مواصلاتی انقلاب اورجرائم !
*مونسہ بشریٰ عابدی:
*مونسہ بشریٰ عابدی:
سیاسی انقلابات کے اس دور کے بعد‘ جسے ہم جمہوریت کے لئے اٹھنے والی
تحریکوں کے نام سے جانتے ہیں‘ صنعتی انقلاب کی اہمیت کافی زیادہ ہے۔ جمہوری
تحریکوں کے سماجی اثرات ناگزیر تھے اوروہ ہوئے۔ مگرصنعتی انقلاب کا سماجی
پہلو بھی کم اہم نہیں تھا۔ اشتراکیت اورسرمایہ داری کی کشمکش نے صنعتی
انقلاب کی کوکھ سے ہی جنم لیاتھا۔ اوراب گلوبلائزیشن یا عالم کاری کی بنیاد
دیکھا جائے تو مواصلاتی انقلاب پرقائم ہے۔ ہم ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ
یہ سنتے اورکہتے رہتے ہیں کہ دنیا ایک ’’عالمی گاؤں‘‘بن چکی ہے اوراس کا
سہرا مواصلاتی ذرائع ہی کے سرہے۔ عام طورپر مواصلاتی آلات کا نعرہ
Connecting Peopleہے۔ ہم گھر بیٹھے دنیا بھرکے صرف حالات ہی سے واقف نہیں
بلکہ چاہیں تو لوگوں کے بیڈرومس تک میں جھانک سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ
جس مواصلاتی انقلاب نے ہمیں دنیا کے کونے کونے سے واقف کرادیاہے اسی
انقلاب نے ہمیں اپنے گھرمیں اجنبی بنا کررکھ دیاہے۔ ہم دنیا سے قریب مگر
خوداپنے اہلِ خانہ سے بہت دورہوتے جارہے ہیں۔ جب تک یہ بات اقتدار پریقین
رکھنے والے اسلام پسندوں کی زبان پر آتی ہے ‘سنی ان سنی کردی جاتی ہے لیکن
اب مواصلاتی انقلاب کا جن جوبوتل سے باہرہوچکا ہے اپنے ایسے کرتب دکھارہا
ہے کہ سیکولرلبرل اورجدیدیت پسند معاشرہ بھی غوروفکر کرنے پرمجبورہے۔ یہ
اوربات ہے کہ ہم پھربھی مواصلاتی آلات کے استعمال میں مہارت ہی کوترقی کی
ضمانت سمجھے بیٹھے ہیں۔ کمپیوٹر‘ موبائل ‘ انٹرنیٹ کے استعمال پر عبورکو ہی
خوشحالی کا عنوان سمجھتے ہیں۔ اورملت کے لئے ترقی کے جوبھی راستے تلاش
کرنے پرمصرہیں وہاں ہمیں مواصلاتی آلات صرف ذریعہ نہیں اصل مقصود بالذات
محسوس ہونے لگے ہیں۔ آروشی قتل کیس کے متعلق ہم اپنے انہی کالموں میں پہلے
بھی لکھ چکے ہیں۔ اخلاقی اورتہذیبی نقط�ۂ نظر سے جو غلطیاں اس قسم کے جرائم
کا سبب بنتی ہیں اس کی نشاندہی کرچکے ہیں مگرآج اس نوعیت کے جرائم کا ایک
اورپہلو پیش نظر ہے۔ جس کی وجہ برطانوی میڈیکل جرنل Lancetکی وہ رپورٹ ہے
جس کے مطابق ہندوستانی نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان دنیامیں سب سے زیادہ
ہے۔ ۰۵تا ۵۷ فیصد اس میں وہ لڑکیاں ہیں جن کی عمر ۵۱سال تا ۹۱سال کے درمیان
ہے۔ جبکہ ۸ تا ۰۱فیصد لڑکے اس میں شامل ہیں۔ اوریہ ہم نہیں ترقی یافتہ
سماج کے پروردہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ والدین کی لاپروائی
کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی تقریباً یہ متفقہ رائے بنتی جارہی ہے کہ تکنیکی
ترقی جس نے دنیا بھرسے رابطہ کرادیاہے اسی نے والدین اوربچوں کے درمیان
