Search This Blog

Sunday 29 January 2012

پیغمبر انقلاب ﷺ

پیغمبر انقلاب ﷺ

 

- مولانا ڈاکٹر ابوالکلام شیخ
وہی (اللہ) ہے جس نے ناخواندہ لوگوں ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔“(الجمعة:2) قرآن کے اولین مخاطب یہی اُمیین تھے، ان ناخواندہ لوگوں میں آپ کی بعثت، اللہ کا عظیم احسان ہے۔ فرمایا: ”بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔ (آل عمران: 164)
انسانوں کے رشد و ہدایت اور ان کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے لیے انہی میں سے ایک فردِ بشر ہی کو اب بھی یہ ذمہ داری سپرد کی گئی، جیسا کہ پہلے بھی تمام انبیا، ورسل بشر ہی آئے تھے، تاکہ قوم کو ان کی زبان اور لب ولہجے میں بآسانی اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچے اور وہ بلاتکلف سمجھ لیں۔
فرمانِ کبریا ہے: ”(اے حبیب) آپ کہہ دیں! کہ اگر زمین پر فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بناکر بھیجتے“۔ (اسرا: 95)
مذکورہ دونوں آیاتِ مبارکہ میں اس رہبراعظم، ہادی امم، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد ذکر ہوئے ہیں: (1) آیات اللہ کی تلاوت، (2) نفوسِ بشر کا تزکیہ، اور (3) کتاب و حکمت کی تعلیم۔
۔ (1) تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ سے پہلے تلاوتِ قرآن مجید کو ذکر کیا گیا کہ یہی تعلیم و تزکیہ کا ذریعہ و سبب ہے۔ بغیر تلاوت کے نہ تعلیم ممکن ہے نہ تزکیہ نفوس۔ اور ساتھ ہی یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ تلاوت کرنے والا اس کا مفہوم سمجھے یا نہ سمجھے، کسی بھی حال میں ثواب سے محروم نہیں، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کے اجر و ثواب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور الف لام میم ایک حرف نہیں بلکہ تین حروف ہیں، ان کی تلاوت پر تیس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ بطور مثال قرآن کے جن کلمات کا آپ نے انتخاب فرمایا وہ ”حروفِ مقطعات“ ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ معانی و مطالب سمجھ کر پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کا درجہ و ثواب تو بے حد و بے شمار ہے۔ یہ فضیلت صرف تلاوت کی ہے۔
۔ (2) تزکیہ یعنی انسانوں کو اعمال و عقائد کی نجاستوں سے پاک کرنا۔
جب آپ کی بعثت ہوئی اُس وقت پوری دنیا عموماً اور سرزمینِ حجاز میں خصوصاً شرک و کفر، قتل و غارت گری، قمار بازی و شراب نوشی، زنا کاری و بت پرستی جیسے تمام برے کام بطور فخر ان میں رائج تھے۔ 23 سال کے مختصر عرصہ میں آپ نے ایسا انقلاب بپا کردیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ لوگ جو مشرک تھے وہ موحد بن گئے، کافر تھے وہ مومن بن گئے، چور ڈاکو تھے وہ محافظ و امین بن گئے، قاتل تھے وہ امن و آشتی کے علم بردار بن گئے، زانی تھے وہ عزت و عصمت کے رکھوالے بن گئے، بات بات لڑ مرنے والے تھے وہ پیکر صبر و حلم بن گئے، ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے وہ اخوت و محبت کے اعلیٰ معیار بن گئے، خودغرض تھے وہ ایثار و قربانی کی مثال بن گئے۔
عقل محوِ حیرت ہے اور دنیا محوِ تماشا کہ عرب کے بدووں کو آپ نے کیسا مہذب انسان بنادیا۔ قرآن کریم کی زبان میں دعوتِ امن و سلامتی سنائی:
”ایمان والو! دینِ اسلام (جو سراپا سلامتی کا ضامن ہے) میں ہمہ تن داخل ہوجاو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“۔ (البقرہ: 208)
آپ کی دعوت کو دل و جان سے قبول کرنے والے اس قدر پاکیزہ اور مقدس بن گئے انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر اس گروہ سے زیادہ قدر و منزلت والے نہ پیدا ہوئے نہ ہوسکتے ہیں۔ ان میں اللہ اور اس کے رسول کی سچی عقیدت و محبت رچ بس گئی تھی۔
۔ (3) کتاب و حکمت کی تعلیم: کتاب سے قرآن مجید فرقانِ حمید مراد ہے اور حکمت سے آپ کے اقوال و افعال مراد ہیں۔
زبانِ نبوت سے صادر ہونے والے تمام ارشادات اللہ کے فرامین جیسے ہیں: ”اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔“ (النجم: 4، 3)
”اس رسول کی جو اطاعت کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی، اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا“ (النسا: 80)
اور ارشاد ربانی ہے:
”جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی، اور نصیحت تو صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں“۔ (البقرہ: 269)

)

No comments:

Post a Comment