Search This Blog

Tuesday 10 January 2012

بتلا دو گستاخِ نبیؐ سے غیرت مسلم زندہ ہے

بتلا دو گستاخِ نبیؐ سے غیرت مسلم زندہ ہے
از ۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ

حالیہ دنوں میں نازروے کے اخبارات نے ایک توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت کے ذریعہ بدترین شرانگیزی کی ہے۔ اور اسے آزادی اظہار کا بہترین مظاہرہ قرار دیتے ہوئے اس اقدام کا بھر پور دفاع کیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی یہ کوئی پہلی سازش نہیں بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار اور اپنے آپ کو مہذب ممالک کہنے والوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اسلام کے خلاف ہر زہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بھی زہر اگلے وہ دشمنان اسلام کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے ۔ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی تسلیمہ نسرین نامی عورت نے بھی گستاخی کاارتکاب کیا تو اس کو بھی مغرب نے بہتْ پذیرائی دی۔ملعون رشدی کی حرکتوں سے ہم واقف ہیں۔ گوانتا موبے کی بدنام زمانہ جیل میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی جس کا مقصد مسلمانوں کی دل آزاری اور ذہنی اذیت پہنچانا تھا۔ انٹرنیٹ پر ڈنمارک سے کچھ ایسی تصویریں شائع ہوئی ہیں جسمیں نعوذباللہ قرآن پاک کے نسخوں کو خنزیروں کے باڑے میں ڈالا گیا۔ ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ گریٹ ویلیڈرنے اسلام کے خلاف ایک فلم بنائی جس میں قرآن پاک کی تعلیمات اور اسلام کے خلاف نہ صرف ناز یبا زبان استعمال کی گئی بلکہ (نعوذبااللہ )اسے جلا بھی دیا گیا۔ اور اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامائزیشن مغرب کے لئے سونامی بنتا جارہا ہے ، اور مسلمان مغرب کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ قرآن کی تعلیمات جمہوریت کے خلاف ہیں اور ان سے نفرت کا درس ملتا ہے۔ لہذا ہالینڈ میں موجود مساجد اور مدارس میں قرآن پاک کی تعلیم پر پابندی لگائی جائے۔گریٹ ویلڈرایک انتہاپسند سیاسی پارٹی کا رہنما ہے۔ ادھر امریکہ میں ساری صدراتی انتخابی مہم مسلم و اسلا م دشمنی کی بنیاد پر چلا ئی گئی۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ریپبلکن پارٹی کے بدبخت ٹام ٹین کریڈونے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے خلاف حملہ ہوتومسلمانوں کے مقدس مقامات حرمین شرفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر حملہ کر دینا چاہئے ۔ اس فہرست میں سوئٹزرلینڈ بھی مسجد کے میناروں پر امتناع عائد کرکے شامل ہوگیا۔ فرانس کے عیاش صدر سرکوزی ے اسلامی حجاب اور بر قعہ کے خلاف اپنی زہرافشانی کے ذریعہ اسلامی تشخص کی اس علامت کا با ر با ر مذاق اڑایا اوربالا آخر حجاب پرامتناع کے قا نون کے ذریعہ اپنی دلی آرزو پوری کر تے ہوئے اپنے اسلام دشمن ہونے کی سندپیش کردی۔

شاتم رسول سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین ، گیر ٹ ویلڈر مانا روے اور ڈنمارک کے گستاخ ایڈئیٹرز ہوں ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو مغرب نے ان کو بہت زیادہ پذیرائی دی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کی نظرمیں وہی لوگ عزت پذیرائی اور حمایت کے قابل ہیں جواسلام اور مسلمانوں کے خلاف گستاخانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔اگر مغرب واقعی مہذب ، انسانی حقوق کے علمبردار اور غیرجانبدار ہیں انتہا پسندی اور شدت پسندی ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے اندر سے مسلمانوں کے خلاف نفرت ، بغض ، اسلام دشمنی ختم کرنا ہوگی۔
اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل نے انٹرویو میں کہا کہ ناروے اور ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت سے ہم بڑے تنازع کی طرف جارہے ہیں اور اس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل کی بات سو فیصد درست ہے ایک طرف تو مغرب میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کرتا ہے۔ اوبامہ ایک طرف تو تہذیبوں کے مابیں تعاون کی بات کرتے ہیں دوسری جانب دہشت گردی ،شدت پسندی اور انتہاپسندی کو بنیاد بنا کر افغانستان اور عراق کے بعد اب ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ مغرب بھی متواتر مسلمانون کی دل آزاری میں مصروف ہے مغرب کی حرکات کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں کیونکہ گستاخانہ خاکے ہوں یامسلمانوں کے خلاف زبان استعمال کرنے والے ہوں کبھی بھی ان کی مذمت نہیں کی جس وجہ سے ایسی حرکات مسلسل ہورہی ہیں۔ امن ، بم ، گولی ، قتل وغارت یا عقویت خانے قائم کرنے سے ممکن ہی نہیں ہے۔اگر مغرب امن چاہتا ہے تو دوسروں کو امن دے دہشت گردی کے خوف سے چھٹکارہ چاہتا ہے تو عراق اور افغانستان میں موت بانٹنا بند کرے مسلمان تمام نبیوں کو برحق سمجھتے ہیں کسی نبی کی گستاخی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جب مسلمان ایسا نہیں کر تے تو مسلمانوں کے نبی کی شان میں گستاخی کیوں کی جاتی ہے۔اس حرکت کو معمولی نہ سمجھا جائے تمام مغربی ممالک سنجیدگی سے سوچیں اور اس با ت کویقینی بنائیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ ہونے پائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو تہذیبوں میں تصادم کا خطرہ ہے اوراگر تہذیبوں میں تصادم شروع ہو گیا تو کہاں جا کر رکے گا یہ پوری دنیا جانتی ہے ۔ آج مغربی دانشور یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ اسلام و مسلمانوں کو زیر کرنے کے جتنے ھتکنڈے اپنائے گئے وہ خود مغرب کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک اعشاریہ تین بلین سے زائد ہے گویا دنیا بھر کے پانچ باشندوں میں سے ایک مسلمان ہے۔د آج دنیا بھر میں جو مسلم مزاحمتی گروہ سرگرم عمل ہیں وہ تمام مسلمانوں کا دو فیصد بھی نہیں۔ مسلمانوں کی اکژیت پر امن طریقے سے مسائل کا حل چاہتی ہے۔ مغرب و دشمنان اسلام سوچیں اسوقت کیا ہوگا جب یہ پرامن اکژیت پرامن طریقے سے مایوس ہو جائیں اور بقول راحت اندوری:
یہ جو لاکھوں کروڑوں پانچ وقتوں کے نمازی ہیں
اگر سچ مچ میں دہشت گرد ہو جائیں تو کیا ہوگا

، گر مغربی ممالک کی طرف سے اس بار بھی خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو ایسے ملعونوں کو مزید شہہ ملے گی اگر دوبارہ ایسی حرکت کریں گے۔تو پھر ٹکراؤشروع ہوتا ہے تو پھر اس کی تما م تر ذمہ داری مغربی ممالک پر ہو گی۔مغرب اور دشمنان اسلام جان لیں کہ ایک مسلمان کے لئے اپنے آقا و مولیﷺ اور دین کیلئے جان دینے سے بڑھکر کوئی سعادت نہیں۔
بتلا دو گستاخ نبی سے غیرت مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

(ayazfreelance@gmail.com.com)



No comments:

Post a Comment