Search This Blog

Wednesday 28 August 2013

شام پر حملے کی تیاری ATTACK ON SYRIA

شام پر حملے کی تیاری 

امریکا اور یورپ نے ایک اور مسلم ملک شام پر حملے کی تیاری کرلی ہے اور ممکن ہے کہ دو، چار روز میں حملہ ہوجائے گا۔ ابھی یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچی کہ شام کے علاقے ’’غوطہ‘‘ میں جو کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں وہ کس کی طرف سے ہوئے ہیں۔ روس کا اصرار ہے کہ یہ ہتھیار باغیوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ امریکا اور یورپ کو حملہ کرنے کا جواز مل جائے۔ امریکی صدر اوباما اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ بلاجواز حملہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’بشارالاسد کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔‘‘ ہتھیار ہیں یا نہیں لیکن اس حوالے سے امریکا کا کردار بہت گندا ہے۔ ایک سابق امریکی ویزر خارجہ جنرل پاول نے اقوام متحدہ میں ثابت کیا تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس انتہائی خطرناک اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس پر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ردا جمایا تھا کہ صدام حسین صرف 25 منٹ میں ان ہتھیاروں کو استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اور پھر اس مکروہ جھوٹ کا سہارا لے کر سب عراق پر ٹوٹ پڑے، اینٹ سے اینٹ بجادی گئی لیکن کونا کونا چھان مارنے کے باوجود وہ خطرناک ہتھیار کہیں سے نہ ملے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے نے گمراہ کیا۔ اس کے باوجود امریکی فوجیں عراق میں جمی بیٹھی رہیں اور عراقی مسلمانوں کا قتل عام کرتی رہیں۔ صدام حسین کے دور میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے امریکی قبضہ کے بعد مارے گئے اور اب تک مارے جارہے ہیں۔ شیعہ سنی خونریز تصادم اور روزانہ کے دھماکے صدام حسین کے دور میں تو نہیں ہوتے تھے۔ اب شام اور مصر میں بھی جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے یہی شیطانی طاقتیں ہیں۔ شام پر حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مصر کی صورتحال سے توجہ ہٹائی جائے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ ’’شام میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ حمایت کے بغیر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘‘ منگل کو روس اور چین نے حملہ کی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ روس کا اصرار ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں اسد حکومت ملوث نہیں ہے۔ شام میں اگر فوجی مداخلت کی گئی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ تو اسرائیل کو پہنچے گا جو برسوں سے شام کے پہاڑی علاقے جولان پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے جولان کی پہاڑیوں کی بہت اہمیت ہے جہاں سے دمشق کو آسانی سے نشا نہ بنایا جاسکتا ہے۔ شام پر حملہ صرف اسی ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا مشرق وسطی زد میں آئے گا۔ المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتے بلکہ موت وزندگی کے معاملات میں بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ نام نہاد تنظیم اسلامی کانفرنس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ ترکی بھی شام پر حملہ کرنے کے حق میں ہے۔ دریں اثناء اسد حکومت سے برسر پیکار گروہوں کو بڑے پیمانے پر بھاری اسلحہ پہنچا دیا گیا ہے۔ باغی لیڈروں نے انکشاف کیا ہے کہ سیکڑوں ٹن گولہ بارود اور ہلکا اسلحہ گزشتہ تین دن میں ترکی کی سرحد سے شام کے شمالی علاقے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ اس سال اسلحہ کی سب سے بڑی مقدار اور تعداد ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ اسلحہ سعودی عرب اور قطر سے فراہم کیا گیا تھا جو کئی ماہ سے ترکی کے گوداموں میں رکھا ہوا تھا۔ اسلحہ میں ٹینک شکن میزائل بھی شامل ہیں۔ سلفی ملیشیا احزار الشام کے کمانڈر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ایک باقاعدہ فوج کی طرح سے لڑسکیں گے، ہم کئی ماہ سے محاذ پر پیش قدمی سے محروم تھے۔ باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی سے خانہ جنگی مزید طول کھینچے گی۔ ایران کی طرف سے اسد حکومت کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جارہی ہے اور یہ جنگ علویوں (شیعہ) اور سنیوں میں بدل گئی ہے۔ گو کہ اسد خاندان نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے عقائد میں کئی معاملات میں شیعوں سے مختلف ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عالم اسلام کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور امریکا ویورپ کو شام میں فوجی مداخلت سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ شام بھی عراق اور افغانستان جیسے انجام سے دوچار ہوجائے گا جس کا فائدہ اسرائیل اور امریکا کو ہوگا۔ مسلمانوں کا ایک اور ملک تباہی کا شکار ہورہا ہے۔ مصر پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے اور سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔

 

Thursday 22 August 2013

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی When Nato Troops are arriving in Egypt

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی

مصر میں نیٹو فوج کب اترے گی
 مصر کے نئے فرعون جنرل السیسی کو ایک اسکرپٹ دے دیا گیا ہے، اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کردے جن پر قابو پانے کے لئے بیرونی فوجی مداخلت کو لوگ خوش آمدید کہیں۔
تیونس اورلیبیا میں یہ ڈرامہ کامیابی سے کھیلا جا چکا ہے ، یہی کھیل شام میں جاری ہے۔ شامی باغیوں کو امریکہ اور یورپ کی کھلی حمائت حاصل ہے،لیبیامیں تو نیٹو طیارے بمباری میں حصہ لیتے رہے ہیں ، شام میں بھی نیٹو کے رکن کی حیثیت سے ترک فضائیہ اور توپخانہ بار بار دخل اندازی کر رہی ہیں۔
نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ نے دنیا میں تھانیداری جمانے کا فریضہ برطانیہ عظمی کو سونپ دیا ہے، اس ملک کو نیٹو میں بالادستی حاصل ہے، افغانستان اور عراق میں بھی نیٹو نے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی ۔ پاکستان کو افغانستان کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا ہے ، ان میںنیٹو سپلائی سر فہرست ہے، ایک تو نیٹو کے بھاری بھر کم کنٹینروںنے ہمارا روڈ نیٹ ورک اکھاڑ پھینکا ہے، دوسرے ان کنٹینروں کا ا سلحہ راستے میں چوری ہو جاتاہے یا ہونے دیا جاتا ہے اور اس اسلحے سے اہل پاکستان کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے۔
 جب نائن الیون ہوا اور صدر بش نے نئی صلیبی جنگ کا اعلان کیا تو یہ ہم لوگ تھے جنہوںنے امریکہ سے کہا کہ وہ ان اسباب کو ختم کرے جن کی بنا پر لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں، امریکہ کو ہم نے بتایا کہ وہ عالم اسلام کے طول وعرض میں جابر اور آمر حکومتوں کا سر پرست ہے، اس ضمن میں ہم نے خاص طور پر لیبیا ، شام ، مصر، ارد ن وغیرہ کا نام لیا جہاں ہمارے بقول جمہوریت کا نام ونشان نہیں اور یہاں یا تو فوجی آمر کئی عشروں سے حکومت پر قابض ہیں یا شاہی خاندانوں کی فرمانروائی ہے۔
امریکہ نے پہلے لیبیا کا رخ کیا جہاں کرنل قذافی کے بارے میں کوئی بھی یاد داشت کے سہارے نہیں جانتا کہ اس نے حکومت کب ہتھیائی۔اس کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لئے القاعدہ کو استعمال کیا گیا اور اس کی بغاوت کو کامیاب کرانے کے لئے ہر طرح کی فوجی امداد دی گئی۔امریکہ کی پالیسیوں کی سمجھ نہیںا ٓتی، وہ ساری دنیا میں القاعدہ کے خلاف جنگ کر رہا ہے لیکن لیبیا میں اس نے القاعدہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹا اورا ٓخر میں کرنل قذافی جان بچانے کے لئے کہیں چھپ گئے تو نیٹو طیاروںنے اسے ڈھونڈھ نکالا اور ایک سیدھا میزائل مار کر اس کاکام تمام کر دیا، ہم نے اس پر خوشیاں منائیں اور عرب بہار کے جھونکوں کے ساتھ جھوم جھوم اٹھے۔اسی دوران عرب بہار تیونس کے حکمران کو تنکوں کی طرح اڑا کر قعر مذلت میں پھینک چکی تھی۔تبدیلی کی ہواﺅں نے ہلکے سے تھپیڑے اردن اور سعودی عرب کے رخساروںپر بھی رسید کئے لیکن ان متمول اور فلاحی ریاستوںنے جلد ہی عرب بہار کو سرحدوںسے باہر دھکیل دیا مگر شام میں عرب بہار جہنمی شعلوں کی زبان بن کر لپکی۔
 اب شام میں ہر سو لاشے بکھرے ہوئے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہاں بھی القاعدہ یا اس کے حلیف گروپ انقلاب کا پرچم لہرا رہے ہیں اور امریکہ اور اس کا حلیف نیٹو ان انقلابی گروپوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ترکی کے طیارے اور توپخانہ تو باقاعدہ اس جنگ میں کود چکا ہے اور شامی فوج کے ہاتھوں نقصان بھی اٹھا چکا ہے۔
شام شاید سخت ہڈی ثابت ہوا ہے، اس لئے عرب بہار نے مصر کی طرف ہجرت کر لی ہے، یہاں ایک سال پہلے ایک انقلاب نے کامیابی کا بگل بجایا تھا، اور حسنی مبارک کو لوہے کے پنجرے میں بند کر دیا گیا تھا۔پھر آزادانہ الیکشن ہوئے اور ایک جمہوری دور شروع ہوا مگر اس حکومت کو فوج نے یہ کہہ کر چلتا کر دیاکہ یہاںخانہ جنگی کا اندیشہ تھا، اس وقت خانہ جنگی تو نہیں ہوئی لیکن اب فوجی حکومت کے دور میں یہ خانہ جنگی عروج پر ہے،ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، ٹینکوں کے گولے نہتے شہریوں پر برس رہے ہیں ، مشین گنوں سے مسجدوں کے نمازیوں کے سینے چھلنی کئے جا رہے ہیں۔اس قدر خونریزی پر اب ڈرامے کے پروڈیوسر امریکہ کو بھی فکر لاحق ہو گئی ہے مگر یہ سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور حالات کو اس نہج پر پہنچانا مطلوب ہے جب امریکہ اپنا دم چھلہ بننے والے نیٹو کو بزن کا اشارہ کرے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مصر میںمداخلت کی ایک مبہم سی قرارداد منظور کرا لی جائے۔
 یہ ہماری بھول ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے تیونس ، لیبیا، شام اور مصر میں اب تک جو ڈرامہ رچایا ہے، اس کے براہ راست کوئی اثرات پاکستان پر مرتب نہیں ہوتے، اسلامی کانفرنس کا خاموش تماشائی بننا بھی ایک تکلیف دہ امر ہے، اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ جب پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی تھی تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوںنے مستی میں یہ نعرہ لگایا کہ پاکستان عالم اسلام کا قلعہ ثابت ہو گا اورایٹمی قوت سے پوری اسلامی دنیا کا دفاع کرے گا مگر آج ہم ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ گونگے ہیں ، بہرے ہیں اور اندھے ہیں۔ہم کسی کی حفاظت کیا کریں گے ،اپنی بھی حفاظت نہیں کر پائے، الٹا جس طاقت نے ہمیں بچانا تھا، اس کو بچانا ہماری سر دردی بن گیا ہے۔اغیار تو اغیار ہیں ، انہوںنے تو طعنے دینا ہی تھے، اب تو ہمارے ہی اینکر ہمیں طعنے دے رہے ہیں ، انہوںنے مجھ جیسے جہادیوں اور جذباتی پاکستانیوں کا جینا حرام کر دیا ہے کہ کدھر گیا آپ کا ایٹمی اسلحہ جو عالم اسلام کے لئے ڈیٹرنٹ تھا۔

