Search This Blog

Sunday, 22 January 2012

کیا ہمارے بچّے یتیم ہیں؟؟؟؟؟ ترجمہ و تلخیص: سیّدہ حفصہ ایاز مغرب کے خدا ناشناس ذہن کی جولانیوں کی معراج فرائڈ اور کارل مارکس ہیں، انہوں نے انسانی زندگی اور اسکے مسائل کے بارے میں خالص مادی نقطہء نظر پیش کیا اور اسکے حق میں عقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگا دیئے، یہی نظریات فکری اور انقلابی تحریکوں میں ڈھلے اور مغربی دنیا کے سیاسی و سماجی ڈھانچے میں دور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں رونما ہویءں۔ان تبدیلیوں نے ساری دنیا کو تصادم اور کشمکش ،تباہی ،بربادی اور محرومی ومایوسی میں مبتلا کردیا۔ فرائڈ کے نظریات جن میں مذہب کی تحقیر نے انسانی اقدار عالیہ کو پامال کرنے کی بدترین شکل پیش کی گئی تھی،انسان کو حیوانیت کی راہ پر گامزن کر دیا اور یہ بات مغربی معاشرے کے ذہن نشین کرا دی کہ تمام نفسیاتی الجھنوں اور اعصابی اضطرابات سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فرد کے راستے سے سماج، اخلاق اور روایات جیسے چوکیدار ہٹا دئیے جایءں اور اسکے کچلے ہوئے جذبات کو روایات کے قید خانے سے آزاد کردیا جائے۔ اسطرح مغرب میں ایسی نسل تیار کی گئی جو اس بات کی ہم خیال تھی کہ ، سماج ، دائنات کی اشیاء اور انسانی طبیعت سے متصادم ہے اور معاشرے کی قید اور روایات کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، خوشی کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد ہو جائے۔ بالآخر یورپ اور امریکہ کی تمام اقوام میں معاشرتی شیرازہ ان افکاروخیالات کی ترویج پاتے ہی بکھر گیا اور عائلی نظام درہم برہم ہو گیا۔ اسلام جو دین فطرت ہے،انسان کی فطرت اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے احکامات لاگو کرتا ہے۔ قرآن کریم میں?، شراب اور قماربازی کے بارے میں لوگوں کے دریافت کرنے پر ارشاد ربانی ہوا: ‘‘لوگ آپ سے اس بارے میں پوچھتے ہیں ،فرما دیجئے کہ ان دونوں کے استعمال میں گناہ کی باتیں ہیں اور بعض فائدے بھی ہیں ۔مگرگناہ ان فائدوں سے زیادہ ہے،اگرقرآن یہ کہتا کہ خمر و میسر کوئی فائدہ نہیں تو لوگ ہو سکتا ہے اعتراض کرنے یاعدم اطمینان کا شکار ہوتے۔ اسلام کی عائد کردہ تمام قیود اور بندشیں معاشرے کے مفاد میں ہیں۔اس مختصر تجزیئے سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ موجودہ دور میں جو کشمکش قوموں، ملکوں اور مذاہب میں جاری ہے، اس میں یہ نظریات و خیالات کارفرما ہیں جو اہل مغرب نے دنیا کو دیئے اور جس دلدل میں وہ خود جا گرے ہیں،آج کا نام نہاد ترقی پسند معاشرہ اسی جانب رواں دواں ہے، اس وقت ہماری فکر کے سارے دھارے اس جانب مبذول ہونے چاہیءں کہ معاشر ہ کے اس بحران سے کیسے نمٹا جائے ،اسکا تدارک کیا کیا جائے اور اسکا حل کیا ہو؟ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے کہ : تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی (نگہبان) ہیں اور انکی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی تمام صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہزیب کی چالوں سے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جایءں، مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچنا اور باقی لوگوں کو بچانا اتنا آسان نہیں، لیکن حکم خداوندی ہے کہ ‘‘اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاو۔(القرآن) صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ سے روشناس کراؤ اور انہیں آداب سکھاؤ۔ تربیت کا جو نظام اسلام دیتا ہے انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے۔ ہر انسان کا بچہ جب دنیا میںآتا ہے،والدین کے پاس امانت ہوتا ہے ،بچہ کا دل و دماغ سادہ ہوتا ہے، اس کے والدین یا معلم ، معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں ،اسکے خیالات و افکار بناتے ہیں ، اگر خیر کی طرف راہنمائی کریں تو وہ اسکا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا بلکہ اسکی تباہی کا وبال اسکے سر پرستوں پر بھی ہوگا۔ تربیت کے اس مرحلے میں? ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے،معاشرے کی تباہی ،بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی دمک نے ان ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میں مصروف ہیں، پر باشعور مسلمان اس بات سے خوب واقف ہے۔ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہیں،جھوٹ اور مکروفریب کی اشاعت ان کا کام ہے۔ آزادی کے مغربی تصور کے تحت ان ذرائع ابلاغ نے فسق و فجور کی خوب اشاعت سنبھالی ،پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر میڈیا کیاثرات کو گھر گھر پہنچا دیا۔ آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جاے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لہذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ دشمنان اسلام اس فن سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں۔ ماؤں کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہا ئی ضروری ہے۔ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے: '' یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘ آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے۔ بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا‘‘ اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو،اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں ?رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہو گا۔ انشاء4 اللہ۔