رابطہ کی خلیج کوبڑھادیاہے۔ خاندانوں کے افراد میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔
خاندانی روابط ٹوٹتے بکھرتے جارہے ہیں۔ خواتین کو اپنے کیریئرکی فکراپنے
گھروں سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔والد کی طرف سے بچوں اورگھرکی نگرانی میں
کوئی مددنہیں ملتی۔ نکاح کے بندھن اتنے کمزور ہوتے جارہے ہیں کہ عمر کی
ساتویں دہائی میں بھی لوگ اسے توڑنے سے نہیں ہچکچاتے۔ایسے میں نوجوان نسلیں
والدین کی توجہ سے محروم صرف الیکٹرونی آلات کے سہارے جینے کی کوشش میں
مصروف ہیں۔ آزادی کے نام پر پہلے تواخلاقیات کا جنازہ نکال دیاجاتاہے۔گھرکی
پارٹیوں سے شراب کا استعمال ‘ کم عمری میں ڈرائیونگ کے لئے گاڑیاں ‘جینے
کے لئے بے پناہ آسائشیں اورہروہ چیزبچوں کودستیاب ہے جوپیسے سے خریدی
جاسکتی ہو۔ سوائے والدین کی سرپرستی کے۔ ’’ترقی یافتہ ‘‘ والدین بچوں کے
ساتھ دوستوں والا رویہ اختیار کرناپسند کرتے ہیں اور اپنی اچھی بری ہربات
میں اسے شامل رکھتے ہیں دوستی اورسرپرستی کے درمیان کوئی حدِّ فاصل نہیں
رہ جاتی اور جب اس آزادی اورلاپروائی کے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں توپھرایک
دم سے صورتحال کوسنبھالنے کی کوشش اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے جیسا کہ
شاید آروشی کیس میں ہواہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق جن بچوں کے والدین میڈیکل
شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کے بچے سب سے زیادہ نظرانداز ہوجاتے ہیں۔ہمارے
اپنے ایک معالج نے بتایاتھاکہ وہ مسلسل آملیٹ پراس لئے قناعت کرتے چلے
جارہے ہیں کہ انکی ملازمہ چھٹی پر ہے اوران کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ڈاکٹر
والدہ کی آمدسے پہلے ہی کئی دنوں تک بھوکے سوجایا کرتے ہیں۔ آئی ٹی کے ایک
پروفیشنل نے لکھاتھاکہ اپنے پیشے کی مصروفیت کے سبب اسے بچوں کے ساتھ
گذارنے کے لئے وقت نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ خوداپنی بچی سے رابطہ قائم کرنے
کیلئے Chat Line یا Face book کا سہارا لینے پرمجبورتھا۔ زیادہ تر خوشحال
گھرانوں میں بچوں کے کمرے علاحدہ ہوتے ہیں اوران کے پاس اتنی فرصت نہیں
ہوتی کہ ان کمروں میں بھی کبھی جھانک لیا کریں۔ ایسی ہی آزادی سے فائدہ
اٹھانے والی ایک بچی مسلسل رات دیرگئے گھرلوٹتی رہی۔ اورزبان بند رکھنے کے
لئے اپنے ڈرائیورکو رشوت بھی دیتی رہی۔ والدین کواس وقت خبر ہوئی جبکہ پانی
سرسے اونچا ہوچکا تھا۔ ملک کے ایک پبلک اسکول کی پرنسپل نے اسکول میں طلبا
ء4 کی ایک پارٹی میں شراب فراہم کرنے سے متعلق جب والدین کی مرضی
جانناچاہی تواسے اندازہ ہواکہ شراب کوناپسند کرنے والے بچوں کے والدین
انتہائی اقلیت میں تھے۔پچھلے دنوں ایک اسکول کے چندبچوں نے جواونچی کلاسوں