Tuesday 20 August 2013

البرادعی: یہودیوں کا براہِ راست ایجنٹ Al Bardaei Yahuydiyon ka Agent

البرادعی: یہودیوں کا براہِ راست ایجنٹ

…مسعود انور…

مصر میں آگ و خون کا کھیل پورے جوبن پر ہے۔ نہتے و بے گناہ شہریوں کو محض اس جرم میں روز گولیوں سے بھون دیا جاتا اور زندہ آگ میں جلادیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ مصر کی تمام ریاستی مشینری اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ مصری عوام کے احتجاج کو دبانے میں مصروف ہے۔ اس امر میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اسرائیل، امریکا، یورپ، روس، چین اور ان سب کی سیٹلائٹ عرب ریاستیں بھی مصری فوجی حکومت کی پشت پر کھڑی ہیں۔ عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کے بعد الرابعہ العدویہ میں، اور پھر اس کے بعد پورے مصر میں موت کا جو خوفناک عفریت ناچا، اس کے بعد عبدالفتاح السیسی کی عبوری حکومت کے نائب وزیراعظم البرادعی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اخوان کے احتجاجی کیمپوں پر تشدد کی پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے اس حکومت کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔ اس احتجاجی استعفے نے البرادعی کا ایک بااصول انسان کے طور پر امیج ابھارا۔ اس وقت البرادعی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے ہیں۔
محمد مصطفی البرادعی کا نام ایسا نہیں ہے کہ لوگ انہیں جانتے نہ ہوں۔ عراق پر امریکی حملے سے پہلے جو شخصیت عراق میں چوتھی چالے کررہی تھی وہ البرادعی ہی تھے۔ اُس وقت وہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر فائز تھے۔ اس کے بعد البرادعی کو ان کی انسانیت کے لیے بہترین اور ناقابلِ فراموش خدمات پر نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ البرادعی اس کے بعد مصر ی عوام کی خدمت کی جانب متوجہ ہوئے اور حسنی مبارک کے خلاف گیارہ جماعتوں کی مہم جس میں اخوان بھی شامل تھی، کے قائد ٹھیرے۔ حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مہم میں کارکنان تو اخوان کے پیش پیش تھے، مگر قیادت البرادعی کے ہی ہاتھ میں تھی۔ جب اخوان کے مقرر کردہ محمد مرسی مصر کے ایوانِ صدر میں داخل ہوئے تو البرادعی اخوان سے اپنا راستہ الگ کرچکے تھے اور اخوان کے حکومت میں آنے کے ٹھیک ایک برس بعد وہ مرسی کے خلاف احتجاج کی قیادت کررہے تھے۔ اس چار روزہ احتجاج کے بعد مصری فوج نے ایک منتخب صدر کو جیل میں ڈال دیا اور خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ منطقی طور پر البرادعی اس نئی حکومت کے بنیادی اراکین میں شامل تھے مگر حیرت انگیز طور پر ان کا نمبر پہلا نہیں دوسرا تھا۔ وزیراعظم کا قرعہ فال عدلی منصور کے نام نکلا۔ اخوان کی ویب سائٹ پر موجود ایک آرٹیکل کے مطابق جو اب ہٹادیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ نیویارک ٹائمز نے بھی دیا ہے، منصور کا تعلق پروٹسٹنٹ عیسائیت کی شاخ سیونتھ ڈے سے ہے۔ اخوان کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصور اصلاً کرپٹو یہودی ہے۔ کرپٹو یہودی وہ ہوتے ہیں جو اندر سے تو یہودی ہوتے ہیں مگر ظاہری طور پر اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔
البرادعی کی شخصیت صرف اتنی نہیں ہے جتنی اوپر بیان کی گئی ہے۔ ذرا سی چھان بین کی جائے تو البرادعی کی شخصیت کے جو پہلو سامنے آتے ہیں، اس سے مصر میں عالمی سازش کاروں کا پورا کھیل واضح ہوجاتا ہے۔ البرادعی کی ماں ایک یہودی تھی اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ یہودی مذہب اب تبلیغی مذہب نہیں رہا ہے۔ یہ ایک نسلی مذہب تک محدود کردیا گیا ہے، اور اس نسلی مذہب میں بھی اگر ماں یہودی ہو تو بچے کو یہودی مذہب میں داخلے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔ البرادعی کی بیوی کا تعلق ایران سے ہے اور اس کے بارے میں بھی شبہات ہیں کہ وہ ایرانی یہودی خانوادے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو ہے البرادعی کا خاندانی پس منظر۔
اب ذرا البرادعی کا کیریئر دیکھیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کوفی عنان، جنرل ویسلے کلارک اور البرادعی میں کیا قدر مشترک ہے؟ یہ تینوں حضرات مشہور ترین این جی او یا تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن ہیں۔ اس انٹرنیشنل کرائسس سینٹر کو فنڈز ملتے ہیں عالمی سازش کاروں کے کلب کے رکن اور بدنام زمانہ صہیونی جارج سوروز کے اوپن سوسائٹی گروپ سے۔ اب کہانی کچھ واضح ہونا شروع ہوتی ہے۔ البرادعی کا کیریئر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی سربراہی کے بعد ختم نہیں ہوگیا تھا۔ بس ان کی پوسٹنگ تبدیل ہوگئی تھی اور ان کی نئی تعیناتی مصر کے اندر ہی تھی۔ وہ پہلے بھی عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ تھے اور اب بھی ہیں۔ چونکہ اِس وقت مصر میں عبوری اور عارضی حکومت قائم ہے جو اپنا ٹاسک مکمل کرنے کے بعد ہٹادی جائے گی اور کہا جائے گا کہ عالمی دباؤ کے بعد مصر میں فوجی حکومت کو رخصت ہونا پڑا۔ اس وقت البرادعی کی اس ڈرامے میں دوبارہ انٹری ہوگی۔ البرادعی، جنہیں اِس وقت مستعفی کرواکر نیک نام اور بااصول قرار دے دیا گیا ہے، اُس وقت ایک غیر جانبدار حیثیت سے داخل ہوں گے اور پھر ایک طویل عرصے تک مصر کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوگی۔
البرادعی کے مہرے مرسی کی حکومت میں بھی شامل تھے اور السیسی کی حکومت میں بھی شامل ہیں۔ صرف اور صرف البرادعی مستعفی ہوئے ہیں، ان کی ٹیم کے دیگر ارکان نہیں۔ کسی بھی ڈرامے میں تماشائی ڈائریکٹر کی مرضی کے مطابق ہی جذبات میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ولن اور ہیرو، دونوں کے ہیروئن کے بارے میں یکساں جذبات ہوتے ہیں۔ مگر ولن ذرا ہیروئن کے قریب آکر تو دیکھے، تماشائیوں کا بس نہیں چلتا کہ خود ہی اٹھ کر اس کا قلع قمع کردیں۔ ہیرو جو چاہے کر گزرے، تماشائی مطمئن رہتے ہیں۔ یہی حال ہماری حقیقی زندگی کا بھی ہے۔ اب یہ ڈائریکٹر پر منحصر ہے کہ وہ کس اداکار کو ہیرو کا اور کس کو ولن کا کردار تفویض کرتا ہے۔ چاہے جو بھی ہیرو ہو یا ولن، یا سائیڈ اداکار… چلنا سب کو ڈائریکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی ہوتا ہے، اور مکالمات بھی صرف وہ ادا کرنے ہوتے ہیں جو اسکرپٹ میں دیے گئے ہوتے ہیں۔
مصر کے ڈرامے میں السیسی کا کردار مختصر دورانیے کا اور البرادعی کا کردار طویل دورانیے کا ہے۔ السیسی ولن ہے اور البرادعی ہیرو۔ رہ گئے مرسی اور ان کے حامی، تو ان کا کردار اس پورے ڈرامے میں عوام کو احمق بنانے سے زیادہ کا نہیں ہے۔ ڈراما پورے جوبن پر ہے۔ کلائمیکس سے پہلے تماشائی ڈائریکٹر کے سحر میں ہی ڈوبے رہیں گے۔ مگر جان لیجیے کہ عالمی سازش کاروں کے کٹھ پتلی تماشے کا مقصد کیا ہے؟ سارے کردار کہانی کو آگے بڑھارہے ہیں، چاہے یہ ولن ہو، ہیرو ہو یا سائیڈ کے کردار۔ یہ سب کہانی کا لازمی جزو ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

