Search This Blog

Wednesday 30 May 2012

کچھ باتیں جاپان کی


کچھ باتیں جاپان کی


اطہر علی ہاشمی 

-عزیزم عامرخان چھ برس تک ٹوکیو یونیورسٹی میں جاپانیوںکو اردوپڑھاکر واپس آگئے ہیں۔ اب ان کو جاپانی زبان خوب آگئی ہے ۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹرظفراقبال چھٹیوں میں الباحہ ‘ سعودی عرب سے کراچی آئے ہوئے تھے‘ انہیں ابھی چھ سال نہیں ہوئے اس لیے عربی میں رواں نہیں ہوئے ہیں تاہم اب تو سعودی بھی ’’شویاشویا‘‘ اردوسمجھنے لگے ہیں۔ جدہ میں ایک عرب ٹیکسی ڈرائیورنے پوچھا’’یمین اوسیدھا‘‘ یعنی دائیں طرف مڑوں یا سیدھا لے لوں۔ بہرحال ڈاکٹرظفراقبال سے استفادہ کرنے اور ان کی سرگزشت سننے کے لیے ان کے چاہنے والوں نے کراچی پریس کلب میں ایک عشائیہ رکھا۔یہیں پر عامرخان سے بھی نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ ان سے جستہ جستہ ’’جاپان گزشت ‘‘ بھی سنی۔ بٹ صاحب نے پریس کلب کے سیکرٹری موسیٰ کلیم کو اکسااکساکر ان کے باربارایران جانے اور وہاں کے تجربات سنوانے کا اہتمام کیا‘ ایران اس سرزمین پاک وہند پرہمیشہ سے مہربان رہاہے اور اس نے کئی تحفے برعظیم کو عطاکیے ہیں ان میں قزلباش‘ مہرالنساء عرف نورجہاں‘ محترمہ نصرت بھٹو اور فرح نازاصفہانی سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک بہت سے نوادرات ہیں۔ گیلان ایران کا صوبہ بھی ہے اورشہربھی ۔ ایسے مہربان ملک کو تو باربارجاکردیکھنا چاہیے ۔ شاید اسی شوق میں موسیٰ کلیم وہاں جاتے رہے ہیں اور واپس بھی آجاتے ہیں‘اکیلے۔ اسی طرح یہ محفل قصہ تین درویش والی محفل بن گئی جس میں درویش تو اور بھی تھے مگر وہ لب بستہ رہے۔ عامرخان نے جاپان کے حوالے سے بڑی دلچسپ بات یہ بتائی کہ جاپانی زبان میں گالی نہیں ہوتی۔ بھلا یہ بھی کوئی زبان ہوئی۔ سیدمودودی نے کہیں لکھاہے کہ جب وہ لاہورمیں فروکش ہوئے توپنجابی گالیوں سے بھی آشنا ہوگئے۔ یہ اوربات کہ شاید کبھی تصورمیں بھی کسی کو گالی نہ دی ہو حالانکہ دلی سے نسبت تھی جہاں کے کرخندارمزنگ بازار لاہور کے خوش فکروں سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ شورش کاشمیری مرحوم صحافت اورخطابت میں ایک بڑا نام ہے۔کئی باران کو سننے کا اتفاق ہوا۔ لکھنے اورتقریرکرنے میں یکساں روانی اوربے ساختگی جیسے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ اس روانی اور زبان دانی کا دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب الحمرامارکیٹ مال روڈ میںکوثر نیازی اور شورش کاشمیری کا آمنا سامنا ہوا۔ اس زمانے میںکوثر نیازی کے شہاب اورشورش کے چٹان میںقلمی معرکہ برپاتھا۔مارکیٹ میں بھی شورش نے کوثرنیازی کو لاجواب کردیا۔ ہمارا اسکول کا زمانہ تھا اور قریب ہی کمرشل بلڈنگ میں قیام پذیر ہماری خالہ نے کچھ خریدنے کے لیے الحمراء مارکیٹ بھیجا تھا۔ شورش مرحوم ہاتھاپائی میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ ہاتھ پائوں کے مضبوط ‘ قدآورشخص تھے۔ ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ جاپانی کسی سے لڑتے ہوں گے توکیا کہتے ہوں گے۔ عامرخان کا کہناہے کہ انہوں نے چھ برس کے قیام میں جاپانیوں کو آپس میں لڑتے ہی نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کہ وہ یہ کام گھرجاکرکرتے ہوں۔ ان کی زبان میں سب سے بڑی اور واحدگالی ہے ’’باکا‘‘ ۔ہم یہ سن کر ذرا سنبھل کر بیٹھ گئے کہ اس کے معانی تو بہت ہی فحش ہوں گے۔ معلوم ہواکہ اس کا مطلب ہے ’’پاگل‘‘۔ بھلا بتائیے‘ یہ بھی کوئی گالی ہوئی۔ اردوشاعری میں تویہ لفظ بہت عام ہے مثلاً میں پاگل‘ میرا منواپاگل‘‘ ۔ شاعرخود اپنے آپ کو پاگل کہہ رہاہے اور ممکن ہے صحیح کہہ رہاہو۔ لوگ پیار‘ محبت میں بھی ایک دوسرے کوپاگل‘پگلاکہہ دیتے ہیں۔ اوراردو پنجابی کی گالیاں ‘بقول ابن صفی مرحوم کے تمام کوائف کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ ہمارے شاعرکا تو محبوب بھی گلیارا ہوتاہے۔ ممکن ہے کہ ہیروشیماوناگاساکی کی تباہی اور سامراجی طاقتوں کے سامنے ہتھیارڈالنے کے بعد سے مزاج میں تبدیلی آگئی ہو۔ شایدکوئی جاپانی غاصب اورقابض فوجیوں کو گالی دے بیٹھاہو اس کے بعد سے چپ لگ گئی ہو۔ اب تمام جاپانی چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ اورچلتے پھرتے سائے محسوس ہوئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ جاپانی زبان میں لطیفے بھی نہیں ہیں۔ خیرپاکستان کی وزیرخارجہ محترمہ حنا ربانی کھرجاپان کا دورہ کرآئی ہیںجاپانی اپنی ہی زبان میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ جاپانی وزیرخارجہ صاحب سے ملاقات کی تصویرمیں حنا ربانی تورنگ لارہی ہیں۔ جانے مترجم نے کیا ترجمہ کیاہوگا۔ جاپانی زبان میں لطیفے بے شک نہ ہوں لیکن مذکورہ محفل میں یہ لطیفہ سننے کو ضرورملا۔ امریکا کے مونیکالیونسکی فیم صدر بل کلنٹن ٹوکیو آرہے تھے۔ جاپان کے وزیراعظم کو انگریزی کے چند خیرمقدمی جملے یاد کرائے گئے۔ جب بل کلنٹن سے ملاقات ہوئی توجاپانی وزیراعظم نے رٹا ہوا جملہ ادا کیا ’’ہائوآریو؟‘‘ بھلاہوجاپانی تلفظ کا کہ HOW کی ادائیگی WHO کی طرح ہوئی یعنی ہوآریو؟ بل کلنٹن کو شوخی یا مسخری سوجھی۔ امریکی اس میں ماہرہیں۔ انہوں نے ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا’’I am Husband OF Heleri‘‘ (میں ہیلری کا شوہرہوں)۔ جاپانی وزیراعظم نے دوسرا تیارجملہ اچھال دیا۔ ’’ME Too‘‘ ۔یعنی میں بھی۔ راوی اس پرخاموش ہے کہ بل کلنٹن کا اس پرکیا ردعمل تھا۔ شاید دل ہی دل میں کہاہو’’ You too۔‘‘ یہ جملہ ہیلری کے لیے بھی ہوسکتاہے۔ ہیلری کلنٹن وہی خاتون ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں دعویٰ کیاہے کہ ایمن الظواہری‘ پاکستان میں ہیں۔ اس پر ایس ایم ایس چل رہے ہیں کہ یہ بات وہ کہہ رہی ہیں جنہیں اتنا نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیڈروم میں مونالیونسکی ہیں۔ یہ ان لوگوں کی خوش گمانی ہوسکتی ہے جو امریکی کلچرسے پوری طرح واقف نہیں‘ ہیلری کلنٹن بڑی باخبرخاتون ہیں‘خاتون اول بنے رہنے کا شوق سمجھوتوں پر مجبورکردیتاہے۔کہیں کہیں ’’مرداول‘‘ بھی سمجھوتوں پرمجبورہوتے رہے ہیں۔ عامرخان نے بتایاکہ ایک ہوٹل میں دو پاکستانیوں میں سے ایک نے دوسرے کو ایک سخت گالی دے دی جس پر جھگڑا‘ شروع ہوگیا۔ پولیس آگئی۔ اس کو گالی کا مفہوم ہی سمجھ میں نہیں آیا ۔ پولیس افسرپوچھتے رہے کہ کیا اس شخص نے تمہاری والدہ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے‘ والدہ اگرپاکستان میں ہے توکیا یہ شخص پاکستان گیاتھا؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو جھگڑا کس بات پر؟آخرگالی کھانے والے نے ہاتھ جوڑدیے۔ ممکن ہے کہ اپنی زبان میں دوچارگالیاں بھی دی ہوں۔ جن کی زبان میں سرے سے گالیوں کا تصورہی نہ ہو وہ ان کی ’’چاشنی‘‘ کیا سمجھیں گے۔ عربی سے ناواقف پاکستانی بھی توسعودیوںکی تعریف کرتے رہے ہیں کہ شاباش ہے اس قوم کو‘گالی کے جواب میں بھی تلاوت ہی کرتے ہیں۔ گالیوںکے انتخاب میں عرب بھائی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں‘کلّاب‘ حمار اوردجال تو زبان زدعام ہیں۔ سناہے کہ وہ پاکستانی جوبرطانیہ کے کارخانوں‘ خاص طور پرنیو کاسل وغیرہ میں مزدوری پرگئے تھے ان کا جب انگریز ساتھیوں سے جھگڑاہوتاتھا تو انگریزی کی گالیوں سے جی نہیں بھرتاتھا۔ جتنی یاد تھیں وہ دے کر’’And More Over‘‘ کہہ کرغبارنکالتے تھے۔ اب تو خوب رواں ہیں۔ جاپای زبان’’بے گالی‘‘ سہی لیکن جاپانیوں کی اپنی زبان توہے ہرقوم کی ہوتی ہے۔ گونگی توپاکستانی قوم ہے کہ اپنی کوئی زبان ہی نہیں۔ ان سے بھی انگریزی میں بات ہوتی ہے جو اپنی زبان بول رہے ہوتے ہیں۔ بحریہ کے سابق سربراہ اور موجودہ چیئرمین نیب فصیح بخاری نے توانگریزی کے سواکسی اورزبان میں بات کرنے ہی سے انکارکردیا تھا کہ مجھے اردونہیں آتی۔ اردونہ سہی‘ ان کی کوئی مادری زبان توہوگی‘ وہ زبان جس میں ماں نے لوریاں سنائی ہوں گی‘ باپ‘دادا سے جس زبان میں بات کرتے ہوں گے۔ کیا اپنے بزرگوں سے بھی انگریزی بولتے رہے؟ ہمارے وزیراعظم تو انگریزی میں انٹرویودیتے ہوئے سوال ہی نہ سمجھ پائے اورکچھ کا کچھ کہہ گئے۔ وہ بھی کوئی ترجمان کیوں نہیں رکھ لیتے۔ اب تک مذاق بن رہاہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے جاپانی وزیراعظم کی طرح یہ نہیں کہا’’Me Too‘‘ ۔

