Search This Blog

Sunday, 22 January 2012

کرناٹک میں بجلی کا بحران یا ریاستوں،مرکز اور برقی کمپنیوں کا ’’پاورپلے‘‘

کرناٹک میں بجلی کا بحران یا ریاستوں،مرکز اور برقی کمپنیوں کا ’’پاورپلے‘‘
خصوصی رپورٹ: ایاز الشیخ گلبرگہ

کرناٹک میں برقی کی شدید قلت اب بحران کی شکل اختار کرتی جارہی ہے۔ درالخلافہ بنگلور سمیت سارے شہر وں کو اسکا سامنہ ہے۔ اسکا سبب کیا برقی پیدوار مراکز کو کوئلے کی عدم سربراہی ہے یا یہ ریاستوں، مرکز اور بجلی کمپنیوں کے درمیان کھیلا جارہا ’’پاور پلے‘‘ ہے؟
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آندھرا پردیش میں تلنگانہ ایجی ٹیشن کی وجہ سے تھرمل پاور پلانٹس کو کوئلہ ضروری مقدار میں سربراہ نہیں ہوپا رہاہے۔ شمالی کرناٹک میں رائچو اور بیلاری پلانٹس اسے سے متاثر ہوئے ہیں۔ سنگارینی کوئلہ کان کے مزدوروں نے تلنگانہ تحریک کی تائید میں کام بند کردیا ہے۔ اسی طرح مہاراشٹرا و دیگر ریاستوں سے سپلائی ہونے والا کوئلہ بھی نہیں پہنچ پا رہا ہے ۔
دوسری جانب فکرمند کرنے والی بات مرکز کا ریاست کو مطلوبہ مقدار میں برقی کی عدم سربراہی ہے۔ سینٹرل جنریٹنگ اسٹیشن CGS کو 1534 میگاواٹ بجلی فراہم کرنی ہے جبکی اس وقت وہ صرف 1000 میگا واٹ ہی فراہم کررہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مرکزی گرڈ سے منسلک کچھ برقی پیدوار اکائیوں کو بھی انہی مشکلات کا سامنہ ہے۔ ’’کوئلہ کے کمی سے مرکزی اکائیاں بھی اپنی استطاعت سے کم برقی پیدا کر رہی ہیں۔ اسطرح مرکزی گرڈ کم مقدار میں برقی فراہم کر رہا ہے۔‘‘ ذرائع نے بتایا۔ اس سلسلے میں ریاست کا ایک اورا مسئلہ شمالی ہند کی زائد برقی پیدا کرنے والی ریاستوں سے بجلی کے حصول میں ناکامی ہے۔ کمزور ٹرانسمشن نیٹورک کی وجہ سے یہ ممکن نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کا رائچور اور بیلای کے تھرمل پاور پلانٹس کی دیکھ ریکھ کی خاطرoverhaul کرنے کا فیصلہ اب مہنگا پڑتا نظر آرہا ہے۔ ایک افسر نے بتایا’’ہمارا خیال تھا کی ستمبر میں حالات نارمل رہیں گے اسی لیئے حکومت نے overhaul کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہمارا تخمینہ غلط ثابت ہوا اور برقی کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔‘‘
اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لئے برقی کمپنیاں، خانگی کمپنیوں سے برقی خریدنے کی تیاری کررہی ہیں۔ بیسکام نے منگل کے دن ایک خانگی کمپنی سے 200 میگاواٹ بجلی 6.20 روپئے فی یونٹ کے حساب سے خریدی جسے اس کمپنی نے اگلے ہی دن بڑھا کر ۹ روپئے کردیا۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے اینرجی مارکٹ میں خانگی کمپنیوں کو بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے چاروناچار انہیں سے خریدنا ہے جو موجود ہیں۔ کمپنیاں شش و پنج میں ہیں کہ کیا مہنگی بجلی خریدنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے یا پھربرقی کٹوتی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ کو اور طویل کیا جائے۔ ’’لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہے، بحران کے دوران برقی کی خریدی مہنگاکام ہے۔ یہ فروخت کنندہ کی مارکٹ seller's market ہے۔ بڑی بولی لگانے والے کو ہی برقی ملتی ہے۔ بڑوسی ریاست کے بحران سے ہم لاچار ہوگئے ہیں۔‘‘ بیسکام کے منیجنگ ڈائرکٹر پی منی ونن نے کہا۔
خیر تلنگانہ تحریک کے لیڈران، آندھرا و کرناٹک کے منسٹرس اور برقی کمپنیوں کے اعلی عہدیداران سب اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور گھروں میں اپنے پاور جنریٹر کے ذریعہ بجلی حاصل کررہے ہیں۔مسئلہ اس عوام کا ہے جسکا مقدر ہی شاید تمام تر مصائب و مشکلات برداشت کرنا اور بطور فرض ’’ذمہ دار لوگوں‘‘ کو پارلمینٹ اور اسمبلیوں میں ’’پاور پلے‘‘ سے لطف اندوز ہونے ، منتخب کرتے رہنا۔ اور یہ کم سمجھ عوام اقتدار کی مشکلات ، تکنیکی مسائل اورسیاست و بیوریوکریسی کی باتوں کو بھلا کیسے سمجھ سکتی ہے۔ اسکی سمجھ تو صرف سیاسی لیڈران کے پاس ہے۔ شاید پیرزادہ قاسم نے اسی مناسبت سے کہا تھا
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی ۔ صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
ayazfreelance@gmail.com
Mobile:9845238812

No comments:

Post a Comment