Monday 19 August 2013

اسرائیل کے مصری فوج سے خاموش تعلقات

حالات حاضرہ

اسرائیل کے مصری فوج سے خاموش تعلقات

اسرائیل اپنے ہمسایہ ملک مصر میں جاری بحران پر محتاط انداز میں نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں کی فوج کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔
حکام کے مطابق یہ خدشات موجود ہیں کہ مصری بحران میں اضافے کے نتیجے میں جزیرہ نما سینائی میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف دونوں کی مشترکہ جنگ کمزور پڑ جائے۔
مصر میں گزشتہ ہفتے کے دوران ہونے والی 750 سے زائد ہلاکتوں کے باعث مصری فوج کے ساتھ اسرائیلی حکومت کا اتحاد ایک نازک پوزیشن پر آ گیا ہے۔ ان حالات میں اسلام پسند محمد مُرسی کے حامیوں کی طرف سے اسرائیل کو ان کے خلاف آپریشن میں بطور اتحادی معاون قرار دیا سکتا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ مصری فوج دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے تاریخی امن معاہدے کی پاسداری بھی کرتی رہے۔
مصری فوج کی طرف سے صدر محمد مُرسی کی حکومت تین جولائی کو ختم کردی گئی تھیمصری فوج کی طرف سے صدر محمد مُرسی کی حکومت تین جولائی کو ختم کردی گئی تھی
مصر کے ساتھ اسرائیل کا یہ معاہدہ 1979ء میں ہوا تھا اور یہ کسی عرب ملک کے ساتھ اس طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو علاقائی استحکام کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے ذرائع اور توجہ شام اور لبنان کے ساتھ اپنی سرحد پر مرکوز کر سکے، جسے زیادہ نازک سرحد خیال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس معاہدے کے بعد مصر کے لیے اربوں ڈالرز کی امریکی فوجی امداد کی راہ بھی ہموار ہوئی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گو کہ اسرائیل اور مصر کے سفارتی تعلقات بہت زیادہ قریبی نہیں رہے تاہم دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ایک اچھا ورکنگ ریلیشن شپ ضرور رہا ہے۔ سابق مصری صدر حُسنی مبارک کو ایک عوامی تحریک کے بعد اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بھی بہتری دیکھی گئی۔ اسرائیلی سرحد کے قریب جزیرہ نما سینائی میں شدت پسند اسلامی گروپوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کے دوران اسرائیلی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے مصری سکیورٹی حکام کے ساتھ اس سے قبل اتنے مضبوط روابط کبھی نہیں رہے۔
مصری فوج کے ہاتھوں صدر محمد مُرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران محمد مُرسی کے حامیوں کے خلاف آپریشن کے دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت پر بھی اسرائیل کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مصر میں گزشتہ ہفتے کے دوران محمد مُرسی کے حامیوں کے خلاف کارروائی کے دوران 750 سے زائد ہلاکتیں ہوئیںمصر میں گزشتہ ہفتے کے دوران محمد مُرسی کے حامیوں کے خلاف کارروائی کے دوران 750 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں
ایک اسرائیلی اخبار Yediot Ahronot میں شائع ہونے والے ملٹری معاملات کے ایک ماہر Alex Fishman کے تجزیے کے مطابق ابھی تک دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کی کوئی علامت نہیں ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ قائم رہے گا۔ اسرائیلی حکام نے اس معاہدے کو درپیش کسی خطرے سے متعلق قیاس آرائیوں کی تردید کی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی طرف سے پیر کے دن اپنے شہریوں کے لیے ایک نیا سفری انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جزیرہ نما سینائی کا سفر نہ کریں اور اگر وہاں موجود ہیں تو فوری طور پر وہاں سے نکل جائیں۔ سینائی کا ساحلی علاقہ اسرائیلی سیاحوں کے لیے چھٹیاں گزارنے کا ایک پسندیدہ مقام ہے۔

Arabon ka Aslaha kis ke liye hai? عربوں کا اسلحہ کس کے لءے ہے


MISR FAUJI DAHESHATGARDON KI HIRASAT MEIN


crtsy: Urdu Times Bombay

يورپ ميں مسلمانوں کے خلاف حملوں سے متعلق اعداد و شمار کا فقدان

يورپ ميں مسلمانوں کے خلاف حملوں سے متعلق اعداد و شمار کا فقدان

يورپ کے چند ملکوں ميں مسلم برادری کے خلاف حملوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ليکن تاحال يورپی يونين کی جانب سے ايسے حملوں کے اعداد و شمار درج کرنے يا اور انہیں جاری کرنے سے متعلق کوئی موثر حکمت عملی سامنے نہيں آئی ہے۔
’مجھ پر کئی مرتبہ حملہ کيا جا چکا ہے۔ مجھ پر تھوکا گيا، مجھے مارا پيٹا گيا حتی کہ جب ميں حاملہ تھی، مجھے ميرے بيٹے اور ميرے خاوند کے سامنے روندھا تک گيا۔‘‘ يہ بات اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک عورت نے برطانيہ ميں فعال ’ٹيل ماما‘ نامی ايک ويب سائٹ کو بتائی۔ یہ ویب سائٹ برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا ريکارڈ رکھتی ہے۔
’ٹيل ماما‘ نامی يہ ادارہ سن 2012 سے برطانيہ ميں رہنے والے مسلمانوں کی ايک ٹيلی فون ہيلپ لائن کے ذريعے مدد کر رہا ہے۔ ادارے کو فعال بنانے کے ليے متعدد رضاکار اپنی خدمات انجام ديتے ہيں جبکہ اس کی انٹرنيٹ ويب سائٹ کے انتظامی امور کی نگرانی ايک مذہبی فاؤنڈيشن کرتی ہے۔ برطانيہ ميں مقيم مسلمان اپنے خلاف ہونے والے حملوں کے بارے ميں اس ادارے کے ساتھ رجوع کر سکتے ہيں۔
’ٹيل ماما‘ کے ڈائريکٹر فياض مغل نے بتايا کہ پچھلے اٹھارہ مہينوں کے دوران مسلمان اقليت سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مجموعی طور پر بارہ سو حملے کيے گئے۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ رواں سال بائيس مئی کو لندن ميں لی رگبی نامی برطانوی فوجی کے قتل کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں ميں کوئی آٹھ گنا اضافہ ريکارڈ کيا جا چکا ہے۔
دريں اثناء ايلسا رے نے ’ای يو آبزرور‘ نامی ايک اخبار ميں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف حملوں کا رجحان فرانس ميں بھی تيزی سے بڑھ رہا ہے۔ رے اور ان کا ادارہ فرانسيسی اور يورپی سياستدانوں پر الزام عائد کرتے ہيں کہ وہ اس مسئلے سے منہ موڑ رہے ہيں اور عوام کے مابين اسلام مخالف جذبات کو تسليم کرتے ہيں۔
يورپی يونين کی ايجنسی برائے بنيادی حقوق سے تعلق رکھنے والی کاٹيا اينڈروسز کے بقول ايسا لگتا ہے کہ برطانيہ اور فرانس مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا مرکز ہيں تاہم اس حوالے سے يورپی يونين سے متعلق کوئی اعداد و شمار دستياب نہيں۔ ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزيد بتايا، ’’يورپی يونين کی بہت کم رکن رياستيں اس حوالے سے معلومات جمع کرتی ہيں۔ يورپی يونين کی ايجنسی برائے بنيادی حقوق عرصہ دراز سے يونين ميں شامل حکومتوں پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ ايسے اسلام مخالف حملوں سے متعلق اعداد و شمار جمع کريں اور انہيں جاری بھی کريں۔‘‘ اطلاعات کے مطابق يورپی يونين کی اٹھائيس ميں سے صرف چھ رياستيں مسلمان اقليت سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہونے والے حملوں کے بارے ميں ڈيٹا اکھٹی کرتی ہيں۔
کاٹيا اينڈروسز نے ڈی ڈبليو کو مزيد بتايا کہ اس حوالے سے معلومات جمع کرنا کہ حملے کن گروپوں کے خلاف اور کن علاقوں ميں کيے جا رہے ہيں دراصل رکن رياستوں کے مفاد ميں ہوگا۔ تاہم انہوں نے يہ بھی واضح کيا کہ اس بارے ميں لوگوں کا شعور بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہالينڈ، بيلجيم اور جرمنی ميں چند چھوٹی سياسی جماعتيں ايسی بھی ہيں جو لوگوں کو مسلمانوں کی اس خطے ميں ہجرت سے خبردار کرتی ہيں۔

MIM KA JALSA - سالار ملت کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت

سالار ملت کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت
رپورٹ اعتماد حیدرآباد

خلوت میدان اور اطراف و اکناف عوام کے سروں کا سمندر
 کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے مرحوم صدر جناب سلطان صلاح الدین اویسیؒ کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آج پارٹی نے تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے کانگریس کے فیصلہ کے پس منظر میں دارالحکومت حیدرآباد کے مستقبل اور سیما آندھرا علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے اندیشوں کے بارے میں پارٹی کے موقف کو واضح کیا اور حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ یا دونوں ریاست کا مستقل دارالحکومت بنانے کے خلاف خبر دار کیا۔

حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ یا مستقل دارالحکومت بنانے کیخلاف انتباہ
سیما آندھرا کے عوام کو تحفظ کی یقین دہانی۔ مجلس کو دیگر ریاستوں میں بھی مضبوط کرنے کا عزم۔بیرسٹر اسد اویسی ‘ اکبر اویسی اور دیگر کا خطاب