Sunday 27 May 2012

شوگر بیماری اور موٹاپا

شوگر بیماری اور موٹاپا


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’ایک بار شوگر بیمار ہمیشہ کیلئے شوگر بیمار‘‘ ۔کسی بھی انسان کیلئے یہ خوش آئندبات نہیں اور نہ ہی کوئی اسے دل سے قبول کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایک بار شوگر بیماری میں مبتلا ہوکر زندگی کے آخری لمحات تک اس کے ساتھ لڑتا رہے مگر کیا کیجئے یہ سچ ہے کہ 61ملین ہندوستانی لوگوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ہے۔محققین شب وروز سرگردان ہیں کہ وہ کسی طرح شوگر بیماری پر قابو پاسکیں تاکہ دیر نہ ہوجائے۔ سائنسدان دن رات محنت کر رہے ہیں تاکہ وہ یہ پتہ لگانے میںکامیاب ہوں کہ شوگر بیماری کی پیچیدگیوں پر کس طرح کنٹرول کیا جاسکے۔ جہاں تک شوگر بیماری کا سوال ہے، ڈاکٹروں کو کئی سوالات پریشان کر رہے ہیں ،ان میں ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ شوگر بیماری اور موٹا پا میں کیا ربط ہے۔
موٹا پا ایک خطرناک بیماری ہے، یہ انسان کی ظاہری صورت بگاڑنے کے علاوہ کئی بیماریوں کو دعوت دیتا ہے،جن میں ہڈیوں کی بیماریاں اور کئی خاص قسم کی سرطانی بیماریاں قابل ذکر ہیں۔ موٹا پا یعنی انسان کے جسم میں حد سے زیادہ چربی کا جمع ہونا مقاومتِ انسولین پیدا کرکے، انسولین کے عمل کو ناکارہ بناکر خون میں شوگر کی سطح کو بڑھاوا دیتا ہے۔ لیکن موٹا پا کے بارے میں صرف یہ کہنا کہ جسم کی چربی میں اضافہ ہوناہے، صحیح نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ چربی کو اپنا دشمن قرار دینے لگیں، چلئے ہم چربی سے متعلق کچھ حقائق سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کریں گے۔ چربی انسانی جسم کی کارکردگی کیلئے اہم ترین رول ادا کرتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے جسم میں چربی کی مقدار نارمل سے کم ہوجائے تو جسمانی اور نفسیاتی صحت پر زبردست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کتنی چربی ضروری ہے اور کتنی زیادہ ہے۔
جسم میں موجود چربی (جسے حیاتیاتی طور اور ڈاکٹری اصلاح میں ’’ایڈی پوزٹشو‘‘ کہا جاتا ہے) مخصوص قسم کے خلیات ،جن کو خلیات چربی کہا جاتا ہے ، سے بنتی ہے۔ چربی کے یہ خلیات قدرت نے اس لئے تخلیق کئے ہیں کہ یہ چربی سے حاصل شدہ توانائی کو ذخیرہ کرسکیں تاکہ وہ توانائی بوقت ضرورت کام آسکے۔ جب آپ کے جسم نے آپ کی لی ہوئی غذا سے حسب ضرورت حرارے حاصل کئے تو باقی ماندہ یا اضافی حرارے چربی میں تبدیل ہوکر چربی کے خلیات میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ توانائی ذخیرہ کرنے کیلئے ایک قسم کا عارضی طریقہ ہے جو بعد میں توانائی کی کمی کے وقت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ کتنے بھی دبلے پتلے کیوں نہ ہوں، آپ کے جسم کا کچھ حصہ چربی تشکیل دیتا ہے۔ جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے کیلئے جو کم از کم چربی ضرورت ہے، اُسے لازمی چربی کہا جاتا ہے۔ عمومی طور لازمی چربی عورتوں میں 12 فیصد اور مردوں میں تین فیصد سے پانچ فیصد ہوتی ہے۔ عورتوں کو چربی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بچے جننے اور ہارمون اعتدال میں رکھنے کے چلینج کا مقابلہ کرسکیں۔ مسئلہ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب چربی کی کل مقدار جسم کے نارمل وزن کے حساب سے زیادہ ہوجائے۔ علاوہ ازیں صرف یہ اہم نہیں ہے کہ آپ کے جسم میں کتنی چربی ہے بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کہ یہ چربی جسم کے کن حصوں میں موجود ہے۔
جسمانی چربی کے اقسام: جسمانی چربی کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے
(1)  اندرونی یا پوشیدہ چربی
یہ وہ چربی ہے جو جسم کے اندرونی اعضاء مثلاً جگر ، معدہ، انتڑیوں اور گردوں کے ارد گرد ہوتی ہے۔ چوں کہ یہ اعضاء پیٹ یا اس کے نزدیک موجود ہیں۔ اس لئے ان میں حد سے زیادہ چربی مرکزی موٹا پا کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے یعنی پیٹ کی چربی کی صورت میں ذخیرہ ہوتا ہے، اسلئے اسے پیٹ کی چربی یا شکمی چربی کا نام دیا گیا ہے۔ مردوں میں شکم کی چربی زیادہ ہوتی ہے۔
قلبی چربی:۔
ایک خاص قسم کی چربی، جو دل کی بیرونی تہہ پر موجود ہوتی ہے، اسے ’’اچھی چربی‘‘ تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ اس سے کئی فائدے ہیں ۔ اس چربی میں کئی اہم ہارمون ذخیرہ ہوتے ہیں جو خلیات کی کارکردگی اور التہاب کو کم کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ اگر یہ چربی ضرورت سے زیادہ ہوتو کئی بیماریاں شروع ہوتی ہیں۔ اچھے اور بُرے کولسٹرول کے درمیان اعتدال رکھنا اسلئے ضروری ہے تاکہ چربی کی سطح نارمل رہے۔ چربی کا حد سے زیادہ جمع ہونا اور خون کی نالیوں میں رکاوٹ کا پیداہونا اُن لوگوں میں عام ہے جو موٹا پا (اور پھر اضافی وزنی) کے شکار ہوں۔ دل کی بیماریوں سے بچنے کیلئے موٹاپا کم کرنا ضروری ہے اور ایک منظم و مرتب اور پاکیزہ طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔ روزانہ ورزش کرنے سے اچھے کولسٹرول کی سطح بڑھائی جاسکتی ہے اور پیٹ کی چربی اور پوشیدہ چربی کو گھٹانے سے بُرے کولسٹرول کی سطح کو کم کیا جاسکتا ہے۔ شوگر بیماری کا قبل از وقت پتہ لگاجاسکتا ہے اگر وقت وقت پر خون میں شوگر کی سطح کا پتہ لگایا جاسکے اور ہر تین ماہ بعد HbA,cٹیسٹ کیا جائے۔ اسکے علاوہ بلڈپریشر کو چک کرواکے اسے قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بہت زیادہ موٹے لوگوں کو ہی ہارٹ اٹیک ہوتا ہے، جی نہیں صرف چربی کی حد سے زیادہ مقدار اور ہارٹ اٹیک میں کوئی رابط نہیں ہے۔ چربی کی معمولی مقدار بھی ہارٹ اٹیک کی وجہ بن سکتا ہے۔ اسلئے خون میں چربی کی مقدار جانچنا ضروری ہے۔
زیر جلد چربی:۔
جسم کی جلدکی نیچے والی چربی عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ زیادہ تر چربی عورتوں میں کولہوں کے اطراف میں ہوتی ہے۔ مردوں ور عورتوں کے جسموں میں چربی کی تقسیم کیلئے مردانہ اور زنانہ ہارمون ذمہ دار ہیں۔
شوگر بیماری پر ایک حالیہ سمپوزیم میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اندرونی یا پوشیدہ چربی شوگر بیماری کی ایک اہم ترین وجہ ہے اور اگر شوگر بیمارکا وزن اور چربی نارمل حدود میں ہے تو انسولین کی حساسیت میں اضافہ ہوتا ہے اور خون میں شوگر کی سطح قابو کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں آتی ہے۔
اُبھار کہاں ہے:۔ ہمارے سماج میں پھولے ہوئے پیٹ کو خوشحالی اور امیری سے تعبیر کیا جاتا تھا لیکن اب نظر یہ بدل گیا ہے۔ اب اکثر لوگ خاص کر نوجوان اپنی جسمانی ساخت کی طرف توجہ دینے لگے ہیں۔ لیکن پھر بھی بعض لوگ اپنے پیٹ کی طرف خصوصی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ پھولے ہوئے پیٹ میں جو چربی ذخیرہ ہوتی ہے۔ وہ بڑی تیزی سے ہارمون ترشح کرتی ہے (جسے ایڈی پوکائینز کانام دیا گیا ہے) یہ ہارمون شوگر کے اتار چڑھائو میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شوگر بیماری اور موٹاپا میںخاص رابطہ ہے، یوں کہئے کہ موٹا پا اور شوگر لازم و ملزم ہیں۔
پیٹ کی چربی سے ترشح ہونے والے ہارمون انسولین کی تاثیر کو کم کرسکتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ لبلبہ جسمانی ضرورتوں کے مطابق انسولین پیدا کر رہا ہے مگر جسم کے خلیات انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور جب انسولین صحیح ڈھنگ سے اپنا کام انجام نہیں دے سکتا ہے تو خلیات اپنی توانائی کے لئے شوگر کو مناسب طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔ اس طرح غذاسے حاصل شدہ شوگر (گلوکوز) خون میں جمع ہوتا ہے اور آپ کا معالج آپ کا ٹیسٹ کرنے کے بعد آپ کو یہ خبر سناتا ہے کہ آپ کا خون بہت زیادہ شیرین ہوا ہے یعنی آپ کا بلڈ شوگر بڑھ گیا ہے اور آپ زیا بیطس کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں اور یہ ایک گھمبیر صورتحال ہے۔
اب جسم میں شوگر نارمل رکھنے کیلئے دوائیوں یا انسولین کی ضرورت ہے۔ اگرچہ لبلبہ انسولین برابر پیدا کررہا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ لبلبہ پر مسلسل دبائو اس پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور یہ ہر وقت حسب ضرورت یا بااندازہ کافی انسولین پیدا نہیں کرتا رہے گا۔ اب آپ کی سمجھ میں آیا ہوگا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوجائے گا، اسلئے ایسا ہونے سے پہلے آپ جاگ جائیں اور اپنے پیٹ کی طرف دیکھیں کہ کہیں اس میں چربی زیادہ جمع تو نہیں ہوگئی ہے۔
جسم کی چربی کو کس طرح ناپا جاسکتا ہے:۔
عمومی طور ایک فرد کا نارمل (صحت مند) وزن اسکے جسمانی حُجم (BMI) سے ناپا جاسکتا ہے۔ نارمل بی ایم آئی 18.5 سے 25 تک ہوتا ہے لیکن بی ایم آئی پر جنس اور نسل اثر انداز ہوسکتا ہے۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ بی ایم آئی صرف وزن اور قدر کو مدنظر رکھ کر نا پا جاتا ہے جب کہ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ جسم کا کتنا حجم چربی تشکیل دیتا ہے۔ اسلئے بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جسم میں اضافی چربی کا پتہ لگانے کیلئے آسان طریقہ یہ ہے کہ کمر کو ناپا جائے، کوئی بھی اپنی کمر کو ناپ سکتا ہے۔ عورتوں کیلئے80 سینٹی میٹر اور مردوں میں 90 سینٹی میٹرکا کمر نارمل ہے۔ اس سے زیادہ کا مطلب ہے کہ جسم میں اضافی چربی جمع ہوچکی ہے۔ وزن کم کرناذرا مشکل ہے، ناممکن نہیں ہے۔ کہنا آسان اور کرنا کٹھن ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ ہمارے اجسام وزن کم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں۔ہمارے جسموں (خاصکر عورتوں ) کو موٹا پا کے ساتھ ایک عجیب سی نسبت ہے۔ ایک طرف جہاں بھوک اور سوعہ تعذیہ ایک ہم مسئلہ ہے وہاں شوگر بیماری ایک وبائی روپ اختیار کر رہی ہے۔ اکثر عورتیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کھاتی ہیں ،پھر بھی اُن کا وزن بڑھتا رہتا ہے۔ …  ’’کچھ نہیں کھانا‘‘اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ اس سے بھی وزن بڑھتا ہے۔ ضرورت کے مطابق اور عمر، قد اور وزن کے حساب سے غذا کھانا بے حد ضروری ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون کیا کھاتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ایک فرد کتنے حرار ے استعمال کرتا ہے۔ شاید آپ کا جسم چربی کی صورت میں آپ کے اضافی حرارے جمع کرتا ہے تاکہ بوقت فاقہ کشی کام آسکیں۔ شاید کسی نے آپ کے جسم سے یہ نہیں کہا کہ آپ کے کچن میں کافی مقدار میں غذا موجود ہے۔ جو کہا گیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی موٹا پا اور پھر شوگر بیماری کا شکار ہوگا، نہیں…۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کو سمجھنا اور پھر حل ڈھونڈنا ہے۔ موٹاپا سے بچنے کیلئے اور پھر شوگر بیماری سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنا طرز زندگی بدل دیں اور اپنے وزن کو اعتدال میں رکھیں تاکہ اضافی چربی ذخیرہ نہ ہوسکے۔ اگر آپ شوگر بیماری میں مبتلا ہیں اور موٹا پا کے شکار ہیں تو فوری طور اپنا وزن اور چربی کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ اپنے شوگر کو کنٹرول کرسکیں۔

