Search This Blog

Tuesday, 10 January 2012

روٹی مہنگی۔۔۔ موبائل سستا


روٹی مہنگی۔۔۔ موبائل سستا
از۔۔۔۔ ایاز الشیخ گلبرگہ

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں روٹی کپڑا اور مکاں ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کا تصوّر ہی بے معنی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کے خیال میں یہ ایک فرسودہ اور دقیانوسی بات ہے ۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں دراصل موبائل، کھلونے اور کیبل ٹی وی باکس ہیں۔ موبائل کھلونے اور کیبل ٹی وی زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں انکے بغیر انسان مر جائیگا۔ آپ کو میری بات پر یقیں نہ ہو تو ہماری غریب پرور حکومت کا بجٹ دیکھ لیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مرکزی بجٹ غریب دشمن عالمی مالیاتی اداروں کیہ ہدایت پرا میروں کی زندگیوں کو مزید فرحت بخش اور بزنس کو اور زیادہ نفع بخش بنانے کیلئے پیش کیا گیا۔ غریبوں کیلئے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں۔ بجٹ میں اعداد و شمار کے ذریعہ ملک کی ترقی و خوشحالی کی دلکش منظر کشی کی گئی ۔ اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے کا تفصیلی تجزیہ بھی کیا جاسکتاہے لیکن اس کی جتنی بھی تہیں اور چھلکے اتار لیں خلاصہ صرف یہ ہوگا کہ غریب کی قسمت میں مزید غریب ہونا ہے۔ شائد اسی لئے مزید غربت کے غم کو غلظ کرنے تفریحی سامانوں کو سستا کر دیا گیاہے۔

غربت کو فروغ دینے کے لئے شب و روز کی محنت شاقہ سے تیار کئے گئے اس بجٹ میں پٹرول اورڈیزل کے دام ،سیمنٹ اور لوہے کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔اس کااثر یہ ہوگا کہ مہنگائی اوربڑھے گی اور غریب پھر پسے گا شب وروز کی چکی میں ۔ امیروں کیلئے تیار کئے گئے اس بجٹ میں متوسط طبقے خاص طور پر سرکاری ملازمیں کو اپنا ھمنوا بنانے چند علامتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان مراعات کو دینے کیلئے پھر ایک مرتبہ غریبوں کو ہی لوٹا گیا۔ پرنب مکھرجی نے پٹرول اور ڈیزل کیایکسائز ڈیوٹی اور دام بڑھا کر 40,000 کروڑ حاصل کریگی ۔ پٹرول اور ڈیزل کے داموں میں اضافہ کے ساتھ ہی مسلسل ردّ عمل chain reaction کی وجہ سے تمام اشیائے ضروری بشمول غذائی اشیا مہنگی ہو جائینگی۔ نتیجتاّ حکومتی آمدنی revenue میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسمیں سے 21,000 کروڑ روپئے متوسط اور اعلی متوسط طبقہ کو انکم ٹیکس میں چھوٹ کی شکل میں دیا جائیگا۔

جہاں تک ٹیکس کا سوال ہے یہ بات بلکل غلط ہے کہ غریب طبقہ ٹیکس نہیں دیتا۔ بلکہ ایمانداری سے ٹیکس صرف غریب طبقہ ہی دے رہاہے اس لیے کہ ستر فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کی وجہ سے وہ پٹرول ، بجلی و گیس ، ٹرانسپورٹ ، تعلیم ، صحت ہر جگہ ٹیکس ادا کررہاہے اور اسکے پاس یہی ٹیکس کسی دوسرے سے وصو ل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں۔ امیر طبقہ تو اپنی مصنوعات و خدمات کی قیمتیں بڑھا کر ٹیکس دوسروں سے وصول کر لیتے ہیں ، غریب کس سے وصول کرے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بجٹ اس حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا جو سال2004ء میں مہنگائی کو انتخابی موضوع بنا کر بی جے پی محاذ کواقتدار سے بے دخل کر کے کانگریس محاذ کی سرکار بنائی تھی اس وقت وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ سو دنوں میں مہنگائی پرقابوپالیاجائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ دن مہینوں میں بدلے مہینے سالوں میں ۔ پھر عام الیکشن آیااس میں بھی وہی وعدے دہرائے گئے۔اس وعدے کوبھی دس ماہ پورے ہو چکے ہیں مگرمہنگائی کم ہونے کے بجائے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اب اس بجٹ سے توغریب عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ بقول شاہد ھمدانی
تاریخ کے سنھرے حوالے بھی چھین لو ہم سے ہماری گود کے پالے بھی چھین لو
یوں ہی بجٹ کی مار سے مارو ہماری جان یہ روکھے سوکھے چند نوالے بھی چھین لو

حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ عوام بیکس و مجبور ہیں ۔ ملک کی اکثریت جن کے ووٹوں سے ہی وہ منتخب ہو کر اقتدار تک پہنچی ہے اسے اقتدار سے بیدخل بھی کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کے تمام انقلابات مظلوم عوام کے ہی مرہون منت ہیں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ حکمرانوں کی نااہلی انہیں جمہوریت ہی سے مایوس کردے ۔ 
(ayazfreelance@indiatimes.com)

No comments:

Post a Comment