حیدرآباد ۔ /17اگست ( اعتماد نیوز)بیرسٹر اسد الدین اویسی صدرکل ہند مجلس اتحادالمسلمین ورکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے ملک میں آئندہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات میں فرقہ پرست و تفرقہ پرداز طاقتوں کو روکنے سیکولر جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ موثر حکمت عملی اختیار کریں۔ انہوں نے ریاست کی تقسیم کے فیصلہ سے پریشان سیما ۔ آندھرا کے عوام سے کہا کہ وہ حیدرآبادمیں ‘پرامن زندگی گذاریں۔ کوئی انہیں حیدرآباد سے نکال نہیں سکے گا۔ تلنگانہ کی تشکیل اگر کی جارہی ہے تو ضرور تلنگانہ بنایا جائے لیکن کسی کو یہاں سے نکالا نہیں جائے گا۔ انہوں نے سیما ۔آندھرا کی عوام کو تحفظ کا بھی یقین دلایا۔ صدر مجلس نے حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دینے اور حیدرآباد کو دونوں ریاستوں کی مستقل راجدھانی بنانے کی کوششوں کے خلاف خبردار کیا اور کہا کہ ایسا کرنے کی صورت میں حیدرآباد میں ایسا احتجاج منظم کیا جائے گا‘ جس کی ملک بھر میں نظیر نہیں دی جاسکے گی۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی آج میلاد میدان خلوت پر مجلس اتحاد المسلمین کے مرحوم صدر سالار ملت جناب سلطان صلاح الدین اویسی ؒ کی 5 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ ایک زبردست جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے۔ اس جلسہ میں صدر مجلس کے علاوہ قائد مجلس اور علماء و مشائخ نے سالار ملتؒ کی حیات اور خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ اس جلسہ میں تا حد نظر انسانی سروں کا سمندر نظر آرہا تھا۔ خلوت میدان کا نہ صرف اندرونی حصہ بلکہ اس کے دونوں جانب سڑکیں پُر ہوچکی تھیں۔ خلوت کی سڑک پر والگا ہوٹل سے موتی گلی تک سامعین کی سہولت کے لئے بڑے ٹی وی اسکرینس لگائے گئے تھے۔ جلسہ میں شریک نوجوان بار بار فلک شگاف نعرے لگارہے تھے۔ بیرسٹر اسد اویسی نے قومی و علاقائی صورتحال کے علاوہ عالم اسلام‘ مصر‘ شام‘عراق کی حالت پر عوام کو بیدار کیا۔ علاقائی صورتحال پر انہوں نے کہاکہ ریاست کی تقسیم کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ انہوں نے سیما ۔ آندھرا کے کانگریسی قائدین بشمول مرکز ی وزراء سے کہا کہ تقسیم کا فیصلہ صدرکانگریس نے ہی کیا ہے۔ حیدرآباد کو مرکزی علاقہ قرار دینے کامطالبہ کرنے والے ریاست سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر کے چرنجیوی کو انہوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صدر مجلس نے کہا کہ حیدرآباد تمام ہندوستانیوں کا ہے۔ یہاں جو بھی آکر بس گئے یہ شہر اس کا ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو جان و مال کا خطرہ لاحق ہو تووہ اپنے گھر پر مجلس کی علامت ایم آئی ایم لگا دے۔ صدر مجلس نے قومی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی کسی بھی سیکولر سیاسی جماعت نے فرقہ پرست طاقتوں کامقابلہ کرنے موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی ہے۔ انہوں نے یہ واضح کیاکہ ان طاقتوں سے مسلمان خائف نہیں ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت ہے ملک کا مسلمان ان طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتاہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں سے نمٹنے میں سیکولر جماعتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو یہ ان جماعتوں کیلئے نقصان ہوگا۔ بی جے پی قائد و چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کے حالیہ دورہ حیدرآباد کا حوالہ دیتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے کہاکہ انتخابات سے عین قبل مختلف عنوانات او ر مختلف لباس میں اس طرح کے اور لوگ بھی عوام کے درمیان آئیں گے ۔ مہاراشٹرا اور ملک کے دوسرے علاقوں میں مجلس کے قائد کے دورہ پر لگائی گئی پابندی کے حوالہ سے بیرسٹر اویسی نے کہا کہ نریندر مودی جیسے قماش کے لوگوں کو دوروں کی چھوٹ دی جاتی ہے لیکن مجلس کے قائدین کو روکا جاتاہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کب تک مجلس کے قائدین کو دوروں سے روکا جائیگا۔ انہوں نے کانگریسی قائدین پر الزام لگایاکہ وہ نریندرمودی کی تنقیدوں کا موثر جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔ صدر مجلس نے رات دیر گئے تک خلوت میدان پر تقریر کو سننے موجود پرہجوم عوام سے کبھی کرکٹ کی زبان میں خطاب کیا تو کبھی دکھنی چٹکلوں کا سہارا لیا۔ عالمی اسلام کی صورتحال پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے کہا کہ مصر‘ شام ‘عراق کے حالات بدترین ہیں۔ انسانی خون بہہ رہاہے۔ انہوں نے ان ممالک میں بدامنی ‘ جبر واستبداد‘ خون خرابہ کیلئے مغربی طاقتوں کو بالواسطہ ذمہ دار قرار دیا ۔ انہوں نے کہاکہ مغربی ممالک اپنے پسند کی جمہوریت چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ عرب ممالک میں جمہوری منتخب عمل کو جو ان کی نظر میں مناسب نہیں ہے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تلگودیشم پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ تلگودیشم بی جے پی کا ساتھ دے کر اپنی ساکھ کھونہ بیٹھے۔ اترپردیش میں فرقہ وارانہ بدامنی اور فسادات کے حوالے سے صدر مجلس نے کہاکہ ایک سیکولر حکومت میں اترپردیش میں کم وقفہ کے دوران تقریباً 100 فسادات ہوچکے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران بیرسٹر اویسی نے عوام سے پر زور اپیل کی کہ وہ اپنے ووٹوں کے تناسب میں اضافہ کریں ۔ ووٹ بڑی طاقت ہے ۔ جب تک ووٹ کی طاقت فیصلہ کن نہیں ہوتی مسلمان اپنی اہمیت جتا نہیں سکتا۔ انہوں نے کہاکہ مجلس اتحادالمسلمین نہ صرف آندھراپردیش بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی سرگرم رول ادا کرے گی۔ مجلس اقلیتوں کے علاوہ سماج کے تمام طبقات کو اپنے ساتھ لے کر ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے نریندر مودی کے حالیہ دورہ حیدرآباد کو ناکام قراردیا اور کہاکہ مجلس مہاراشٹرا کے علاوہ گجرات میں بھی سرگرم کردار نبھائے گی۔ بیرسٹر اویسی نے جلسہ عام سے یہ عہد لیا کہ وہ مودی کو ناپسند کرتے ہیں ہجوم نے ’’مودی نہیں ‘‘کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ مجلس کے مرحوم صدر سالار ملت جناب سلطان صلاح الدین اویسی ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مرحوم صدر نے مسلمانوں کو بیدار کیا ۔ دارالسلام کی بلند و وسیع عمارتیں ان کی عظیم قربانیوں کی یاددلاتی ہیں۔ انہوں نے فخرملت مولوی عبدالواحد اویسی ؒ اور قائد ملت ؒ کی خدمات کا بھی ذکر کیا اور انہیں بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ جناب اکبر الدین اویسی قائد مجلس مقننہ پارٹی نے اس جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین نہ صرف حیدرآباد‘ آندھراپردیش بلکہ ملک بھر کے مسلمانوں کی آواز ہے اور وہ ہر اس آواز تک پہنچے گی جو اسے پکار رہی ہے۔ مجلس کے آندھراپردیش میں ارکان اسمبلی و کونسل ہیں‘ انشاء اللہ مستقبل میں نہ صر ف آندھراپردیش بلکہ کرناٹک‘ مہاراشٹرا اور ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی مجلس کے نمائندے منتخب ہوں گے۔ ہندوستان میں ہر طبقہ کی جماعت ہے لیکن مسلمانوں کی اس ملک میں کوئی نمائندہ جماعت نہیں ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو مجلس سے تکلیف اس لئے ہورہی ہے کہ وہ ملک کے تقریباً 25 کروڑ مسلمانوں کی آواز بن کر ابھر رہی ہے۔ جب ملک بھر کے مسلمانوں نے مجلس کو آواز دی ہے تو مجلس اور مجلس کے قائدین رکنے والے نہیں بلکہ وہ سارے ہندوستان کا دورہ کریں گے اور مسلمانوں کے ساتھ پسماندہ طبقات کو ایک مرکز سیاسی پر جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ مجلس سارے ملک کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہے اور ان کے جذبات کی ترجمان بنے گی۔ مسلمان اس ملک کے دوسرے درجہ کے شہری نہیں ہیں۔ اس ملک پر جتنا دوسروں کا حق ہے اتنا ہی حق مسلمانو ں کا بھی ہے۔ مجلس کا کسی سے کوئی شخصی جھگڑا یا لڑائی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی جماعت کا ایک اصول اور مقصد ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں کو دستور کے تحت جو حقوق اور آزادی دی گئی ہے اسے ختم کرنے کی کوشش پر مجلس اس کا مقابلہ کرے گی۔ مجلس کا مقابلہ کسی مذہب سے نہیں بلکہ مجلس کا مقابلہ صرف فرقہ پرستوں اور سنگھ پریوار سے ہے۔ قائد مجلس نے کہا کہ بعض لوگ مجلس کو مقامی جماعت‘ چھوٹی جماعت کے نام سے پکارتے تھے لیکن مجلس آج نہ صرف آندھراپردیش پورا ہندوستان بلکہ عالم اسلام میں ایک جانی پہچانی جماعت کا نام ہے۔ دنیا کا ہر کلمہ گو مسلمان مجلس اور مسلمانوں کے اتحاد کے لئے دعا کرتا ہے۔ جناب اکبر الدین اویسی نے کہا کہ جس طرح عالم اسلام آج سازشوں کا شکار ہو کر قتل و خون میں ڈوبا ہوا ہے‘ یہود و نصاریٰ ان سازشوں کے ذریعہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے اور انہیں تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ قائد مجلس نے کہا کہ مسلمانوں کو مختلف مکاتب فکر اور مسلکی عقائد کے جھگڑوں میں الجھایا جارہا ہے۔ اس جلسہ کا پیام یہی ہے کہ مسلمان مسلکی جھگڑوں کا شکار نہ ہوں بلکہ کلمہ کی بنیاد پر متحد و منظم رہیں کیونکہ دشمنان اسلام جب ہماری مساجد پر حملہ کرتے ہیں یا مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں تو وہ انہیں سنی‘ شیعہ‘ دیوبندی‘ بریلوی کے نام پر قتل نہیں کرتے بلکہ کلمہ گو کی حیثیت سے ان کا قتل کرتے ہیں۔ قائد مجلس نے کہا کہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے‘ مسجد کو عقائد اور مسلک کے جھگڑو ں سے پاک رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنی مساجد کو خلفائے راشدین‘ اہل بیت اطہار‘ صحابہ کرامؓ سے موسوم کریں اور ہر نئی مسجد کا نام بابری مسجد رکھیں۔ دشمنان اسلام کتنی مساجد کو توڑ سکیں گے‘ ہم اپنے عمل سے یہ بتادیں کہ اگر ایک مسجد شہید کی جائے گی تو ہم اس کے مقابل میں سینکڑوں مساجد تعمیر کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اگر اپنے اعمال کو سنواریں اور سچے پکے مسلمان بن جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی ہے ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ پابند مسلمان بنیں‘ دینی تعلیم کے ساتھ سائنس‘ ٹکنالوجی اور علم سے آراستہ ہوں اور آخرت کی فکر کریں۔ مسلمان اپنی اہمیت کو منوائیں اور اپنے خون کی قیمت دنیا کو بتائیں‘ کل تک مسلمانو ں کے خون کی قیمت دنیا کو معلوم تھی لیکن آج مسلمانوں کا خون سستا ہوگیا ہے۔ اترپردیش‘ راجستھان‘ مہاراشٹرا میں فسادات میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اس کے باوجود مسلمان اپنے آپ کو منوانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ قائد مجلس نے کہا کہ مسلمان ان حالات میں متحد و منظم ہوجائیں تو وہ مخالفین کو باآسانی شکست دے سکتے ہیں۔ قائد مجلس نے مسلک‘ مکتب کے نام پر جھگڑوں اور مسلمانوں کی تقسیم کی سازش کرنے والوں کو خبردار کیا اور کہا کہ حیدرآباد کے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والوں کی وہ سرکوبی کریں گے۔ قائد مجلس نے کہا کہ وہ تمام مسلمانو ں کے شکر گذار ہیں کہ ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں زندہ رکھا۔ بندوق کی گولیاں اور خنجروں کے زخموں کے بعد تین مرتبہ پیٹ کے آپریشن کئے گئے۔ اس کے بعد انہیں جیل میں محروس رکھا گیا اس پر دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے لئے دعائیں کی گئیں جس کے لئے وہ ان کے ممنون و مشکور ہیں اور وہ یہ کوشش کریں گے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی مسلسل خدمت کے ذریعہ کبھی مایوس ہونے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں قتل کرنے اور جیل میں ڈالنے کی کوششوں سے وہ گھبرانے والے نہیں‘ تختہ دار پر بھی ان کی گردن کسی کے آگے نہیں جھکے گی کیونکہ یہ سر صرف اللہ کی بارگاہ میں جھکتا ہے اور یہ سر مسلمانوں کے اتحاد کی طاقت اور اتحاد کی نشانی بن چکا ہے۔ جناب اکبر اویسی نے کہا کہ مقدمہ بازی میں ملوث کرکے انہیں ڈرایا نہیں جاسکتا۔ جیل کی صعوبتیں سے انہیں پریشان نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان واقعات اور حالات سے گذر کر ان کے عزم اور ارادے مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ قائد مجلس نے کہا کہ گاندھی ہاسپٹل کے احاطہ میں‘ سنگاریڈی عدالت کے اطراف ‘ نرمل ‘ عادل آباد و دیگر مقامات پر ان کی محبت میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو جس انداز سے پولیس کے ذریعہ پیٹا گیا وہ اس کو ہرگز نہیں بھلاسکتے۔ بعض لوگوں نے تو انہیں ختم کرنے کی کوشش کی لیکن عوام کے دلوں میں ان کی محبت مزید بڑھ گئی ہے۔ جناب اکبر اویسی نے کہا کہ مجلس آج جس مقام پر کھڑی ہے اس مقام تک پہنچنے کے لئے اسے تقریباً 55 برس تک مسلسل جدوجہد اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح مسلمان‘ سالار ملتؒ کی گذشتہ 50 برس کی خدمت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے‘ اس طرح مجلس بھی مسلمانوں کے اتحاد اور دعاؤں کو بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ جناب اکبر اویسی نے کہا کہ سالار ملتؒ الحاج سلطان صلاح الدین اویسیؒ نے نہایت دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ ملت کی خدمت کی۔ سیاسی نشیب و فراز کے موقعوں پر انہوں نے دولت‘ زمین‘ جائیداد کا اثاثہ اپنے لئے کھڑا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے لئے تعلیمی اداروں کا جال کھڑا کردیا۔ سالار ملتؒ اگر شخصی مفاد کو پیش نظر رکھتے تو اپنے ذاتی ٹرسٹ کے تحت ادارے قائم کرتے اور ذاتی اثاثہ قائم کرکے خاموش ہوجاتے لیکن سالار ملتؒ نے ہندوستان کے قانون کے تحت دستور کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانو ں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق سکھایا۔ آج ان اداروں سے ہزاروں مسلم طلبہ‘ ڈاکٹرس اور انجینئرس بن کر فارغ ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدیاں بیت جائیں گی لیکن سالار ملتؒ کی جیسی شخصیت دوبارہ ہونا مشکل ہے۔ مسلمانوں پر مظالم کی اطلاع پر مرد مجاہد تنہا اپنی موٹر سیکل پر مظلوم مسلمانو ں کے درمیان پہنچ جاتا تھا۔ سالار ملتؒ نے 26 برس کی عمر سے ملت کی قیادت سنبھالی اور سخت محنت‘ جدوجہد‘ کوششوں کے بعد جماعت کو بلند مقام پر پہنچایا۔ سالار ملتؒ کے قول کے مطابق جس وقت مجلس کا احیاء کیا گیا اس وقت مجلس کو اثاثہ میں ٹوٹا قلم اور پھٹا کاغذ بھی نہیں ملا تھا لیکن آج مجلس کے جلسوں میں ہزاروں‘ لاکھوں افراد کے سروں کا سمندر ہے۔ قائد مجلس نے کہا کہ مجلس مسلمانوں کی متاع عزیز ہے‘ یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے۔ یہ جماعت مسلمانوں کی آن بان اور شان ہے جس میں مسلمانوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ اسے مزید مضبوط و مستحکم کرنا ضروری ہے۔ قائد مجلس نے اس ایقان کا اظہار کیا انہیں ہندوستان کے عدلیہ اور قانون پر مکمل بھروسہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ انہیں ملوث کردہ مقدموں سے باعزت بری ہوجائیں گے۔ جناب اکبر اویسی نے مجلس کے منتخبہ عوامی نمائندوں کو اور سرگرم کارکنوں کی تنبیہ کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ عوام کی خدمت میں جٹ جائیں۔ مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسیؒ اور ان کے والد فخر ملت عبدالواحد اویسیؒ نے پریشان کن اور نامساعد حالات میں قیادت کو سنبھالا۔ مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کی بہتری کے لئے جدوجہد کی۔ ان دونوں قائدین کا کردار اور عمل ہی تھا کہ آج بھی انہیں مسلمان یاد کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ مسلمان ہر آنے والے نئے انقلاب کے مقابلہ کے لئے تیار رہیں اور ان قائدین نے جیسے اپنے آپ کو میدان جدوجہد میں پیش کیا تھا‘ مسلمانو ں کو بھی چاہئے کہ وہ خود کو عمل کے میدان میں پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مسلمان اپنے گذرے ہوئے لوگوں کی خوبیاں بیان کریں‘ ان کی خدمات کا ذکر کیا کریں‘ اس سے آنے والی نسلوں کو ایک لائحہ عمل ملتا ہے۔ مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ ہر دور میں مسلمان انتشار‘ خلفشار کا شکار رہے لیکن جو قیادت سنجیدہ‘ مدبر‘ معاملہ فہم اور جرات مند رہی‘ اس قیادت نے حالات کو سازگار بناکر ان میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا۔ مسلمانوں میں فکر و عمل کا اتحاد ہونا ضروری ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کے لئے ہمدرد اور غمخوار ہوتے ہیں۔ شیخ الجامعہ نے کہا کہ جو قوم خود کمزور ہو کر مدد کے لئے آواز دیتی ہے اس کی کوئی مدد نہیں کرتا اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قوت حاصل کریں۔ مولانا تقی رضا عابدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسیؒ موجودہ سیاسی صدی پر قابض رہنے والی شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالار کو نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی فکر تھی جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر مظالم ہوتے تو سب سے پہلے سالار اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ آج اگر سالار ہوتے تو مصر کے حالات پر ضرور بیان دیتے اور یہ کہتے کہ مسلمانو ں کے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہوگئی ہے۔ مولانا نے سالار کو خراج پیش کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں۔ یہود و نصاریٰ کے عزائم کو ناکام بنائیں۔ انہو ں نے کہا کہ مشرقی وسطیٰ اور پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمانو ں کو ستایا جارہا ہے اس کے پیچھے اسرائیل و امریکہ ہے۔ مولانا مسعود حسین مجتہدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم صدر مجلس سلطان صلاح الدین اویسیؒ اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے علاوہ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے دکن میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج کی بنیاد ڈالی۔ مسلمانوں کو ہنر مند بنانے کے لئے اویسی آئی ٹی آئی کا قیام عمل میں لایا گیا اور انہیں علاج و معالجہ کی موثر سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اویسی ہاسپٹل اور اسریٰ ہاسپٹل کا قیام عمل میں لایا۔ اویسی صاحب نے ہر شعبہ میں مسلمانوں کی خدمت کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ مشترکہ مجلس عمل کا قیام ہے جس کے ذریعہ انہوں نے دکن کے مسلمانو ں کی حوصلہ افزائی کی۔ سالار ملتؒ نے مشترکہ مجلس عمل میں تمام مسالک و مکاتب فکر کے علماء‘ دانشوران اور مشائخ کو شامل کرتے ہوئے ایک منفرد و مثالی پلیٹ فارم قائم کیا جس کی نظیر ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں نہیں ملتی۔ مجلس کے معتمد عمومی و رکن اسمبلی چارمینار سید احمد پاشاہ قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سالار ملت سلطان صلاح الدین اویسیؒ نے 50 سال تک مسلمانوں کی جو خدمت کی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ سالارؒ کی قیادت بے باک اور بے داغ تھی۔ انہوں نے ایوان اسمبلی میں 22 سال اور ایوان پارلیمنٹ میں 20 سال مسلمانوں کی نمائندگی کی اور ان کے کئی مسائل اٹھائے۔ مخالفین کی یہ آرزو تھی کہ سالار ایک الیکشن ہار جائیں لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہیں ہوئی اور مرحوم صدر نے کئی بڑے سیاسی سورماؤں سے مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ سالار کی نمائندگی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان میں سب سے پہلے اردو اکیڈیمی کا قیام آندھراپردیش میں عمل میں آیا۔ سید احمد پاشاہ قادری نے کہا کہ سالار ملتؒ کے مشن کو نقیب ملت اور حبیب ملت آگے بڑھارہے ہیں۔ جلسہ سے اراکین اسمبلی وراثت رسول خاں‘ محمد معظم خان‘ سابق ڈپٹی میئر جعفر حسین معراج اور دوسروں نے بھی خطاب کیا۔ شہ نشین پر میئر گریٹر حیدرآباد محمد ماجد حسین‘ اراکین مقننہ ممتاز احمد خان‘ مقتدا افسر خان‘ احمد بلعلہ‘ سید الطاف حیدر رضوی‘ سید امین الحسن جعفری کے علاوہ مسرس میر ذوالفقارعلی سابق میئر حیدرآباد‘ محمد غوث ڈپٹی فلورلیڈر مجلس بلدی پارٹی مختلف کے قائدین موجود تھے۔ جبکہ محمد صدیق علی اطہر فاروقی اور محمودقادری نے بھی شرکت کی۔ جلسہ کا آغاز قاری عبدالعلی صدیقی کی قرات کلام پاک سے ہوا اور جناب شفیع قادری نے نعت شریف پیش کی۔ جلسہ گاہ میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ خلوت میدان کے آس پاس ٹی وی اسکرین نصب کئے گئے تھے۔ خلوت میدان تا لاڈ بازار‘ چوک‘ شاہ علی بنڈہ نئی روڈ اور اس کے اطراف و اکناف تک سروں کا سمندر دیکھا گیا۔ پولیس کی جانب سے سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ خلوت میدان میں اس سے پہلے اتنا بڑا عوام کا اجتماع نہیں دیکھا گیا۔ جلسہ یاد سالار ملت ؒ میںآندھراپردیش‘ راجستھان اورپڑوسی ریاستوں کرناٹک‘ مہاراشٹرا کے علاوہ علاقہ آندھرا‘ علاقہ رائلسیما اور تلنگانہ کے اضلاع بشمول کرنول‘ ادونی کے ابتدائی مجالس کے عہدیداروں ‘کارکنوں ‘ کارپوریٹرس‘ سابق کارپوریٹرس اور محبان مجلس کی کثیر تعداد نے بھی شرکت کی۔ جن میں بھینسہ کے جابر احمد سابق چیرمین میونسپلٹی‘ نرساراؤ پیٹ‘ ضلع گنٹور کے شیخ کریم اﷲ ‘ شیخ مولاعلی‘ ایس کے ذکریہ‘ سید مسعود‘ مستان ولی‘ ناصرولی ‘ سدی پیٹ کے محمد عبدالبصیر سعدی‘ نویداحمد‘ منیر الدین‘ یزدانی‘ آصف‘ احمد تانڈور کے محمد عبدالہادی صدر‘ بی آر محمد یونس‘ محمد پاشاہ قریشی‘ شیخ مجیب‘ محمد خواجہ میاں پارچہ‘ محمد خلیل اﷲ شریف‘ محمد فاروق قریشی‘ عبدالنبی صابر‘ محمد فصیح الدین ‘ محمد معز الدین‘ محمد سجاد حسین‘ محمد عامر شہری‘ محمد ہارون‘ محمد قاسم‘ محمد انورخان‘ محمد عابدی‘محمد شریف ‘ محمد ایاز مہاراشٹرا کے ناندیڑ کے سید معین صدر‘ سید شیر علی فلور لیڈربلدی پارٹی‘ عبدالحبیب باغبان‘ سید فصیح الدین ‘ شاہد انور‘ عبدالمحیط ‘ عبدالندیم‘ محمد رفیق‘ سید اکبر‘ شیخ محبوب‘ جنید خان‘ پونا کے وسیم شیخ اور دوسرے‘ اورنگ آباد کے جاویدقریشی صدر ابتدائی مجلس‘ وسیم صاحب‘ مجاہد خان‘ محمدفصیل‘ سید معراج‘ شولاپور کے محمد شکیل شیخ صدرسٹی‘ الطاف شیخ‘ رضوان قریشی‘ سید منیر‘ صفیان شیخ اور دوسرے شامل ہیں۔ خلوت گراؤنڈ میں اور اس کے باہر بھی موسم بارش کے پیش نظر وسیع پنڈال بنایاگیا تھا جس کے کام کی تکمیل میں جناب سید احمدپاشاہ قادری معتمدعمومی مجلس و ایم ایل اے چارمینار کی نگرانی میں جناب محمد غوث ڈپٹی فلورلیڈر مجلس بلدی پارٹی جناب ایم اے حطیم کی قیادت میں کئی کارکنان نے گذشتہ 2روز اور آج دن بھر مصروف رہے۔