تمنا . شاہ نواز فاروقی

تمنا

شاہ نواز فاروقی
-انسان کے خیالات معمولی چیز نہیں۔ انسان جیسا سوچتا ہے ویسا بن جاتا ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ سوچنے کا عمل صرف ذہن تک محدود نہ رہے بلکہ وہ پورے وجود کی پکار بن جائے۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ ہماری زبان کے تین لفظ ہیں: خواہش، آرزو اور تمنا۔ کہنے کو تو تینوں الفاظ ہم معنی ہیں اور شاعری میں اکثر ان کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، اور ایسا کرنا غلط بھی نہیں۔ تاہم غور کیا جائے تو یہ تین الفاظ وجود کی تین مختلف سطحوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواہش کا لفظ وجود کے کسی ایک گوشے کی علامت ہے۔ یعنی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’ہماری خواہش یہ ہے‘ تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارے وجود کا ایک گوشہ فلاں شے کی طلب محسوس کررہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وجود کا یہ حصہ صرف ہمارا ذہن ہو، ہماری کوئی جبلت ہو۔ لیکن جیسے ہی ہم آرزو کا لفظ استعمال کرتے ہیں صورتِ حال تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ آرزو وجود کے کسی گوشے کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ آرزو کا لفظ اس بات کا اظہار ہے کہ اب کسی چیز کی طلب میں وجود کے ایک سے زیادہ گوشے شریک ہوگئے ہیں۔ مثلاً کوئی شے ذہن کو بھی درکار ہے اور جبلتوں کو بھی مطلوب ہے۔ ایک شعر ہے ؎ خواہش سے کب ہے تیری طلب آرزو سے ہے اک سمت سے نہیں یہ غضب چار سُو سے ہے اگرچہ آرزو اور تمنا تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں، لیکن ان لفظوں کو ان کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے تو آرزو بھی ایک محدود تصور ہے۔ خواہش، آرزو اور تمنا میں جامع ترین لفظ تمنا ہے۔ خواہش اگر کنواں ہے تو آرزو جھیل ہے اور تمنا سمندر۔ خواہش اگر صرف جسم ہے تو آرزو جسم اور نفس کی یکجائی کی علامت ہے، اور تمنا بیک وقت جسم، نفس اور روح کا استعارہ۔ خواہش اگر ماضی ہے تو آرزو ماضی اور حال پر محیط حقیقت، اور تمنا ماضی، حال اور مستقبل کا مرکب۔ غالب نے تمنا کے حوالے سے ایک بے مثال شعر کہہ رکھا ہے۔ غالب نے کہا ہے ؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پایا غالب نے اس شعر میں ’’موجود‘‘ نہیں ’’ممکن‘‘ کو بھی تمنا کا محض ایک قدم قرار دیا ہے۔ اردو شاعری میں تمنا کا اس سے زیادہ بامعنی استعمال اور کہیں موجود نہیں۔ البتہ میرؔ نے تمنا کے لفظ میں معنی کی ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے، میرؔ نے کہا ہے ؎ تمنائے دل کے لیے جان دی سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے میرؔ نے اس شعر میں تین کام کیے ہیں۔ ایک کام تو انہوں نے یہ کیا ہے کہ انسانی وجود میں تمنا کے مرکز کی نشاندہی کردی ہے اور بتایا ہے کہ وہ دل کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ میرؔ نے دوسرا کام یہ کیا ہے کہ تمنا کو معلوم سے محسوس بنادیا ہے۔ میرؔ نے تیسرا کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے بتادیا کہ انسانی جان اتنی قیمتی ہے کہ اسے صرف پورے وجود کے تقاضے کی نذر کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ جبلت کے کسی تقاضے کے لیے جان نہیں دی جاسکتی۔ صرف ذہن کے مطالبے پر جان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں دل کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب میں دل کی سب سے بڑی تمنا صرف ایک ہے، اللہ تعالیٰ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ اس کے ہونے سے ہر شے موجود ہے، اس کے ہونے سے ہر چیز میں معنی ہیں۔ مذاہب بالخصوص اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شعوری طور پر زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے بڑی تمنا سے منسلک کردیتا ہے۔ نومولود کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اللہ ہی بڑا ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں۔ اسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اسے فلاح اور نماز کی طرف آنا چاہیے، یہاں تک کہ اس کی زندگی میں نماز ’’قائم‘‘ ہوجائے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک مسلمان کی زندگی کا جامع دستور ہے اور ساری زندگی اس دستور کی تفصیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خدا پر ایمان اور اس کے قرب نے کہیں انسان کو پیغمبر بنادیا ہے، کہیں ولی بناکر کھڑا کردیا ہے، کہیں وہ زمین پر اللہ کا نائب بن گیا ہے، کہیں اسے اشیاء پر تصرف حاصل ہوگیا ہے۔ ہماری تہذیب میں خدا پر ایمان نے تفسیر کی بے مثال روایت پیدا کی، علم حدیث کا سمندر تخلیق کیا، سیرت پر ادب کے بحرِ زخار کو جنم دیا، شاعری کی عظیم الشان روایت کو خلق کیا، فقہ کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی، فنِ تعمیر کے بے مثال نمونے دنیا کو دیے، جہاں بانی اور جہانگیری کی شاندار روایات قائم کیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ایمان کی روایت نے علم پیدا کیا ہے تو اس میں کمال کی کیا بات ہے؟ اس لیے کہ تشکیک نے بھی دنیا میں علم کی بڑی روایت پیدا کی ہے۔ اور وہ غلط نہیں کہتے۔ لیکن تشکیک کے علم کی سطح تشکیک ہی کی طرح سست ہے۔ تشکیک کی روایت کے پیدا کردہ علم کی پائیداری کا یہ حال ہے کہ مغرب میں تشکیک زدہ فلسفی دو تین دہائیوں میں ’’پرانے‘‘ ہوجاتے ہیں۔ کارل مارکس نے تشکیک کی بنیاد پر علم کا ’’تاج محل‘‘ تعمیر کیا تھا، مگر یہ تاج محل صرف 70 سال میں کھنڈر بن گیا اور آج اس تاج محل کی باقیات کو کہیں اور کیا ماسکو میں بھی لوگ ’’آثار قدیمہ‘‘ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ ماسکو وہ شہر ہے جہاں مارکس کو 70 سال تک پوجا گیا ہے۔ اس کے برعکس غزالیؒ اور رازیؒ تقریباً ایک ہزار سال سے زندہ ہیں، لیکن یہ زندگی غزالیؒ اور رازیؒ کی زندگی نہیں اُن کے موضوعات کی زندگی ہے جن میں الٰہیات کا موضوع سرفہرست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غزالیؒ اور رازیؒ کی عظمت ان کی تمنا کی عظمت ہے۔ بلاشبہ بڑی چیز کی تمنا بھی انسان کو بڑا بنادیتی ہے۔ اس کے برعکس چھوٹی چیز کی تمنا انسان کو چھوٹا بنادیتی ہیٖ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ادب میں ’’عشقِ حقیقی‘‘ کے ساتھ ’’عشقِ مجازی‘‘ کی اصطلاح بھی مروج تھی، اور ہماری شعری روایت میں بڑی شاعری وہ تھی جو بیک وقت محبوبِ حقیقی اور محبوبِ مجازی کے بیان پر مشتمل ہو۔ اس شاعرانہ روایت میں محبوبِ حقیقی خدا تھا اور محبوبِ مجازی انسان۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک ہماری شاعری ’’حقیقت‘‘ کے شعور کی حامل تھی اُس وقت تک ’’مجاز‘‘ بھی حسین تھا، جمیل تھا، بامعنی تھا، اور اس کا عشق بھی عشق کہلانے کا مستحق تھا۔ لیکن عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا تعلق یہ ہے کہ جب تک مجازی عشق، عشقِ حقیقی سے جڑا ہوا ہے اُس وقت تک وہ عشق ہے، لیکن عشقِ حقیقی سے تعلق توڑتے ہی عشقِ مجازی صرف ’’ہوس‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری روایت میں بڑی تمنا سے وابستگی یا عدم وابستگی تصورات اور اشیاء کی حقیقت اور معنویت کو اسی طرح تبدیل کرتی ہے۔ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ وہ خواہش، آرزو اور تمنا کے فرق سے آگاہ نہیں، اور اس نے اکثر صورتوں میں خواہش ہی کو تمنا سمجھ لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو سرے سے وجودِ باری تعالیٰ کے قائل ہی نہیں، چنانچہ خدا ان کی تمنا ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو خدا کو مانتے تو ہیں مگر انہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں، یعنی انہوں نے بڑی تمنا میں خدا کے ساتھ ان کو بھی شریک کرلیا ہے جو ہرگز خدا کہلانے کے مستحق نہیں۔ رہے مسلمان، تو ان کی بڑی تعداد کے لیے خدا محض ایک عقیدہ، محض ایک تصور ہے۔ وہ ان کی تمنا نہیں ہے۔ ان کے پورے وجود کی پکار نہیں ہے۔ خدا سے مسلمانوں کی محبت اکثر صورتوں میں پارٹ ٹائم محبت ہے۔ تو پھر مسلمانوں کی ترجیح اوّل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک لفظ میں ہے: دنیا۔ مسلم معاشرے اپنے بچوں کو شدت، گہرائی اور تواتر کے ساتھ صرف ایک بات بتارہے ہیں: تمہیں پڑھنا ہے اور دل لگا کر پڑھنا ہے، تمہیں محنت کرنی ہے اور جان توڑ محنت کرنی ہے، تمہیں تعلیمی محاذ پر کامیاب ہونا ہے اور بہترین انداز میں کامیاب ہونا ہے تاکہ تم ایک اچھا روزگار حاصل کرسکو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزگار ہماری سب سے بڑی تمنا بن گیا ہے۔ اصول ہے: انسان روشنی کے ساتھ رہتا ہے روشنی بن جاتا ہے، عطر بناتا ہے تو اس سے خوشبو آنے لگتی ہے، کوئلوں کا کام کرتا ہے تو اس کے ہاتھ کالے ہوجاتے ہیں۔ ایسی باتوں کو لوگ دنیا کے انکار کے مترادف سمجھتے ہیں۔ لیکن دنیا کے اقرار اور دنیا کی پوجا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدا انسان کی تمنا ہو تو دنیا اپنے مقام پر رہتی ہے، ورنہ دنیا خود خدا بن جاتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت اصل چیز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے بینک اکائونٹ میں پچاس ارب روپے ہوں اور وہ انہیں پچاس روپوں کے برابر سمجھتا ہوں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بسا اوقات انسان پچاس روپے کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لیتا ہے۔ یہی دنیا کے تمنا بن جانے کی صورت ہے۔

