Search This Blog

Sunday 29 January 2012

حکمت

حکمت

شاہ نواز فاروقی 

ایک زمانہ تھا کہ لفظ حکمت یا Wisdom انسانی تہذیب کا مرکزی حوالہ تھا اور اس کے بغیر فکری کائنات کا تصور ممکن نہیں تھا۔ لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ اسلامی تہذیب تک میں حکمت کا لفظ اجنبی اور غیرمانوس ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ ”حکیم“ کی اصطلاح طب یونانی کے ماہر یعنی طبیب کے لیے وقف ہوگئی ہی۔ جدید طب نے لفظ حکیم کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کردی ہے۔ کروڑوں لوگ ڈاکٹرکے تناظر میں حکیم کا ذکر تحقیر کے ساتھ کرتے ہیں اور لفظ حکیم سے ہمارے ذہن میں دقیانوسیت اور پسماندگی کا تصور آتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکمت کا مفہوم کیا ہے؟
حکمت کے بارے میں دو باتیں بنیادی ہیں
:(1) حکمت غیر شخصی یا None Personal چیز ہے۔(2) حکمت زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان باتوں کے معنی کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ذہانت کی دو اقسام ہیں: شخصی ذہانت اور غیر شخصی ذہانت۔ ہماری تہذیب میں شخصی ذہانت کا مرکز ذہن ہے اور غیر شخصی ذہانت کا مرکز دل۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمت دراصل غیر شخصی ذہانت کا دوسرا نام ہی، اسی لیے ہماری تہذیب میں دل کو دارالحکمت یعنی حکمت کا گھر کہا جاتا ہے۔ شخصی ذہانت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ابتدا بھی انا مرکز یا Ego Centric ہوتی ہے اور اس کی انتہا اور کمال بھی انا مرکز یا Ego Centric ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دل کے غور و فکر کا انا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انا مرکز ذہانت اور انا مرکز علم فرد کے مشاہدی، تجربی، مفادات اور تعصبات کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر غیر شخصی ذہانت اور غیر شخصی علم کا ان امراض سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شخصی ذہانت ذہن سے برآمد ہوتی ہی، اور ذہن کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو ٹکڑوں میں بانٹ کر سمجھتا ہے جسے عرفِ عام میں تجزیہ کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس دل چیزوں کو ان کی کلیت یا ان کی Totality میں سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تہذیب میں ذہن کی ذہانت کے لیے عام طور پر فکر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور دل کی ذہانت اور اس کے غور و فکر کے لیے فراست اور عرفان کی اصطلاحیں مروج رہی ہیں۔
حکمت کے زمان و مکان سے بلند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انا مرکز یعنی شخصی ذہانت اپنے مشاہدے اور تجربے ہی کی نہیں، اپنے ماحول اور اپنے عصر کی بھی اسیر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر مقامیت کا بھی غلبہ ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شخصی ذہانت یا انا مرکز ذہانت اپنے عصر کی معاشیات، سیاست، سماجیات اور اپنے جغرافیے کی اسیر ہوتی ہی، اور اگر وہ اپنے زمانے اور اپنے مقام کی تنقید بھی پیدا کرتی ہے تو انہی کے دائرے میں رہ کر۔ یہی وجہ ہے کہ شخصی ذہانت، شخصی فکر بہت جلد پرانی ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس غیر شخصی ذہانت اور غیر شخصی فکر ہر زمانے اور ہر مقام کے لیے ہوتی ہے اور وہ کبھی پرانی نہیں ہوتی۔
جدید مغربی فلسفہ شخصی اور انا مرکز ذہانت و فکر کا سب سے بڑا اشتہار ہے۔ مغرب میں رینے ڈیکارٹ کو جدید فلسفے کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ ڈیکارٹ کا مشہور زمانہ فقرہ ہی: I think there fore i am۔ یعنی ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس فقرے کے ذریعے ڈیکارٹ نے فکر کو انسان کی اصل بنادیا ہے اور جدید مغربی فلسفے میں فکر کا مرکز ذہن ہے۔ ہمارے یہاں مرزا غالب نے فکر کی اہمیت کو اس طرح نشان زد کیا ہے کہ ان کا تناظر ڈیکارٹ کی فکر سے آگے نکل گیا ہے۔ غالب نے کہا ہی:
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ ¿ دامِ خیال ہی
غالب نے اس شعر میں فرمایا ہے کہ انسان اپنی ہستی، اپنے وجود یا اپنے Existence کو حقیقی سمجھتا ہی، حالانکہ ہمارا وجود خیالات کی کڑیوں یا حلقوں سے بننے والے ایک جال کے سوا کچھ نہیں۔ یہ جال ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارا وجود حقیقی ہی، مگر یہ محض ایک فریب ِنظر ہی، کیونکہ ہمارا وجود حقیقی نہیں بلکہ خیالات کا ایک نظام ہے اور بس۔ غالب مسلمان تھے اور اسلامی فکر کا یہ ایک بنیادی خیال ہے کہ حقیقی وجود صرف اللہ تعالیٰ کا ہی، اس کے مقابلے پر انسان کا وجود محض ایک امکان یا Possibility ہے۔ چنانچہ غالب کے اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقی وجود تو صرف اللہ کا ہی، اس کے مقابلے پر انسان کا وجود تو محض ایک فریب ہے جو خیالات کے جال سے عبارت ہے۔ لیکن غالب کی فکر پر جدیدیت کا گہرا سایہ تھا، چنانچہ ان کے شعر کا پہلا مفہوم زیادہ قرین قیاس ہے۔ غالب کا ایک شعر ہی:
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس شعر میں انسانوںکو غالب کا مشورہ یہ ہے کہ تمہاری ذات ہی سب کچھ ہی، اسی پر انحصار کرو، ممکن ہے اس طرح تمہیں آگہی کے بجائے غفلت فراہم ہو، لیکن مانگے کی آگہی سے ذاتی غفلت اچھی ہے۔ غالب کے اس شعر میں خدا اور بندے کا تعلق بھی محتاجی کا تعلق ہے اور غالب کو یہ محتاجی پسند نہیں خواہ یہ محتاجی انسان کو اشرف المخلوقات ہی کیوں نہ بناتی ہو۔ شخصی یا انا مرکز فکر انسان کو اکثر ایسے ہی نتائج تک پہنچاتی ہے۔
جدید مغربی فلسفے میں شخصی فکر کی بنیاد پر سب سے عظیم الشان نظام وضع کرنے والا ہیگل تھا۔ لیکن ہیگل کے بارے میں اقبال نے اصل اور بنیادی بات کہہ دی ہے۔ اقبال نے کہا ہی:
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
اصنام اُس کے سب خیالی
یعنی ہیگل کا صدف موتی سے محروم ہے۔ اس نے فکر کے جتنے بت بنائے ہیں وہ سب وہم و گمان سے عبارت ہیں۔ اس کا کوئی بت نہ خود حقیقت ہے نہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔ مغربی فلسفے کی ہولناک حد تک شخصی فکر نے ڈیوڈ ہیوم کو پیدا کیا جو تشکیک یا Scepticism کا امام تھا۔ ہیوم نے شک کو نظام بنادیا۔ اس کی تشکیک اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دن وہ بلیرڈ کھیل رہا تھا، اچانک اس کو شک کا شدید دورہ پڑا اور اسے خیال آیا کہ خود اس کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ اس خیال سے وہ وحشت زدہ ہوکر کمرے سے نکل کر بھاگا۔ پھر اس نے ایک جگہ کھڑے ہوکر خود کو بہت زور سے نوچا۔ نوچنے سے تکلیف ہوئی۔ اس تکلیف سے اسے ”یقین“ آیا کہ وہ موجود ہے۔ کارل مارکس کا کمال یہ ہے کہ اس نے شخصی یا انا مرکز فکر کو نہ صرف یہ کہ عمل بنادیا بلکہ اس کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ لیکن یہ انقلاب دنیا میں صرف 70 سال تک زندہ رہا اور بالآخر اس طرح فنا ہوا کہ جیسے روئے زمین پر اس کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
