بابری مسجد کی دوسری شہادت
تحریر:نویدتا مینن ، پروفیسر دہلی یونیورسٹی ترجمہ: ایاز الشیخ، گلبرگہ
اس فیصلہ نے مجھے بکھیر دیا، کیااثرات مرتب کریگا یہ جمہوریت پراور کس طرح کے مستقبل کی ہم توقع کر سکتے ہیں.... میری برہمی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے........ میڈیا میں یک کے بعد دیگرے پرشکوہ سیاستدانوں کے بیانات سے...... جو اس فیصلہ کے ذریعہ مسلط کی گئی صلح کے راگ الاپ رہے ہیں۔
او خدایا.... مثلاً پرتاپ بھانو مہتا امن لنکس میں کہہ رہا ہے ’’اس بات کا اعتراف کہ یہ مقام رام جی کی جنم بھومی ہے ، یہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ مذہب سے سیاست کی بیدخلی ہے۔‘‘ رام کی جنم بھومی قرار دے کر کس طرح مذہب سے سیاست کی بیدخلی ہو سکتی ہے؟ اور اس کا جواب کیا ہوگا کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟ ؟؟؟کیا آپ خود بھگوان کو کو ملکیت کے مقدمہ میں فریق بناکر ’’مذہب سے سیاست کو بیدخلی کا عمل ‘‘ انجام دینا چاہتے ہیں۔
آیا رام جی تخلیق ہیں عقیدہ کی یا سبب کی، افسانہ کی یا تاریخ کی، ازلی یا عارضی،حقیقی یا غیر حقیقی، یہ قابل مطالعہ و بحث امور ہیں۔ لیکن عدالت نے اس بات کو شرف قبولیت و سند بخشاکہ محض گفتگو اور بحث ، ’’ خود آگہی‘‘ کوجوہندوستانی سماج کا خاصہ ہے ‘ کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔
پرتاپ اورعدالت کی نظر میں یہ ’’ خود آگہی یا ہندوستانی ضمیر‘‘ کیا ہے؟ کیا اسکا مطلب برہمو سماج کے عقیدوں پر عمل کرنا ہے...... یا سناتنی ہندووں کی طرح کے عقائدجن میں میری والدہ بھی شامل ہیں پر عمل کریں کہ خداکی زمین میں موجودگی سنکریناتا تک محدود ہے؟ ؟؟؟اب غیر ہندووں اور دلتوں کا کیا ہوگا؟ ملحدوں اور مذہب کی نفی کرنے والے کہاں جائیں؟ ؟؟آخر رام جنم بھومی نیاس ہے کیا؟ صرف ایک ٹرسٹ جو رام مندر کی تعمیر کی خاطر بنایا گیا، شمالی ہند کے سادھووں، سنتوں، مہنتوں اور بی جے پی ، وی ایچ پی کے ارکان پر مشتمل ڈھیلا ڈھالا ڈھانچہ۔ کیا یہ ہندوستان کی ’’ہندوستانیت‘‘ اور ’’خود آگہی‘‘ کا مظہر ہیں؟ ؟ ؟؟؟؟
لگتا ہے عدالت نے ملک کے سیکیولر کردار کو چھیڑے بغیر (مذہبی) دعوی کو قبول کرنے کی کوشش کی ہے۔ خالص ذہنوں کے لئے یہ بات باعث اطمینان نہیں ہے۔اسے سیکیولریزم کو مضبوط کرنے والا قابل ستائش طریقہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن !!!عدالت نے ’’مذہبی دعوی‘‘ کو شاید قبول نہ کیا ہو، کیا واقعی؟ کیا سنی مسلمانوں کے دعوی کو قبولیت ملی؟ کیا یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ طاقتور طبقہ یعنی ہندووں کے دعوی کو قبول کرنا دراصل سیکیولریزم کو مضبوط کرنا ہے؟ میں اپنے آپکو( انگریزی کہانی کے کردار ) الائیسAlice کی طرح محسوس کر رہی ہوں جو شیشہ کی زمین والی دنیا میں حیران و سرگرداں ہے۔
میں ان بزدلانہ بیانوں سے بیزار ہوگئی ہوں‘ جیسے: درحقیقت ہم فیصلہ کے تکنیکی نقاط کو چھوڑ رہے ہیں، یہ ایک زمینی ملکیت کا معملہ ہے، ہمیں پتہ لگانا ہوگا کہ قانونی طور پر اسکا مطلب کیا ہے، کیا ہم حقیقتاً یہاں قانون کے تمام باریک نکات سے آگاہی رکھتے ہیں...........
