Search This Blog

Friday 27 January 2012

میدان تحریر سے پارلیمان تک اخوان المسلمون

مصر: میدان تحریر سے پارلیمان تک اخوان المسلمون کی عوامی پیش رفت
 حافظ محمد ادریس

مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد مصری قوم نے واقعتا اپنی تاریخ کا نیا باب رقم کیا ہے۔ 23 جنوری 2012ءکو نومنتخب مصری پالیمان کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ چونکہ پہلی نام نہاد پارلیمان اور اس کے تمام ارکان کالعدم ہوچکے تھی، اس لیے افتتاحی اجلاس کی صدارت بالاتفاق پارلیمان کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ رکن محمود السقا (نمائندہ حزب الوفد) کے سپرد کی گئی۔ ان کی صدارت میں تلاوتِ قرآن مجید کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر کے انتخاب کا مرحلہ پیش آیا۔ 498کے ہاوس میں اخوان المسلمون کے 235 ارکان ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر ایک دوسری اسلامی پارٹی حزب النور کے 121 ارکان ہیں۔ دیگر چھوٹی پارٹیوں میں سے بھی کئی پارٹیاں اخوان کے ساتھ انتخابی اشتراک کے ذریعے کامیاب ہوئی تھیں، جن میں سے حزب الوفد قابلِ ذکر ہے۔ اخوان نے اپنی سیاسی پارٹی کے سیکریٹری جنرل جناب سعدالکتاتنی کو اسپیکر کے لیے نامزد کیا تھا۔ جناب سعدالکتاتنی اپنی قابلیت اور مرنجاں مرنج طبیعت کی وجہ سے تمام حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اجلاس میں نومنتخب ارکانِ پارلیمان نے حلف اٹھایا اور اسپیکر کا انتخاب کیا۔ اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی حزب الحریة والعدالة کے نمائندے جناب سعدالکتاتنی بھاری اکثریت سے اسپیکر منتخب ہوگئے۔ میدان التحریر سے شروع ہونے والی عظیم عوامی تحریک کی پہلی سالگرہ پر دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس نہایت خوش آئند ہے۔ اس سے قبل طویل مدت تک مصر میں انتخابات اور ریفرنڈم محض ڈھونگ ہوا کرتے تھے۔ جناب سعدالکتاتنی نے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد اپنے افتتاحی خطاب میں کہا: ”ہم اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے ہمیں جبر اور گھٹن کے نظام سے نجات دی اور ہم آزادی اور جمہوریت کی فضاوں میں سانس لینے کے قابل ہوئے۔“ انھوں نے ان تمام مرد و خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا، جنھوں نے عظیم الشان عزیمت کے ساتھ آمریت کے بت کو پاش پاش کیا۔ اس موقع پر انھوں نے اُن تمام شہدا کے لیے مغفرت اور بلندی ¿ درجات کی دعا کی، جنھوں نے اس جدوجہد میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا: ”ہم ایک نیا مصر تعمیر کرنے کا عزم رکھتے ہیں، جس میں دستور کی بالادستی ہوگی۔ جمہوریت ہمارا سیاسی سفر متعین کرے گی اور ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک ترقی یافتہ جدید مصر چھوڑیں گے۔ پارلیمان دستور میں دیے گئے اپنے جمہوری حقوق سے قوت حاصل کرے گی۔ ہم اپنی مصری قوم اور پوری دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا انقلابی سفر ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہم ان شاءاللہ لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے۔“
نومنتخب اسپیکر کے خطاب کے دوران پارلیمان کے تمام ارکان نے بار بار پُرجوش تالیوں سے ان کے خیالات کی تائید کی۔ انسٹھ سالہ اخوانی سیاست دان اپنے خطاب کے دوران کئی بار رقتِ قلب سے مغلوب ہوئے۔ ان کے خطاب کے دوران ہر شخص محسوس کررہا تھا کہ کامیابی نے ان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں کیا بلکہ احساسِ ذمہ داری ان کے ایک ایک لفظ سے ٹپکی پڑتی تھی۔ جب اسپیکر پارلیمان کے اندر خطاب کررہے تھے تو پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں مصری عوام اسلام اور جمہوریت کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ دستور ساز اسمبلی کو دستور بھی بنانا ہے اور عبوری فوجی کونسل سے اقتدار بھی عوام کے نمائندوں کو منتقل کرنے کا اہتمام کرنا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر عوام کا ہجوم مسلسل یہ نعرے بھی لگا رہا تھا کہ فوجی جنتا کو رخصت کیے بغیر انقلاب کی حقیقی منزل نہیں مل سکتی۔ اس وقت کے عبوری سربراہِ حکومت فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کے خلاف بھی زبردست نعرے بازی کی گئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جو شخص بیس سال تک حسنی مبارک جیسے بدعنوان لٹیرے اور ظالم فرعون کا وزیر دفاع رہا ہی، اسے حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے۔ کئی لوگ مطالبہ کررہے تھے کہ حسنی مبارک کی طرح طنطاوی کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اسپیکر صاحب نے بڑی حکمت کے ساتھ پارلیمان کو بتایا کہ صورتِ حال جو بھی ہو، اس میں شک نہیں کہ مصری فوج نے خدشات کے برعکس بروقت انتخابات کے انعقاد، لوگوں کے آزادانہ رائے دینے کے عمل اور عوامی فیصلے کو قبول کرکے ایک مثبت مثال قائم کی ہے۔ خود فوجی عبوری کونسل نے بھی بار بار یہ کہا ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتی۔ اس کے باوجود سویلین سوسائٹی کے اکثر حلقے فوجی جنتا کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ صدارتی انتخاب جون میں ہونا طے ہے۔ فوجی کونسل نے اسپیکر کے انتخاب کے بعد ایک اعلامیہ میں یہ لکھا ہے کہ جونہی صدر کا انتخاب عمل میں آئے گا، اقتدار مکمل طور پر منتخب حکومت کے سپرد کردیا جائے گا اور فوج اپنی بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔ اجلاس کے آغاز میں صدرِ مجلس محمودالسقا کے سامنے تمام ارکان نے فرداً فرداً حلف اٹھایا۔ حلف کے الفاظ تھی: ”میں بطور رکن دستور ساز اسمبلی حلف اٹھاتا ہوں کہ قومی مفادات اور عوام کے حقوق کے لیے اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کروں گا۔ میں رائے عامہ کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ملکی قانون کی حدود میں رہ کر اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کروں گا۔“ اسلامی جماعتوں کے بعض ارکان نے نکتہ اٹھایا کہ اس حلف میں دینی اور مذہبی شعائر کی پابندی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ممدوح اسماعیل نے جب یہ کہا کہ ہمیں ان الفاظ کا اضافہ کرنا چاہیی: ”میں اللہ کے قوانین کی پوری طرح پابندی کروں گا“ تو صدر مجلس محمود السقا نے کہا: ”برائے مہربانی جو عبارت اس وقت ہمارے سامنے ہی، اسی پر حلف اٹھایا جائے۔ اگر اس طرح ہم نے حذف و اضافے شروع کردیے تو شاید بہت سارا وقت ضائع ہوجائے گا۔“
اخوان کی قیادت نے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس ہاوس کو نیا دستور ترتیب دینا ہی، اس لیے فی الحال تمام ارکان یہ حلف پڑھ لیں۔ دستور سازی کے وقت تمام تفصیلات طے ہوجائیں گی۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اس موقع پر یہ بحث چل نکلتی تو سیکولر ارکان اگرچہ تعداد میں بہت کم ہیں مگر ہاوس میں رکاوٹیں پیدا کرسکتے تھی، اس لیے منتخب اکثریتی پارٹی کے ذمہ داران نے حکمت کے ساتھ یہ مرحلہ سر کرلیا۔ مجلس دستور ساز تمام امور و معاملات کو اطمینان کے ساتھ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے طے کرلے گی۔ پارلیمان میں اخوان کو زیادہ نشستیں مل سکتی تھیں، اگر تمام نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوتا۔ چار سو اٹھانوے میں سے ایک سو چھیاسٹھ نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوا، جن میں سے اخوان نے ایک سو آٹھ نشستیں جیت لیں۔ یہ تناسب پینسٹھ فیصد (65%)بنا، جبکہ باقی تین سو بتیس میں سے متناسب نمائندگی کے ساتھ انھیں ایک سو ستائیس نشستیں ملیں، یہ تناسب اڑتیس فیصد (38%)بنتا ہے۔ مجموعی طور پر چار سو اٹھانوے میں سے اخوان کی دو سو پینتیس نشستیں ہیں، جس کا تناسب سینتالیس فیصد (47%) ہے۔
ملک میں معاشی صورتِ حال انتہائی ابتر ہے اور لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور افراطِ زر نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایسے میں وجود میں آنے والی نئی حکومت کو گوناگوں مسائل درپیش ہوں گے۔ رائٹر کے ایک سروے کے مطابق تمام شعبوں میں کاروبار ٹھپ ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ تعمیراتی اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ایک ہزار کاروباری فرمیں بند ہوچکی ہیں۔ مارکیٹ کی صورتِ حال بہت پتلی ہے۔ باہر سے سرمایہ کار نہیں آرہے اور لوٹی ہوئی دولت سابق حکمران ٹولے نے بیرونِ ملک منتقل کی ہوئی ہے۔ ایسے میں بڑی آزمائشوں سے گزر کر نئی حکومت خود کو کامیاب ثابت کرسکے گی؟ یہ سوال ہر محفل میں زیربحث آتا ہے۔ اخوان کے بارے میں لوگوں کو اعتماد ہے کہ وہ صاف ستھری، دیانت دار، قابل اور منظم لوگ ہیں۔ لوگوں کی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ اس مشکل ترین مرحلے کو کامیابی کے ساتھ سر کرسکیں۔ اخوانی راہ نماوں کا کہنا ہے کہ اللہ کے فضل سے مصر غریب نہیں، اسے غریب بنایا گیا ہے اور درست سمت میں شفاف معاشی منصوبہ بندی سے یہ غربت ختم کرلی جائے گی۔ (ان شاءاللہ)

No comments:

Post a Comment