قیامِ عدل یا سیاسی بصیرت !
- اطالوی فلسفی نکولو میکاولی(NICCOLO MACHIAVELLI) (1527-1469ئ) ن ے اپنی
مشہور کتابTHE PRINCEمیں حکومت اور اخلاقیات میں عملی طور پر مکمل علیحدگی
کرک ے اخلاقی اصولوں س ے سیاست کی آزادی کا اعلان کر دیا اور اس ن ے اپنا
یہ نقط نظرعام کیا کہ امورِ سلطنت میں اخلاقی اصولوں کے نفاذ کی کوئی
صورت نہیں ہے۔ اس ن ے حکمراں ک لیے یہ جائز قرار دیا کہ وہ عام طور پر
رحمت و سفقت اور انسانیت نوازی و دین داری کا مظاہرہ کری، لیکن اگر مصلحت
کا تقاضا ہوتو وہ اس کے بالکل برعکس عمل کر سکتا ہے۔ اس کا مفروضا تھا کہ
انسان کا مزاج مطلب پرستی اور خود پسندی کاہی، اس لی ے اس ن ے سیاست دانوں
کو نصیحت کی کہ عوام پر حکومت ک ے وقت اسی حقیقت کو اپن ے پیش نظر رکھیں۔اس
کا خیال تھا کہ انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے شرارت پسند ہ ے اور عقل
مند حکمراں کو اپنی سیاست کی بنیاد اسی نقطہ پر رکھنی چاہیے۔ بیرونی سیاست
میں میکاولی چھوٹی ریاستوں ک ے مقابلہ میں بڑی سلطنتوں کی تشکیل کا قائل
تھا۔ اسی طرح اس کا خیال تھا کہ حکمراں کو اپن ے تصرّفات و اعمال میں انسان
و حیوان دونوں ک ے اسالیب کو جمع کرنا چاہیے۔ اگر حیوانی وسائل کی ضرورت
پڑ ے تو اس کو لومڑی اور شیر کی مثال سامن ے رکھنی چاہیے۔ اس کو بیک وقت
لومڑی اور شیر بننا چاہیے۔ اگر وہ شیر نہیں ہوگا تو وہ اس جال کو ہر گز
نہیں دیکھ سک ے گا جو اس ک ے لی ے نصب کیا جاءے گا اور اگر وہ لومڑی نہ ہو
تو بھیڑیوں س ے مقابلہ نہ کر سک ے گا، اس لی ے اس کو ایک ساتھ لومڑی اور
شیر ہونا چاہیی، یہ بھی یاد رہ ے کہ وسائل کا نہیں بلکہ نتائج کا اعتبار
ہوتا ہی، یعنی مقصد کا حصول وسیلہ ک ے جواز ک ے لی ے کافی ہے۔
میکاولی کی تعلیمات عام ہوئیں تو ان کو یورپ ن ے اپنایا، بادشاہوں اور فوجی
قائدین ن ے انھیں اپنا شعار بنایا، سیاست دانوں ک ے رجحانات اخلاقی انارکی
کی طرف مائل اور جعل و فریب، مکر و سازش کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ اس ک ے
نتیج ے میں انتہائی ظلم، دھوکہ و سنگ دلی پر مبنی جنگیں برپا ہوئیں، جن میں
عورتیں، بوڑھوں، بچوں اور رحم مادر میں پرورش پان ے وال ے جنینوں تک کو
انتہائی سفاکی س ے قتل کیا گیا، ممالک تباہ و برباد کی ے گئی، زمین میں ہر
طرح کا فساد پھیلایا گیا اور قیدیوں کو سخت ترین تکلیفیں دی گئیں، حتّٰی کہ
انھیں موت ک ے گھاٹ اتار دیا گیا۔میکاولی کا تو 1527ءمیں انتقال ہو گیا
لیکن اس کا مسلک اس کی موت ک ے تقریباً ایک صدی بعد تک یورپی ممالک ک ے حکم
رانوں میں رائج رہا جنھوں ن ے اعلیٰ اخلاقی قیود و حدود س ے آزاد ہوکر
میکاولی فلسفہ کا خوش دلی س ے استقبال کیا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مطلب
پرستی اور ذاتی منفعت حکومت کا سیاسی شعار ہے۔ اگرچہ بعد میں بعض سیاست
دانوں ن ے میکاولی ک ے خیالات و افکار ک ے خلاف جنگ بھی کی لیکن وہ از سرِ
نو لوٹ کر آج دنیا ک ے بیش تر ممالک کا مقبول ِ عام مذہب بن چکا ہے۔ چنانچہ
آج ہم جو مطلب پرستی، خودغرضی، ظالمانہ تسلط، دوہر ے معیار کی بدولت عالمی
سیاسی تعلقات میں انحراف، اعلیٰ اخلاقی اقدار س ے محرومی دیکھت ے ہیں وہ
اسی نقطہ ¿ نظر ک ے مظاہر ہیں۔جدید زمانوں میں میکاولی اور اس جیس ے دیگر
افکار یورپ میں عام ہوئے۔ بعد میں ان کی کچھ مخالفت بھی ہوئی اور بعض
مصلحین ن ے ان ک ے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی اور بسا اوقات ان پر سخت حمل ے
بھی کی ے لیکن عملی دنیا میں لوگ انہیں اصولوں کو اپنا راہنما بناءے رہے۔
