Search This Blog

Monday 23 January 2012

کلچرل پروگرامس کے نام پر بے حیائی کا فروغ بند کریں


کلچرل پروگرامس کے نام پر بے حیائی کا فروغ بند کریں
حضور ۖ کی امت کے بچوں اور بچیوں کو نچانے والے اللہ سے ڈریں
M.sc. B.Ed 
 سیدہ حفصہ ایاز گلبرگہ 

یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریہ، سالانہ فنکشن ہو یا پارٹیز، اسکولوں اور کالجوں میں ان مواقع پر ایکسٹرا کریکولر سرگرمیوں کے نام پرنا م نہاد کلچرل پروگرام رکھے جاتے ہیں۔اکثر تعلیمی اداروں میں ان پروگرامس میں مسلمان بچے اور بچیوں کو فلمی گانوں، قوالیوں اور گیتوں کی نغمہ سرائی کرائی جاتی ہے۔ اس پر ہی اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ان بیہودہ، فحش عاشقی اور آوارہ گردی کے ذومعنی مطالب والے گانوں پر بچے اور بچیوں کو نچایا جاتا ہے۔ اور اسے آرٹ اور فن کا نام دیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ بے حیائی پر مبنی لطیفوں ، گیتوں کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ سامعین بھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو فحش دھنوں پر تھرکتے دیکھ کر خوب داد تحسین تالیوں اور سیٹیوں کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ 

ب شک کلچرل پروگرامس تعلیمی اداروں میں ضرور ہونے چاہئے لیکن ان کلچر پروگرامس سے ہماری 
تہذیب کا اظہار ہونا چاہئے نہ کہ مادر پدر آزاد کلچر کا۔ مواقع کی مناسبت سے وطنی، قومی و ملی نغمے گائے جاسکتے ہیں۔تاریخی اور اخلاقی واقعات کو ڈراموں کی شکل میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ ملک و ملت کے لئے قربانی دینے والے قائدین کی یاد تقریروں اور تحریروں سے کرائی جاسکتی ہے۔ لیکن جدت کے نام پر بیہودہ فلمی نغموں اور رقص و سرور کو پیش کیا جاتا ہے۔ کلچرل پروگرامس کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے جو ایک غیرت مند امت کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ تعلیمی اداروں کے ذمہ دار اللہ کا خوف کریں۔ یہ رسول اللہ ۖ کی امت کے بیٹیاں اور بیٹے ہیں جنہیں تم ناچنے گانے اور بے حیائی میں مشغول کررہے ہو۔ قیامت کے دن اگر آقائے دو عالم ۖ نے تم سے اگر سوال کیا تو تم کیا جواب دوگے۔ اللہ کے رسول ۖ کا ارشاد ہے ہر امت کا ایک وصف ہے میری امت کا وصف حیا ہے۔ جان لو کے ہم مسلمان ہیں ہمارا کلچر اسلام ہے۔ دین میں وسعت ہے اسمیں جائز تفریح اور تعمیری سرگرمیوں کی اجازت ہے، لیکن بے حیائی کی نہیں۔
والدین بھی اس چیز کا نوٹس لیں۔ آپ اپنے بچے اور بچیوں کو علم کے حصول کے لئے روانہ کرتے ہیں نہ کہ بے حیائی کے لئے۔ کیا ایک غیرت مند ماں اور غیور باپ اس بات کو برداشت کریگا کہ اسکی بیٹی چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو فحش گانوں اور رقص وسرور میں حصہ لے۔ کیا اپنی بیٹیوں کو لوگوں کے درمیان اسٹیج پر تھرکتے یا لڑکوں کے ساتھ فحش لطیفہ گوئی اور گانوں کو گاتا دیکھ کر انکا سر فخر سے بلند ہوجائیگا۔ خدارا سونچئے۔ اگر بچپن ہی سے ہمارے بچیوں اور بچوں میں بے حیائی بے غیرتی پروان چڑھ جائے تو آگے انجام کسقدر بھیانک ہو سکتا ہے کیا ہم اسکا اندازہ کرسکتے ہیں۔ گھر کی عزت و آبرو ملیا میٹ ہوجائے اس وقت کف افسوس ملنے سے کیا ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس طرح کے پروگرامس میں مہمان خصوصی کے نام پر دنشور حضرات شریک ہوتے ہیں بعض اوقات باریش حضرات بھی ہوتے ہیں لیکن وہ بھی اس برائی پر بازپرس کرنے کی بجائے اس سے محضوض ہوتے ہیں۔ اور پھر تنقید کرکے بھلا وہ کیوں اپنے تعلقات ان اداروں سے خراب کریں گے۔ آخر دوسرے دن اخبار میں پروگرام میں شرکت کی 

انکی خبر اور تصویر بھی تو شائع ہونی ہے ۔ 
بقول شاعر۔۔۔۔غیرت نا م تھا جسکا گئی تیمور کے گھر سے

آج عشق و معاشقوںکی بہتات، لڑکیوں کے گھروں سے فرار (یہاں تک کے غیر مسلموں کے ساتھ بھی ) کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہاہے۔ بہت ساری وجوہات میں اسکی بنیاد وجہہ خوف خدا سے عاری اس طرح کے پروگرمس سے انکا تعلق بھی ہے۔ابتداء ہی سے ایسے پروگرامس نونہالوں کے ذہن میں بے راہ روی کے بیج بو دیتے ہیں ۔ موبائیل فون کیمروں کی مدد سے اوباش لڑکے اور لڑکیا ان پروگرامس کی ویڈیو بناتے ہیں۔ پھر ایم ایم ایس کے ذریعہ یہ سرکیولیٹ ہوتی ہے یہان تک کے انٹرنیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ مارفننگ کے ذریعہ ان تصاویر اور موویز کو عریاں بنا دیا جاتا ہے۔ جو آخرکار والدین اور ملت کی رسوائی کا باعث بن جاتی ہے۔ خود میری کئی اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد انٹرنیٹ پر ایسی ویڈیو کے دستیابی کے بعد طلاقیں ہو چکی ہیں۔ میرا مقصد صرف آپ کو ان خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔ والدین اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ پر زور ڈالیں گے تو ان میں جراء ت نہ ہوگی کہ وہ ایسے پروگرام کرسکیں۔ 
ملت کے درمند و غیور افراد، ائمہ اکرام مذہبی و سماجی رہنماوں اور تنظیموں سے اپیل کرتی ہوںکہ وہ اس بے حیائی کے خلاف مہم چلائیں۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو قائل کریں کے وہ بے حیائی پر مبنی کلچرل پروگرامس کی بچائے اخلاق و کردار کی تعمیر پر مبنی پروگرامس کو رائج کریں۔ اس امت کو آج ابوبکر، عمر، عثمان، علی عائشہ و فاطمہ کی ضرورت ہے نہ کہ میراثیوں ، گویوں اور رقاصاوں کی۔

Email:hafsawriter@indiatimes.com
ayazfreelance@gmail.com 


No comments:

Post a Comment