Friday 25 May 2012

آج کا ترکی .... ایک روشن مثال

آج کا ترکی .... ایک روشن مثال .

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ 
آج سے کئی برس قبل جب میں ترک دوست بعصوص سلیم کےساتھ استنبول کی ایک بڑی عمارت میں داخل ہوا تو میں سمجھا کہ ہم یہاں کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں آ گئے ہیں۔ فرش پر سرخ رنگ کے قالین بچھے ہوئے تھے حتیٰ کہ سیڑھیوں پر بھی قالین بچھا تھا۔ لفٹیں تیزی سے اوپر نیچے آ جا رہی تھیں۔ ابھی تک میں عالم حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ ہوٹل ہے یا کارپوریشن کا دفتر، اتنے میں ہم ڈپٹی ڈائریکٹر قدیربے کے دفتر میں قدم رکھ چکے تھے۔ قدیربے نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور استنبول کارپوریشن کی تاریخ اور منصوبوں کے بارے میں آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی کتاب مجھے پیش کی۔ اسی اثناءمیں انہوں نے کارپوریشن کے چیف ایڈمنسٹریٹر کو ہماری آمد کے بارے میں بتایا۔ اس مردِ شفیق نے باقی مصروفیات ترک کر کے فرمایا کہ میں ”مسافر“ کےلئے چشمِ براہ ہوں۔
ڈاکٹر ارمن ٹنسر نہایت تپاک سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ میٹروپولیٹن گورنمنٹ کو سٹی کونسل تشکیل دیتی ہے۔ یہ سٹی کونسل 199 ارکان پر مشتمل ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ استنبول کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی جماعت کو دوسری ٹرم کےلئے منتخب کیا گیا ہو۔ رفاہ کے میر رجب طیب اردگان نے ایک ٹرم میں ایسے کام کئے جو کارپوریشن کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے لگن اور جانفشانی سے کام کیا اور استنبول کے شہریوں کو وہ وہ سہولتیں بہم پہنچائیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ اُنکی دیانت، امانت، محنت اور جانفشانی کے چرچے دور نزدیک ہر جگہ پہنچ گئے۔ وہ اہل استنبول کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ 
اس وقت میں رجب طیب اردگان سے نہ مل سکا کیونکہ وہ پسِ دیوار زنداں تھا۔ ایک ”جذباتی“ تقریر کی پاداش میں ترکی کی فوجی عدالت نے انہیں یہ سزا دی۔ تب طیب اردگان نے دل میں یہ ٹھان لی کہ خدمت خلق کا جو جرم انہوں نے استنبول میں انجام دیا ہے وہ جرم اب اُن سے ترکی کے چپے چپے میں سرزد ہو گا۔ وہ جیل سے رہا ہوئے، انہوں نے کھربوں کی کرپشن والی استنبول کارپوریشن کو یوں پاک صاف کیا کہ اپنے پرائے سب پکار اٹھے کہ اب یہاں ایک لیرے کی بھی بدعنوانی نہیں ہوتی۔ 
جن دو شخصیات کی اذانوں نے ترکی کو بیدار کیا ہے ان میں استاد بدیع الزماں نورسی اور پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔ اربکان ترکی کے وزیراعظم بھی رہے اور اِنکا انتقال 2011ءمیں ہوا۔ استاذ نجم الدین اربکان نے 9 ماہ میں ”ملی گورش“ کے نام سے نوجوانوں کی تحریک شروع کی۔ ترکی کے فوجی حکمرانوں نے اُن کا راستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور انکی جماعت پر پابندی عائد کر دی۔ وہ ہر پابندی کے بعد نئی جماعت بنا کر میدان میں نکل آئے۔ ملی نظام پارٹی، پھر سلامت پارٹی، پھر رفاہ پارٹی، پھر فضیلت پارٹی، اسکے بعد سعادت پارٹی۔ ترکی کے موجودہ حکمران رجب طیب اردگان اور صدر ترکی عبداللہ گل پروفیسر نجم الدین اربکان کے ہی ساتھی اور شاگرد ہیں، سیاسی طریق کار سے اختلاف پر اُن سے الگ ہوئے۔ انہوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) بنائی اور دو بار کے بعد اب تیسری مرتبہ برسر اقتدار آ گئے ہیں۔ 
رجب طیب اردگان کی اس مخیر العقول اور عظیم کامیابی کا راز بڑا سادہ ہے۔ وہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ اپنی ذات کی نفی اور عوام کی خدمت بلکہ بے پناہ خدمت۔ طیب اردگان سے پہلے گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چند ترک دوستوں سے میں نے اسلام آباد میں پوچھا کہ طیب اردگان کی پے بہ پے کامیابیوں کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ترکی میں دکانداروں سے پوچھیں، گاہکوں سے پوچھیں، طلبہ سے پوچھیں، حکومتی ملازمین سے پوچھیں یا پرائیویٹ اداروں کے اہلکاروں سے پوچھیں آپ کو ایک ہی جواب ملے گا ہم طیب اردگان کےساتھ ہیں، ہم اس سے دل و جان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ہم اسے کھونا نہیں چاہتے۔ اس نے ترکوں کی حالت بدل دی ہے، اس نے ہمیں فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا ہے، وہ ایک دیانتدار اور دردمند حکمران ہے۔ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے سروے کےمطابق ترک عوام حکومت کی تعلیمی پالیسی، اسکی اقتصادی پالیسی اور صحت پالیسی سے بہت خوش ہیں تقریباً 60 فیصد عوام حکومت کے اقدامات سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ دل و جان سے ان خوشگوار کاموں کی قدر کرتے ہیں۔ 
ترک عوام پہلے ہسپتالوں میں ذلیل و خوار ہوتے تھے، غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ ڈاکٹر مریض کو انسان نہیں سمجھتے تھے، سرکاری ہسپتال سے ادویات لینے کےلئے چار چار سو افراد کی لمبی قطاریں بنی ہوتی تھیں لیکن اردگان نے کہا کہ جن غریبوں کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہے اسکی کفیل خود حکومت ہو گی، اسی طرح 18 برس سے یا اس سے کم عمر کے تمام بچوں کے علاج معالجے کے اخراجات بھی حکومت ادا کرےگی یہ تعداد تین کروڑ نوے لاکھ بنتی ہے۔ مریض کو نظر انداز کرنا جرم بنا دیا گیا بہت بڑا جرم، ڈاکٹروں کو اس جرم کی پاداش میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، سرکاری ڈاکٹر کم پڑ گئے تو عوام کے علاج کےلئے پرائیویٹ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ 
چند روز پہلے میں نے ہفت روزہ امریکی جریدے ”ٹائم“ میں پڑھا کہ اس وقت جاپان اور سنگاپور کی نہیں ترکی اور انڈونیشیا کی اقتصادی ترقی باعثِ تقلید ہے۔ امریکی جریدے نے لکھا کہ اب تک ترکی کو ایک مسلمان ملک ہونے کی حیثیت سے اسکی عوامی خدمت، فلاحی منصوبوں اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کو نظر انداز کیا گیا مگر اب جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 
ترکی اپنی تعلیمی ترقی کے اعتبار سے بھی تمام مسلمان ملکوں پر سبقت لے گیا ہے اب وہاں سو فیصد شرح خواندگی ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک کی طرح ترکی نے بھی سارے ملک کےلئے یکساں تعلیم، ایک جیسا نصابِ تعلیم اور اپنی زبان میں تعلیم کا نظام رائج کیا ہے۔ سائنس ہو یا آرٹ، عمرانی علوم ہوں یا تجارتی علوم سب کچھ اپنی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ قومی زبان میں پڑھنے سے تعلیم آسان اور عام فہم ہو گئی ہے۔ آج ترکی کے ڈاکٹر، ترکی کے انجینئر، ترکی کے ماہرینِ تجارت و اقتصادیات ساری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں اور نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ جو غلامی اور غلامانہ سوچ سے ابھی تک دامن نہیں چھڑا سکے۔ 