اس کا ثبوت یہ ہ ے کہ معاصر عالمی سیاسی تعلقات میں ظلم و استبداد، تسلّط
اور غلبہ، رسوخ و نفوذ کی کش مکش اور طاقت و قوت ک ے متنوع وسائل حاصل کرن ے
کی کوشش عام ہے۔صورتحال یہ ہ ے کہ آج د نیا میں پائی جان ے والی چھوٹی و
بڑی طاقتیں اپنی اندورنی سیاست میں ان ہی اخلاقی برائیوں کا شکارہیں۔اس ک ے
باوجود نہ سیاسی قائدین کی کمی ہ ے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کی۔معاملہ یہ ہ
ے کہ ہر صبح ایک نئی سیاسی پارٹی عوام الناس کی فلاح و بہبود ک ے نعروں ک ے
ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔دیکھنا یہ ہ ے کہ سیاسیات ہ ے کیا؟ آئی ے اس کو
ماہرین علم سیاسیات کی تعریفات کی روشنی میں سمجھاجائے۔
سیاسیات کیا ہی؟
لغوی مفہوم ک ے اعتبار س ے علم سیاسیات( science political) س ے مراد ریاست
کا علم ہے۔ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تر قی ک ے باعث ریاست
کی ہیت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان تبدیلیوں ک ے باعث
علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل ط ے کرتا چلا گیا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف
کرت ے ہوءے ارسطو کہتا ہ ے کہ “علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“ یہ
تعریف بہت سادہ ہ ے اور علم سیاسیات ک ے جدید تصور کا احاطہ نہیں کرتی۔ دور
جدید ک ے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف ک ے ضمن میں مختلف گروہوں میں بٹ ے
ہوءے ہیں۔ بعض علم سیاسیات کو ریاست کا علم کہ کر پکارت ے ہیں اور بعض
حکومت کا علم جبکہ بعض مصنفین علم سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم
قرار دیت ے ہیں۔
چند ماہرین علم سیاسیات کو صرف ریاست کا علم ہی سمجھت ے ہیں ان ک ے نزدیک
اس علم کا مطالعہ صرف ریاست تک محدود ہے۔ ان مصنفین کی تعریفات درج ذیل
ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر گارنر ( Prof. Dr. Garner) : "علم سیاسیات کی ابتدا اور
انتہا ریاست ہے۔"
گریس (Gareis): " تمام اختیارات کا سر چشمہ ریاست ہ ے اور علم سیاسیات
ریاست کی اہمیت مقاصد اور معاشی و معاشرتی مسائل س ے بحث کرتا ہے۔"
بلخچلی (Bluntschli): " علم سیاسیات ریاست کا علم ہ ے جو ریاست ک ے بنیادی
حالات اسکی نوعیت اور اسکی ظاہری حیثیت کی روشنی میں اس ادارہ کو سمجھن ے
کی کوشش کرتا ہے۔"
جی ایچ جیمز (G.H.James): " علم سیاسیات ریاست س ے شروع ہوتا ہ ے اور ریاست
پر ہی ختم ہوتا ہے۔"
ان تعریفات کا مرکزی خیال ایک ہی ہ ے کہ علم سیاسیات بنیادی طور پر ریاست س
ے متعلق ہے۔ اور اس علم میں مختلف پہلووں س ے ریاست کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
گویا یہ مصنفین حکومت ک ے مسائل کو علم سیاسیات کی بحث میں شامل نہیں
سمجھتے۔ مزید براں ان تعریفات میں بہت س ے سیاسی موضوعات و نظریات مثلاً
راءے عامہ، سیاسی جماعتوں، انتخابات، آزادی اور مساوات وغیرہ کا ذکر نہیں
ہے۔
بعض مصنفین ک ے نزدیک علم سیاسیات صرف حکومت س ے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی
تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ ان مصنفین میں س ے اہم تعریفات درج
ذیل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن لیکاک (Prof. Dr. Stephen Leacock): "سیاسیات ایسا علم
ہ ے جو حکومت س ے تعلق رکھتا ہے۔"
پروفیسر سیل ے ( Prof.Seeley): علم سیاسیات حکومت ک ے حقائق کی جستجو کرتا ہ
ے جس طرح کہ معاشیات دولت س ے تعلق رکھتا ہے۔ بیالوجی زندگی سی، الجبرا
