Search This Blog

Sunday 18 August 2013

سیسی فوج کا ابلیسی رقص SISI FAUJ KA IBLEESI RAQS

سیسی فوج کا ابلیسی رقص

عارف بہار

گزشتہ بدھ کو مصر کے ظالم و سفاک جرنیل السیسی کی فوجوں نے اسرائیلی ہتھیاروں اور گولہ بارود سے لیس ہوکر حسن البنا شہید کے خیمہ زن فکری کارواں کو کچھ یوں فتح کیا کہ عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان کیڑے مکوڑوں کی طرح سڑکوں، گلیوں میں پڑے تڑپ رہے تھے، ہسپتال زخمیوں سے اٹ گئے تھے، عفت مآب عورتیں اور پاکباز جوان ہاتھوں میں قرآن اُٹھائے امنِ انسانیت کی دہائی دے رہے تھے۔ وہ اپنا جرم پوچھ رہے تھے، مگر سفاک فوجیں ان پر آسمان سے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ’’میڈ اِن اسرائیل‘‘ لگی مہروں والی اشک آور گیس کے گولے برسا رہے تھے۔ نہتے اور پُرامن لوگ جمہوریت کی دہائی دے رہے تھے اور سفاک فوجی انہیں گولیوں سے بھون رہے تھے۔ دھرنے کے مقام سے پُرامن لوگوں سے جو ’’اسلحہ‘‘ برآمد کیا گیا اور جس کے ڈھیر لگائے گئے وہ قرآن پاک کے نسخے تھے۔ کئی شہید مرکر قرآن سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔
دنیا کا کوئی قانون عوام کے پُرامن احتجاج کے حق کو سلب نہیں کرتا، اور جمہوریت تو جدید تہذیب اور جدید دنیا کی وہ نیلم پری ہے جس کا ماٹو ہی ’’عوام‘‘ ہے۔ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کی خاطر‘‘ کے اس ماٹو میں اوّل و آخر اہمیت عوام کو حاصل ہے۔ عوام کے سوا جمہوریت میں روحانی اور تہذیبی کوئی رچائو نہیں،کوئی پیوند کاری نہیں۔ اسی جمہوریت کو اختیار کرکے مصر میں اخوان المسلمون نے حکومت حاصل کی۔ لیکن یہ حکومت اسرائیل کو ایک آنکھ نہ بھائی، حالانکہ اس حکومت نے اسرائیل کے لیے ایک سال کے عرصے میں کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔ اس حکومت سے ایران کی ولایتِ فقیہ بھی خفا ہوگئی اور سعودی عرب کے سلفی حکمران بھی۔گویا کہ خطے کی سیاست میں دخیل مسٹر و مولانا، آب زم زم پینے والے اور اسکاٹش مشروب کے دلدادہ سب محمد مرسی کی صدارت کے خاتمے میں ایک ہوگئے۔ نہ مذہب کی قید رہی، نہ مسلک کا اختلاف۔ سب اپنے قرض چکا رہے تھے۔ مصر کے لبرلز تو اسے تاریخ کا الٹ پھیر سمجھ کر ہاتھ مل رہے تھے۔ اپنے بیگانے سب مل کر صدر محمد مرسی حکومت کو زندہ درگور کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ اصل دشمن اسرائیل تھا، وہ سمجھتا تھا کہ اگر مصر میں اخوان کی حکومت مضبوط ہوگئی تو نیا ترکی، نیا ایردوان پیدا ہوجائے گا، اور کسی مرحلے پر مصر اور ترکی اشتراکِ عمل کرکے اسرائیل کے لیے سنجیدہ چیلنج بن کر سامنے آئیں گے جو اسرائیل کی موت کے مترادف ہوگا۔اصل خطرہ یہی تھا،باقی سب علاقائی گدھ چھوٹے چھوٹے خدشات اور واہموں کا شکار تھے۔
مصری فوج ایک ناکام،نااہل اور پٹی ہوئی سپاہ ہے جو کبھی کسی جنگ میں مصری عوام کے سر پرفتح کے دوپھول نہیںسجا سکی۔اسرائیل کے ساتھ بھی اسے معرکہ آرائی کا موقع ملا تو یہ فوج پسپائی اور ناکامی کا شکار ہوگئی، لیکن اپنے لوگوں کے لیے یہ فوج اس قدر بہادر ہوگئی کہ نہ صرف اپنا ملک، جمہوری ادارے اورآئین فتح کر بیٹھی بلکہ شیرخوار بچوں اور قرآن بردار عورتوں پر بھی ٹینک چڑھا بیٹھی۔ مصر میں کربلا برپا ہوگئی۔ وہی جلتے خیموں کے مناظر، دھویں کے بادل، وہی یزیدی لشکر جیسی فرعونیت، سفاکی اور تکبر… وہی پاکباز اور پردہ دار خواتین اور ان کے ساتھ بچے… العطش کی صدائیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ فرعون رعمسیس کی دھرتی پر فرعونیت ایک بار پھر لوٹ کر آگئی ہو۔ قاہرہ کے عجائب خانے میں فرعون کی حنوط شدہ لاش بھی اپنے جدید انداز کے جنم پر انگشت بدنداں ہوئی ہوگی۔