Thursday 24 May 2012

بچے اب من کے سچے کیوں نہیں؟

بچے
اب من کے سچے کیوں نہیں؟


ماں باپ سے زیادہ اس دنیا میں اپنے بچے کو پیار کرنے والا اور کوئی نہیں۔والدین ایک طرف اور ساری کائنات ایک طرف۔ماں باپ صرف محبت اور شفقت کی مورت نہیں بلکہ اگر دنیا میں کوئی آنکھ بند کرکے بھروسے کے قابل ہیں تو  والدین کے سوا اور کوئی نہیں۔ماں باپ کو اپنے پیار کا دکھاوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے ،دوسروں کو پیار کا دکھاوا کرنے کے سوا ان کا پیار دیکھا دکھایا نہیں جا سکتا ہے۔بے لوث محبت اور بنا لالچ کا پیار تو صرف والدین ہی کر سکتے ہیں اور والدین میں بھی ماں کا نام سر فہرست آتا ہے۔دنیا میں اور بھی لوگ ہیں جو بچوں کو پیار دیتے ہیں جس میں بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے سگے سمبندھی ماسی ،ماما،پوپھی ،چاچا،دادا،دادی،نانا،نانی،وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے ۔مگر والدین کے پیار اور محبت کاکوئی بدل نہیں۔
ماں باپ اپنے بچوںکو نہ صرف پیار اور محبت دیتے ہیں بلکہ ان کو اچھے اور بُرے کی تمیز بھی سکھاتے ہیں۔ان کی غلطیوں پر جہاں پردہ ڈالتے ہیں وہاں ان کی غلطیوں پر سزابھی دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو سیدھے راستے پر لانے کے لئے اونچا بھی بولتے ہیں اور کبھی کبھی عقل نما بھی آزماتے ہیں اور کبھی کبھی تو مار پیٹ تک کی بھی نوبت آئی ہے۔اسلام کہتا ہے کہ’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو۔اگر انہوں نے سیدھی طرح سے نہ مانا تو ان پر نصیحت کی غرض سے احتیاط کے ساتھ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔‘‘یہ صرف نماز پڑھنے کی بات نہیں ہے۔والدین کے آگے ان کے بچے اگر کوئی بُرا کام کرتے ہیں،یا اچھائی کرنے سے منع کرتے ہیں،یا پھر اچھی بات کرنے سے دور رہتے ہیں۔اس وقت والدین کو حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے عقل نما کا استعمال کریں۔بچوں کو بھی چاہئے کہ اپنے والدین کی بات کو حکم کی طرح مانیں اور بچے پر حکم ہے کہ اگر والدین کچھ بھی کریں ان پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ہاتھ اٹھانے کی کیا بات ہے،وہ تو اپنے والدین کو غصہ کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھ سکتے۔انہیں تو والدین کی ہر بات پر لبیک کہنا ہے۔چاہے ان کی بات انہیں ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔
والدین کو بھی اس ہدایت کا نا جائز استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ والدین کا پہلا حق تو یہ ہے کہ بچوں کو صحیح تعلیم دیں۔دین اسلام کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم کا بھی خاص خیال رکھیں۔اس کے بعد اپنے بچوں کی پسند نا پسند،ان کی خوشی نا خوشی کا خیال رکھیں اور اس کے علاوہ ان کے کھانے ،پینے،اور پہننے،چلنے پھرنے اور ان کی صحت کا خاص خیال رکھیں۔
والدین کو اپنے بچوں سے ضرورت سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئے۔ ضرورت سے زیادہ کی تو بات ہی نہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ امید ہی نہیں رکھنی چاہئے۔بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔
زمانہ جنتا ترقی کرتا جاتا ہے ،اسی قدر والدین اور بچوں کا رشتہ ایک دوستانہ شکل و صورت میں ڈھل جاتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اب ان کے درمیان خلاء بھی پایا جاتا ہے۔نہ تو بچے کھل کر اپنے والدین کے سامنے آتے ہیں اور نہ ہی والدین ہی اپنے بچوں کے ساتھ کھلے دل سے بات کر سکتے ہیں۔کیونکہ ایک طرف والدین کی امیدیں کچھ ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور دوسری طرف بچوں میں بھی برداشت کا مادہ کم ہو گیا ہے۔والدین نے ابھی کچھ کہانہیں کہ بچے غصے سے تلملا اٹھتے ہیں،وہ لال پیلے ہو جاتے ہیں اور غصے کے مارے اپنے والدین کو کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی اونچی آواز میںچار باتیں سناتے ہیں۔اور ایسی چیزیں کہتے ہیں جس کی امید تک والدین نہیں کرتے۔کیا کریں، بڑے ہونے کے ناطے صبر اور برداشت کا مادہ ان میں زیادہ ہوتاہے بلکہ زیادہ ہونا بھی چاہئے ،اس لئے چپ سادھے بیٹھ جاتے ہیں۔جب بچوں کا یہ غصہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے،جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے اپنی ہی جان لینے تک سے بھی گریز نہیں کرتے،اس جان کی بے قدری کرتے ہیں جس کو ان کے والدین نے دل کے خون اور کلیجے سے سینچا ہوتاہے اور بڑے ناز و نعم سے پالاہوتا ہے اور وہ اپنے  والدین کو اس قدر درد اور دکھ دیتے ہیں کہ جن کا کوئی مداوا نہیں،جسے صرف ماں باپ کا نہیں بلکہ سارے والدین کا جگر زخمی اور روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ادھ کھلے گلاب کھلنے سے پہلے مرجھا ہوا دیکھنے کی طاقت والدین میں نہیں ہے۔
رابطہ کیجئے:naaz_neelofer@ yahoo.com 