فنی لحاظ سے؟ قانونی طور پر؟ یہ فیصلہ یک طرفہ فیصلہ ہے اس میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا کہ کہا قانونیت اور فنیت پر زور دیا جائے اور کہاں اسے نظر انداز کیا جائے۔ جب یک بحث کمزور پڑتی نظر آرہی ہو تب گرفت سے بچنے اچانک ایک متنازعہ بحث شروع کردی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک جھوٹا کہتا ہے کہ ’’معافی چاہتا ہوں میں نے جس کا وعدہ کیا تھا وہ میں نہیں کرسکا کیونکہ میں ڈینگو بخار میں مبتلا ہو گیا تھا، اور ساتھ ہی میں اپنی بوڑھی والدہ کی تیمارداری میں مصروف تھا جنکی پیر کی ہڈی میں فریکچر آگیا، اور پھر زورداربارش شروع ہوگئی اور سڑکیں پانی سے اتنی بھرگیءں اور سیلاب جیسی صورتحال پید ہوگئی۔۔
جدید عدالت میں ’’عقیدہ‘‘ فیصلہ کو صادر کرنے کی بنیاد ہے بلکہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ بھی بتا رہی ہے کہ مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی......... اور پھر سنی وقف بورڈ بھی اپنا حق ملکیت واضح طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہا.......تو پھرکون حق بجانب..... محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کی تکنیکی اور سائنٹفک حیثیت؟ ؟؟ جو خامیوں سے پر ہے، مشکوک ترین اور فنی طور پر بلکل ناقابل اعتبار۔ قانونی دستاویز؟ ؟؟رام جنم بھومی نیاس کے پاس کوئی ایسی دستاویز نہیں جو قانونی جانچ کا سامنا کرسکے۔ 20مارچ 1992 کے کرایہ نامہLease Deed کے مطابق 42ایکڑ زمین جو حکومت اتر پردیش کی ملکیت ہے جس پر رام جنم بھومی نیاس اور وشو ہندو پریشد نے دعوی کیا ہے کہ انہیں کرایہ پر دی گئی ہے۔ یہ رام جنم بھومی کو ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی تھی۔ یہ حکومتی زمین ہے جسے عوامی مقاصد کے لئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مندر کی تعمیر مذکورہ مقصد سے بلکل متصادم ہے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ نیاس کا اس زمین پر حق ملکیت کا دعوی قانوناًبے بنیاد ہے۔
اب رہ گیا عقیدہ کا معملہ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ سنی وقف بورڈ کے پاس بھی یہ وافر مقدار میں موجود ہے۔
پرتاپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ حق ملکیت کے معملہ میں‘ کسی بھی فریق کا یہ اقدام غلط ہوگا ‘ اگر وہ اپنے موقف پر اصرار کرے۔ ‘‘ ’کسی بھی فریق‘سے یہاں مطلب صرف سنی وقف بورڈ ہے ، کیونکہ نیاس یا اکھاڑا کو عدالت نے جتنا نوازا ہے اس سے زیادہ کی وہ توقع بھی نہیں کرسکتے۔ اور پرتاپ کے خیال میں عدالت کی تقسیم سے زیادہ کی خواہش انکی’’ملکیت کے حصول کی بیجا ضد‘‘ کا اظہار ہوگی۔ بہت خوب ........ رام جنم بھومی نیاس نے ملکیت کا دعوی سارے الہیاتی اعلی اصولوں کے تحت!!!! لیکن جب سنی وقف بورڈ کا معملہ آتا ہے تو وہ ایک قانونی معملہ ہوتا ہے.... بے ایمانی اور حماقت پر مبنی دعوی۔