کے طالب علم تھے بتایاکہ ہم تو ترستے ہیں کہ ہمارے والدین ہمارے مسائل
کوسنیں اورسمجھیں اوراس معاملہ میں ہماری رہنمائی کریں مگر افسوس کہ ان کے
پاس ہمارے لئے بالکل وقت نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارے بچے مسلم تھے اوران
کے والدین کا تعلق خوشحال نہیں بس نچلے متوسط طبقہ سے تھا۔ اکثربچوں کے
والدین کوٹی وی سے ‘ کچھ کوپکوانوں سے ‘ کچھ لوگوں کوخاندان میں رشتہ داروں
سے ملنے جلنے اورخاندانی سیاست میں الجھے رہنے سے فرصت نہیں تھی۔ مگرایک
یتیم بچہ ایسا بھی تھا جس کی ماں کو دینی اجتماعات سے فرصت نہیں تھی کہ وہ
اپنے بچے کے اسکولی یا عام مسائل سے واقفیت حاصل کرسکتی۔ مسلم محلوں میں
ہمیں لڑکوں کی مٹرگشتی پراکثر اعتراض ہوتا ہے مگراس کی وجوہات سمجھنے کی ہم
نے شاید ہی کوشش کی ہو۔ تنگ کمروں میں مقیدیہ بچے ٹی وی یا خاندانی چپقلش
کے ہنگاموں سے دورسکون کی تلاش میں گلیوں میں نکل آتے ہیں۔ ایک انتہائی
خوشحال گھرانے کے طالب علم نے بتایامیرے گھرمیں ٹی وی اورویڈیوکی حکمرانی
رہتی ہے اور میںیکسوئی سے مطالعہ نہیں کرسکتا لیکن جب نتیجہ توقع سے کم آتا
ہے تو والدین تشددپراتر آتے ہیں اورانہیں گھرسے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے
ہیں۔ جس وقت یہ سطریں پڑھی جارہی ہوں گی ایس ایس سی کے نتائج ظاہر ہوچکے
ہونگے۔ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کوسرزنش کرنے اورانہیں
سزا دینے یا ان کے توقع سے کم نتائج پر بپھراٹھنے کی بجائے ان کی دلسوزی
کریں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں۔مواصلاتی انقلاب نے ہمارے نوجوان ذہنوں پر
کتنا بوجھ ڈالا ہے اس کااندازہ کریں اوران کے لئے جوکچھ بھی امکانات تعلیم
کے میدان میں موجود ہیں ان پرٹھنڈے دل سے غورکرکے ان کی رہنمائی کریں۔
اگرہم نے بحیثیت والدین اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا توہ و دن دورنہیں
جب نوجوان نسل کا اعتبارہم پرسے پوری طرح اٹھ جائے گا۔ خدا کاشکرہے کہ ابھی
مسلم گھرانوں کا حال راجیش تلوار کے گھرانے جیسا نہیں ہے لیکن اگرہم نے
بھی تعلیم وترقی کے اصل مفہوم کوسمجھنے میں وہی غلطی کی اوراقدار اوراعلیٰ
مقصد سے عاری تعلیم کوترقی کے ہم معنی سمجھ لیا توانجام کے اعتبار سے ہم ان
سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ ہمارے سماج میں بھی
خاندان کے اندرخوف ودہشت کا ماحول ہواور آپسی اعتماد عنقا ہوگیاہو۔ اگرایسا
ہوتا ہے تو خدانخواستہ ہماری تنگ گلیاں بھی نوئیڈا کے جل وایو وہار کی
داستانیں دہرانے لگیں گی۔ والدین یہ بات بخوبی سمجھ لیں کہ بچے کوئی آسائشی
سامان نہیں محض جنہیں دوسروں پربرتری جتانے اوراپنا سرفخرسے بلند کرنے کے
لئے استعمال کیاجائے !
No comments:
Post a Comment