جہیزسے پرہیز

جہیزسے پرہیز
شادی بیاہ میں مردوںوالاکمال دکھائیں

 عصرِ حاضر میں والدین کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ لڑکی کی پرورش کریں، اُسے اچھی تعلیم دیں،اُس کی دینی و اخلاقی تربیت کریں،اسے گھریلو زندگی کے آداب و اطوار اور تہذیب و سلیقہ سِکھائیں ،اس کے لئے مناسب رشتہ تلاش کریں اور دستور کے مطابق کسی شریف اور باکردار آدمی کے نکاح میں اپنی لختِ جگر کو دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔سماجی بگاڑنے یہ بھی  اُن کی ذمہ داری ہے کہ جس لڑکے کو انہوں نے اپنی لڑکی کاشریک زندگی منتخب کیا ہے اس کے وہ مطالبات بھی پورے کریں جنہیں شاید وہ خود بھی پورے نہیں کر سکتا۔ان مطالبات کی فہرست اتنی طویل اور اتنی متنوع ہوتی ہے کہ الاماں والحفیظ مثلاًاس میںنقدی کے علاوہ دولہا کے لئے موٹر سائیکل،ماروتی کار،سونے کی گھڑی،بڑی موبائل فون،کمپوٹر لیپ ٹاپ وغیرہ چیزیں آجاتی ہیں۔یہ فہرست حسبِ حالات مختصر بھی ہوسکتی ہے اور طویل سے طویل تربھی۔بہرحال یہی وہ زر یں موقع ہوتا ہے جب خود غرض دولہے میاں اپنی مردانگی اور تمنائیں پوری کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکی کو مطلوبہ زیورات سے آراستہ کیا جائے اور اُسے اتنے سازوسامان کے ساتھ رخصت کیا جائے کہ دولہے میاں کے ساتھ ساتھ اُن کے قسمت جاگ اُٹھے کہ اس کا گھر سچ مچ سنارکی دوکان بن جائے۔لڑکی کودیئے جانے والے اس مال و اسباب کی قیمت تو متعین نہیں ہے ،البتہ اتنی بات طے ہے کہ اسے لڑکی والے کی حیثیت سے بہر حال زیادہ ہوناچائیے۔
سماد میں شادی بیاہ کے حوالے سے ہوسِ زر اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لڑکی کی شکل و صورت ،تعلیم و تربیت اور دین و اخلاق سب کچھ اس کے مقابلے میںپیچھے رہ گئے ہیں۔آج کل سب سے پہلی چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی کتنی دولت اپنے ساتھ لاسکتی ہے۔ حسن و جمال ہی کی نہیں دین واخلاق کی بھی اس قدر توہین شاید ہی دنیا نے کبھی ہی دیکھی ہو۔دولت نے ہر اعلیٰ قدر کو شکست دے رکھی ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ شکستِ فاش گو اگر کسی چیز کو مل رہی ہے تو وہ اخلاقیات میں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں لمبی لمبی عمر تک محض اس لئے گھروں میںبیٹھی رہتی ہیں کہ بدقسمتی سے وہ ایسے ماں باپ کے گھر پیدا ہو گئیں جو ان کے لئے جہیز فراہم نہیں کر سکتے۔ان میں کتنی ہی مظلوم اور بے زبان زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں۔کچھ نیک بخت صور تحال کی نزاکت کا احساس کر کے از خود شادی کا انکار کردیتی ہیں تاکہ ان کے والدین ان کی شادی کی فکر سے آزاد ہو جائیں اور وہ اپنی اُمنگوں اور تمناوّں کا مرثیہ پڑھی ہوئی زندگی گزاردیں۔اس کے علاوہ بر صغیر میں مشترک خاندان کا عام رواج ہے۔جب کسی خاندان میںلڑکوں کی شادیاں ہوتی  ہیں اور لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں تو خاندان کے اندر بڑی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ خانگی زندگی کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان ناکتخدا ئوں کا وجود اس ظالم سماج کے خلاف مسلسل فریاد ہے لیکن کون ہے جو ان بے نوائوںکی فریاد سُنے  ؟
سب سے بڑا مسئلہ اُس لڑکی کا ہے جو جہیز کے بغیر اپنے شوہر کے گھر چلی جائے۔اُس میں لاکھ خوبیاں سہی اُس کی یہ غلطی معاف نہیں ہوسکتی کہ وہ خالی ہاتھ اپنے میکے سے آئی ہے۔اس سے باز پرس کرنے والا صرف اس کاشوہر ہی نہیں ہوتا بلکہ شوہر کا پورا خاندان اُس کا ڈنڈابردارمحاسب ہوتا ہے۔اُسے اپنے اس ناکردہ جرم کا ایک ایک فرد کو حساب دینا پڑتا۔اس کی عام سزا تحقیر وتذلیل،طنزوتعریض اور مارپیٹ ہوتی ہے۔اس کے نتیجے میں اُسے خانہ بدر بھی کیا جاتا ہے اور شوہر سے علیحدگی بھی ہو سکتی ہے۔اتنا ہی نہیں اس ’’جر م‘‘کی پاداش میںاسے کبھی کبھار اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔جہیز کے لئے جان لینے کے واقعات اس قدر زیادہ ہورہے ہیںکہ اب ان میں کوئی ندرت یا نیا پن نہیں ہے۔ان کی نوعیّت روز مرّہ کے حادثات کی ہوکر رہ گئی ہے۔کبھی یہ سزا شوہرنامراد دیتا ہے اوراگر اسے اس میں کوئی تامُل یا ہچکچاہٹ ہو تو خاندان کے دوسرے افراد اس ’خدائی‘خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔
بسا اوقات جہیز کے مسائل و مصا ئب سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے عورت خودکشی کو بھی ترجیح دینے لگتی ہے۔اس کے لئے کبھی وہ مٹی کے تیل اور پیٹرول کا سہارا تک لیتی ہے۔کھبی کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگاتی ہے،کبھی گلے میں پھندا لگا کر چھت سے لٹک جاتی ہے،کبھی زہرکھا کر ہمیشہ کی نیند سو جانا چاہتی ہے۔خداہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی معصوم جانیں اس خونِ آشام جہیز کی نذر ہو رہاہے  اور ابھی اور کتنی معصوم جانیں نذر ہوں گی۔ جہیز کے اس ذلیل فعل سے جنگل کے درندے بھی شرمارہے ہوں گے۔جہیزکی ان ہلاکت خیزیوں کو آج ہر شخص اپنے سر کے آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے بلکہ دیکھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے کی بہت بڑی اکثریت نے اسے ایک ناگزیر سماجی خرابی کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔اس کے نزدیک موجودہ حالات میں لڑکوں کے لئے جہیز لینا اور لڑکیوں کو جہیز دینا اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو بہرحال جہیز دینا ہی پڑتا ہے۔( اس میں لڑکے کے تمام مطالبات زرکی تکمیل بھی شامل ہے ) اس کے بغیر ان کی شادی نہیں ہوسکتی۔والدین اس کی ہمت نہیں کرسکتے کہ ان کی لڑکی بن بیاہی گھر بیٹھی رہے۔جو شخص جہیز دیتا ہے وہ اپنی باری پرجہیز لینے پر مجبور بھی ہے۔اُس سے یہ مطالبہ بے جاسا ہوگا کہ وہ تو اپنی لڑکیوں کو جہیز کے ساتھ رخصت کرتا ہے اور دوسروں کی لڑکیاں اُس کے گھر خالی ہاتھ آئیں۔ ہوسکتا ہے اس ’’نقصان‘‘ کو بعض لوگ برداشت کرجائیں،ہر شخص کو یہ صورت قابل قبول نہیں۔
اس منطق کی رو سے سوچئے کہ وہ انسان کتنا بدقسمت ہوگا جس کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اور جو ریاضی کے اس فامولے کے تحت نقصان پر نقصان اُٹھاتا رہے،اور پھر کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کے یہاںصرف لڑکے ہوں اور جہیز کی دولت سے وہ مسلسل نہال ہوتا چلا جائے۔
اس منطق کا حاصِل یہ ہے کہ کسی برائی کو ہم محض اس وجہ سے نہ صرف یہ کہ گوارہ کریں بلکہ عملََا اختیار کرلیں کہ دنیا اس کا ارتکاب کررہی ہے اور اس سے لطف اورفائدہ اُٹھا رہی ہے۔اس طرح آدمی رشوت،خیانت،فریب اور مکاری کو بھی جائز قرار دے سکتا ہے۔اس لئے کہ یہ نسخے آج کی دنیا میں بڑے ہی مجرب اور کامیاب نسخے ہیں اور جو انہیں استعمال نہیں کرتا وہ سراسر نقصان میں رہتا ہے۔
اسی قسم کی غلط توجیہات دنیا کی ہر بُرائی کو استحکام عطا کرتی ہیں۔ان سے انسان کے ضمیر میںاس کے خلاف جو کھٹک ہوتی ہے وہ بھی جاتی رہتی ہے اور وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے نام پر جو ذیادتی ہورہی ہے اسے دنیا کا کوئی بھی مذہب،کوئی فلسفۂ اخلاق اور قانون جائز قرار نہیں دے سکتا۔ آج کل ہماری وادی کے بیشتر اخبارات کا ایک خاص موضوع یہی جہیز ہے۔اس کے خلاف مختلف سماجی،اصلاحی اور مذہبی حلقوں سے آواز اُٹھتی رہتی ہے۔حکومت بھی قانون کے ذریعے اس پر پابندی لگانا چاہتی ہے لیکن کسی بھی خرابی کو بدلنے کے لئے حکومت اور سماج کا دباوّ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ذہن و فکر کی تبدیلی اور خدا اور آخرت کے خوف کی ضرورت ہے۔اسلام یہی فرض انجام دیتا ہے۔وہ سب سے پہلے سماج کے غلط دستور اوررسم و رواج کو توڑتا ہے اور زندگی کا صاف ستھرا اور آسان طریقہ سکھاتا ہے۔اسلام نے ازدواجی زندگی کے تمام مسائل کو بھی بہت آسانی سے حل کیا ہے۔اس کے نزدیک نکاح سادگی اورسہولت اور آرام سے ہونا چاہئے۔اسے مشکل اور دشوار بنانا بہت بڑی زیادتی ہے۔اس سلسلہ میں اسلام کی بعض اصولی تعلیمات کا ذکر کیا جارہاہے۔
۱اسلام اس بات کا شدت سے مخالف ہے کہ کسی بھی معاملہ میں ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار کیا جائے۔اس کے نزدیک کسی کی کمزوری اور مجبوری سے غلط فائدہ اُٹھانا اور اس کااستعمال کرنا سراسر ناجائز ہے۔جہیز کے نام پر لڑکی والوں کا استحصال بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔اسلام اس کا کسی حال میں روادار نہیں ہے۔
۲شادی بیاہ لڑکی والوں سے بے جا دولت سمیٹنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ بعض بلند مقاصد کے لئے ہوتی ہے۔وہی شادی کامیاب ہے جن سے ان نیک مقاصد کی تکمیل ہو۔ہوسِ زر میں ان مقاصد کو پسِ پست ڈال دینا سراسر غلط اور ناپسندیدہ ہے۔
۳)مرد کو اــــﷲ نے قواّم بنایا ہے۔وہ اسی حیثیت سے عقد نکاح کرتا ہے۔وہ اس عہد و پیماں کے ساتھ لڑکی کا ہاتھ پکڑتا ہے کہ وہ اس کے نان و نفقہ و لباس اور رہائش وغیرہ کا ذمہ دار ہے،جس کو خدائے تعالیٰ نے یہ مقام عطا کیا ہو اس کے لئے یہ بات سخت توہین کی باعث ہے کہ وہ شادی سے چند دن پہلے لڑکی یا اس کے سرپرستوں کے سامنے ’’جہیز ‘‘ کے نام پر دستِ سوال دراز کرے اور جب اپنی مراد پوری نہ ہو تو پھر کسی دوسری لڑکی کے در پر پہنچ جائے۔
۴جہیز کے نہ ملنے پر عورت کے ساتھ بالعموم جو زیادتی ہوتی ہے اس کا کوئی دینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ جہیز یا مال و اسباب کے لئے عورت کو تنگ کرنے کی جگہ اسلام نے عورت کی دلجوئی کا حکم دیا ہے۔ ’’مہر‘‘ اس کی علامتِ خاص ہے ۔مہر کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت اپنے گھر اور خاندان سے چونکہ جدا ہوتی ہے،اس لئے مرد مہر کی شکل میں خلوص و محبت کا تحفہ پیش کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اس کا دشمن نہیں بلکہ مخلص،ہمدرد اور غم خوار ہے۔ پھر جہیز کے لئے پریشان کرنا عورت کے ساتھ حسن  سلوک کی اس تعلیم کے بھی خلاف ہے جو اسلام نے دی ہے۔
جس شخص کے سامنے یہ پاکیزہ اور مقدس تعلیمات ہوں اُس کا وہ ذہن ہرگز نہیں ہوسکتا جو آج کے نوجوانوں کا ذہن ہے۔وہ جہیز کے نام پر عورت اور اس کے گناہ گارانہ خاندان کے استعمال کی جگہ ان سے ہمدردی اور محبت کارویہ اختیار کرے گا اور اپنے حسنِ سلوک شرافت اور انسانیت کا ثبوت فراہم کرے گا۔
جہیز کا ایک علاج تو یہ ہے کہ سماج میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔دوسرا علاج یہ ہے کہ جو لوگ جہیز کی خرابی کو محسوس کر رہے ہیں وہ ہمت کر کے اس کے لین دین کو ختم کریں۔اس معاملے میں لڑکی والے تو مظلوم ہیں اُنہیں نصیحت کی نہیں بلکہ ہمدردی کی ضرورت ہے۔البتہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے خلاف اقدام ہونا چاہئے۔
اس موضوع پراپنی خامہ فرسائی  تک پہنچانے سے پہلے بعض باتوں کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے تاکہ اس مسئلہ میں اسلام کا نقطئہ نظر پوری طرح سامنے آجائے۔
۱:شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو اپنا نیا گھر بسانا ہوتا ہے۔اس فعل میں لڑکے والے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں اورلڑکی والے بھی۔لیکن یہ ان کی اپنی صوابدید اور مالی وسعت سے مشروط ہے۔اگر نیا جوڑا اس معاملہ میں تعاون کا مستحق ہو تو تعاون کو پسندیدہ ہی کہا جائے گا۔یہ تعاون پیسہ کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور سازو سامان کی شکل میں بھی۔لیکن واضح رہے یہ نہ تو فرض ہے اور نہ واجب اورنہ نکاح کی شرط کہ اس کے بغیر نکاح ہی نہیں ہوتا۔
۲:شادی کے موقع پر دولہا اور دلہن کو اعزہ و اقارب اور دوستوں و احباب کی طرف سے تحفے اور ہدیے دیئے جاسکتے ہیں لیکن اسے جواز ہی کی حد میں ہونا چائیے۔اسے ضروری سمجھنا یا اس کے نہ دینے پر بُرا ماننا اور شکوہ شکایت کا پیدا ہونا سراسر غلط ہے۔تحفہ اور ہدیہ خوش دلی سے ہوتا ہے ورنہ وہ تحفہ نہیں تاوان اور جرمانہ ہوگا۔
۳:شادی کے موقع پر لڑکی کو جو زیور یا سامان دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ وہ شوہر یا سسرال والوں کی ملکیت ہے۔اس کی مالک اصلا لڑکی ہو تی ہے۔اُس کی اجازت کے بغیر اس میں خرچ کرنا قطعاًجائز نہیں۔
۴آخری بات یہ کہ اسلام نے نکاح کو آساں بنا رکھا ہے۔اس لئے سماج کی وہ ساری بندشیں جن سے اس میں دشواری پیدا ہو قابل مذمت ہیں۔ان سے ہمیں احتراز کرنا چائیے۔
یہ ہے اعتدال کی راہ جواسلام نے دکھائی ہے۔اس میں محبت اور ہمدردی ہے،حسنِ سلوک ہے،ظلم و زیادتی کی ممانعت ہے اور اس کے ساتھ انسان کے جذبات اور ضروریات کی بھر پور رعایت بھی ہے۔اس پر عمل درآمدہو تو جہیز کے جھگڑے ختم ہی نہیں ہوں گے بلکہ پرسکون خاندانی زندگی بھی نصیب ہوگی۔کاش کہ ہم اس خدائی اہتمام کی طرف پلٹ آئیں۔
Email:Ishfaqparvaz@hotmail.co.uk 