جب سبھی استدلال ختم ہو جاتے ہیں ، تو بڑبڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے لیکن فرض کیجئے کہ فیصلہ میں اس بات کوتسلیم کیا جاتا ہے کہ ’’ہندووں‘‘ کا اس معملہ مین کوئی قانونی موقف ہے ہی نہیں، تصور کیجئے تب کیا ہوگا، ناقبل بیان خونریزی ہوگی۔ ۔
اچھا تو اس وجہ سے ایسا کیا گیا......۔ لیکن اگریہ سب کچھ خونریزی روکنے کیا گیا ہے یا قاتلوں یا خونریزی کرنے والوں کو مطنئن کرنا اسکا منشاء ہے اور اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر عدالت جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیوں نہ دونوں طبقات کے ’’عقلند‘‘ لوگوں کو ایک مناسب ’’پنچایت‘‘ میں بلاکر ’’بات چیت‘‘ کے ذریعہ حل تلاش کیا جاتا۔ جسمیں کمزور فریق کو مکمل طور پر مصالحت پر مجبور اور فیصلہ کے بعد خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی۔
ایک عورت عصمت دری کا شکار بنی ..... پھر وہ حاملہ ہو گئی....... اسکا کوئی پرسان حال نہیں....... پنچایت کی بیٹھک بلائی جاتی ہے....... زیادتی کرنے والا مجرم اس سے شادی کرنا چاہتا ہے...... چلو مسئلہ حل ہوگیا...... اب پید ہونے والا بچہ ’’جائز‘‘ کہلائیگا اور عورت کو شوہر مل گیا۔ بحرحال.... تصور کیجئے اگر اس مجرم نے شادی سے انکار کردیا ہوتا، ہم کیا کرسکتے تھے، شاید وہ خودکشی کرلیتی یا ہم اسے مار دیتے۔ کیا اسکی دوسری بیوی ہے؟ کوئی بات نہیں۔اور وہ شرابی اور عادی زانی بھی ہے؟ ٹھیک ہے .. ٹھیک ہے . ! متاثرہ عورت کم از کم وہ اپنی مانگ میں سیندور تو بھر سکتی ہے۔
ہم نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی، ہم نے مسئلہ حل کردیا، کیا اب ہمیں اب آگے نہیں بڑھنا ہے؟ آگے کی طرف دیکھئے ....کب تک ہم ماضی کے بکھیڑوں میں پڑے رہنیگے۔ اس سے کیا فائدہ۔ ماضی کو بھول جاو؟ ٹھیک ہے صاحب۔۔۔، لیکن میں کنفیوژ ڈہوں۔الجھن میں گرفتار ہوں.... کیاآپ کا مطلب ہے یہ ہوسکتا ہے کہ بابر نے مسجد کی تعمیر کے لئے مندر توڑا ہو !!!یا نہ بھی توڑا ہوِ؟ ؟؟؟؟اوہ، ایسی بات نہیں۔ ’’ماضی‘‘ سے ہماری مراد اٹھارہ سال پہلے 1992 میں بابری مسجد کا انہدام تھا۔اسے بھول جائیے۔ تو پھر..ماضی میں جب بابر نے مندر منہدم کیا تھا پانچ سو سال... پہلے، اسکا کیا؟ ماضی ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ ہم عصمت دری کی شکار بنی عورتیں ہیں اور ہماری شادیاں ہم سے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ہوگئی ہیں تاکہ گاوں کا کام کاج پہلے کی طرح خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔
یقیناًمسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتیں...اور شاید وہ ہندو بھی جو رام جی کونہیں مانتے۔ اور وہ غریب بیوقوف بھی .. جو اپنی مذہبی شناخت رکھتے ہیں، اپنے ناموں اور پرسنل لاء کے تحت۔۔ لیکن تصور کریں اپنے آپکو اس جدید جمہوری نظام میں، اور اس بات کے ایقان میں کہ تمام قوموں اور گروہوں کو انصاف ملنا ہی چاہئے، چاہے حالات جو بھی ہوں چاہے کتنا بھی متصادم ماحول کیوں نہ ہو۔
