Search This Blog

Sunday 22 January 2012

انقلاب مصرکی محرک ۔اخوان المسلمون

انقلاب مصرکی محرک ۔اخوان المسلمون
تلخیص: ایاز الشیخ ، گلبرگہ          تحریر: اشعر انجم مصر
 
تیس سال سے مصر پر قابض ظالم و جابر ڈکٹیٹر: حسنی مبارک اپنے اقتدار کی آخری گھڑیاں گن رہا ہے۔ ملت مصر کی انتھک جدوجہد اور شہادتیں اپنا رنگ دکھلا رہی ہیں۔ جن طاقتوں کی پشت پناہی سے اس جابر نے اپنا اقتدر قائم رکھا تھا عوامی رخ دیکھ کر وہ اسے نظر انداز کرنے لگی ہیں۔ شاہ ایران کی طرح حسنی مبارک بھی اپنے زندگی کے آخری ایام ذلت و خواری میں اپنے آقا امریکہ یا یورپ میں گذاریگا۔ مصر کے اس انقلاب کی اصل محرک وہاں کے عوام کی مقبول تحریک اخوان لمسلمون ہے۔جس نے بہترین حکمت عملی کی ذریعہ عوام کے تمام طبقات اور تنظیموں کو اس جدوجہد میں یکجا کردیا ہے۔ ابتداء میں شہادتوں کے نذرانہ پیش کرکے عوام کے دلوں سے جابر کا خوف دور کرکے جدو جہد کی امنگ پید کردی۔
مصر عالم اسلام میں تاریخی اور علمی لحاظ سے بہت اہم ملک ہے۔ اس کا طرزِ حکومت جمہوری ہے جو کہ یک ایوانی نظام پر قائم ہے۔ مصر کے سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت بالترتیب صدر اور وزیراعظم ہوتے ہیں۔ دارالحکومت قاہرہ ہے۔ مصر کا رقبہ 386650 مربع میل جبکہ آبادی 7 کروڑ 88 لاکھ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مصر دنیا میں پندرہویں جبکہ افریقہ میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ مصر میں فی کس آمدنی 1997ئکے مطابق 720 ڈالر ہے۔ حسنی مبارک ہیں اکتوبر 1981ء سے اقتدار پر قابض ہے۔
ایک ایسی شخصیت جس نے نہ صرف مصر بلکہ سارے عالم اسلام میں نشاۃ الثانیہ کی روح پھونکی تھی وہ ہیں حسن البناء شہیدؒ : آپؒ 1907ء میں صوبہ البجیرہ کے شہر محمودیہ کے ایک علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد احمد عبدالرحمن البناء کو علمِ حدیث سے خصوصی شغف تھا اور اس میں ان کی کئی تالیفات بھی ہیں۔ ان کی آخری کتاب امام احمد بن حنبلؒ کی مسند کی شرح ہے جو ’’الفتح الربائی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بلند پایہ ضخیم کتاب ہے اور اس کا وجود عظیم منفعت کا باعث ہے۔ علمی گھرانے اور ماحول کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود حسن البنائنے تصنیفِ کتب کی طرف زیادہ توجہ نہ دی بلکہ چھوٹی عمر سے ہی آپ کی توجہ عملی پہلو کی جانب زیادہ رہی، اور آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ انسانوں کی تصنیف کریں اور مجاہدین کی کھیپ تیار کریں۔ حسن البناء شہیدؒ نے 1920ء میں ٹیچر ٹریننگ اسکول میں معلم کی تربیت حاصل کی۔ 1922ء میں یہاں سے فراغت کے بعد مدرسہ دارالعلوم قاہرہ میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1927ء میں گریجویشن کیا جس میں آپ کی اول پوزیشن تھی۔ مارچ 1928ء بمطابق ذوالقعدہ 1347ھ میں امام حسن البناء شہیدؒ نے آج ایک تن آور درخت کی صورت میں کھڑی ہوجانے والی عالمگیر تنظیم اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔ اس کی تاسیس نہر کے کنارے اسماعیلیہ میں ہوئی اور تاسیس کے وقت یہ جماعت صرف 6 افراد پر مشتمل تھی، جس کے ارکان کی تعداد دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک 20 لاکھ ہوگئی تھی۔ حسن البناء شہیدؒ نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 50 سال سے مصر میں غیر اسلامی آئین آزمائے جارہے ہیں جو کہ سخت ناکام ہوئے ہیں، لہٰذا اب اسلامی شریعت کا تجربہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مصر کے موجودہ قانون کے ماخذ کتاب وسنت نہیں بلکہ یورپی ممالک کے دستور اور قوانین ہیں جو اسلام سے متصادم ہیں۔ حسن البناء شہیدؒ نے مصریوں میں جہاد کی روح پھونکی اور اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا۔ ان کی زندگی کے اواخر میں اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا، تاہم حسن البناء کو آخری وقت تک گرفتار نہیں کیا جاسکا، اور بالآخر 12 فروری 1949ء کو قاہرہ میں عالمِ اسلام کے اس عظیم رہنما کو ایک سازش کے تحت رات کی تاریکی میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ شہادت کے وقت امام حسن البناء کی عمر صرف 43 برس تھی۔ اخوان المسلمون: الاخوان المسلمون 1929ء میں مصر میں قائم ہوئی، اس کے بانی شیخ حسن البناء شہیدؒ تھے جو اسماعیلیہ کے ایک گا?