Search This Blog

Friday 20 January 2012

دنیا اور کرداری نمونوں کا ”بدترین “ بحران

دنیا اور کرداری نمونوں کا ”بدترین “ بحران

-شاہنواز فاروقی
رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارکہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسان کی اصل نقل پر کھڑی ہوئی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور سیکھنے کے اعتبار سے سب سے مشکل کام ہی، مگر یہ چیز بھی انسان ماں باپ کے کرداری نمونوں سے تقلیدی روش کے ذریعے سیکھتا ہے۔ ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں، بچہ مسلمان ہوجاتا ہے۔ ماں باپ ہندو ہوتے ہیں بچہ ہندو ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف مذہب تک محدود نہیں۔ انسان کی پوری زندگی کرداری نمونوں یا Role Models کے گرد گھومتی ہے۔ بچے کے ماحول میں جو زبان بولی جارہی ہوتی ہے بچہ وہ زبان سیکھتا ہے۔ اس کے ماحول میں جیسے ماں باپ ہوتے ہیں بچہ بڑا ہوکر ویسا ہی ماں یا باپ بنتا ہے۔ ماحول میں جیسے شوہر اور بیوی دستیاب ہوتے ہیں بچے بڑے ہوکر ویسے ہی شوہر اور بیوی بنتے ہیں۔ غرضیکہ انسان زندگی میں جتنے کردار ادا کرتا ہے ان پر ماحول اور اس کے تجربے اور مشاہدے کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہولناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا کرداری نمونوں کے بدترین بحران میں مبتلا ہے۔ مجموعی طور پر انسانی تہذیب نہ اچھے رہنما سامنے لارہی ہی، نہ اچھے ماں باپ پیدا ہورہے ہیں، نہ اچھے شوہر اور بیوی جنم لے رہے ہیں، نہ اچھے اساتذہ نئی نسلوں کو مہیا ہورہے ہیں، نہ کوئی عالموںکی زندگی بسر کررہا ہی، نہ مثالی شاعر اور ادیب ہمارے درمیان نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کرداری نمونوں کے اس عالمگیر بحران کا سبب کیا ہی؟
انسانی تہذیب کے طویل تجربے پر نظر ڈالی جائے تو انسان کو کرداری نمونے یا تو مذہب سے فراہم ہوتے تھے یا تاریخ سے۔ مذہب کا معاملہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب ہی، اور 7 ارب انسانوں میں کم و بیش ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ چنانچہ ان لوگوں کو کسی بھی مذہب سے کوئی کرداری نمونہ فراہم نہیں ہوسکتا۔ عیسائیت، ہندوازم، بدھ مت اور یہودیت کے زیراثر لوگوں کی تعداد تین ارب کے لگ بھگ ہوگی، لیکن ان مذاہب کا معاملہ یہ ہے کہ اپنی کلیت یا Totality میں زندہ مذہب نہیں ہیں۔ مثلاً عیسائیوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نہ انجیل کا اثر ہے نہ حضرت عیسیٰؑ کی ذات ِگرامی کا.... اور اگر ہے بھی تو عبادات اور تہواروں تک۔ ہندوازم کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ ہندوازم نے اپنی مقدس کتابوں اور رام اور کرشن جیسے مذہبی کرداروں کو اسطور یا Myth بنا لیا ہے۔ اور اسطور کی تعریف ہندوازم کے سب سے بڑے ماہر آنند کمار سوامی نے یہ کی ہے کہ اسطور ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت گم ہوچکی ہو۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا اسلام الحمدللہ زندہ مذہب ہے اور ہمیں اپنے مذہب سے فراہم ہونے والے کرداری نمونوں سے بے پناہ محبت بھی ہے۔ لیکن اس محبت کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس میں عقیدت 90 فیصد ہے اور محبت 10 فیصد۔ عقیدت کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں تقلید ضروری نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک لمحے میں جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کا آتا ہے تو 10 فیصد محبت ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے اور ہم سیرت ِطیبہ کا بمشکل 10 فیصد اتباع کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اتباع بھی عبادات اور چہرے مہرے اور حلیے میں زیادہ ہی، تعلقات اور معاملات میں بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر داڑھی بڑے ذوق و شوق سے رکھتے ہیں۔ چمچے کے بجائے ہاتھ سے کھاتے ہیں۔ بعض بزرگ سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں تہبند باندھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے ہیں، مگر ہمیں کبھی یاد بھی نہیں آتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فروتنی اور تواضع تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں نمایاں ہوکر بیٹھنا اور چلنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم اپنی بیوی سے کبھی اس طرح محبت کر پاتے ہیں نہ اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین سے محبت کرتے تھے اور ان کے لیے گھر کا کام کاج کرتے تھے۔ ہم اپنے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم خوئی پیدا کرنے کے لیے کبھی تگ و دو نہیںکرتے۔ ہمیں صحابہ کرامؓ سے بھی بہت ”عقیدت“ ہی، مگر صحابہ کی سیرت کا بھی ہماری زندگی پر بہت کم اثر ہے۔
کرداری نمونوں کی فراہمی کا دوسرا بڑا سرچشمہ تاریخ تھی، لیکن مذہب زندگی سے نکل جائے تو تاریخ خود مُردہ ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر چین کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ ہے اور چینیوں کا روایتی مذہب کنفیوشس ازم اور تاومت تھا۔ مگر ماو کے انقلاب نے چین کی پوری مذہبی روایت کو مسترد کردیا۔ چنانچہ ایک ارب 30 کروڑ چینیوں کے لیے ان کی ڈھائی تین ہزار سالہ تاریخ فرسودہ ہوگئی۔ یہاں تک کہ ڈینگ ژیاو پنگ کے نیم سرمایہ دارانہ انقلاب نے ماوازم اور اس کی تاریخ کو بھی ازکارِ رفتہ بنادیا ہے۔

