بدن کی خاک سمیٹوں کہ روح کی خوشبو
-کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے حالانکہ موسیقی روح کو کھاجاتی ہے۔ علم ک
ے بار ے میں کہا گیا ہ ے کہ ہضم ہو جاءے تو تریاق، ہضم نہ ہو تو زہر، ہضم
ہو جاءے تو انسان نظام الملک بن جاتا ہ ے اور سیاست نامہ جیسی تصنیف وجود
میں آ جاتی ہ ے اور ہضم نہ ہو تو حسن بن صباح بن کر ظاہر اور باطن کی
تاویلیں گھڑ کر قلعہ الموت میں چھپ کر فتن ے جگان ے لگتا ہ ے ”پرواز ہ ے
دونوں کی اسی ایک فضا میں شاہین کا جہاں اور ہ ے کرگس کا جہاں اور“ پھر روح
کی یہ غذا بدن کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر نفس کی ادا بن جاتی ہے۔
ابھی پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ
امن کی آشا کا دیپ ہاتھوں میں لی ے ہوس کی آگ بھڑکان ے وال ے اس ے آتش زیر
پا سمجھ کر رقص بسمل کی مثال ہو گئے۔
ادھر خبروں کی آڑ میں اشارہ ابرو دیا ادھر خدایان زر اور ان ک ے زور س ے
کٹھ پتلی بن ے زبان ک ے تاجر اور قلم ک ے مہاجر کہ روز اپنا مقام اور قیام
بدلن ے ک ے عادی ہیں وہ بھی سرگرم ہو گئے۔ بات صرف تعلیمی اداروں میں رقص و
موسیقی پہ پابندی کی تھی نہ کہ میخانوں میں گھنگرو کی جھنکار پہ بندش کی۔
جن ماں باپ کی جوان اولاد ان اداروں میں زیر تعلیم ہ ے ان س ے پوچھ لیا
ہوتا کہ وہ کیا چاہت ے ہیں۔ دن رات جمہوریت کا راگ الاپن ے وال ے ایسا کوئی
سرو ے کیوں نہیں کروالیت ے جو یہ مٹھی بھر مراعات یافتہ طبق ے ک ے طبلچی
اپنی تاک دھنا دھن کو اکثریت پہ تھوپنا چاہت ے ہیں، ہوس چھپ چھپ کر سینوں
میں بنا لیتی ہ ے گھر اپنا۔ اور وہ جو گاہ ے گاہ ے خوننابہ لال مسجد کا
ماتم کرت ے ہیں اگر اپن ے ٹاک شو میں جو اسمال نہیں کیپیٹل کہلاتا ہ ے اگر
یہ کہیں کہ ”ہیرا منڈی اور ڈیفنس ک ے مجروں کو نہیں روکا جا سکتا تو پھر یہ
پابندی کیوں“ تو حیرت ہوتی ہے۔ کیا اس بازار کی رسم وروایات کو مدرسہ میں
رواج دینا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہ ے کہ جب کوئی بچہ علم حاصل کرن ے گھر س ے
نکلتا ہ ے تو واپس آن ے تک کا وقفہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ آپ اس عبادت کو
کس غلاظت میں ملوث کرنا چاہت ے ہیں۔ کیا مجروں کی زینت کو مسجدوں میں
عبادت کی رسم قرار دینا اور گھنگرو کی جھنکار کو اذان کی جگہ دلوانا چاہت ے
ہیں کیوں کہ ان کا ادارہ ویس ے بھی مندر کی گھنٹیوں کو گھروں کی خلوت میں ل
ے آیا ہے۔
وہ کون اور کس قماش ک ے لوگ ہوت ے ہیں جو اس طرح ک ے پروگراموں میں مہمان
خصوصی ہوت ے ہیں اور کن ترغیبات س ے کچ ے ذہنوں کو اپن ے مذموم مقاصد ک ے
لی ے ہموار کیا جاتا ہ ے اس کی بیشمار داستانیں اخبارات اور کہانیوں میں
بکھری پڑی ہیں، کسی ن ے نہیں روکا کہ آپ سر بازار می رقصم کا نعرہ مستانہ
بلند کریں اور ب ے حجابانہ اپن ے اعضاءکی شاعری کی داد وصول کریں لیکن اس
کی جگہ وہ گلیاں اور چو بار ے ہیں جہاں ہیر ے بکت ے ہیں وہ ادار ے نہیں
جہاں کردار ڈھلت ے ہیں۔
حیرت ہوتی ہ ے عمران خان پہ کہ انہوں ن ے دوسر ے ک ے چباءے ہوءے لقم ے س ے
داد لذّت دی، کیا صرف اس لی ے کہ کمپنی کی مشہوری مطلوب تھی یا اینکر کی
خوشنودی۔ بہت س ے لوگ انہیں تبدیلی کا نقیب اور روشن کل کی نوید سمجھ ے بہت
کچھ آس لگاءے بیٹھ ے ہیں انہیں مجبور و مایوس نہ کریں کہ وہ یہ سمجھیں کہ
عشروں پہل ے کا عمران خان اب بھی کہیں نہ کہیں ان ک ے اندر انگڑائی لین ے
لگتا ہے۔ اور یہ شعلہ مستعجل بھڑکن ے س ے پہل ے ہی جل بجھ ے ۔ان کا ووٹ بنک
بھٹو صاحب والی نتھ فورس نہیں بلکہ گلیوں اور محلوں میں بسن ے وال ے وہ
عوام ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ انہیں یہ شوق ہ ے نہ ہی ان کی
پہنچ جسم ک ے ان پیچ و خم تک۔ جو امن ک ے نام پہ اپنی ہوس کی آشاو ¿ں ک ے
دیپ لی ے نغمہ سرا یا محفل آرا ہوت ے ہیں وہ آٹ ے میں نمک ک ے برابر ہیں ان
ک ے لی ے اس ملک کی عظیم اکثریت کو مایوس نہ کریں۔
No comments:
Post a Comment