کیا ہمارے بچّے یتیم ہیں؟؟؟؟؟
ترجمہ و تلخیص: سیّدہ حفصہ ایاز

مغرب کے خدا ناشناس ذہن کی جولانیوں کی معراج فرائڈ اور کارل مارکس ہیں، انہوں نے انسانی زندگی اور اسکے مسائل کے بارے میں خالص مادی نقطہء نظر پیش کیا اور اسکے حق میں عقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگا دیئے، یہی نظریات فکری اور انقلابی تحریکوں میں ڈھلے اور مغربی دنیا کے سیاسی و سماجی ڈھانچے میں دور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں رونما ہویءں۔ان تبدیلیوں نے ساری دنیا کو تصادم اور کشمکش ،تباہی ،بربادی اور محرومی ومایوسی میں مبتلا کردیا۔

فرائڈ کے نظریات جن میں مذہب کی تحقیر نے انسانی اقدار عالیہ کو پامال کرنے کی بدترین شکل پیش کی گئی تھی،انسان کو حیوانیت کی راہ پر گامزن کر دیا اور یہ بات مغربی معاشرے کے ذہن نشین کرا دی کہ تمام نفسیاتی الجھنوں اور اعصابی اضطرابات سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فرد کے راستے سے سماج، اخلاق اور روایات جیسے چوکیدار ہٹا دئیے جایءں اور اسکے کچلے ہوئے جذبات کو روایات کے قید خانے سے آزاد کردیا جائے۔

اسطرح مغرب میں ایسی نسل تیار کی گئی جو اس بات کی ہم خیال تھی کہ ، سماج ، دائنات کی اشیاء اور انسانی طبیعت سے متصادم ہے اور معاشرے کی قید اور روایات کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، خوشی کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد ہو جائے۔ بالآخر یورپ اور امریکہ کی تمام اقوام میں معاشرتی شیرازہ ان افکاروخیالات کی ترویج پاتے ہی بکھر گیا اور عائلی نظام درہم برہم ہو گیا۔

اسلام جو دین فطرت ہے،انسان کی فطرت اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے احکامات لاگو کرتا ہے۔ قرآن کریم میں?، شراب اور قماربازی کے بارے میں لوگوں کے دریافت کرنے پر ارشاد ربانی ہوا: ‘‘لوگ آپ سے اس بارے میں پوچھتے ہیں ،فرما دیجئے کہ ان دونوں کے استعمال میں گناہ کی باتیں ہیں اور بعض فائدے بھی ہیں ۔مگرگناہ ان فائدوں سے زیادہ ہے،اگرقرآن یہ کہتا کہ خمر و میسر کوئی فائدہ نہیں تو لوگ ہو سکتا ہے اعتراض کرنے یاعدم اطمینان کا شکار ہوتے۔