Sunday 18 August 2013

سیسی فوج کا ابلیسی رقص SISI FAUJ KA IBLEESI RAQS

سیسی فوج کا ابلیسی رقص

عارف بہار

گزشتہ بدھ کو مصر کے ظالم و سفاک جرنیل السیسی کی فوجوں نے اسرائیلی ہتھیاروں اور گولہ بارود سے لیس ہوکر حسن البنا شہید کے خیمہ زن فکری کارواں کو کچھ یوں فتح کیا کہ عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان کیڑے مکوڑوں کی طرح سڑکوں، گلیوں میں پڑے تڑپ رہے تھے، ہسپتال زخمیوں سے اٹ گئے تھے، عفت مآب عورتیں اور پاکباز جوان ہاتھوں میں قرآن اُٹھائے امنِ انسانیت کی دہائی دے رہے تھے۔ وہ اپنا جرم پوچھ رہے تھے، مگر سفاک فوجیں ان پر آسمان سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ’’میڈ اِن اسرائیل‘‘ لگی مہروں والی اشک آور گیس کے گولے برسا رہے تھے۔ نہتے اور پُرامن لوگ جمہوریت کی دہائی دے رہے تھے اور سفاک فوجی انہیں گولیوں سے بھون رہے تھے۔ دھرنے کے مقام سے پُرامن لوگوں سے جو ’’اسلحہ‘‘ برآمد کیا گیا اور جس کے ڈھیر لگائے گئے وہ قرآن پاک کے نسخے تھے۔ کئی شہید مرکر قرآن سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔
دنیا کا کوئی قانون عوام کے پُرامن احتجاج کے حق کو سلب نہیں کرتا، اور جمہوریت تو جدید تہذیب اور جدید دنیا کی وہ نیلم پری ہے جس کا ماٹو ہی ’’عوام‘‘ ہے۔ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کی خاطر‘‘ کے اس ماٹو میں اوّل و آخر اہمیت عوام کو حاصل ہے۔ عوام کے سوا جمہوریت میں روحانی اور تہذیبی کوئی رچائو نہیں،کوئی پیوند کاری نہیں۔ اسی جمہوریت کو اختیار کرکے مصر میں اخوان المسلمون نے حکومت حاصل کی۔ لیکن یہ حکومت اسرائیل کو ایک آنکھ نہ بھائی، حالانکہ اس حکومت نے اسرائیل کے لیے ایک سال کے عرصے میں کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔ اس حکومت سے ایران کی ولایتِ فقیہ بھی خفا ہوگئی اور سعودی عرب کے سلفی حکمران بھی۔گویا کہ خطے کی سیاست میں دخیل مسٹر و مولانا، آب زم زم پینے والے اور اسکاٹش مشروب کے دلدادہ سب محمد مرسی کی صدارت کے خاتمے میں ایک ہوگئے۔ نہ مذہب کی قید رہی، نہ مسلک کا اختلاف۔ سب اپنے قرض چکا رہے تھے۔ مصر کے لبرلز تو اسے تاریخ کا الٹ پھیر سمجھ کر ہاتھ مل رہے تھے۔ اپنے بیگانے سب مل کر صدر محمد مرسی حکومت کو زندہ درگور کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ اصل دشمن اسرائیل تھا، وہ سمجھتا تھا کہ اگر مصر میں اخوان کی حکومت مضبوط ہوگئی تو نیا ترکی، نیا ایردوان پیدا ہوجائے گا، اور کسی مرحلے پر مصر اور ترکی اشتراکِ عمل کرکے اسرائیل کے لیے سنجیدہ چیلنج بن کر سامنے آئیں گے جو اسرائیل کی موت کے مترادف ہوگا۔اصل خطرہ یہی تھا،باقی سب علاقائی گدھ چھوٹے چھوٹے خدشات اور واہموں کا شکار تھے۔
مصری فوج ایک ناکام،نااہل اور پٹی ہوئی سپاہ ہے جو کبھی کسی جنگ میں مصری عوام کے سر پرفتح کے دوپھول نہیںسجا سکی۔اسرائیل کے ساتھ بھی اسے معرکہ آرائی کا موقع ملا تو یہ فوج پسپائی اور ناکامی کا شکار ہوگئی، لیکن اپنے لوگوں کے لیے یہ فوج اس قدر بہادر ہوگئی کہ نہ صرف اپنا ملک، جمہوری ادارے اورآئین فتح کر بیٹھی بلکہ شیرخوار بچوں اور قرآن بردار عورتوں پر بھی ٹینک چڑھا بیٹھی۔ مصر میں کربلا برپا ہوگئی۔ وہی جلتے خیموں کے مناظر، دھویں کے بادل، وہی یزیدی لشکر جیسی فرعونیت، سفاکی اور تکبر… وہی پاکباز اور پردہ دار خواتین اور ان کے ساتھ بچے… العطش کی صدائیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ فرعون رعمسیس کی دھرتی پر فرعونیت ایک بار پھر لوٹ کر آگئی ہو۔ قاہرہ کے عجائب خانے میں فرعون کی حنوط شدہ لاش بھی اپنے جدید انداز کے جنم پر انگشت بدنداں ہوئی ہوگی۔
قاہرہ کے دھرنوں پر بیٹھے ہوئوں کا مطالبہ اسلامی شریعت تھا نہ وہ خلافتِ اسلامی کے قیام کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مغرب کی ایجاد، جمہوریت کی بحالی چاہتے تھے۔ وہ اپنے ووٹ پر پڑنے والے ڈاکے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ وہ بیلٹ پر بلٹ کی حکمرانی اور بالادستی تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ لاطینی امریکا، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ملک میں عوام یہ مطالبہ کررہے ہوتے تو امریکا وہاں کے مرسی کو نیلسن منڈیلا جیسا رتبہ دے چکا ہوتا۔ کچھ اور نہیں تو نوبل پرائز کے امیدواروں کی فہرست میں اس کا نام گردش کرنے لگ گیا ہوتا، بی بی سی اور سی این این اپنا سارا زور دھرنے والوں کو قافلہ احرار ثابت کر نے پر لگا چکے ہوتے۔ جمہوریت سے ان کی محبت پر کئی نظمیں اور ناول لکھوائے جا چکے ہوتے۔اقوام متحدہ میں محمدمرسی کے خطاب کی تیاریاں بھی شروع کر ادی گئی ہوتیں۔مگر محمد مرسی مغرب کے محبوب جسے ا ن کی زبان میں ’’ڈارلنگ ‘‘کہا جاتا ہے،کے خانے میں مس فٹ رہے۔اس لیے قاہرہ کی سرزمین ان کے لیے کربلا بن گئی۔
اخوان المسلمون برسوں پہلے دو سوچوں میں بٹ گئی تھی۔ایک سوچ یہ تھی کہ امریکا جدید دنیا کا عالمی استعمار اور طاغوت ہے جو دنیا پر شیطانی حکومت کے قیام کے منصوبے پر کاربند ہے۔مسلم حکمران اور فوجیں اس کی ایجنٹ ہیں۔ان کی حیثیت دہاڑی دار مزدور سے زیادہ نہیں، جنہیں اقتدار ہی اس شرط پر دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں میں بیداری کی ہر لہر کو دباتے اورانہیں مراعات کی نیند آور گولیاں دے کر سلاتے رہیں۔وہ اس کام کے بدلے استعمار سے معاوضہ لیتے ہیں۔جب استعمار انہیں مسلم معاشروں کو تاخت و تاراج کرنے کا حکم دیتا ہے تو پھر یہ کلمہ گو ئی کے رشتے کو بھول کر مسلمانوں پر قہر بن کر نازل ہوتے ہیں۔ جمہوریت،ووٹ اس استعماری تہذیب کے فریب ہیں۔مسلمانوں کو پہلے استعمار کا غلبہ بندوق اور جہاد کے ذریعے ختم کرنا چاہیے پھر اپنے نظریات اور روایات کے مطابق نظام حکومت قائم کرنا چاہیے۔یہ مسلمان ملکوں کو جہاد سے اس لیے مبرا نہیں سمجھتے تھے کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یا وہاں حکمرانوں کا مذہب اسلام ہے۔ان کے خیال میں مسلمانوں کی قومی ریاستیں بھی اسی طرح غیر اسلامی ہیں جس طرح کہ امریکا،روس اور بھارت وغیرہ۔یہ طبقہ تکفیری کہلایا۔ اسامہ بن لادن کے دستِ راست ڈاکٹر ایمن الظواہری انہی نظریات کی بنا پر اخوان سے علیحدہ ہونے والوں میں نمایاں تھے۔جبکہ اخوان المسلمون میں غالب سوچ یہ تھی کہ انہیں استعمار کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود دستیاب وسائل اور مروجہ طریقہ کار پر کاربند رہ کر سیاسی اور پرامن جدوجہد کرنا چاہیے۔ان کا خیال تھا کہ بندوق اُٹھانے سے مکالمے اور ابلاغ کا سفر رک جاتا ہے۔یوں آپ سوسائٹی کے بڑے حصے تک اپنی بات پہنچانے کے حق اور سہولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔اخوان کی غالب اکثریت اسی راستے پر گامزن رہی۔مرسی حکومت برطرف ہوئی تو سب سے پہلا تیر اپنے انہی دوستوں کی کمیں گاہ سے پھینکا گیا ’’چکھ لیا نا جمہوریت کامزہ،ہم نہ کہتے تھے بندوق اُٹھائو‘‘۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ویڈیو ٹیپ اخوان کی قیادت کو یہی باور کرا رہی تھی کہ انہوں نے جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے کر درحقیقت ڈوبتی ہوئی نائو میں قدم رکھا تھا۔ گویا کہ امریکا، عرب ممالک اور اسرائیل نے مل جل کر مصر میں ڈاکٹر ایمن الظواہری کی سوچ کو سچ ثابت کردیا۔ سیسی فوج کا ابلیسی رقص مصر کو کس نہج پر لے جاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر فی الوقت امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل نے ایمن الظواہری کو مسلم دنیا کا سب سے عظیم دانشور اور دور اندیش فکری راہنما ثابت کردیا ہے۔

