہ اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے اس متوسط راستے کو اپنایا وہ ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب رہے اور انہیں عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ اس کے برعکس جو لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوئے وہ گھاٹے میں رہے اور تاریخ نے انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔
تیسرا سوال جس کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا صرف ”ڈے“ منانے میں ہماری نجات مضمر ہے؟ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کو اپناکر فوز و فلاح سے ہم کنار ہوا جاسکتا ہے؟ اس کا صاف اور واضح جواب قرآن مجید کی روشنی میں یہ ہے ”کہہ دیجیے، اگر تمہیں خدا کی محبت کا دعویٰ ہے تو میری پیروی کرو۔“ (آل عمران: 31)
اس آیت کی تشریح مولانا سید سلیمان ندویؒ کی زبان سے سنیے:
”اگر تم بادشاہ ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر تم رعایا ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر تم استاد ہو تو میری پیروی کرو‘ اگر دولت مند ہو تو میری پیروی کرو۔ غرض جس نیک راہ پر بھی ہو اور اس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ نمونہ چاہتے ہو تو میری پیروی کرو۔“
قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس بات کا حکم دیں‘ کر گزرو، اور جس سے روکیں رک جاو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
سورہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہی: ”تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک نمونہ تقلید ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو۔“ (الاحزاب: 21)
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی زندگیوں کو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سنوارنے اور نکھارنے کی کوشش کرتے اور یوم میلاد کو ”یوم محاسبہ“ قرار دے کر یہ معلوم کرتے کہ زندگی کے شعبوں میں اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار کیا ہے اور ہم اپنی کوتاہیوں اور فروگزاشتوں سے کیونکر نجات پاسکتے ہیں۔ مگر اس قسم کا کوئی ٹھوس اور مثبت لائحہ عمل ہمارے پاس نہیں رہا اور ہم نے تاریخ کے اوراق کو اس غرض سے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا.... صحابہ کرامؓ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار اور مزاج شناس تھے‘ وہ دن منانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے تھے؟ بلکہ ان کی پوری زندگی ان تقریبات سے خالی تھی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ روز و شب کے 24 گھنٹوں کو دین و دنیا کے لیے بانٹتے نہیں تھے‘ بلکہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ ایک تقریب اور ایک عظیم ڈے متصور ہوتا تھا اور وہ زندگی کے معمولی مسائل میں بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری باتیں معلوم کرنے کی جستجو میں رہتے تھے، اور صرف یہی فکر انگیز روشنی ان کے قلب و نظر کو جِلا بخش سکتی تھی۔
آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تمام پہلووں کو حسین اور دلکش انداز میں پیش کیا جائے اور عوام کے دل و دماغ میں راسخ کردیا جائے کہ سیرتِ طیبہ کی پیروی ہی میں ہماری نجات کا راز مضمر ہے۔ اور یہ پیروی صرف زندگی کے کسی ایک پہلو میں نہ ہو بلکہ پوری زندگی صرف اسی ایک سراجِ منیر سے منور ہو۔ اس مضمون کو علامہ سید سلیمان ندویؒ نے بڑے حسین انداز میں پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
”غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے کامل اخلاق کا مجموعہ ہو‘ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو‘ اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو‘ اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو‘ اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو‘ اگر فاتح ہو تو بدروحنین کے سپہ سالار پر نظر دوڑاو‘ اگر تم شکست خوردہ ہو تو احد سے عبرت حاصل کرو‘ اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درس گاہ کے معلم قدس کو دیکھو‘ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماو‘ اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو‘ اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یارومددگار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمن کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بناچکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو‘ اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر‘ خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم و نسق کو دیکھو‘ اگر یتیم ہو تو عبداللہ و آمنہ کے جگر گوشے کو نہ بھولو‘ اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو‘ اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو‘ اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے میرِ کارواں کی مثالیں ڈھونڈو‘ اگر عدالتوں کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کررہا ہے‘ مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظرِ انصاف میں شاہ و گدا اور امیر و غریب برابر تھے۔ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ و عائشہ رضی اللہ عنہما کے مقدس شوہر کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرو‘ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے نانا کا حال پوچھو۔ غرض تم جو کوئی بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو‘ تمہاری زندگی کے لیے نمونہ‘ تمہاری سیرت کی درستی و اصلاح کے لیے سامان‘ تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور رہنمائی کا نور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت کبریٰ کے خزانے میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔“
(خطباتِ مدراس‘ پانچواں خطبہ)
یہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا وہ جامع تصور جسے مولانا مرحوم نے چند فقروں میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی تصور کو اپنانا اور حرزِ جاں بنانا سیرت کی تقریب کا اصل مقصد و مدعا ہونا چاہیے اور اسی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا مکمل طور پر جائزہ لینا چاہیے۔
”تم جو کہتے ہو اس پر غور کرو“:
حضرت عبدالرحمن بن ابی قردؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو آپ کے کچھ اصحابؓ آپ کے وضو کا پانی لے کر چہروں پر ملنے لگے تو آپ نے پوچھا ”تمہارے پاس اس کام کا محرک کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا ”اللہ اور رسول کی محبت۔“ آپ نے فرمایا ”جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو (بحفاظت) مالک کے حوالے کریں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔“ (مشکوٰة)
جذباتِ محبت کے تناظر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسرا ارشادِ گرامی بھی ملاحظہ فرمایئے۔
”حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ”میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔“ آپ نے فرمایا ”جو تم کہتے ہو اُس پر غور کرلو۔“ اس نے تین بار کہا کہ ”بخدا میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔“ آپ نے فرمایا ”اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو فقروفاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کرلو‘ جو لوگ مجھ سے محبت رکھتے ہیں ان کی طرف فقر و فاقہ سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھتا ہے۔“ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی لے کر چہروں اور ہاتھوں پر ملنا بظاہر ایسا عمل نہ تھا کہ آپ صحابہؓ کو ڈانٹ پلاتے‘ یہ عقیدت و محبت کا ایک انداز تھا۔ آپ نے نہ اس کی تحسین فرمائی اور نہ اس پر برا مانا‘ مگر ایک نفسیاتی طریق اپنا کر اپنے چاہنے والوں کو محبت کے ایک اونچے اور ارفع مقام کی طرف متوجہ کیا۔ مقصود یہ تھا کہ صحابہؓ اور ان کے بعد آنے والے لوگ محبت کا ایک حقیقی تصور ذہن میں بٹھا لیں‘ صرف ظاہری باتوں پر اکتفا نہ کریں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ چاہت و محبت کا بلند مرتبہ یہ ہے کہ اللہ و رسول کے احکام پر عمل کیا جائے اور اس دین کی پیروی کی جائے جس کی اقامت کے لیے انہیں مبعوث کیا گیا ہے‘ جیسا کہ رب کریم نے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا ”اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو‘ اللہ تمہیں چاہنے لگے گا....“ (آل عمران: 31)
آدمی جس سے محبت کرتا ہے اس کی پسند و ناپسند کو پیش نظر رکھتا ہے۔ وہ اسی راستے کو اپناتا ہے جس راستے کو اس کے محبوب نے اپنایا ہے۔ جب ہم اپنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بات کرتے ہیں تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے نقوشِ قدم پر چلیں اور وہ کچھ کریں جو انہوں نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے، اور ہر اس بات سے رک جائیں جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ وہ شخص جو دعوائے محبت کی تکرار کرتا ہے وہ اپنے کہے پر غور کرے‘ اس لیے کہ یہ راستہ سہل اور آسان نہیں‘ اس میں تو قدم قدم پر آبلے پڑتے اور پھوٹتے ہیں۔ یہ راہ تو ثور و بدر سے ہوکر گزرتی ہے۔ یہاں تو صبح و شام اپنے نفس سے بھی رزم آرا ہونا پڑتا ہے۔ قرآن کہتا ہی:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ایسے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔“ (آل عمران: 102)
