يورپ کے چند ملکوں ميں مسلم برادری کے خلاف حملوں کا رجحان بڑھ رہا ہے ليکن تاحال يورپی يونين کی جانب سے ايسے حملوں کے اعداد و شمار درج کرنے يا اور انہیں جاری کرنے سے متعلق کوئی موثر حکمت عملی سامنے نہيں آئی ہے۔
’مجھ پر کئی مرتبہ حملہ کيا جا چکا ہے۔ مجھ پر تھوکا گيا، مجھے مارا پيٹا گيا حتی کہ جب ميں حاملہ تھی، مجھے ميرے بيٹے اور ميرے خاوند کے سامنے روندھا تک گيا۔‘‘ يہ بات اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک عورت نے برطانيہ ميں فعال ’ٹيل ماما‘ نامی ايک ويب سائٹ کو بتائی۔ یہ ویب سائٹ برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا ريکارڈ رکھتی ہے۔
’ٹيل ماما‘ نامی يہ ادارہ سن 2012 سے برطانيہ ميں رہنے والے مسلمانوں کی ايک ٹيلی فون ہيلپ لائن کے ذريعے مدد کر رہا ہے۔ ادارے کو فعال بنانے کے ليے متعدد رضاکار اپنی خدمات انجام ديتے ہيں جبکہ اس کی انٹرنيٹ ويب سائٹ کے انتظامی امور کی نگرانی ايک مذہبی فاؤنڈيشن کرتی ہے۔ برطانيہ ميں مقيم مسلمان اپنے خلاف ہونے والے حملوں کے بارے ميں اس ادارے کے ساتھ رجوع کر سکتے ہيں۔
’ٹيل ماما‘ کے ڈائريکٹر فياض مغل نے بتايا کہ پچھلے اٹھارہ مہينوں کے دوران مسلمان اقليت سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مجموعی طور پر بارہ سو حملے کيے گئے۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ رواں سال بائيس مئی کو لندن ميں لی رگبی نامی برطانوی فوجی کے قتل کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں ميں کوئی آٹھ گنا اضافہ ريکارڈ کيا جا چکا ہے۔
دريں اثناء ايلسا رے نے ’ای يو آبزرور‘ نامی ايک اخبار ميں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف حملوں کا رجحان فرانس ميں بھی تيزی سے بڑھ رہا ہے۔ رے اور ان کا ادارہ فرانسيسی اور يورپی سياستدانوں پر الزام عائد کرتے ہيں کہ وہ اس مسئلے سے منہ موڑ رہے ہيں اور عوام کے مابين اسلام مخالف جذبات کو تسليم کرتے ہيں۔
يورپی يونين کی ايجنسی برائے بنيادی حقوق سے تعلق رکھنے والی کاٹيا اينڈروسز کے بقول ايسا لگتا ہے کہ برطانيہ اور فرانس مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا مرکز ہيں تاہم اس حوالے سے يورپی يونين سے متعلق کوئی اعداد و شمار دستياب نہيں۔ ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزيد بتايا، ’’يورپی يونين کی بہت کم رکن رياستيں اس حوالے سے معلومات جمع کرتی ہيں۔ يورپی يونين کی ايجنسی برائے بنيادی حقوق عرصہ دراز سے يونين ميں شامل حکومتوں پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ ايسے اسلام مخالف حملوں سے متعلق اعداد و شمار جمع کريں اور انہيں جاری بھی کريں۔‘‘ اطلاعات کے مطابق يورپی يونين کی اٹھائيس ميں سے صرف چھ رياستيں مسلمان اقليت سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہونے والے حملوں کے بارے ميں ڈيٹا اکھٹی کرتی ہيں۔
کاٹيا اينڈروسز نے ڈی ڈبليو کو مزيد بتايا کہ اس حوالے سے معلومات جمع کرنا کہ حملے کن گروپوں کے خلاف اور کن علاقوں ميں کيے جا رہے ہيں دراصل رکن رياستوں کے مفاد ميں ہوگا۔ تاہم انہوں نے يہ بھی واضح کيا کہ اس بارے ميں لوگوں کا شعور بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہالينڈ، بيلجيم اور جرمنی ميں چند چھوٹی سياسی جماعتيں ايسی بھی ہيں جو لوگوں کو مسلمانوں کی اس خطے ميں ہجرت سے خبردار کرتی ہيں۔
No comments:
Post a Comment