Search This Blog

Wednesday 28 August 2013

شام پر حملے کی تیاری ATTACK ON SYRIA

شام پر حملے کی تیاری 

امریکا اور یورپ نے ایک اور مسلم ملک شام پر حملے کی تیاری کرلی ہے اور ممکن ہے کہ دو، چار روز میں حملہ ہوجائے گا۔ ابھی یہ بات پائے ثبوت کو نہیں پہنچی کہ شام کے علاقے ’’غوطہ‘‘ میں جو کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں وہ کس کی طرف سے ہوئے ہیں۔ روس کا اصرار ہے کہ یہ ہتھیار باغیوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ امریکا اور یورپ کو حملہ کرنے کا جواز مل جائے۔ امریکی صدر اوباما اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ بلاجواز حملہ نہیں کیا جائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ ’’بشارالاسد کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔‘‘ ہتھیار ہیں یا نہیں لیکن اس حوالے سے امریکا کا کردار بہت گندا ہے۔ ایک سابق امریکی ویزر خارجہ جنرل پاول نے اقوام متحدہ میں ثابت کیا تھا کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس انتہائی خطرناک اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس پر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر نے ردا جمایا تھا کہ صدام حسین صرف 25 منٹ میں ان ہتھیاروں کو استعمال کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اور پھر اس مکروہ جھوٹ کا سہارا لے کر سب عراق پر ٹوٹ پڑے، اینٹ سے اینٹ بجادی گئی لیکن کونا کونا چھان مارنے کے باوجود وہ خطرناک ہتھیار کہیں سے نہ ملے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے نے گمراہ کیا۔ اس کے باوجود امریکی فوجیں عراق میں جمی بیٹھی رہیں اور عراقی مسلمانوں کا قتل عام کرتی رہیں۔ صدام حسین کے دور میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے جتنے امریکی قبضہ کے بعد مارے گئے اور اب تک مارے جارہے ہیں۔ شیعہ سنی خونریز تصادم اور روزانہ کے دھماکے صدام حسین کے دور میں تو نہیں ہوتے تھے۔ اب شام اور مصر میں بھی جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے یہی شیطانی طاقتیں ہیں۔ شام پر حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مصر کی صورتحال سے توجہ ہٹائی جائے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ ’’شام میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متفقہ حمایت کے بغیر بھی کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘‘ منگل کو روس اور چین نے حملہ کی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ روس کا اصرار ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں اسد حکومت ملوث نہیں ہے۔ شام میں اگر فوجی مداخلت کی گئی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ تو اسرائیل کو پہنچے گا جو برسوں سے شام کے پہاڑی علاقے جولان پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے جولان کی پہاڑیوں کی بہت اہمیت ہے جہاں سے دمشق کو آسانی سے نشا نہ بنایا جاسکتا ہے۔ شام پر حملہ صرف اسی ملک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پورا مشرق وسطی زد میں آئے گا۔ المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرسکتے بلکہ موت وزندگی کے معاملات میں بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ نام نہاد تنظیم اسلامی کانفرنس کا کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ ترکی بھی شام پر حملہ کرنے کے حق میں ہے۔ دریں اثناء اسد حکومت سے برسر پیکار گروہوں کو بڑے پیمانے پر بھاری اسلحہ پہنچا دیا گیا ہے۔ باغی لیڈروں نے انکشاف کیا ہے کہ سیکڑوں ٹن گولہ بارود اور ہلکا اسلحہ گزشتہ تین دن میں ترکی کی سرحد سے شام کے شمالی علاقے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ اس سال اسلحہ کی سب سے بڑی مقدار اور تعداد ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ اسلحہ سعودی عرب اور قطر سے فراہم کیا گیا تھا جو کئی ماہ سے ترکی کے گوداموں میں رکھا ہوا تھا۔ اسلحہ میں ٹینک شکن میزائل بھی شامل ہیں۔ سلفی ملیشیا احزار الشام کے کمانڈر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ایک باقاعدہ فوج کی طرح سے لڑسکیں گے، ہم کئی ماہ سے محاذ پر پیش قدمی سے محروم تھے۔ باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی سے خانہ جنگی مزید طول کھینچے گی۔ ایران کی طرف سے اسد حکومت کو ہر طرح کی مدد فراہم کی جارہی ہے اور یہ جنگ علویوں (شیعہ) اور سنیوں میں بدل گئی ہے۔ گو کہ اسد خاندان نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے عقائد میں کئی معاملات میں شیعوں سے مختلف ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عالم اسلام کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور امریکا ویورپ کو شام میں فوجی مداخلت سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ شام بھی عراق اور افغانستان جیسے انجام سے دوچار ہوجائے گا جس کا فائدہ اسرائیل اور امریکا کو ہوگا۔ مسلمانوں کا ایک اور ملک تباہی کا شکار ہورہا ہے۔ مصر پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے اور سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔

 

No comments:

Post a Comment