Search This Blog

Friday, 20 January 2012

سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی اتنی اہمیت کیوں؟

سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی اتنی اہمیت کیوں؟

اگر بار بار احتجاج کے بعد بھی سرکار آپ کی نہیں سن رہی ہے تو آپ کو اپنے ماضی میں جاکر سکار کے دوسرے رویہ کو جان لینا ضروری ہے ۔سلمان رشدی گستاخ رسول اقدس ﷺ ہے اور تسلیمہ نسرین اسلام مخالف ہے۔ یہی دو خوبیاں ہیں ؟ جو سرکار کے لئے اہمیت ہیں ۔ہندوستان کی ساٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اس ملک کے مسلمانوں کے جان و مال کی نہ حفاظت کی گئی اور نہ ہی ان کو دوسرے شہریوں کی طرح حقوق حاصل رہے۔خواہ دستور ہند میں کتنی ہی آزادی ہو لیکن سچ یہ ہے کہ مسلمان آج یہاں دوسرے درجے کے شہری کی زندگی گزار رہا ہے ۔آزادی سے لیکر آج تک کانگریس کا دور حکومت ہزاروں مسلم کش فسادات سے بھرا پڑا ہے ۔ان میں مرنیوالوں کی تعداد دوسری جنگ عظیم میں مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے ،زخمی ہونیوالوں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانیوالوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے ۔فسادات میں مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائیدادوں کو لوٹا اور جلایا گیا ۔شاید ہی ملک کا کوئی شہر ایسا ہو جو فسادات سے بچا ہو ۔ملک میں آزادی سے قبل مسلمانوں کی گھریلو صنعتیں تھیں جنہیں چن چن کر ختم کیا گیا ۔مسلمانوں کی کی جان و مال کی تباہی کے بعد روٹی روزی سے بھی محروم کر دیا گیا ۔اسی کے ساتھ پورے ملک سے اردو زبان کو ختم کیا گیا ۔خاص طور سے اتر پردیس سے ۔آزادی سے قبل بعد مسلمانوں کی اربوں کھربوں روپیوں کی اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضے کئے گئے ،جنہیں آج تک مسلمانوں کو لوٹایا نہیں گیا ۔ملک کے پچھڑے طبقوں کو ریزر ویشن دیا گیا لیکن اسی آئین کے تحت مسلمانوں اور عیسائیوں کو محروم رکھا گیا ؟مسلمانوں کے لئے پندرہ نکاتی پروگرام ،رنگا ناتھ کمیشن اور سچر کمیشن کے حوالے دئے جاتے ہیں لیکن نہ تو مسلمانوں کو حقوق ملے اور نہ اس پر ایماندارانہ عمل درآمد کیا گیا ۔ہوتا یہ ہے کہ کانگریسی حکومت مسلمانوں کی حالت زار کے لئے مگر مچھی آنسو بہاتی تو ہے اور اس کا خوب زور شور سے پرچار بھی کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے ۔ اور اس پرچار میں کانگریس کے مسلم نما چہرے پوری ایمانداری سے اپنی پارٹی کا حق نمک ادا کرتے دیکھے جاسکتے ہیں ۔بد نصیبی سے مسلمان آج تک ان مسلم نما چہروں سے سخت دھوکے میں ہیں کہ وہ انکے نمائندے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے درمیان کانگریس کے نمائندے ہیں ۔مسلمانوں کی حالت کل سے بھی زیادہ آج خراب ہے۔
بابری مسجد کی مسماری کے بعد ملک کے مسلم نوجوانوں نے سرکار پر سے بھروسہ ختم کردیا۔اور اپنی مدد آپ کے مصداق اپنی ترقی کے راستے خود ہی ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔انہوں نے اعلیٰ تعلیم پر توجہ دی جسکے نتیجے میں ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کی تعداد بڑھی ۔سرکار نے انہیں نوکریاں تو نہیں دیں ۔لیکن دہشت گردی کا فرضی الزام لگاکر انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا ۔یہ انکے حوصلوں کو پست کرنے کی ایک انتہائی گھناؤنی سازش ہے۔