مذاہب ِعالم کی تاریخ غیر شخصی فکر یا غیرشخصی ذہانت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس تاریخ میں یہودیت کی تاریخ ہے جو ایک مسخ شدہ روایت ہی، لیکن اس کے باوجود یہودیت زندہ ہے اس لیے کہ اس میں ابھی تک حکمت یا غیر شخصی فکر کا عنصر موجود ہے۔ ہندو ازم کی تاریخ پانچ ہزار سال پر محیط ہے اور مقبولِ عوام ہندو ازم خود اپنی مقدس کتابوں یعنی ویدوں اور گیتا سے بہت دور نکل آیا ہی، مگر ہندو ازم زندہ ہے اس لیے کہ اس میں بھی غیر شخصی فکر کا عنصر موجود ہے۔ عیسائیت کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے اور عیسائیت کی روایت بھی ایک مسخ شدہ روایت ہی، مگر اس کے باوجود عیسائیت دنیا کے تین بڑے مذاہب میں سے ایک ہی، اس لیے کہ اس کی روایت میں حکمت کا جلوہ موجود ہے۔ سقراط اور افلاطون کی فکر دو افراد کی فکر ہونے کے باوجود غیر شخصی فکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عیسائیت سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہونے کے باوجود آج تک نئی ہے اور انسانیت آج بھی اس سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ حکمت کی اس اہمیت کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ آخر حکمت آتی کہاں سے ہی؟ اس سوال کا مولانا رومؒ نے دو ٹوک جواب دیا ہے۔ مولانا نے فرمایا ہی:
عشق و رقّت آید، از نانِ حلال
علم و حکمت زاید از نانِ حلال
ہماری تہذیب میں عشق و رقت کا مقام بلند ترین ہے اور مولانا نے فرمایا ہے کہ عشق و رقت رزقِ حلال پر ”قناعت“ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں رزقِ حلال کا مفہوم جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور روحانی غذا پر محیط ہے۔ اس کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا عہد ہی، جس میں ایک طرف جسمانی غذا میں قناعت کی اعلیٰ ترین مثالیں پائی جاتی ہیں اور دوسری طرف نفسیاتی، جذباتی اور روحانی غذا میں بھی قناعت کا دور دورہ ہے۔ لیکن بعدازاں تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں ایک جانب عرب بڑے تاجر بن کر ابھرے اور دوسری جانب قرآن مجید کی تفسیر کی نفسیاتی، جذباتی اور روحانی ضرورت پیدا ہوئی۔ مسلمانوں کو ایسی ہی ضروریات کے تحت علم حدیث مدون کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو دوسری اقوام کے فلسفوں سے سابقہ درپیش ہوا تو ”علمِ کلام” ایجاد ہوا۔ مسلمانوں نے نفسیاتی، جذباتی اور روحانی تقاضوں کے تحت بڑی شاعری پیدا کی، داستان کی ایک بہت بڑی روایت کو جنم دیا، فنِ تعمیر کے شاہکار تخلیق کیے۔ غور کیا جائے تو یہ تمام چیزیں ”زاید از نانِ حلال“ ہی کے تحت آتی ہیں۔ حکمت کی اس اہمیت اور معنویت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا حکمت کے تصور اور روایت سے کیا تعلق ہی؟
اس سوال کا بہترین اور مکمل جواب وہ حدیثِ مبارکہ ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہی، یہ جہاں سے ملے حاصل کرو۔ اسلام کی فکری روایت حق و باطل کی روایت ہے۔ حکمت حق ہے اور انا مرکز فکر باطل ہی، اور مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ حق اور باطل کو ہر صورت میں پہچاننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ایساکرنا اس لیے ضروری ہے کہ حق و باطل کے اظہار کے سانچے اور اسالیب بدلتے رہتے ہیں۔ ان کی اصطلاحیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل کو مخصوص اصطلاحوں اور مخصوص اسالیب میں پہچاننے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس کے دو نقصانات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ حق کی وسیع تر عالمی روایت سے استفادے کے قابل نہیں رہتی، دوسری جانب وہ باطل کو بدلی ہوئی صورت میں پہچان نہیں پاتے اور بسا اوقات اس کی ظاہری صورت سے دھوکہ کھاکر اسے حق سمجھ لیتے ہیں۔ اس تناظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت مسلمانوں کے لیے یہ ہے کہ مسلمان صرف اپنے علوم و فنون، اپنی مخصوص زبانوں اور اپنی مخصوص اصطلاحوں ہی میں حق کو پہچاننے والے نہ بنیں بلکہ انہیں اپنے اندر یہ اہلیت پیدا کرنی چاہیے کہ پوری عالمی برادری اور پورے عالمی منظرنامے میں جہاں کہیں حق حکمت کی صورت میں موجود ہی، مسلمان اسے پہچانیں اور اس سے خود بھی استفادہ کریں اور وسیع تر انسانی برادری کو بھی فیض پہنچائیں۔

No comments:

Post a Comment