اسلام کی عائد کردہ تمام قیود اور بندشیں معاشرے کے مفاد میں ہیں۔اس مختصر تجزیئے سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ موجودہ دور میں جو کشمکش قوموں، ملکوں اور مذاہب میں جاری ہے، اس میں یہ نظریات و خیالات کارفرما ہیں جو اہل مغرب نے دنیا کو دیئے اور جس دلدل میں وہ خود جا گرے ہیں،آج کا نام نہاد ترقی پسند معاشرہ اسی جانب رواں دواں ہے، اس وقت ہماری فکر کے سارے دھارے اس جانب مبذول ہونے چاہیءں کہ معاشر ہ کے اس بحران سے کیسے نمٹا جائے ،اسکا تدارک کیا کیا جائے اور اسکا حل کیا ہو؟

حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے کہ : تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی (نگہبان) ہیں اور انکی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی تمام صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہزیب کی چالوں سے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جایءں، مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچنا اور باقی لوگوں کو بچانا اتنا آسان نہیں، لیکن حکم خداوندی ہے کہ ‘‘اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاو۔(القرآن)

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ سے روشناس کراؤ اور انہیں آداب سکھاؤ۔

تربیت کا جو نظام اسلام دیتا ہے انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے۔ ہر انسان کا بچہ جب دنیا میںآتا ہے،والدین کے پاس امانت ہوتا ہے ،بچہ کا دل و دماغ سادہ ہوتا ہے، اس کے والدین یا معلم ، معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں ،اسکے خیالات و افکار بناتے ہیں ، اگر خیر کی طرف راہنمائی کریں تو وہ اسکا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا بلکہ اسکی تباہی کا وبال اسکے سر پرستوں پر بھی ہوگا۔ تربیت کے اس مرحلے میں? ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے،معاشرے کی تباہی ،بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی دمک نے ان ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میں مصروف ہیں، پر باشعور مسلمان اس بات سے خوب واقف ہے۔ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہیں،جھوٹ اور مکروفریب کی اشاعت ان کا کام ہے۔

آزادی کے مغربی تصور کے تحت ان ذرائع ابلاغ نے فسق و فجور کی خوب اشاعت سنبھالی ،پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر میڈیا کیاثرات کو گھر گھر پہنچا دیا۔

آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جاے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لہذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ دشمنان اسلام اس فن سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں۔ ماؤں کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہا ئی ضروری ہے۔ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے:

'' یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘

آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے۔ بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا‘‘ اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو،اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں ?رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہو گا۔ انشاء4 اللہ۔
ترجمہ و تلخیص: سیّدہ حفصہ ایاز

مغرب کے خدا ناشناس ذہن کی جولانیوں کی معراج فرائڈ اور کارل مارکس ہیں، انہوں نے انسانی زندگی اور اسکے مسائل کے بارے میں خالص مادی نقطہء نظر پیش کیا اور اسکے حق میں عقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگا دیئے، یہی نظریات فکری اور انقلابی تحریکوں میں ڈھلے اور مغربی دنیا کے سیاسی و سماجی ڈھانچے میں دور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں رونما ہویءں۔ان تبدیلیوں نے ساری دنیا کو تصادم اور کشمکش ،تباہی ،بربادی اور محرومی ومایوسی میں مبتلا کردیا۔

فرائڈ کے نظریات جن میں مذہب کی تحقیر نے انسانی اقدار عالیہ کو پامال کرنے کی بدترین شکل پیش کی گئی تھی،انسان کو حیوانیت کی راہ پر گامزن کر دیا اور یہ بات مغربی معاشرے کے ذہن نشین کرا دی کہ تمام نفسیاتی الجھنوں اور اعصابی اضطرابات سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فرد کے راستے سے سماج، اخلاق اور روایات جیسے چوکیدار ہٹا دئیے جایءں اور اسکے کچلے ہوئے جذبات کو روایات کے قید خانے سے آزاد کردیا جائے۔