قاہرہ کے دھرنوں پر بیٹھے ہوئوں کا مطالبہ اسلامی شریعت تھا نہ وہ خلافتِ اسلامی کے قیام کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ مغرب کی ایجاد، جمہوریت کی بحالی چاہتے تھے۔ وہ اپنے ووٹ پر پڑنے والے ڈاکے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ وہ بیلٹ پر بلٹ کی حکمرانی اور بالادستی تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ لاطینی امریکا، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ملک میں عوام یہ مطالبہ کررہے ہوتے تو امریکا وہاں کے مرسی کو نیلسن منڈیلا جیسا رتبہ دے چکا ہوتا۔ کچھ اور نہیں تو نوبل پرائز کے امیدواروں کی فہرست میں اس کا نام گردش کرنے لگ گیا ہوتا، بی بی سی اور سی این این اپنا سارا زور دھرنے والوں کو قافلہ احرار ثابت کر نے پر لگا چکے ہوتے۔ جمہوریت سے ان کی محبت پر کئی نظمیں اور ناول لکھوائے جا چکے ہوتے۔اقوام متحدہ میں محمدمرسی کے خطاب کی تیاریاں بھی شروع کر ادی گئی ہوتیں۔مگر محمد مرسی مغرب کے محبوب جسے ا ن کی زبان میں ’’ڈارلنگ ‘‘کہا جاتا ہے،کے خانے میں مس فٹ رہے۔اس لیے قاہرہ کی سرزمین ان کے لیے کربلا بن گئی۔
اخوان المسلمون برسوں پہلے دو سوچوں میں بٹ گئی تھی۔ایک سوچ یہ تھی کہ امریکا جدید دنیا کا عالمی استعمار اور طاغوت ہے جو دنیا پر شیطانی حکومت کے قیام کے منصوبے پر کاربند ہے۔مسلم حکمران اور فوجیں اس کی ایجنٹ ہیں۔ان کی حیثیت دہاڑی دار مزدور سے زیادہ نہیں، جنہیں اقتدار ہی اس شرط پر دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں میں بیداری کی ہر لہر کو دباتے اورانہیں مراعات کی نیند آور گولیاں دے کر سلاتے رہیں۔وہ اس کام کے بدلے استعمار سے معاوضہ لیتے ہیں۔جب استعمار انہیں مسلم معاشروں کو تاخت و تاراج کرنے کا حکم دیتا ہے تو پھر یہ کلمہ گو ئی کے رشتے کو بھول کر مسلمانوں پر قہر بن کر نازل ہوتے ہیں۔ جمہوریت،ووٹ اس استعماری تہذیب کے فریب ہیں۔مسلمانوں کو پہلے استعمار کا غلبہ بندوق اور جہاد کے ذریعے ختم کرنا چاہیے پھر اپنے نظریات اور روایات کے مطابق نظام حکومت قائم کرنا چاہیے۔یہ مسلمان ملکوں کو جہاد سے اس لیے مبرا نہیں سمجھتے تھے کہ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یا وہاں حکمرانوں کا مذہب اسلام ہے۔ان کے خیال میں مسلمانوں کی قومی ریاستیں بھی اسی طرح غیر اسلامی ہیں جس طرح کہ امریکا،روس اور بھارت وغیرہ۔یہ طبقہ تکفیری کہلایا۔ اسامہ بن لادن کے دستِ راست ڈاکٹر ایمن الظواہری انہی نظریات کی بنا پر اخوان سے علیحدہ ہونے والوں میں نمایاں تھے۔جبکہ اخوان المسلمون میں غالب سوچ یہ تھی کہ انہیں استعمار کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود دستیاب وسائل اور مروجہ طریقہ کار پر کاربند رہ کر سیاسی اور پرامن جدوجہد کرنا چاہیے۔ان کا خیال تھا کہ بندوق اُٹھانے سے مکالمے اور ابلاغ کا سفر رک جاتا ہے۔یوں آپ سوسائٹی کے بڑے حصے تک اپنی بات پہنچانے کے حق اور سہولت سے محروم ہوجاتے ہیں۔اخوان کی غالب اکثریت اسی راستے پر گامزن رہی۔مرسی حکومت برطرف ہوئی تو سب سے پہلا تیر اپنے انہی دوستوں کی کمیں گاہ سے پھینکا گیا ’’چکھ لیا نا جمہوریت کامزہ،ہم نہ کہتے تھے بندوق اُٹھائو‘‘۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ویڈیو ٹیپ اخوان کی قیادت کو یہی باور کرا رہی تھی کہ انہوں نے جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے کر درحقیقت ڈوبتی ہوئی نائو میں قدم رکھا تھا۔ گویا کہ امریکا، عرب ممالک اور اسرائیل نے مل جل کر مصر میں ڈاکٹر ایمن الظواہری کی سوچ کو سچ ثابت کردیا۔ سیسی فوج کا ابلیسی رقص مصر کو کس نہج پر لے جاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر فی الوقت امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل نے ایمن الظواہری کو مسلم دنیا کا سب سے عظیم دانشور اور دور اندیش فکری راہنما ثابت کردیا ہے۔

No comments:

Post a Comment