اس آیہ کریمہ کی وضاحت میں مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ”خدا سے ڈرنا صرف عارضی اور وقتی طور پر مطلوب نہیں ہے‘ بلکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے‘ اسی پر جینا اور اسی پر مرنا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے یہ جدوجہد شروع ہوتی ہے اور زندگی کی آخری سانس پر تمام ہوتی ہے.... اس میں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہوگا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی‘ کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنا اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کی‘ درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔“ (تدبر قرآن‘ جلد دوم)
حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر کا معاملہ بھی زندگی بھر کا معاملہ ہے‘ ایک دو روز کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صبح و شام اپنے محبوب کی یاد مناتے تھے۔ انہوں نے کوئی دن یا کوئی مہینہ اس کے لیے مختص نہیں کیا تھا۔ قومیں یقینا یادگار دنوں کو دھوم دھام سے مناتی ہیں‘ مگر ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دنیا کے سب بڑوں سے مختلف ہے‘ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے نبی ہیں‘ اس کے رسول اور اس کے نمائندے ہیں‘ وہ تو خاتم النبیین ہیں‘ کسی بڑے سے بڑے آدمی کو بھی ختمی مرتبت، محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ مسلمانوں پر تو ہر لمحہ آپ کی اطاعت واجب ہے۔ اسی میں ان کی فلاح اور اسی میں ان کی کامرانی ہے۔ ہم چونکہ سال کے گیارہ مہینوں میں اپنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلائے رکھتے ہیں اس لیے اپنے زعم میں سمجھتے ہیں کہ ربیع الاوّل کے روح پرور اور مبارک لمحوں میں ہم عقیدتوں کے پھول نچھاور کرکے‘ جلوس نکال کر اور محفلیں ترتیب دے کر انہیں منالیں گے اور یوں ہماری بخشش کا سامان ہوجائے گا۔ اسی حوالے سے ایک شاعر کے جذبات ملاحظہ فرمایئے:
ترے حسنِ خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجادیا
ترے ثوروبدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
یہ مری عقیدتِ بے بصر‘ یہ مری ارادتِ بے ثمر
مجھے میرے دعوائے عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
ترا نقشِ پا تھا جو رہنما تو غبارِ راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہیں‘ آپ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپ تو رہتی دنیا تک ہمارے لیے قابلِ اتباع ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ ہمیں قول و عمل میں آپ سے کوئی نسبت اور واسطہ نہیں۔ ہم آپ کی محبت کا دم بھرتے ہیں‘ آپ کا نام آئے تو انگوٹھے چومتے ہیں‘ آپ پر درودوسلام بھیجتے ہیں، مگر ہمارا مرنا و جینا‘ ہماری شادیاں اور بیاہ‘ ہمارے طورواطوار‘ ہمارے رسوم و رواج‘ ہمارے روابط و تعلقات‘ ہماری سیاست اور معیشت و معاشرت اور زندگی بھر کے معمولات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر و فلسفہ سے جو قرآن و حدیث کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے‘ کوئی علاقہ اور رسم و راہ نہیں۔ ایسے میں ہم کس منہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کریں۔ ملک کے مایہ ناز ادیب و شاعر نعیم صدیقی مرحوم اسی سوچ میں یوں گویا ہوتے ہیں کہ: ”میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں؟“ ہم یہاں ان کی نعت کے صرف دو بند پیش کریں گے:
یہ تیرے عشق کے دعوے‘ یہ جذبہ بیمار
یہ اپنی گرمیِ گفتار‘ پستی کردار
رواں زبانوں پہ اشعار‘ کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار‘ اُڑ گیا مضمون!
میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں!
عقیدتیں تیرے ساتھ‘ اور کافری بھی پسند
قبول نکتہ توحید‘ بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خرد ہے‘ نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں‘ سوچتا ہوں کیسے کہوں!
”تمہاری خیریت میرے طریقے کی پیروی میں ہی:“