اعداد س ے اور جیومیٹری ، جگہ اور اسکی وسعت سے۔
ان تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ علم سیاسیات ک ے مطالعہ کو فقط
حکومت تک محدود کرنا درست نہیں کیونکہ ا س طرح اس علم کی وسعت محدود ہو
جاتی ہے۔
بعض مصنفین زیادہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیت ے ہوءے اس بات کی وضاحت کرت ے
ہیں کہ علم سیاسیات کا تعلق حکومت اور ریاست دونوں س ے ہے۔ اس ے صرف ریاست
یا حکومت کا علم کہ دینا مناسب نہیں۔ ایسی تعریفات درج ذیل ہیں۔
پروفیسر گلکرائسٹ ( Prof. Gilchrist): "علم سیاسیات ایسا علم ہ ے جو ریاست
اور حکومت دونوں کی نوعیت س ے بحث کرتا ہے۔"
گیٹل (Gettell): " علم سیاسیات ریاست اور ریاستوں ک ے مابین تعلقات س ے
تعلق رکھن ے والا علم ہ ے اور یہ حکومت ک ے مختلف اداروں س ے بھی بحث کرتا
ہے۔"
پال جینٹ ( Paul Janet): " فرانسیسی مصنف پال جینٹ کا کہنا ہ ے کہ علم
سیاسیات عمرانی علوم کا وہ حصہ ہ ے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت ک ے
اصولوں س ے تعلق رکھتا ہے۔"
پروفیسر ڈاکٹر لاسکی ( Prof.Dr.Laski): " علم سیاسیات ریاست ک ے علاوہ
حکومت کی تنظیم اور ارتقاءکا بھی احاطہ کرتا ہے۔"
ای سی سمتھ (E.C.Smith): " علم سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہ ے جو
ریاست ک ے نظری ے اور تنظیم اور حکومت اور اسکی کارکردگی س ے متعلق ہے۔"
اصل میں سیاست (Politics) "ساس" س ے مشتق ہ ے جو یونانی لفظ ہ ے ، اس ک ے
معنی شہر و شہرنشین ک ے ہیں ۔
اسلام میں سیاست اس فعل کو کہت ے ہیں جس ک ے انجام دین ے س ے لوگ اصلاح س ے
قریب اور فساد س ے دو رہوجائیں۔اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہت ے ہیں
،امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھن ے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔
قرآن میں سیاست کا ذکر:
قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو
سیاست ک ے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل
ہی، مثلاً عدل و انصاف ، ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ،مظلوموں س ے
اظہارِ ہمدردی وحمایت ،ظالم اور ظلم س ے نفرت اور اس ک ے علاوہ انبیائاور
اولیءکرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔
(سورہ بقرہ: ۲۴۷ ) "ان ک ے نبی ن ے ان س ے کہا کہ اللہ ن ے طالوت کو تمہار ے
لی ے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولی: ”ہم پر بادشاہ بنن ے کا وہ
کیس ے حقدار ہو گیا؟ اس ک ے مقابل ے میں بادشاہی ک ے ہم زیادہ مستحق ہیں۔
وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے“۔ نبی ن ے جواب دیا:”اللہ ن ے تمہار ے
مقابل ے میں اسی کو منتخب کیا ہ ے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی
اہلیتیں فراوانی ک ے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہ ے کہ اپنا
ملک جس ے چاہ ے دی، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہ ے او ر سب کچھ اس ک ے علم میں ہ ے
"۔ اس آیت س ے ان لوگوں ک ے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہ ے جو سیاست ک ے لءے
مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیت ے ہیں ،سیاست ک ے لءے ذاتی طور پر
” غنی “ ہونا کا فی نہیں ہ ے بلکہ اس ے عالم وشجاع ہونا چاہئے۔
اس نفی میں یہ بات بھی مخفی ہ ے کہ سیاست داں جہلا نہ ہوں اوروہ ایس ے
افرادبھی نہ ہوں جو ذاتی اغراض ک ے تحت لوگوں کی خدمت کا دم بھرت ے ہوں۔ اس
ک ے برخلاف اسلام خدمت انسانیت اور فلاح و بہبود ک ے کام کو مذہبی عبادت