ں کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اس تحریک کا آغاز 1923ء میں کیا تھا مگر 1929ء میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی۔ اس کا نصب العین دراصل اسلام کے بنیادی عقائد کا احیاء اور ان کا نفاذ تھا اور اسی مقصد سے اخوان المسلمون نے عملی طور پر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ مصر میں یہ تحریک بہت جلد مقبول ہوتی چلی گئی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب و مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں بھی قائم ہوگئیں۔ اخوان المسلمون 1952ء میں مصر کے فوجی انقلاب کی حامی تھی مگر اس کی طرف سے جنرل نجیب اور جنرل ناصر کی خارجہ پالیسی کی بھی مخالفت کی جاتی رہی جس کے نتیجے میں یہ جماعت خلافِ قانون قرار دے دی گئی اور اس کی املاک ضبط کرلی گئیں۔ اس کے بعد اس جماعت کے رہنما شیخ حسن الہضیبی نے اپنا صدر مقام قاہرہ سے دمشق منتقل کردیا۔ اخوان المسلمون نے عرب قوم پرستی کے خلاف زبردست آواز اٹھائی اور اسلامی بھائی چارہ یعنی ’’اخوان المسلمون‘‘ کا نعرہ بلند کیا، جس کی پاداش میں اخوان کے بہت سے اراکین کو جیلوں میں بند کردیا گیا اور سید قطب شہیدؒ جیسے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ پابندی لگنے کے بعد بھی یہ جماعت نہ صرف باقی رہی بلکہ پھلتی پھولتی رہی اور پورے عرب علاقوں میں پھیل گئی۔ ا موجودہ دنیا کی مشہور اسلامی تنظیموں کا تعلق بھی اخوان سے تھا جن میں حماس کے رہنما شیخ احمد یاسین شہیدؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی شامل ہیں۔ موجودہ حالات میں اخوان المسلمون نے 66 سالہ محمد بدیع کو اپنا نیا قائد منتخب کیا ہے۔ اخوان المسلمون دیگر اسلامی جماعتوں کے مقابلے میں کچھ امتیازی اوصاف رکھتی ہے۔ مثلاً فروعی اختلافات اور چھوٹے چھوٹے تنازعات سے دور رہتی ہے اور اپنے کارکنان کو بھی دور رکھتی ہے۔ اپنے دشمنوں سے معرکہ آرائی کے بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے کہ وہ اخوان کے بارے میں جو چاہے کہیں۔ اخوان المسلمون کا مقصد ایسے افراد کی تیاری تھا جن کا تصور واضح ہو کہ اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔ یہ قرآن بھی ہے اور تلوار بھی۔ یہ عبادت بھی ہے اور معاملات بھی۔ یہ تربیت بھی ہے اخلاق بھی۔ اس میں سیاست بھی ہے اور معاشیات بھی۔ یہ سماج کے اصول بھی دیتا ہے اور عدالت کے لیے ہدایت بھی۔ یہ دعوت نوجوانوں، مزدوروں، مزارعین اور امت کے تمام طبقات کے دلوں میں اترتی چلی گئی۔ اس دعوت کے اندر مسلمانوں نے نئی چیز دیکھی جو روایتی مکاتبِ فکر اور متداول علمی راہ میں انہوں نے کبھی نہ پائی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون نے اخبار اور رسالوں کی طرف بھی توجہ دی۔ 1935ء میں رشید رضا کے انتقال کے بعد حسن البناء شہیدؒ نے ان کے رسالے ’’المنار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ اخوان المسلمون نے خود بھی اپنا روزنامہ، ایک ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ جاری کیا۔ روزنامہ ’’اخوان المسلمون‘‘ مصر کے صف اول کے اخبارات میں شمار ہوتا تھا۔ ان مطبوعات اور چھوٹے چھوٹے کتابچوں کے ذریعے اخوان نے اپنے اغراض و مقاصد اور نصب العین کی پْرزور تبلیغ کی اور بتایا کہ اسلام کس طرح زندگی کے مختلف شعبہ جات میں دنیا کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک اخوان کی دعوت مشرق کے بیشتر عرب ممالک میں جڑ پکڑ چکی تھی، لیکن اخوان کا سب سے مضبوط مرکز مصر ہی تھا۔ جنگ کے بعد اخوان نے عوامی پیمانے پر سیاسی مسائل میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 1948ء میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد جہادِ فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضاکاروں نے سرکاری افواج کے مقابلے میں زیادہ شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے اخوان کی عالمگیر مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ روس و امریکا کی عالم اسلام کے خلاف متحدہ سازشوں کے نتیجے میں افغانستان پر ہونے والے حملے کی اخوان المسلمون نے مخالفت کی، افغانستان کے مسئلے کو اپنا مسئلہ قرار دیا اور الازہر شریف میں ایک کانفرنس منعقد کی اور عالم اسلام کو افغانستان میں جہاد کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں نوجوانوں نے بڑے جوش و خروش سے اخوان المسلمون میں اپنی رجسٹریشن کرائی اور جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار ان نوجوانوں نے اپنے افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی تیاریاں مکمل کرلیں، مگر بدقسمتی سے انہیں مصری حکومت کی طرف سے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اخوان المسلمون نے ذیلی طور پر ایک عسکری تنظیم کی بھی بنیاد رکھی اور حسن البناء شہیدؒ نے انگریزوں کے قبضی، حکومت پر مغربی و یورپی اثرات اور محرومئ آزادئ رائے کے اس ماحول میں ایسی تنظیم کا قیام ناگزیر خیال کیا، اور بلاشبہ اگر اس طرف توجہ نہ دی جاتی تو تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اخوان دعوت کا حق ادا کرنے سے قاصر رہ جاتی، لہٰذا ان کے لیے یہ تنظیم نہایت ضروری اور بنیادی اہمیت کی حامل تھی، اور اس کا مقصد اپنی افواج کے خلاف ہتھیار اٹھانا نہیں تھا بلکہ بوقتِ ضرورت ان کا ہاتھ بٹانا اور ان سے تعاون کرنا تھا۔ آزمائشیں اور صعوبتیں: اخوان المسلمون کو جن صعوبتوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بڑی لرزہ خیز ہیں۔ لیکن یہی تو دعوت و عزیمت کے راستے کے ہمسفر ہیں جو قدم قدم پر پیش آنے والی تکالیف سے اس راستے کے حق ہونے کی بشارت دیتے ہیں۔ اگر دورِ ملوکیت میں اخوان المسلمون کے بانی سید حسن البناءؒ کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا تو اس کے بعد کا دورِ انقلاب فرعونِ قدیم کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ سید قطبؒ اور سید عبدالقادر عودہؒ جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ اخوان المسلمون کے مرشد عام حسن الہضیبیؒ کو عمرقید کی سزا دی گئی جبکہ مرشد عام عمر تلمسانی نے بھی 17 سال جیل میں گزارے۔ لندن ٹیلی گراف کے مطابق اخوان کے خلاف مہم میں 20 ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے جن میں 800 عورتیں اور ’’ٹائم‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک نو سالہ بچہ بھی اپنے باپ کے ساتھ گرفتار کیا گیا، اور ان کے ساتھ جیلوں میں جو سلوک کیا گیا وہ ایک روح فرسا داستان ہے۔ مصر کی موجودہ صورت حال میں بھی اخوان المسلمون کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ موجودہ حالات: مصر کی موجودہ سیاسی صورت حال انتہائی نازک ہے۔ صدر حسنی مبارک کے تیس سالہ آمرانہ دورِ حکومت کو سہہ سہہ کر اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور لاکھوں لوگ صدر حسنی مبارک کے خلاف متحد ہوچکے ہیں، اور اس وقت حکومتی پارٹی کے خلاف سب سے طاقت ور تنظیم اخوان المسلمون ہی ہے۔ عرب دنیا کی اہم ترین تحریک اخوان المسلمون مصر میں سرکاری طور پر تو ممنوع ہے لیکن وہ بہت پراثر ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد اخوان کی حامی ہے۔ اس لیے صدر حسنی مبارک کی حکومت اس کالعدم تحریک کو برداشت بھی کررہی ہے کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ اخوان المسلمون کے نہ صرف اپنے ذرائع ابلاغ ہیں بلکہ وہ باقاعدگی سے انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہے۔ اس کے تمام امیدوار بظاہر آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے اور عوام اور حکومت بھی اس سے واقف ہیں۔ 2005ئمیں اخوان المسلمون نے اسی طرح 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن اِس مرتبہ حکومت شاید اخوان کو یہ موقع دینا نہیں چاہتی کیونکہ مصر کے 82 سالہ صدر مبارک کی قومی جمہوری پارٹی اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے جسے خفیہ اداروں پر بھی بڑی حد تک کنٹرول حاصل ہے۔ اخوان المسلمون کے رہنما احمد رباب کہتے ہیں: ’’حکومتی پارٹی منصفانہ انتخابات کے بجائے سلامتی کے سخت تر اقدامات کے ذریعے ہم اخوان المسلمون کی راہ روک رہی ہے۔ ہمارے تقریباً 1200 حامی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ امیدواروں کو انتخابی فہرستوں سے خارج کیا جارہا ہی، ہم پر بہت زیادہ سختیاں کی جارہی ہیں‘‘۔ لیکن اب یہ دور جانے کو ہے ۔اخوان المسلمون کی سالہا سال کی جدوجہد اور قربانیاں اب اپنا رنگ دکھا رہی ہیں۔ مصر میں اسلامی انقلاب کی کرنیں پھوٹتی نظر آرہی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ظلم و جبرکے خلاف بلند ہونے والی یہ آواز ساری دنیا بھرکے مظلوموں و محکوموں کو جہد مسلسل کے لئے حوصلوں کی بلندی کا سبب بنے گی۔(انشاء اللہ)
ayazfreelance@gmail.com, Mobile: 09845238812

No comments:

Post a Comment