Friday 16 August 2013

مصر : ایک نیا شام Egypt a new Syria

مصر : ایک نیا شام

مسعود انور
14 اگست کو اہلِ پاکستان جشنِ آزادی منارہے تھے، جبکہ یہ دن ہلِ مصر کے لیے ابتلاء کا دن ثابت ہوا۔ فوجی آمرعبدالفتاح السیسی کے حکم پر رابعہ العدویہ میں موجود اخوان کے احتجاجی کیمپوں کو جس طرح ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس کی مثال ہم صرف صابرہ و شتیلہ سے ہی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ہزار سے زائد اخوان کے کارکنان جن میں مرد، خواتین، بچے سب ہی شامل ہیں، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوچکے ہیں، ہزاروں ہی کی تعداد میں زخمی موجود ہیں۔ ان زخمیوں میں شدید جھلسنے والے بھی ہیں جو احتجاجی کیمپوں کو آتش گیر مادّے سے جلانے کے نتیجے میں جھلس گئے۔ ان میں گولیوں کے زخمی بھی موجود ہیں جو خون زیادہ بہہ جانے کے نتیجے میں زندگی سے زیادہ موت کے قریب ہیں۔ ان زخمیوں کو طبی امداد جس طرح فراہم کی جارہی ہے، اس سے اندیشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
آخر السیسی نے ایسا کیوں کیا؟ اگر اس احتجاج کو جاری رہنے دیا جاتا تو کیا ہوجاتا؟ کیا اُس کی حکومت گرجاتی؟ یہ احتجاج کرنے والے آخر کب تک احتجاج کرتے؟ جب پوری دنیا السیسی کے ساتھ تھی، تو یہ احتجاج کرنے والے کسی کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ یہ اور ان جیسے ان گنت سوالات ہیں جو اس بھیانک کارروائی کو دیکھنے کے بعد سر اٹھارہے ہیں۔
میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مرسی کو ہٹانے کا کوئی جواز کہیں سے موجود نہیں تھا۔ مرسی نے نہ تو ملک میں اور نہ ہی بیرون ملک ایسا کچھ کیا تھا جس سے لگتا کہ مصر میں انقلاب آچکا ہے۔ چند نمائشی اقدامات کے علاوہ مرسی نے آخر کیا کیا تھا؟ مرسی کی شام کے بارے میں وہی پالیسی تھی جو حسنی مبارک کی تھی، جو ترکی کی ہے اور جو امریکا و سعودی عرب وغیرہ کو مطلوب ہے۔ فلسطین کے بارے میں بھی زبانی ہمدردی کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ رفح کی سرحد بھی نہیں کھولی تھی جس کی وجہ سے اہلِ فلسطین غزہ کی پٹی میں محصور زندگی گزار رہے ہیں۔ سینائی کی پٹی میں وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف برسرپیکار جنگجوؤںکا صفایا کررہے تھے۔ اسی طرح ان کی علاقے میں ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی جو امریکا، اسرائیل، ترکی، سعودی عرب، قطر یا کسی اور کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی۔ کچھ بھی ہو، مرسی ایک منتخب صدر تھے۔ ان کو لانے اور ہٹانے کا اختیار صرف اور صرف مصری عوام کو تھا۔ اُن کو ابھی منتخب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ان کی مقبولیت کا گراف ابھی تک بلند تھا۔ یہ مقبولیت ہی مرسی کو ہٹانے کا سبب بنی۔
اس خطہ میں جو گریٹ گیم کھیلا جارہا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس خطہ کے تمام اسلام پسندوں کو جو کسی بھی طرح سے کسی بھی وقت اس گریٹ گیم میں وائلڈ کارڈ کے ذریعے داخل ہوسکتے ہیں، مصروف کردیا جائے۔ اب قاہرہ میں فوجی کریک ڈاؤن کا نتیجہ تو دیکھیے۔ پوری اخوان قیادت اور کارکنان زیرزمین چلے گئے ہیں اور انہوں نے السیسی کی فوجی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا فیصلہ کرلیاہے۔ بین الاقوامی سطح پر جو بھی زبانی جمع خرچ کیا جائے… سعودی عرب، امریکا، قطر، برطانیہ، فرانس، روس ، چین کسی نے بھی عملاً السیسی کے خلاف عملی کارروائی سے گریز کیا ہے۔ ان سب کا رویہ ایک پرشفقت ماں کا اپنے لاڈلے بدتمیز بچے کے لیے محبت آمیز تنبیہ جیسا ہی ہے۔
مصر کے اخوان اور اس علاقے میں ان کے اتحادیوں کو مصروف کرنے کے لیے اس سے زیادہ بہترین منصوبہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک طرف یہ السیسی کو تنبیہ کرتے رہیں گے مگر اس کو ہٹائیں گے نہیں، اور امداد بھی دیتے رہیں گے۔ دوسری طرف دوسرے ہاتھ سے اخوان کے جنگجوؤں کو بھی مطلوبہ مقدار میں فنڈز، ایمونیشن اور ضروری جنگی سامان ملتا رہے گا۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے مصر اب ایک نئے شام میں تبدیل ہوجائے گا۔ اب یہ عالمی سازش کار انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنے ہمہ جہتی مقاصد بآسانی حاصل کرسکیں گے۔
سب سے پہلے تو خطے میں جو رہا سہا استحکام تھا، رخصت ہوگیا۔ اب جو چاہے جغرافیائی تبدیلی آئے، ہلکی سی مزاحمت کا بھی اندیشہ نہیں رہا۔ دوسرے، ایک اللہ کے ماننے والوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام جو شیطان کی اوّلین خواہش ہے۔ تیسرے، ان سازش کاروں کی ملکیت میں واقع جنگی سامان بنانے والی فیکٹریوں میں دن رات کام اور اس کی فروخت میں کئی گنا اضافہ۔ اب بینکوں کو بھی نیا کام مل گیا اور ان جنگی سامان بنانے والی فیکٹریوں، ادویہ ساز کمپنیوں وغیرہ وغیرہ کو بھی نئے کنٹریکٹ مل گئے۔ ان کا تنخواہ دار میڈیا پوری دنیا کو احمقانہ خبروں میں الجھائے رکھے گا، بالکل اسی طرح جس طرح ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ میں ہوتا ہے۔ رننگ کمنٹری جاری رہے گی اور لوگ اس کے سحر میں ڈوبے رہیں گے۔ اخوان کی حمایت میں دنیا بھر میں آرٹیکل چھپیں گے، مظاہرے ہوں گے، مگر حاصل کیا ہوگا! محض ایک خانہ جنگی۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اہلِ مصر کو ان کی مرضی کے حکمراں منتخب نہیں کرنے دے گی، جس طرح آج تک اہلِ کشمیر حقِ خودارادیت کے لیے تڑپ رہے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کا کھیل پوری خوں ریزی کے ساتھ جاری ہے۔ اس سازش کو پہچانیے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔

Tuesday 13 August 2013

جنگ آزادی میں بیگم حضرت محل کا کردار! Jange Azadi mein Begum Hazrat Mahal ka kirdar

جنگ آزادی میں بیگم حضرت محل کا کردار!
[تصویر: begumhazarat.jpeg]

ہندوستان میں خواتین کو جو عزت اور مقام حاصل ہوا شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں حاصل ہے ایسی ہی ایک خاتون میں بیگم حضرت محل ۔ بیگم حضرت محل کا نام زبان پرا ٓتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے ۔ حضرت محل کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون لیڈر کے نام سے مشہور ہے ۔ 1857-58کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نہ قابل فراموش جدو جہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا ۔ برطانوی حکومت کی” تقسیم کرو اور حکومت کرو“کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے تحریک جنگ آزادی کو ایک نیار خ دیا ۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں۔ جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور 20برس جلا وطنی اور اپنی موت 1879تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی ۔ حالانکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو بھی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے شاید وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں کچھ انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساءتھا ۔ نام سے اندازہ لگتا ہے کہ ان کے آباو اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے ۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا ۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی ۔ Companion to the ''Indian munity of 1857-58''کے مصنف P.J.O. Taylorکے مطابق جب افتخار النساءکے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان کا رتبہ بڑھا اور انہیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انہیں شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا ۔ اپنے بیٹے بر جیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی شخصیت میں بہت بدلاﺅ آیا اور ان کی تنظیمیں صلاحیتوں کو جلا ملی ۔ 1856میں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا ۔ تب حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے وجود میں سب کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا یہ رخ اپنے وطن کے لئے تھا ۔ جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر پھینکنا یہ مشعل لو ، سبھی کے دل میں جل رہی تھی ۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم حضرت محل نے ایک خاص کردارادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت صرف گھر کی چہار دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوں کو کھدیڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے ۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے اپنے حامیوں جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کا جذبہ تھا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا ۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنو پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لئے تو انہوں نے برٹش حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا ۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں تھیں۔ بلکہ جنگ کے میدان میں بھی انہوں نے جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انہوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم حضرت محل کا اپنے ملک کے لئے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا ۔ لیکن ایک عورت ہو کر انہوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکر لی وہ معنی رکھتا ہے ۔ 1857کی بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس کی تپش محسوس کی جارہی تھی اسی چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سحرہ بیگم حضرت محل کے سر جاتا ہے ۔ اترپردیش کے اودھ علاقہ میں بھی آزادی کی للک تھی ۔ جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنو کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر لگاتار انقلابیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا ۔ ایک عورت کا یہ حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دوگنا ہو جاتا ۔ انہوں نے آس پاس کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ ملا کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ بیگم حضرت محل کا کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے ۔ آج جب بھی 1857کی بغاوت کا ذکر آتا ہے تو بیگم حضرت محل کا نام خود بخود زباں پر آجاتا ہے ۔ انگریزوں کی مکاری اور چالاکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں ۔ انگریزوں سے لوہا لینے کیلئے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ۔ انتظامی حکومتی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صلاحیت خوب کام آئی۔ بیگم حضرت محل کے فیصلوں کو قبول کیا گیا ۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کئے گئے ۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود بیگم حضرت محل لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا ۔ فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ انگریزی فوج لگاتار ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کیلئے کوشش کرر ہی تھی ۔ لیکن بھاری مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنو فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا ۔ ادھر ریزی ڈینسی پر ناموں کے ذریعہ لگاتار حملے کئے جارہے تھے ۔ بیگم حضرت محل لکھنو کے مختلف علاقوں میں تنہا فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا ۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقلابیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے ۔ لکھنو بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا ۔ Havlock اور Owctrmکی فوجیں لکھنو پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا دیئے ۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا ” اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ “ انگریزی فوج کا افسر ہیو لاک Havlockعالم باغ تک پہنچ چکا تھا ۔ کیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے کر اس کے ساتھ جا ملا ۔ عالم باغ میں بہت ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا ۔ عوام کے ساتھ محل کے سپاہی شہر کی حفاظت کیلئے امنڈ پڑے ۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ دونوں طرف تیروں کی بوچھار ہو رہی تھیں۔ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا ۔ وہ چاروں طرف گھوم گھوم کر سرداروں میں جوش بھر رہی تھیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے انقلابیوں کا جوش ہزار گنا بڑھ جاتا ۔ وہ بھوکے پیاسے سب کچھ بھول کر اپنے وطن کی ایک ایک انچ زمین کیلئے مرمٹنے کو تیار تھے ۔ آخر وہ لمحہ بھی آگیا جب انگریزیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد کرا ہی لیا ۔ اور لکھنو ¿ پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ۔ بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستانی نسوانی سماج کی پیروی کرتا ہے وہ بے حد خوبصورت رحم دل اور نڈر خاتون تھیں۔ اودھ کی پوری قوم ، عوام عہدیدار ، فوج ان کی عزت کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ ان کی عوام میں تھا ۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عورت کی سر براہی میں کام کررہے ہیں انہیں اپنی ا س لیڈر پر اپنے سے زیادہ بھروسہ تھا ۔ اور یہ بھروسہ بیگم حضرت محل نے ٹوٹنے نہیں دیا ۔