ہم میں سے بہت سوں نے گلا پھاڑ کر کہا‘ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کا فیصلہ قانونی عدالت نہیں کرسکتی۔ اسکا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہئے، تمام سطحوں پرمحدودیت عمل کے ذریعہ، ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کو اس بحث میں شامل ہونا چاہئے....... قومی ریفرینڈم یا اس طرح کے کسی اور عمل کے ذریعہ عوام کی اکثریت اس مسئلہ میں اپنی رائے دے ۔
لیکن یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ ’’عدالت کو فیصلہ کرنے دیجئے‘‘۔ جیسے عدالتیں ہمارے دور کی سیاسیات سے بالا تر ہیں۔ تو... اب عدالت نے فیصلہ کردیا۔ ہماری شادی ہم سے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ کردی گئی، تشدد اور خونریزی کی دھمکی دیکر ہمیں خاموش کر دیا گیا۔
کم از کم.. ان بدبختانہ حالات کو منصفانہ اور عادلانہ ظاہر کرنے کا ڈھونگ تو نہ کریں۔
(پروفیسر نویدتا مینن ، جواہر لال یونیورسٹی دہلی کے پولٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر ہیں۔ وہ ایک مشہور مصنفہ اور کالم نگار ہیں )
unnsouthindia@gmail.com
ayazfreelance@indiatimes.com
Mobile:09845238812
تحریر:نویدتا مینن ، پروفیسر دہلی یونیورسٹی ترجمہ: ایاز الشیخ، گلبرگہ
اس فیصلہ نے مجھے بکھیر دیا، کیااثرات مرتب کریگا یہ جمہوریت پراور کس طرح کے مستقبل کی ہم توقع کر سکتے ہیں.... میری برہمی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے........ میڈیا میں یک کے بعد دیگرے پرشکوہ سیاستدانوں کے بیانات سے...... جو اس فیصلہ کے ذریعہ مسلط کی گئی صلح کے راگ الاپ رہے ہیں۔
او خدایا.... مثلاً پرتاپ بھانو مہتا امن لنکس میں کہہ رہا ہے ’’اس بات کا اعتراف کہ یہ مقام رام جی کی جنم بھومی ہے ، یہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ مذہب سے سیاست کی بیدخلی ہے۔‘‘ رام کی جنم بھومی قرار دے کر کس طرح مذہب سے سیاست کی بیدخلی ہو سکتی ہے؟ اور اس کا جواب کیا ہوگا کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟ ؟؟؟کیا آپ خود بھگوان کو کو ملکیت کے مقدمہ میں فریق بناکر ’’مذہب سے سیاست کو بیدخلی کا عمل ‘‘ انجام دینا چاہتے ہیں۔
آیا رام جی تخلیق ہیں عقیدہ کی یا سبب کی، افسانہ کی یا تاریخ کی، ازلی یا عارضی،حقیقی یا غیر حقیقی، یہ قابل مطالعہ و بحث امور ہیں۔ لیکن عدالت نے اس بات کو شرف قبولیت و سند بخشاکہ محض گفتگو اور بحث ، ’’ خود آگہی‘‘ کوجوہندوستانی سماج کا خاصہ ہے ‘ کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔
پرتاپ اورعدالت کی نظر میں یہ ’’ خود آگہی یا ہندوستانی ضمیر‘‘ کیا ہے؟ کیا اسکا مطلب برہمو سماج کے عقیدوں پر عمل کرنا ہے...... یا سناتنی ہندووں کی طرح کے عقائدجن میں میری والدہ بھی شامل ہیں پر عمل کریں کہ خداکی زمین میں موجودگی سنکریناتا تک محدود ہے؟ ؟؟؟اب غیر ہندووں اور دلتوں کا کیا ہوگا؟ ملحدوں اور مذہب کی نفی کرنے والے کہاں جائیں؟ ؟؟آخر رام جنم بھومی نیاس ہے کیا؟ صرف ایک ٹرسٹ جو رام مندر کی تعمیر کی خاطر بنایا گیا، شمالی ہند کے سادھووں، سنتوں، مہنتوں اور بی جے پی ، وی ایچ پی کے ارکان پر مشتمل ڈھیلا ڈھالا ڈھانچہ۔ کیا یہ ہندوستان کی ’’ہندوستانیت‘‘ اور ’’خود آگہی‘‘ کا مظہر ہیں؟ ؟ ؟؟؟؟
لگتا ہے عدالت نے ملک کے سیکیولر کردار کو چھیڑے بغیر (مذہبی) دعوی کو قبول کرنے کی کوشش کی ہے۔ خالص ذہنوں کے لئے یہ بات باعث اطمینان نہیں ہے۔اسے سیکیولریزم کو مضبوط کرنے والا قابل ستائش طریقہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لیکن !!!عدالت نے ’’مذہبی دعوی‘‘ کو شاید قبول نہ کیا ہو، کیا واقعی؟ کیا سنی مسلمانوں کے دعوی کو قبولیت ملی؟ کیا یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ طاقتور طبقہ یعنی ہندووں کے دعوی کو قبول کرنا دراصل سیکیولریزم کو مضبوط کرنا ہے؟ میں اپنے آپکو( انگریزی کہانی کے کردار ) الائیسAlice کی طرح محسوس کر رہی ہوں جو شیشہ کی زمین والی دنیا میں حیران و سرگرداں ہے۔
میں ان بزدلانہ بیانوں سے بیزار ہوگئی ہوں‘ جیسے: درحقیقت ہم فیصلہ کے تکنیکی نقاط کو چھوڑ رہے ہیں، یہ ایک زمینی ملکیت کا معملہ ہے، ہمیں پتہ لگانا ہوگا کہ قانونی طور پر اسکا مطلب کیا ہے، کیا ہم حقیقتاً یہاں قانون کے تمام باریک نکات سے آگاہی رکھتے ہیں...........
فنی لحاظ سے؟ قانونی طور پر؟ یہ فیصلہ یک طرفہ فیصلہ ہے اس میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا گیا کہ کہا قانونیت اور فنیت پر زور دیا جائے اور کہاں اسے نظر انداز کیا جائے۔ جب یک بحث کمزور پڑتی نظر آرہی ہو تب گرفت سے بچنے اچانک ایک متنازعہ بحث شروع کردی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک جھوٹا کہتا ہے کہ ’’معافی چاہتا ہوں میں نے جس کا وعدہ کیا تھا وہ میں نہیں کرسکا کیونکہ میں ڈینگو بخار میں مبتلا ہو گیا تھا، اور ساتھ ہی میں اپنی بوڑھی والدہ کی تیمارداری میں مصروف تھا جنکی پیر کی ہڈی میں فریکچر آگیا، اور پھر زورداربارش شروع ہوگئی اور سڑکیں پانی سے اتنی بھرگیءں اور سیلاب جیسی صورتحال پید ہوگئی۔۔
جدید عدالت میں ’’عقیدہ‘‘ فیصلہ کو صادر کرنے کی بنیاد ہے بلکہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ بھی بتا رہی ہے کہ مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی......... اور پھر سنی وقف بورڈ بھی اپنا حق ملکیت واضح طور پر ثابت کرنے میں ناکام رہا.......تو پھرکون حق بجانب..... محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کی تکنیکی اور سائنٹفک حیثیت؟ ؟؟ جو خامیوں سے پر ہے، مشکوک ترین اور فنی طور پر بلکل ناقابل اعتبار۔ قانونی دستاویز؟ ؟؟رام جنم بھومی نیاس کے پاس کوئی ایسی دستاویز نہیں جو قانونی جانچ کا سامنا کرسکے۔ 20مارچ 1992 کے کرایہ نامہLease Deed کے مطابق 42ایکڑ زمین جو حکومت اتر پردیش کی ملکیت ہے جس پر رام جنم بھومی نیاس اور وشو ہندو پریشد نے دعوی کیا ہے کہ انہیں کرایہ پر دی گئی ہے۔ یہ رام جنم بھومی کو ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی تھی۔ یہ حکومتی زمین ہے جسے عوامی مقاصد کے لئے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مندر کی تعمیر مذکورہ مقصد سے بلکل متصادم ہے۔ تو یہ بات واضح ہے کہ نیاس کا اس زمین پر حق ملکیت کا دعوی قانوناًبے بنیاد ہے۔
اب رہ گیا عقیدہ کا معملہ۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں؟ سنی وقف بورڈ کے پاس بھی یہ وافر مقدار میں موجود ہے۔
پرتاپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ حق ملکیت کے معملہ میں‘ کسی بھی فریق کا یہ اقدام غلط ہوگا ‘ اگر وہ اپنے موقف پر اصرار کرے۔ ‘‘ ’کسی بھی فریق‘سے یہاں مطلب صرف سنی وقف بورڈ ہے ، کیونکہ نیاس یا اکھاڑا کو عدالت نے جتنا نوازا ہے اس سے زیادہ کی وہ توقع بھی نہیں کرسکتے۔ اور پرتاپ کے خیال میں عدالت کی تقسیم سے زیادہ کی خواہش انکی’’ملکیت کے حصول کی بیجا ضد‘‘ کا اظہار ہوگی۔ بہت خوب ........ رام جنم بھومی نیاس نے ملکیت کا دعوی سارے الہیاتی اعلی اصولوں کے تحت!!!! لیکن جب سنی وقف بورڈ کا معملہ آتا ہے تو وہ ایک قانونی معملہ ہوتا ہے.... بے ایمانی اور حماقت پر مبنی دعوی۔
جب سبھی استدلال ختم ہو جاتے ہیں ، تو بڑبڑاہٹ شروع ہو جاتی ہے لیکن فرض کیجئے کہ فیصلہ میں اس بات کوتسلیم کیا جاتا ہے کہ ’’ہندووں‘‘ کا اس معملہ مین کوئی قانونی موقف ہے ہی نہیں، تصور کیجئے تب کیا ہوگا، ناقبل بیان خونریزی ہوگی۔ ۔
اچھا تو اس وجہ سے ایسا کیا گیا......۔ لیکن اگریہ سب کچھ خونریزی روکنے کیا گیا ہے یا قاتلوں یا خونریزی کرنے والوں کو مطنئن کرنا اسکا منشاء ہے اور اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر عدالت جانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیوں نہ دونوں طبقات کے ’’عقلند‘‘ لوگوں کو ایک مناسب ’’پنچایت‘‘ میں بلاکر ’’بات چیت‘‘ کے ذریعہ حل تلاش کیا جاتا۔ جسمیں کمزور فریق کو مکمل طور پر مصالحت پر مجبور اور فیصلہ کے بعد خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی۔
ایک عورت عصمت دری کا شکار بنی ..... پھر وہ حاملہ ہو گئی....... اسکا کوئی پرسان حال نہیں....... پنچایت کی بیٹھک بلائی جاتی ہے....... زیادتی کرنے والا مجرم اس سے شادی کرنا چاہتا ہے...... چلو مسئلہ حل ہوگیا...... اب پید ہونے والا بچہ ’’جائز‘‘ کہلائیگا اور عورت کو شوہر مل گیا۔ بحرحال.... تصور کیجئے اگر اس مجرم نے شادی سے انکار کردیا ہوتا، ہم کیا کرسکتے تھے، شاید وہ خودکشی کرلیتی یا ہم اسے مار دیتے۔ کیا اسکی دوسری بیوی ہے؟ کوئی بات نہیں۔اور وہ شرابی اور عادی زانی بھی ہے؟ ٹھیک ہے .. ٹھیک ہے . ! متاثرہ عورت کم از کم وہ اپنی مانگ میں سیندور تو بھر سکتی ہے۔