جو ہنوز روبہ عمل ہے۔آج کا مسلم نوجوان انصاف مانگ رہا ہے ۔اسکے بر عکس ہندو دہشت گرد آزاد گھوم رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ سرکار ،پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو انہیں دہشت گرد کہنا یا لکھنا بھی گوارہ نہیں ۔شاید اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور یہی تھی وہ آزادی جس کو حاصل کرنے لئے ہمارے اسلاف نے ہنستے ہنستے موت کو گلے لگایا تھا ۔نہ تو ہم دہشت گردی کے حمایتی ہیں اور نہ ہی اس کے پروردہ ، ہم ہر دہشت گرد کو سزا دینے کے طرفدار ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف ملک کے کونے کونے میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے مظاہرے کئے جلسے کئے ریلیاں نکالکرمخالفت کی لیکن دوسری طرف کچھ بھی نہیں ،جبکہ ہندو دہشت گردوں کے پاس سے ثبوت حاصل کئے گئے ۔
اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف ارون شوری،اشوک سنگھل،پروین توگڑیا ،سبرامنیم سوامی (جنہیں ان کے فرقہ وارانہ بیان پر ہارورڈ یونیور سٹی سے نکال دیا گیا)اور ان کے جیسے ملک میں کئی فرقہ پرست زہر افشانی کرتے رہتے ہیں ۔ھکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔مسلم لیڈر شپ کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے ۔اس وقت ہمیں بابری مسجد کی شہادت پر مسلمان لیڈروں نے تو نہیں ہاں ایک مسلم صحافی ایم جے اکبر نے بہار کے کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے اور ممبئی پارلیمانی حلقہ سے فلم اسٹار سنیل دت نے استعفٰی دیا تھا ۔ان تمام واقعات سے مسلمان بہ خوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ سرکار کے ذہن میں مسلمانوں کواذیت پہونچانے کا کس حد تک پلان ہے ۔
ہو سکتا ہے کہ سرکار سلمان رشدی جسے شیطان کہنا زیادہ مناسب رہے گا کا ویزہ رد کردے اور اسکے بعد یہ ہتھیار بھارتیہ جنتا پارٹی کو سونپ دے جیسا کہ بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے کا معاملہ ،بابری مسجد کی شہادت ،مسلم پرسنل لاء میں مداخلت یونیور سٹیوں کے اقلیتی کردار اور اسکے علاوہ بھی مسائل کو اس طرح پیش کیا کہ ہمیشہ اس کی آڑ میں باھرتیہ جنتا پارٹی اور دوسرے فرقہ پرستوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ہاتھ آجاتا ہے۔سرکار اگر مخلص ہوتی تو مسلمانوں نے کانگریس کو ہمیشہ سیکولرزم کی حفاظت کے لئے ووٹ دیکر کامیاب بنایا۔لیکن نہ تو اس نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے دیا اور نہ ہی انکو روزگار سے جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کی ۔نہ اوقاف کی زمینیں مسلمانوں کو لوٹائی گئیں۔ریزرویشن جو مسلمانوں کا آئینی حق بنتا ہے دیا گیا۔یہ وہ شرمناک حقیقتیں ہیں کانگریس کی جس سے مسلمانوں کو اندازہ لگا لینا چاہئے کہ کانگریسی سرکار سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو ویزے کیوں دیتی ہے ۔اور کیوں ایسے ملعونوں کی راہوں آنکھیں فرش راہ کئے رہتی ہے۔کانگریس سے مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلاء نہیں ہونا چاہئے ۔مومن وہی جو ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جائے۔

فضل شاد ۔سانکلی اسٹریٹ۔ممبئی ۴۰۰۰۰۸ ۔موبائل، 09322575076

No comments:

Post a Comment