خطبوں کے سامعین اتنے کم کیوں؟؟؟؟؟
از۔۔۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ
مساجد سے نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ کاروبار زندگی ویسے ہی چلتا رہا۔ دکانوں پر خرید و فروخت ہوتی رہی اور گھروں میں بیٹھنے والے اطمینان سے بیٹھے رہے۔ امام صاحب نے چند سامعین کے سامنے اردو خطبے کا آغاز کیا اور یہ چند سامعین ہی رہے۔ تقریر ختم ہوئی اور دوسری اذان سے قبل چار رکعت سنّت پڑھنے کا وقت دیا گیا۔ دوسری اذان کے ختم ہوتے ہوتے مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور عربی خطبہ جو شاید ہی کسی کی سمجھ میں آتا ہو، سننے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
ہمارے ائماء و علماء کے سامعین اتنے کم کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اگر یہ سوال انہی علماء سے کیا جائے تو وہ موجودہ دور کی خرابیاں بیان کریں گے لوگوں کی غفلت :سماجی بگاڑ اور بڑھتی ہوئی مادہ پرستی کو اس کا ذمہ دار قرار دیں گے حالانکہ اسی بگاڑ کے باوجود بعض ایسے بھی ائماء و علماء ہیں جن کی تقاریر سننے کے لئے ہزاروں افراد وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کی اصل وجہ ایک تو یہ کہ ہمارے علماء کو جو زبان سکھائی جاتی ہے وہ قرون وسطیٰ کے فقہ، فلسفے اور منطق کی زبان ہے۔ یہ زبان یقینا اس دور کی کتب کے مطالعے کے لئے تو نہایت مفید ہے لیکن دعوت و تبلیغ کے لئے انتہائی ناموزوں۔اور پھرآسان زبان کی بجائے فصیح ترین اردو۔ جسے کچھ لوگ تو ضرور سمجھتے ہونگے لیکن سامعین کی اکژیت اور خاص طور پر دور جدید کا کوئی شخص ان کی بات سنتا ہے تو ان کی زبان اور گفتگو کو وہ اپنی زندگی سے قطعی غیر متعلق محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مسجد میں جانے کے لئے امام صاحب کی تقریر کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
دوسری اہم بات موضوع کا انتخاب۔ اگر ہم صحابہ اکرام و بزرگان دین کی سیرت خصوصا انکے خطبات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ عوام الناس سے براہ راست متعلق موضوعات پر گفتگو کرتے۔ آج کل کے بعض علماء مسائل اور مسلکی برتری یا تنقید پر مشتمل تقاریر کو پوری قوت سے مائک پر چیخنے کو ہی فن خطابت سمجھتے ہیں( اور سامعین ان موضوعات کو بارہا سن چکے ہوتے ہیں)۔ اسکے بر عکس بزرگان دین اس دل نشین انداز میں اپنی بات پیش کرتے کہ وہ مخاطب کے سیدھے دل و دماغ میں اتر جاتی۔ لوگوں کی زندگیاں بدل جاتیں۔ پیران پیر الشیخ عبدالقادر جیلانی کی سیرت میں ہمیںاسکا بہترین نمونہ ملتا ہے۔
گر ہمارے علماء چاہتے ہیں کے انکے افکار کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں ، اسی معاشرے اور اسی دور کی زبان و انداز میں اپنی دعوت ان تک پہنچانی ہو گی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جو نبی و رسول بھیجے وہ اپنے مخاطبین کو انہی کی زبان میں خطاب کیا کرتے۔یاد رہے کہ منبر رسول ۖ سے کہی جانے والی بات اثر انداز نہ ہو یہ ناممکن ہے بشرطیکہ وہ دل کی گہرائیوں سے امت کے لئے درد سے کہی گئی ہو۔ بقول علامہ اقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
از۔۔۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ
مساجد سے نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ کاروبار زندگی ویسے ہی چلتا رہا۔ دکانوں پر خرید و فروخت ہوتی رہی اور گھروں میں بیٹھنے والے اطمینان سے بیٹھے رہے۔ امام صاحب نے چند سامعین کے سامنے اردو خطبے کا آغاز کیا اور یہ چند سامعین ہی رہے۔ تقریر ختم ہوئی اور دوسری اذان سے قبل چار رکعت سنّت پڑھنے کا وقت دیا گیا۔ دوسری اذان کے ختم ہوتے ہوتے مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور عربی خطبہ جو شاید ہی کسی کی سمجھ میں آتا ہو، سننے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
ہمارے ائماء و علماء کے سامعین اتنے کم کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اگر یہ سوال انہی علماء سے کیا جائے تو وہ موجودہ دور کی خرابیاں بیان کریں گے لوگوں کی غفلت :سماجی بگاڑ اور بڑھتی ہوئی مادہ پرستی کو اس کا ذمہ دار قرار دیں گے حالانکہ اسی بگاڑ کے باوجود بعض ایسے بھی ائماء و علماء ہیں جن کی تقاریر سننے کے لئے ہزاروں افراد وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کی اصل وجہ ایک تو یہ کہ ہمارے علماء کو جو زبان سکھائی جاتی ہے وہ قرون وسطیٰ کے فقہ، فلسفے اور منطق کی زبان ہے۔ یہ زبان یقینا اس دور کی کتب کے مطالعے کے لئے تو نہایت مفید ہے لیکن دعوت و تبلیغ کے لئے انتہائی ناموزوں۔اور پھرآسان زبان کی بجائے فصیح ترین اردو۔ جسے کچھ لوگ تو ضرور سمجھتے ہونگے لیکن سامعین کی اکژیت اور خاص طور پر دور جدید کا کوئی شخص ان کی بات سنتا ہے تو ان کی زبان اور گفتگو کو وہ اپنی زندگی سے قطعی غیر متعلق محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مسجد میں جانے کے لئے امام صاحب کی تقریر کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
دوسری اہم بات موضوع کا انتخاب۔ اگر ہم صحابہ اکرام و بزرگان دین کی سیرت خصوصا انکے خطبات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ عوام الناس سے براہ راست متعلق موضوعات پر گفتگو کرتے۔ آج کل کے بعض علماء مسائل اور مسلکی برتری یا تنقید پر مشتمل تقاریر کو پوری قوت سے مائک پر چیخنے کو ہی فن خطابت سمجھتے ہیں( اور سامعین ان موضوعات کو بارہا سن چکے ہوتے ہیں)۔ اسکے بر عکس بزرگان دین اس دل نشین انداز میں اپنی بات پیش کرتے کہ وہ مخاطب کے سیدھے دل و دماغ میں اتر جاتی۔ لوگوں کی زندگیاں بدل جاتیں۔ پیران پیر الشیخ عبدالقادر جیلانی کی سیرت میں ہمیںاسکا بہترین نمونہ ملتا ہے۔
گر ہمارے علماء چاہتے ہیں کے انکے افکار کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں ، اسی معاشرے اور اسی دور کی زبان و انداز میں اپنی دعوت ان تک پہنچانی ہو گی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جو نبی و رسول بھیجے وہ اپنے مخاطبین کو انہی کی زبان میں خطاب کیا کرتے۔یاد رہے کہ منبر رسول ۖ سے کہی جانے والی بات اثر انداز نہ ہو یہ ناممکن ہے بشرطیکہ وہ دل کی گہرائیوں سے امت کے لئے درد سے کہی گئی ہو۔ بقول علامہ اقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
No comments:
Post a Comment