بھارت کے ایک ارب ہندووں کے لیے ان کی تاریخ ایک سطح پر اسطور یا Mythology ہے۔ دوسری سطح پر محض ایک علم ہے۔ تیسری سطح پر محض ایک پرانی یاد ہے۔ ایسی پرانی یاد جس کو یاد کرنا تو اچھا لگتا ہے مگر جس کا ہماری موجودہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تک کہ جدید ہندوستان کے لیے تو گاندھی اور نہرو بھی ”پرانے دھرانے“ لوگ ہیں۔ جہاں تک بی جے پی اور اس کے کروڑوں متاثرین کا تعلق ہے تو ان کے لیے گاندھی ہندووں کی جدید تاریخ کے ہیرو نہیں ولن ہیں، اس لیے کہ انہوں نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا۔ لیکن کانگریس اور اس کے متاثرین کے لیے گاندھی جی کا فلسفہ ”گاندھی واد“ اور ان کی طرزِ حیات ”ماضی کی چیز“ ہے۔ Relevent نہیں ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ زندہ ہی، اس لیے کہ مسلمانوں کا اپنے مذہب سے رشتہ منقطع نہیں ہوا۔ لیکن مسلمان بھی اپنی تاریخ سے سیکھتے کم ہیں اُس سے ”رومانس“ زیادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کیا محمد علی جناح بھی ایک ”آسمانی مخلوق“ محسوس ہوتے ہیں۔ 
کرداری نمونوں کا سب سے بڑا سماجی سرچشمہ خاندان تھا۔ اس ادارے سے جتنے کرداری نمونے فراہم ہوتے تھے ان کی بنیاد تین چیزوں پر تھی: تعلق، محبت اور جاں نثاری۔ لیکن گزشتہ پچاس سال میں خاندان کے ادارے پر دولت اور اس کی اقدار کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اب کروڑوں انسان اپنے بچوں کو تعلق، محبت اور جاں نثاری پر نہیں دولت پر پالتے ہیں۔ اب دولت ہی تعلق ہی، دولت ہی محبت ہے اور دولت ہی جاں نثاری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہم نے بچوں کو اچھا کھلایا پلایا ہے۔ اچھا لباس پہنایا ہے۔ اچھے یعنی مہنگے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا ہی، چنانچہ ہم نے ان کے ساتھ اپنے تعلق، اپنی محبت اور اپنی جاں نثاری کا حق ادا کردیا۔ بچوںکو جو کچھ ملتا ہے وہی وہ والدین کو بھی لوٹاتے ہیں اور اسی پر وہ اپنی اولاد کو بھی پالتے ہیں۔ اس طرح دولت کی اقدار اور دولت کا اظہار پوری انسانی تہذیب پر غالب آگئے ہیں۔ مغرب میں اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خاندان کا ادارہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ وہاں آبادی کا بڑا حصہ شادی ہی نہیں کرتا۔ اور جو لوگ شادی کرتے ہیں ان کے درمیان بڑے پیمانے پر طلاقیں ہوجاتی ہیں۔ اس صورت ِحال نے مغربی معاشروں کے لوگوں کو تنہا ہجوم یا Lonely Crowd میں تبدیل کردیا ہے۔ کئی سال پہلے امریکہ کی معروف ٹیلی شخصیت اوپرا وینفرے نے اپنے ایک ٹیلی وژن شو میں ایک عجیب مسئلے پر گفتگو کا اہتمام کیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ کی اعلیٰ جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کرنے کے بعد کوئی نوکری کرنے کے بجائے گھر پر بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اوپرا وینفرے نے ایسی لڑکیوں اور ان کی ماوں کو شو میں مدعو کیا ہوا تھا۔ اس نے لڑکیوں سے ان کے رویّے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ایک ہی بات کہی۔ انہوں نے کہا: چونکہ ہمارے والدین نوکر پیشہ تھے اور وہ گھر سے دس بارہ گھنٹے باہر رہنے پر مجبور تھی، اس لیے ہمارا بچپن ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی عدم تحفظ میں بسر ہوا، اور ہم نے شخصی سطح پر اس کی بڑی قیمت ادا کی، اب ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اولاد بھی ایسے تلخ تجربے سے گزرے۔ لیکن مغرب میں یہ شعور ابھی عام نہیں ہے۔ مشرق بالخصوص مسلم معاشروں میں خاندان کا ادارہ مغرب کے مقابلے پر بہت بہتر حالت میں ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بھی دولت کی اقدار اور فلم اور ٹیلی وژن کے اثرات نے کروڑوں خاندانوں میں تعلق، محبت اور جاں نثاری کا قحط پیدا کردیا ہے۔ ہمارے یہاں بھی دولت ہی تعلق، محبت اور جاں نثاری کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ اب ہم ایسے لڑکے پیدا کررہے ہیں جو محبت کرنے والے شوہر اور باپ سے کہیں زیادہ ”معاشی محافظ“ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اب ہم ایسی لڑکیاں پیدا کررہے ہیں جو محبت کرنے والی بیوی اور محبت کرنے والی ماں سے زیادہ اداکارہ یا ماڈل گرل کا کردار ادا کرنے میں دلچسپی لیتی ہیں۔ ان کی گھرداری کی اہلیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ فخر سے کہتی ہیں کہ ہمیں گھر کا کام کیا انڈہ بنانا بھی نہیں آتا۔ وہ اپنے بچوں کو اس طرح پالتی ہیںکہ بچوں پر رحم آتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کرداری نمونوں کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ مگر عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ یا تو دولت اور اس کی اقدار کے زیراثر ہیں یا شہرت اور اس کی اقدار کے زیراثر ہیں۔ چونکہ دولت اور شہرت اب اداکاری، گلوکاری اور کھیلوں میں پائی جاتی ہے اس لیے ذرائع ابلاغ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو کرداری نمونوں کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ ان کرداری نمونوں کا تعلق نہ خیر سے ہے نہ محبت سے۔ ان نمونوں کو علم سے کچھ لینا دینا ہی، نہ تعلق اور جاں نثاری سے ان کا کوئی رشتہ ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مغرب اور مشرق دونوں جگہ فلسفی، دانشور، علماءاور شاعر و ادیب معاشرے میں کرداری نمونوں کی حیثیت بھی رکھتے تھے اور ان کا معاشرتی کردار بھی کرداری نمونوں والا ہوتا تھا۔ فرانس کا دانش ور ژاں پال سارتر فلسفی اور ادیب تھا، لیکن اسے اپنی قوم اور انسانیت کی تقدیر سے گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ فلسفی اور ادیب ہوکر بھی وہ نظری اور عملی سیاست سے وابستہ تھا۔ اس کے زمانے میں الجزائر پر فرانس کا قبضہ تھا اور سارتر اس قبضے کے خلاف تھا۔ چنانچہ اس نے الجزائر سے فرانس کے قبضے کے خاتمے کے لیے ملک گیر سیاسی مہم چلائی۔ اس مہم کے لیے وہ خود پمفلٹ لکھتا تھا اور سڑکوں پر کھڑا ہوکر انہیں تقسیم کرتا تھا۔ اس کا فرانس کی نوجوان نسل پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ فرانس کی جامعات اور کالجوں کے طلبہ و طالبات سارتر کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ یہ فرانس میں جنرل ڈیگال کا عہد تھا۔ جنرل ڈیگال سے لوگوں نے کہا کہ سارتر غداری کا مرتکب ہورہا ہے اس کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ اس کے جواب میں جنرل ڈیگال نے یہ تاریخی فقرہ کہا کہ سارتر روحِ فرانس ہے اسے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہی! سارتر کی مہم کا یہ اثر ہوا کہ فرانس کو بالآخر الجزائر سے نکلنا پڑا۔ سارتر کا یہ کردار تاریخی تھا لیکن اس کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک انٹرویو میں اسے جب اتنے بڑے تاریخی کردار پر خراج تحسین پیش کیا گیا تو اُس نے کہا کہ اس کے حقیقی مستحق اس زمانے کے طلبہ و طالبات تھے جن کے شعور کی سطح اتنی بلند ہوگئی تھی کہ انہوں نے معمول کی سیاست سے بلند ہوکر سوچا اور عمل کیا۔
برصغیر کی ملّت ِاسلامیہ کی تاریخ میں اقبالؒ آخری بڑے آدمی تھے جنہوں نے ہماری اجتماعی، تہذیبی اور سیاسی زندگی میں نظری سطح پر سہی، بڑا کردار ادا کیا۔
مولانا مودودیؒ کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے نظری اور عملی زندگی کو باہم مربوط کرکے اقبال سے کہیں زیادہ بڑا کردار ادا کیا۔ اس سے بہت چھوٹی سطح پر ایک مثال محمد حسن عسکری کی ہے جو اگرچہ افسانہ نگار اور نقاد تھے لیکن انہیں پاکستانی قوم کے حال اور مستقبل سے بھی گہری دلچسپی تھی اور امت ِمسلمہ کی تقدیر سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا۔ یہاں تک کہ ان کی فکر وسیع تر معنوں میں انسانیت کے مستقبل سے بھی بحث کرتی تھی۔ عسکری صاحب کے بعد شاعروں اور ادیبوں کے دائرے میں ایک بڑا کرداری نمونہ سلیم احمد نے پیش کیا۔ سلیم احمد شاعر تھی، نقاد تھی، ڈرامہ نگار تھے۔ انہوں نے ایک زمانے میں فلمیں بھی لکھیں۔ لیکن انہوں نے حقیقی معنوں میں ایک دانش ور کی زندگی بسر کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ جسارت میں اُس وقت کالم نگاری شروع کی جب شاعروں، ادیبوں میں ”جماعتیہ“ ہونا ایک بہت ہی بڑا ”عیب“ بلکہ ”جرم“ تھا۔ ان کے استاد محمد حسن عسکری نے بھی ان کے اس کام کو پسند نہیں کیا، مگر سلیم احمد کا خیال تھا کہ پاکستان میں اسلام کے غلبے اور اسلامی انقلاب کے لیے جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت موجود نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسلام اور امت ِمسلمہ کے کاز کے لیے بڑی سے بڑی مخالفت کو برداشت کیا۔ انہوں نے ایک دور میں آکر فلمیں لکھنے کا عمل ترک کردیا تھا۔ اس کے بعد انہیں پاکستان کے ممتاز اداکار محمد علی نے پانچ چھ فلمی کہانیاں لکھنے کے لیے کہا اور پیشکش کی کہ وہ اس کے عوض منہ مانگا معاوضہ دیں گی، مگر سلیم احمد نے انکار کردیا، اور وہ زندگی کے آخری لمحے تک خود کو شعر و ادب اور امت ِمسلمہ کے حال اور مستقبل سے منسلک کیے رہے۔ لیکن اب یہ صورت ِحال ہے کہ اگر کوئی شاعر ہے تو بس وہ شاعر ہی ہے۔ کوئی نقاد ہے تو نقاد کے سوا کچھ نہیں۔ کسی کی دلچسپی ڈرامے میں ہے تو وہ ڈرامے کے سوا کچھ نہیں لکھتا۔ قوم، ملّت اور امت اب شاعروں، ادیبوں کا حقیقی مسئلہ نہیں۔ شاعروں، ادیبوں نے خود کو اجتماعیت سے کاٹ لیا ہے تو اجتماعیت بھی ان سے لاتعلق ہوگئی ہی، اور اب ہماری زندگی میں کسی شاعر یا ادیب کو کرداری نمونے کی حیثیت حاصل نہیں۔

No comments:

Post a Comment