Wednesday 23 May 2012

ارجب طیب اردگان .... مشعل راہ-ERDGAN

ارجب طیب اردگان .... مشعل راہ

سرور منیر رائو ـ 

 ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کے حالات زندگی اور سیاسی جد وجہد تیسری دنیا کے ابھرتے ہوئے سیاسی راہنماﺅں اور قائدین
کیلئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طیب اردگان ایک ایسی مقناطیسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے سیاسی نظام کی سمت کو بدل کر رکھ دیا ہے انہوں نے ترکی کے سیاسی کلچر کو ایک تعمیری اورنئی جہت عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے عزم ،ہمت، حوصلے، دانشمندی اور حکمت عملی کی بنا پر ترکی کو متحد، مستحکم اور عالمی برادری میں ممتاز مقام دلایا ہے۔

ترکی میں ہونےوالے عام انتخابات میں رجب طیب اردگان کی سیاسی جماعت نے تیسری بار کامیانی حاصل کر کے ترکی کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے انتخابات جیتنے اوروزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ اردگان نے جس طرح ترکی میں امن و امان قائم کیا ہے اور ترقی کی راہ ہموار کی ہے وہ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

ترک وزیر اعظم اردگان نظریاتی اعتبار سے کٹر مسلمان ہیں۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد سے 1996تک اقتدار پر فوج کا قبضہ رہا۔ لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر جو بھی وزیر اعظم بنا وہ فوج کا چہرہ رہا۔ ترکی کی فوج نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر پورے ترکی میں اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی شعوری کوشش کی لیکن جون 1996میں اربکان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک کے سیاسی نظام میں بتدریج فوج کا اثر کم ہونا شروع ہوا۔ اور معاشرے میں اسلامی تشخص بھی اجاگر ہونے لگا۔ طیب اردگان ترک نیوی کے ایک کیپٹن کا بیٹا ہے اس کا بچپن غربت میں گزرا، ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے اردگان استنبول شہر میں ٹافیاں فروخت کیا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اردگان استنبول کا مئیر بنا۔ اس نے اپنے عزم اور اصلاحات کے ذریعے استنبول کو ایک مثالی شہر بنا دیا۔ استنبول کو منشیات سے پاک شہر قرار دیا گیا انسانی سمگلروں اور عصمت کے بیوپاریوں کا خاتمہ کیا، شہر بھر کی سڑکوں کو پختہ اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا۔ استنبول کو جدید اور قدیم تہذیب کے گہوارے کے طور پر محفوظ کرنے کیلئے بھی مرحلہ وار پروگرام شروع کیا۔شہر کو سیاحوں کےلئے پر کشش بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے اہم اقدامات کیے۔آج کی جدید دنیا میں استنبول دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں دنیا بھر کے سیاح تفریح کیلئے ترجیحی بنیادوں پر آنے کے خواہشمند ہیں۔ استنبول جو یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے آبنائے باسفورس پر تعمیر کیا جانے والا پل یورپ اور ایشیا کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار بھی استنبول شہر میں ہے۔

استنبول اردگان کا آبائی شہر ہے۔ طیب اردگان نے اسی شہر کے گلی محلوں میں پرورش پائی اور اسی شہر میں اس نے گیارہ سال قبل 2001میں اپنی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ عوام نے ان ساتھ دیا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ترکی کی تاریخ میں اردگان اور انکی سیاسی جماعت واحد مثال ہے جو تواتر سے تیسری بار اقتدار میں آئی ہے۔

طیب اردگان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پانچ وقت کی نمازباقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی شراب نہیں پی۔ انکی اہلیہ ایمان اردگان اور بیٹیاں سمیہ اور اسریٰ سر پر سکارف لیتی ہیں اور مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔طیب اردگان کا سیاسی انداز عوامی طرز کا ہے۔ وہ اچانک شہر کے کسی بھی حصے میں جا کر عوام میں بیٹھ جاتے ہیں۔خاص طور پر وہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے ملکی حالات کے بارے میں فیڈ بیک کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت ہمارے معاشرے میں دائیوں کی طرح ہے وہ عوام کی اجتماعی سوچ کے مظہر اور حالات کے رخ کے بارے میں اچھی رہنمائی کرتے ہیں۔

طیب اردگان نے یہ کامیابی امریکہ، یورپ اور مغربی میڈیا کی مخالفانہ مہم اور سیکولر قوتوں کے مقابلے میں حاصل کی ہے۔ ترکی کی فوج نے ماضی میں ایسی آئینی ترامیم کروائیں جس کی وجہ سے ترکی کے سیاسی نظام میں فوج کا ایک خاص کردار قائم رہا۔ ان آئینی ترامیم کیلئے اردگان کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ اردگان کی خواہش ہے کہ وہ ترکی کو ایک نیا جمہوری آئین دیں۔ انہوں نے اپنی کامیابی کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے تعاون اور اتفاق رائے سے نیا آئین تشکیل دینگے۔ترک فوج نے ماضی میں ملک میں سیکولرازم کے فروغ اور سیاسی قائدین کو راہ سے ہٹانے کیلئے انتہائی اقدامات کیے جن میں عدنان میندریس کی پھانسی سے لےکر نجم الدین اربکان کی برطرفی کے علاوہ تین مارشل لاﺅں کا نفاذ بھی ہے۔ ترکی کے موجودہ آئین کے تحت کوئی بھی شخصیت تین بار سے زیادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ اس اعتبار سے اگر اردگان آئینی ترامیم نہ کرا سکے تو ان کی یہ آخری ٹرم ہو گی۔

اردگان کی شخصیت اوران کا ذاتی کردار ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں۔ انہوں نے ترکی کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ترقی کےساتھ ساتھ بین الاقومی طور پر ترکی کے پرچم اور وہاں کے شہریوں کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا ہے .

مولانا حالی نے کہاتھا Moulana Hali ne kaha tha

مولانا حالی نے کہاتھا

متفرق 
-مولانا حالیؒ نے کہا تھا: ’’ہرچند کوئی قصبہ اور کئی گائوں اور کوئی شہر زمانے کی زبردست تاثیروں سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ لیکن جب تک مسلمانوں میں اسلام باقی ہے اور شریعت کی قید سے آزاد نہیں ہوتے‘ اس وقت تک ہمارے خاندانوں کی عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کے لیے پردے کا ایک ایسا پاک اور محکم قاعدہ موجود ہے جس پر زمانے کی تاثیر کا کوئی افسوں اور کوئی منتر چل نہیں سکتا۔ بعض مسلمان ممالک نے مکان‘ طعام لباس اور سواری غرض کہ ہر چیز میں اہل یورپ کی پیروی اختیار کرلی ہے مگر چونکہ شریعت کی پابندی نے انہیں پردے سے آج تک آزاد ہونے نہیں دیا۔ اس لیے جس قدر عفت اور پاک دامنی وہاں کے مسلمانوں میں اب تک موجود ہے۔ یورپ کی کسی قوم میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں پایا جاتا۔ پس اے میرے بزرگووعزیزو! پردے کے حکم اور مضبوط قاعدے کو ہاتھ سے نہ چھوڑو کہ اس اخیر زمانے میں صرف یہ ایک چیز باقی رہ گئی ہے جس کی بدولت ہم تمام دنیا کی قوموں پر فخر کرسکتے ہیں اور صرف یہی ایک چیز ایسی ہے جس سے قوم میں غیرت اور حمیت باقی رہ سکتی ہے۔ وماعلینا الالبلاغ!۔!! مولانا الطاف حسین حالیؒ برصغیر کے تمام پڑھے لکھے مسلمان جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے ایک جلیل القدر مفکر و مدبر تھے انہوں نے تحریر ‘ تقریر اور شاعری کے ذریعے ملت کو اس وقت جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کا کام کیا تھا جب 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان برصغیرپربرطانوی حکومت نے زندگی کا دائرہ تنگ کر رکھا تھا اور مقامی اکثریت آبادی بھی اپنی روایتی زمانہ سازی سے کام لیتے ہوئے غاصب حکومت کے ساتھ ہوگئی تھی۔ (جب کہ غیرملکی اقتدار کے خلاف یہ پہلی بڑی عوامی جدوجہد تھی جس کا بگل مسلمانوں نے بجایا تھا) تاج برطانیہ کا قبضہ اس وقت کئی مسلم ملکوں پر بھی تھا۔ لہٰذا 1857ء میں مسلمانوں کے عزم و حوصلے اور ان کی نظریاتی اساس کو دیکھ کر اس نے مسلم ملکوں کے عوام کو ان کی اصل سے ہٹانے کی کوششیں تیز تر کردیں۔ سب سے موثر حربہ تہذیبی یلغار کا تھا۔ چنانچہ مسلم ملکوں کی خوشحال آبادیوں نے اپنے رہن سہن ‘ خورونوش اور لباس پرحکمراں تہذیب کا وہ رنگ غالب کرلیا تھا جس کی طرف کہ مولانا حالی نے اشارہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان نہ صرف یہ کہ شرعی احکام سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ اپنے عقائد اور بنیادی اقدار پر مصر اور قائم رہے اور حجاب و پردہ ان میں سے ایک تھا۔