اسطرح مغرب میں ایسی نسل تیار کی گئی جو اس بات کی ہم خیال تھی کہ ، سماج ، دائنات کی اشیاء اور انسانی طبیعت سے متصادم ہے اور معاشرے کی قید اور روایات کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، خوشی کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد ہو جائے۔ بالآخر یورپ اور امریکہ کی تمام اقوام میں معاشرتی شیرازہ ان افکاروخیالات کی ترویج پاتے ہی بکھر گیا اور عائلی نظام درہم برہم ہو گیا۔

اسلام جو دین فطرت ہے،انسان کی فطرت اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے احکامات لاگو کرتا ہے۔ قرآن کریم میں?، شراب اور قماربازی کے بارے میں لوگوں کے دریافت کرنے پر ارشاد ربانی ہوا: ‘‘لوگ آپ سے اس بارے میں پوچھتے ہیں ،فرما دیجئے کہ ان دونوں کے استعمال میں گناہ کی باتیں ہیں اور بعض فائدے بھی ہیں ۔مگرگناہ ان فائدوں سے زیادہ ہے،اگرقرآن یہ کہتا کہ خمر و میسر کوئی فائدہ نہیں تو لوگ ہو سکتا ہے اعتراض کرنے یاعدم اطمینان کا شکار ہوتے۔

اسلام کی عائد کردہ تمام قیود اور بندشیں معاشرے کے مفاد میں ہیں۔اس مختصر تجزیئے سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ موجودہ دور میں جو کشمکش قوموں، ملکوں اور مذاہب میں جاری ہے، اس میں یہ نظریات و خیالات کارفرما ہیں جو اہل مغرب نے دنیا کو دیئے اور جس دلدل میں وہ خود جا گرے ہیں،آج کا نام نہاد ترقی پسند معاشرہ اسی جانب رواں دواں ہے، اس وقت ہماری فکر کے سارے دھارے اس جانب مبذول ہونے چاہیءں کہ معاشر ہ کے اس بحران سے کیسے نمٹا جائے ،اسکا تدارک کیا کیا جائے اور اسکا حل کیا ہو؟

حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے کہ : تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی (نگہبان) ہیں اور انکی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی تمام صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہزیب کی چالوں سے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جایءں، مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچنا اور باقی لوگوں کو بچانا اتنا آسان نہیں، لیکن حکم خداوندی ہے کہ ‘‘اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاو۔(القرآن)

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ سے روشناس کراؤ اور انہیں آداب سکھاؤ۔

تربیت کا جو نظام اسلام دیتا ہے انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے۔ ہر انسان کا بچہ جب دنیا میںآتا ہے،والدین کے پاس امانت ہوتا ہے ،بچہ کا دل و دماغ سادہ ہوتا ہے، اس کے والدین یا معلم ، معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں ،اسکے خیالات و افکار بناتے ہیں ، اگر خیر کی طرف راہنمائی کریں تو وہ اسکا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا بلکہ اسکی تباہی کا وبال اسکے سر پرستوں پر بھی ہوگا۔ تربیت کے اس مرحلے میں? ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے،معاشرے کی تباہی ،بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی دمک نے ان ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میں مصروف ہیں، پر باشعور مسلمان اس بات سے خوب واقف ہے۔ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہیں،جھوٹ اور مکروفریب کی اشاعت ان کا کام ہے۔

آزادی کے مغربی تصور کے تحت ان ذرائع ابلاغ نے فسق و فجور کی خوب اشاعت سنبھالی ،پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر میڈیا کیاثرات کو گھر گھر پہنچا دیا۔

آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد، خاندان، نظام، اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہو جاے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لہذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ دشمنان اسلام اس فن سے بہ خوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں۔ ماؤں کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہا ئی ضروری ہے۔ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے:

'' یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اسکے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انکو دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘

آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے۔ بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصا‘‘ اپنے اوقات کار،گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لا پروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپنا کر ہی کیا جا سکے گا۔ رنگ اسی کپڑے پر اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو،اپنی اولاد اور گھر کے افراد کا اور رنگوں سے نکال کر صبغت اللہ میں ?رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا کے لیے کافی ہو گا۔ انشاء4 اللہ۔

No comments:

Post a Comment