ایک واقعہ
جب باغیوں کے سردار دل پت سنگھ محل میں پہنچے اور بیگم حضرت محل سے کہا ۔ بیگم حضورآپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔ بیگم نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا ۔ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو مجھے سونپ دیجئے ۔ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاﺅنی میں بھیجوں گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ بیگم کے لہجہ میں سختی آگئی ۔ ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت ہمارے ہندوستان میں نہیں ہے ۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتوں پر کبھی ظلم نہیں ہوگا ۔ اندازہ ہوتا ہے بیگم حضرت محل انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں ۔ بیگم نے جن حالات اور مشکل وقت میں ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے وہ ہمارے لئے مثال ہے وہ بھلے ہی آج ہمارے بیچ نہ ہوں پر ان کا یہ قول عام ہندوستانیوںکیلئے ایک درس ہے ۔ یہ ہند کی پاک و صاف سر زمین ہے ۔ یہاں جب بھی کوئی جنگ بھڑکی ہے ہمیشہ ظلم کرنے والے ظالم کی شکست ہوئی ہے ۔ یہ میرا پختہ یقین ہے ۔ بے کسوں ، مظلوموں کا خون بہانے والا یہاں کبھی اپنے گندے خوابوں کے محل نہیں کھڑا کر سکے گا ۔ آنے والا وقت میرے اس یقین کی تائید کرے گا ۔ جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی ۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ بہادر نے انکار کر دیا ۔ لیکن بعد میں اجازت دے دی ۔ وہیں پر 1879میں ان کی وفات ہوئی۔ کاٹھ منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا ۔ 15اگست 1962میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر مر کا مقبرہ تعمیر کرا کر اسے بیگم حضرت محل پارک نام دیا ۔ حضرت محل کا یہ کارنامہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت لاچار اور مظلوم نہیں ۔ وہ وقت پڑنے پر مردوں کے ساتھ قدم ملا کر چل بھی سکتی ہے اور آگے بڑھ کر کوئی بھی ذمہ داری بہ خوبی نبھا بھی سکتی ہے ۔ ضرورت ہے اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں استعمال کرنے کی اپنے وجود کو پہچان دینے کی ۔
بشکریہ آگ

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار ۔ Muslim Role in freedom struggle

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار

                                                                                                                                از:            محمد احمد ابن مولانا محمد شفیع قاسمی
                                                                                                                                                رضیة الابرار، سلمان آباد، بھٹکل


                ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔
                غیرملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیئے، پھوٹ ڈالوں اورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہٴ دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔
                ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔
                انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔
                تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہوگئے۔
جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار
                 دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔
                مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی  رحمه الله لکھتے ہیں:
”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔
ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزمی
                ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابوں سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ”گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے“۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔“(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)
جنگ آزادی میں شاہ ولی الله اورانکے شاگردوں کاکردار
                 ٹیپوسلطان کی شہادت نیزہزاروں افرادکے قتل کے بعدملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے، انگریز سیاسی اثرات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشنری ورک بھی کررہے تھے،اس زمانہ میں دینی مدارس بڑی تعدادمیں تباہ کیے گئے،ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی، جس کے بانی شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله (م1762ء )تھے،ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قراردیاگیااورسیداحمدشہیدرائے بریلوی رحمه الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمه الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمه الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ اس ملک کے انسانوں کوآزادی دلانے کے لیے انگریزوں اوران کے اتحادی سکھ ساتھیوں کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛لیکن یہ تحریک چلتی رہی،مولانانصیرالدین دہلوی رحمه الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔انکے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمه الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح یہ جہادکاقافلہ برابررواں دواں رہا؛ حتیٰ کہ سن ستاون 1857ء تک لے آیا۔علماء کی اس تحریک کوانگریزوں نے وہابی تحریک کے نام سے مشہورکیا جو نجد کے محمدبن عبدالوہاب نامی عالم کے نظریات پرمبنی تھی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے اکثر افرادہندوستان ہی کے مشہورعالم شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله  کے تربیت یافتہ تھے،اوریہ تحریک انھیں کے نظریات پرمبنی تھی؛ اس لیے اسے ”ولی اللّٰہی“ تحریک کانام دیا جاناچاہئے۔
انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں علماء کرام کی خدمات
                 1857ء میں شاہ ولی الله اورشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله اورشاہ اسحاق محدث دہلوی رحمه الله  اور انکے شاگردوں کی محنت رنگ لائی، اور 1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمه الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمه الله مولاناسرفراز رحمه الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله ،حافظ ضامن شہید رحمه الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمه الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ فتوی میراہی مرتب کیاہواہے۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ”مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمه الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمه الله کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمه الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی  رحمه الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمه الله  وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمه الله  اورمولانا جعفر تھانیسری رحمه الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمه الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ مولانا جعفر تھانیسری رحمه الله نے جزیرہ انڈمان کی زندگی پربہت ہی مفصل آپ بیتی”کالاپانی“کے نام سے لکھی ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں!
جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار
                1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمه الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمه الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا“۔
                ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله  ”دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے“۔
انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ
                1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعض ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885 ء میں عمل میں آیا۔اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔
جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبندکاکردار
                جنگ آزادی میں اکابردیوبند(حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ،مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، مولانارشیداحمد گنگوہی رحمه الله ) اور فرزندان دارالعلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ، مولاناحسین احمدمدنی  رحمه الله ، مولاناعبیدالله سندھی رحمه الله ، مولانا عزیز گل پیشاوری رحمه الله ، مولانا منصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانا محمداکبر رحمه الله ، مولانا احمدچکوالی رحمه الله ، مولانا احمدالله پانی پتی رحمه الله ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمه الله وغیرہم) کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتداء ہوئی،جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله کے نام سے جانتی ہے، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمه الله :”آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھی رحمه الله نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله  کامشن تھا۔ شیخ الہند رحمه الله کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند رحمه الله  کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن  رحمه الله کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمه الله  کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند رحمه الله  اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ،مولاناعزیزگل پیشاوری رحمه الله ،مولاناحکیم نصرت حسین رحمه الله ،مولاناوحیداحمد رحمه الله وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمه الله کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمه الله کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمه الله  فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند رحمه الله  کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے“جب شیخ الہند رحمه الله ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانافضل محمود رحمه الله ،مولانامحمداکبر رحمه الله  کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمه الله ، مولانا محمداحمدچکوالی رحمه الله ، مولانامحمدصادق کراچوی رحمه الله ، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمدالله پانی پتی، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر رحمه الله ، مولاناابواکلام آزاد رحمه الله ،مولانااحمدعلی لاہوری رحمه الله ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے ۔
                1919ء میں جمعیة علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمه الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمه الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمه الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمه الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمه الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمه الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔
                آپ کی وفات کے بعدآپ کے جاں نثارشاگردمولاناحسین احمدمدنی رحمه الله نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله کی وفات کے بعد1940ء سے تادم آخیرجمعیة علماء ہند کے صدررہے،کئی باربرطانوی عدالتوں میں پھانسی کی سزاسے بچے،آپ انگریزوں کی حکومت سے سخت نفرت رکھتے تھے،آپ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث کے منصب پربھی فائز تھے۔ آزادی کے بعداصلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے،دینی خدمت وتزکیہ نفوس کے مقدس مشن میں لگے رہے،5ڈسمبر1957ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔
تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد
                1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران(مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمه الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمه الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمه الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔1931ء میں مولانامحمدعلی جوہرگول میز کانفرنس (Round Table Conference) لندن میں شرکت کے لیے گئے اوروہیں انتقال کرگئے،حکومت نے اپنے خرچ پر انکی لاش کوبیت المقدس بھیجا،اسی مقدس سرزمین میں آسودئہ خواب ہیں۔
تحریکِ ترک موالات
                1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷)
                1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔انگریزوں کی قیدوبندکے مصائب جھیلنے اورانکی گولیوں کانشانہ بننے والوں کی تعدادتوشمارسے باہرہے۔عام مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے؛مگران اہم لیڈروں اوران اہم واقعات کے بغیرپوری تاریخ ادھوری اورحقیقت سے کوسوں دورہے،جن میں مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمودوغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد کاذکرتاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے؛جس کی یاد دلوں میں تازہ اورتاریخ کی نئی کتابوں میں محفوظ رہنی چاہیے؛ غرض ہرطرح ہرموقع پرمسلمان جنگِ آزادی میں برابرشریک رہے ہیں، جن کوآج فراموش کیاجارہاہے،کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے:
جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے  ہیں  ترا کام نہیں