کا درجہ اور خدمت ِ خلق کی ذمہ داری کو روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیتا
ہے۔
اس ک ے برخلاف آج دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہ ے اس کا بنیادی سبب
یہی ہ ے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہ ے وہ یا تو اپنی طاقت کو
نادانی اور جہالت ک ے ساتھ استعمال کر رہا ہ ے ، یا وہ ب ے رحم اور سنگدل ہ
ے ، یا بخیل اور تنگ دل ہ ے ، یا بد خو اور بد کردار ہ ے ، طاقت ک ے ساتھ
ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اقتدار کا سر چشمہ کیونکہ اللہ کی ذات ک ے سوا کوئی نہیںاسی لی ے قرآن مجید
میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز ک ے ساتھ اس ک ے حکیم و علیم اور رحیم و غفور
اور حمید و وہاب ہون ے کا ذکر لازماً کیا گیا ہ ے تاکہ انسان یہ جان ل ے
کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہ ے وہ ایک طرف تو ایسا کامل
اقتدار رکھتا ہ ے کہ زمین س ے ل ے کر آسمانوں تک کوئی اس ک ے فیصلوں کو
نافذ ہون ے س ے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہ ے ، اس کا ہر
فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہ ے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہ ے
ٹھیک ٹھیک علم ک ے مطابق کر تا ہے۔ رحیم بھی ہ ے ، اپن ے ب ے پناہ اقتدا
کو ب ے رحمی ک ے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہ ے ، اپن ے زیر دستوں ک
ے ساتھ خر ±دہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔
وہاب بھی ہ ے ، اپنی رعیت ک ے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ ب ے انتہا فیاضی کا
برتاو ¿ کر رہا ہے۔ اور حمید بھی ہ ے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس
کی ذات میں جمع ہیں۔ اب یہ صفات اگر ان لوگوں میں پیدا ہو جائیں جو اللہ کی
زمین پر اللہ ک ے نظام کو نافذ کرن ے وال ے ہوں تو انسانیت ک ے لی ے وہ
خیر و فلاح کا ذریعہ بنیں گے۔عوام کی نظر میں محبوب ہوں گ ے اور لازماً
اقتدار میں آئیں گی، قبل اس ک ے کہ وہ عظیم قربانیاں پیش کر چک ے ہوں!
قیامِ عدل اور موجودہ سیاست:
موجودہ حالات ک ے تناظر میں دیکھا جاءے تو معلوم ہوتا ہ ے کہ فل الوقت نظام
ِ حکومت اور ریاست کا نظم و نسق جن بنیادوں پر قائم ہ ے اس میں میکاولی ک ے
نظریہ و فلسفہ پرہمار ے سیاستداں منجملہ عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہ ے کہ ملک
کی صورتحال پر نگاہ ڈالی جاءے یا عالمی سیاست ،دونوں ہی مقامات پر ان طور
طریقوں کو اپنایا جا رہا ہ ے جس س ے عوام الناس پریشان ہیں ۔چونکہ اسلام
رفاہ عامہ کے کاموں کو عبادت سے تعبیر کرتا ہے ،یہاں انسان تو انسان
بھوکے جانوروں کو چارہ ڈالنا اور پانی پلانا آخرت میں نجات کا ذریعہ
ٹھہرایا گیا ہے پس اسی نکتہ کے تحت مسلمان سیاسی باگ دوڑ اپن ے ہاتھ میں
لینا چاہت ے ہیں۔اب جو لوگ اس نکتہ ک ے گرد جمع ہو جائیں ،ان کی قدر کی
جانی چاہیی،ان ک ے حوصلوں کو بلندکرنا چاہیی، ان کی مدد اور تعاون کیا جانا
چاہی ے اور ان ک ے ساتھ کاندھ ے س ے کاندھا ملا کر اتحاد و یگانگت کا ثبوت
فراہم کرنا چاہیے۔یہ وہ لوگ ہیںجو ذاتی اغراض س ے اوپر اٹھ کر انسانیت کی
فلاح و بہود ک ے لی ے اٹھ ے ہیں۔اُن حالات میں جہاں ظلم و ذیادتی اور
ناانصافی اپن ے عروج پر ہے۔ایس ے لمحہ اگر اسلامی جذبہ خدمت خلق ، رفاہ
عامہ اور قیام عدل ک ے لی ے کوئی اٹھ ے تو کیونکر وہ اللہ یا اس کے بندوں
کی نگاہ میں سزا کا مرتکب ٹھہری!
No comments:
Post a Comment