ہم نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی، ہم نے مسئلہ حل کردیا، کیا اب ہمیں اب آگے نہیں بڑھنا ہے؟ آگے کی طرف دیکھئے ....کب تک ہم ماضی کے بکھیڑوں میں پڑے رہنیگے۔ اس سے کیا فائدہ۔ ماضی کو بھول جاو؟ ٹھیک ہے صاحب۔۔۔، لیکن میں کنفیوژ ڈہوں۔الجھن میں گرفتار ہوں.... کیاآپ کا مطلب ہے یہ ہوسکتا ہے کہ بابر نے مسجد کی تعمیر کے لئے مندر توڑا ہو !!!یا نہ بھی توڑا ہوِ؟ ؟؟؟؟اوہ، ایسی بات نہیں۔ ’’ماضی‘‘ سے ہماری مراد اٹھارہ سال پہلے 1992 میں بابری مسجد کا انہدام تھا۔اسے بھول جائیے۔ تو پھر..ماضی میں جب بابر نے مندر منہدم کیا تھا پانچ سو سال... پہلے، اسکا کیا؟ ماضی ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ ہم عصمت دری کی شکار بنی عورتیں ہیں اور ہماری شادیاں ہم سے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ہوگئی ہیں تاکہ گاوں کا کام کاج پہلے کی طرح خوش اسلوبی سے چلتا رہے۔
یقیناًمسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتیں...اور شاید وہ ہندو بھی جو رام جی کونہیں مانتے۔ اور وہ غریب بیوقوف بھی .. جو اپنی مذہبی شناخت رکھتے ہیں، اپنے ناموں اور پرسنل لاء کے تحت۔۔ لیکن تصور کریں اپنے آپکو اس جدید جمہوری نظام میں، اور اس بات کے ایقان میں کہ تمام قوموں اور گروہوں کو انصاف ملنا ہی چاہئے، چاہے حالات جو بھی ہوں چاہے کتنا بھی متصادم ماحول کیوں نہ ہو۔
ہم میں سے بہت سوں نے گلا پھاڑ کر کہا‘ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کا فیصلہ قانونی عدالت نہیں کرسکتی۔ اسکا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہئے، تمام سطحوں پرمحدودیت عمل کے ذریعہ، ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کو اس بحث میں شامل ہونا چاہئے....... قومی ریفرینڈم یا اس طرح کے کسی اور عمل کے ذریعہ عوام کی اکثریت اس مسئلہ میں اپنی رائے دے ۔
لیکن یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ ’’عدالت کو فیصلہ کرنے دیجئے‘‘۔ جیسے عدالتیں ہمارے دور کی سیاسیات سے بالا تر ہیں۔ تو... اب عدالت نے فیصلہ کردیا۔ ہماری شادی ہم سے زیادتی کرنے والوں کے ساتھ کردی گئی، تشدد اور خونریزی کی دھمکی دیکر ہمیں خاموش کر دیا گیا۔
کم از کم.. ان بدبختانہ حالات کو منصفانہ اور عادلانہ ظاہر کرنے کا ڈھونگ تو نہ کریں۔
(پروفیسر نویدتا مینن ، جواہر لال یونیورسٹی دہلی کے پولٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر ہیں۔ وہ ایک مشہور مصنفہ اور کالم نگار ہیں )
unnsouthindia@gmail.com
ayazfreelance@indiatimes.com
Mobile:09845238812
No comments:
Post a Comment