ربیع الاوّل کے غنچہ و گل کی نکہتوں سے بھرپور لمحات اب الوداع ہونے کو ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے جلسے‘ جلوس اور محفلیں ترتیب دے کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدتوں کے ارمغاں پیش کرنے‘ محبتوں کے پھول نچھاور کرنے‘ فضاوں کو خوشبووں سے مشک بار بنانے اور دروبام کو سجانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ظاہر بیں نگاہیں اس رکھ رکھاو اور جذبوں کے اظہار سے لطافتوں اور صباحتوں سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبتوں کے اس قرینے میں کوئی مضائقہ نہیں اگر نیتوں میں اخلاص ہو اور آئندہ کے لیے کچھ کرکے دکھانے کا جذبہ موجزن ہو۔ اور اگر نیتوں میں فتور ہو‘ تعصب کی فراوانی ہی پیش نظر ہو تو یہ تمام تر کاوشیں اور حدی خوانیاں اکارت ہو کے رہ جائیں گی۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں‘ مجھ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے میرے پیارے بیٹی! اگر تو اس طرح زندگی گزار سکے کہ تیرے دل میں کسی کی بدخواہی نہ ہو تو ایسی ہی زندگی بسر کر۔“ پھر فرمایا: ”اور یہی میرا طریقہ ہے (میرے دل میں کسی کے لیے کھوٹ نہیں) اور جس نے میری سنت (طریقہ) سے محبت کی بلاشبہ اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ رہے گا۔“ (مسلم شریف)
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ اس امر کی جستجو کریں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طریق کیا تھا۔ وہ سفر میں‘ حضر میں‘ حالت امن میں‘ حالتِ جنگ میں‘ شادی میں‘ غمی میں‘ مجلس بپا کرنے میں‘ کسی کی تعریف و توصیف کرنے میں‘ کسی کو خوش آمدید کہنے میں‘ نماز‘ روزے اور دیگر معاملاتِ زندگی میں کیا اسلوب اور کون سا انداز اپناتے تھے۔ ان کی صبحیں اور ان کی شامیں‘ گھر میں اور گھر کی چار دیواری سے باہر کیسے گزرتی تھیں‘ ان کے معاہدے اپنوں سے بھی ہوتے تھے اور بے گانوں سے بھی‘ ان کی راہ و رسم رشتہ داروں سے بھی تھی اور احباب سے بھی‘ وہ ذکراذکار بھی کرتے تھے اور سیکھتے سکھاتے بھی تھے۔ ان کے لیے وہ روح پرور لمحات بھی تھے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اندر موجود تھے اور پھر وہ ساعتیں بھی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے تو ایسے میں وہ کیا ڈھب اور کیا چلن اپناتے تھے‘ وہ اپنے عظیم محسن کی یادوں کی جوت کیسے جگاتے تھے۔ ہماری کامیابی‘ کامرانی اور سرخ روئی اس میں ہے کہ ہم اسی راز کو معلوم کرنے کی کوششوں میں لگ جائیں۔ اگر ہم آگے پیچھے تغافل کا شکار ہوکر لمبی تان کر سوجاتے ہیں تو کم از کم ان وجد آفریں اور جمال افزاءلمحوں میں تو ایک نئے عزم و سوز اور نئی روح کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اپنانے کی کوشش میں مصروف ہوجائیں۔
آئیں اور دیکھیں کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح طریقہ کیا ہے اور اللہ و رسول سے آگے نہ بڑھنے کا تقاضا کیسے پورا ہوتا ہے۔
تین آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آئے۔ جب انہیں اس کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی نسبت اپنی عبادت کی مقدار کو کم تصور کیا۔ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا کیا مقابلہ‘ ان سے نہ تو پہلے گناہ ہوئے نہ بعد میں ہوں گے۔ (اور ہم معصوم نہیں‘ لہٰذا ہمیں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) چنانچہ ان میں سے ایک نے اپنے لیے یہ طے کیا کہ وہ ہمیشہ پوری رات نوافل میں گزارے گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ نفلی روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا۔ تیسرے صاحب نے کہا کہ میں عورتوں سے الگ تھلگ رہوں گا، یعنی کبھی شادی نہیں کروں گا (آپ کو اس کی اطلاع ملی) تو آپ ان کے پاس گئے اور دریافت فرمایا: ”کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟“ پھر آپ نے فرمایا:
بلاشبہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی نافرمانی سے بچنے والا ہوں، لیکن دیکھو میں (نفلی) روزے کبھی رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا۔ اسی طرح میں (رات میں) نوافل بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور دیکھو میں بیویاں بھی رکھتا ہوں (سو تمہارے لیے خیریت میرے طریقے کی پیروی میں ہے) اور جس کی نگاہ میں میری سنت کی وقعت نہیں (جو میری سنت سے بے رخی برتے) وہ میرے گروہ میں سے نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا بھی ہیں اور افضل البشر بھی۔ انہی کی ذات اقدس میں انسانیت اپنے کمال کو پہنچی۔ وہ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایسی مقدس اور پاکیزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی قسم کھائی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مشرکین مکہ کو کھلے میدان میں چیلنج کیا تو انہوں نے اپنے تجربوں کی روشنی میں یہ کہاکہ آپ صادق اور امین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین میں فرمایا کہ آپ اخلاقِ حمیدہ کے بلند ترین معیار پر فائز ہیں۔ تو ہم کیوں نہ ہر مرحلے اور ہر موقع پر اپنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپنائیں اور ایسا طرزعمل کیوں اختیار کریں جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے کوئی مناسبت نہ ہو۔ یہی ربیع الاول کا پیغام ہے۔