Friday 18 May 2012

حضرت سیدعلی ہجویری قرآن کریم کا رمز شناس

حضرت سیدعلی ہجویری
قرآن کریم کا رمز شناس

گذشتہ ایک ہزار سال کی ملی تاریخ اس حقیقت کبریٰ کی بین شہادت فراہم کرتی ہے کہ علمائے حق کے قلمی جہاد، صوفیائے کرام کے قلبی مجاہدات اور عارفین و مشائخین کے روحانی و وجدانی تجربات و مشاہدات نے کروڑوں نفوس کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ ان پاکیزہ تعلیمات کے داعی و مبلغ بنا کر رکھ دیا۔ ان نفوسِ قدسیہ کے نقوش اقصائے عالم میں صدیاں گذر جانے کے بعد بھی افرادِ امت کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔ خاصانِ ملت کی اسی جماعت میں غزنہ افغانستان کے علی بن عثمان ہجویریؒ جو چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئے، پورے برصغیر میں پابند شریعت اسلامیہ کے گروہ صوفیا میں ایک منفرد مقام پر فائز نظر آتے ہیں۔ جناب ہجویریؒ جو افغانستان سے خدمت دین کے لئے ہندوستان تشریف لائے تھے ، لشکر ابرار کے قافلہ سالار بن کر لاہور کے شہر کو اپنا مستقر بنا کر ’’داتا کی نگری‘‘ کا اعزاز عطا کر چکے ہیں   ؎
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورخدا
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
سیدہجویریؒ نہ صرف ایک روحانی مرشد تھے بلکہ آپ ایک اعلیٰ پایہ عالم اور صاحب طرز مصنف بھی تھے۔ آپ کی معرکتہ الآراء تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ تصوف کے موضوع پر جامع اور مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ یہ کتاب گذشتہ ایک ہزار سال سے طریقت و معرفت اور شریعت و حقیقت کے متلاشیوں کے لئے نسخۂ کیمیا سے کچھ کم نہیں۔ ’’کشف المحجوب‘‘ میں جناب ہجویریؒ نے جن موضوعات پر اظہار رائے فرمایا ہے ان میںصحت نیت، علم کے اقسام،فقر کی حقیقت، تصوف کی حقیقت، صوفیاء کے مختلف فرقے، ارکانِ دین کی اہمیت و معنویت اور اسی طرح طریقت و ولایت میں مروجہ اصطلاحات کی عالمانہ وضاحت کی ہے۔ ’’کشف المحجوب‘‘ حقیقی اسلامی تصوف سے متعلق افکار و اذکار کا ایک شاہکار ہے جس کے مطالعے سے راہِ حق کے مسافر کی سفری مشکلات آسان ہوسکتی ہیں اور قربِ الٰہی کی منزل قریب تر آسکتی ہے۔سلوک و معرفت سے وابستہ مختلف افراد کی وضاحت کرتے ہوئے لفظ ’’درویش‘‘ پر یوں اظہار رائے فرماتے ہیں :’’ سچا درویش وہ ہے جسے غیراللہ سے کوئی دلچسپی اور سرورکار نہ رہے۔ اسے صرف خدا کی رضا مطلوب ہو۔ وہ یکسو ہو کر خدا کی راہ پر چلتا ہے۔ اپنے معاملات کی بھی خوب حفاظت کرتا ہے اور کسی دینی کام کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اس سارے کام میں اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ مخلوقات اسے پسند کرتی ہے یا ناپسند اور کون اسے داد دیتا ہے اور کون ملامت کرتا ہے‘‘۔   ؎
درویش خدا مست نہ شرقی نہ غربی
گھر میرا نہ دلّی نہ صفاہاں نہ سمرقند
(اقبالؒ)
علامہ اقبال نے اپنے شہرۂ آفاق کلام و پیام میں ملت اسلامیہ کے جن تیس اولیائے و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے اور جن کے ارشادات و احسانات کو نمایاں انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سید علی ہجویریؒ کا نام نامی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔سید صاحب سے محبت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کا مزارِ مقدس لاہور میں ہے، دوسری وجہ کہ خواجہ معین الدین چستیؒ جیسے ولی کامل اس مزار پر حاضری دے چکے ہیں۔سید ہجویریؒ نے روحانی اعتبار سے لاہور کو برصغیر میں ایک نام عطا کیا تو اقبال کے علمی اور شعری وجود نے لاہور کو بغداد کے ہم پلہ بنا دیا۔ اپنی مشہور فارسی تصنیف ’’اسرارِ خودی‘‘ میں سید ہجویریؒ کو ام الکتاب یعنی قرآن پاک کی عزت و عظمت کا پاسبان قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں    ؎
سیدِ ہجویر مخدومِ اُمم
مرقدِ او پیرِ سنجر را حرم
بندہائے کوہسار آساں گیسخت
در زمینِ ہند تخم سجدہ ریخت
عہدِ قاروقؓ از جمالش تازہ شد
حق ز حرفِ او بلند آوازہ شد
پاسبانِ عزت اُمّ الکتاب
از نگاہش خانۂ باطل خراب
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
صبحِ ما از مہر او تابندہ گشت
ترجمہ:
ہجویر کے سردار اور امتوں کے مخدوم، جن کا مقبرہ پیرسنجر(معین الدین چشتیؒ) کیل ئے نہایت محترم ہے۔
پہاڑوں کی رکاوٹوں کو آسانی سے بدل کر، ہندوستان میں سجدہ کا بیج بویا، آپ کے کردار سے حضرت عمر فاروقؓ کا زمانہ تازہ ہوگیا۔ جن کی تبلیغ سے دین کا بول بالا ہوگیا۔ آپ قرآن مجیدکی عزت کے نگہبان تھے ، آپ کی نگاہ سے باطل کا گھر برباد ہوگیا، آپ کے مبارک نفس سے پنجاب کی سرزمین زندہ ہوگئی، ہماری صبح کو آپ کے سورج نے روشن کیا۔
1933میں اپنے سفر افغانستان کے دوران اقبال نے مختلف شہروں کے اہم مقامات دیکھے اور چند مزارات پر حاضری بھی دی، جن میں سلطان محمود غزنوی اور حکیم سنائی کے مزارات شامل ہیں لیکن اقبال نے غزنین اور مقامات کی رہنمائی کرنے والے معمر ترین بزرگ ملا قربان سے کہا کہ میں سید علی ہجویریؒ کے والد مکرم کی قبر پر فاتحہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اقبال والد ہجیری کے مقبرے پر حاضر ہوئے اور فاتحہ پڑھی۔ غزنین سے ہجرت کر کے حضرت ہجویریؒ مختلف ممالک کا سفر کرتے رہے اور اپنے گہرے مشاہدے، انقلابی جذبے اور ولولے کے ساتھ زندگی کے آخری برسوں میں لاہور کو اپنا مستقل قرار گاہ بنایا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں حکایات و قصص کے ذریعے نئی نسل کو اسلاف کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے کارناموں سے باخبر کرنے کی فاضلانہ کوشش کی ہے۔ چنانچہ سید علی ہجویری کے حوالے سے بھی ایک حکایت بیان کی ہے جو نصیحت آموز بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص وسطی ایشیا کے ایک شہر مروؔ سے لاہور آکر حضرت سید علی ہجویریؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دشمنوں کی صفوں میں گھرا ہوا ہوں اور ہر طرف سے خطرات کے تیروں کے نشانے پر ہوں۔ آپ مجھے دشمنوں میں زندگی گذارنے کا کوئی طریقہ بتائیں۔ حضرتؒ نے فرمایا   ؎
راست می گویم عدوہم یارِ تست
ہستی اور رونقِ بازارِ تست
ہر کہ دانائے مقاماتِ خودی است
فضل حق داند اگر دشمن قوی است
کِشت انساں را عد و باشد سحاب
ممکناتش را بر انگیزد ز خواب
سنگِ رہ آب است اگر ہمت قوی است
سیل را پست و بلند جادہ چیست
ترجمہ:
حقیقت میں تیرا دشمن تیرا دوست ہے۔ اس کے وجود سے تیرے بازار کی رونقیں ہیں جو شخص اپنی ذات کے مقاماتِ شعور سے واقف ہے وہ دشمن کے طاقتور ہونے کوخدا کا فضل تصور کرتا ہے۔ انسان کی کھیتی کے لئے دشمن کا وجود گویا ابرِرحمت ہے جس سے اس کی سوئی ہوئی صلاحیتیں اور ممکنات بیدار ہو جاتی ہیں۔ اگر آدمی کی ہمت طاقتور ہو، تو راستے کے پتھر بھی پانی ہو جاتے ہیں۔سیلاب راستے کی پستی اور بلندی کو کیا سمجھتا ہے؟‘‘
جناب ہجویریؒ کی نصائح سے اقبال زندگی میں جدوجہد ،حرکت اور پیغامِ عمل اخذ کرتے ہوئے اپنے پیش کردہ نظریۂ خودی کو نئی جہات، نئے ابعاد اور بزرگانِ ملت کے تصورات سے مربوط کرتا ہے۔سید ہجویریؒ نے جو نصیحتیں مروؔ کے باشندے کو کیں، ان کو اقبال نے دیگر مقامات پر مختلف پیرایوں میں پیش کیا ہے   ؎
۱۔ مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
۴۔گلتاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
۳۔ گذر جا بن کے سیلِ تند خو کوہ و بیاباں سے
۲۔ شبستاں محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
اقبال کے خیال میں سعی پیہم،سخت کوشی اورنبردآزمائی سے ہی زندگی کے اسرار و معارف منکشف ہو جاتے ہیں۔ عرفانِ ذات، خود شناسی اور خودی درحقیقت ’’کشف المحجوب ‘‘بن جاتی ہے۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ میں اقبال نے جناب علی مرتضیٰؓ ، جناب بوعلی قلندرؒ اور جناب سید علی ہجویریؒ کی شخصیات کوقوت، پیکار، توانائی اور جہد مسلسل کے عمدہ ترین استعارات کے طور پیش کیا ہے    ؎
پس طریقت چیست ؟ اے والا صفات
شرع را دیدن بہ اعماقِ حیات
رابطہ
اقبال انسٹی چیوٹ کشمیر یونیورسٹی (کشمیر)

سیدنا ابوبکر صدیق ؓ…ایمان وانفاق کا مجسم پیکر

سیدنا ابوبکر صدیق ؓ…ایمان وانفاق کا مجسم پیکر


-پروفیسر محمد شکیل صدیقی
کسی شے کی قدر و قیمت کا جو بھی اصول اور پیمانہ مقرر کیا جائے اس میں وقت، حالات اور ضرورت کے عامل و عنصر (Factor) کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک وہ شخص ہے جو داعیٔ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں اکیس سال بعد مکہ کی فتح کے موقع پر اسلامی تحریک میں شمولیت اختیار کرتا ہے، حسب توفیق انفاق بھی کرتا ہے، جب کہ ایک وہ شخص ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی پکار پر لبیک کہتا ہے، مکہ میں ابتلاء و آزمائش کی ہر گھڑی میں ثابت قدم رہتا ہے، اپنے مال سے مظلوموں کی مدد کرتا ہے، ہجرت کے پُرخطر سفر میں رفاقت کا حق ادا کرتا ہے اور تنگی و عسرت میں گھر کا سارا اثاثہ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لاکر ڈھیر کردیتا ہے… ایسے شخص کی قدروقیمت کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ دیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کیا اور جہاد کیا، ان کا درجہ نہایت بلند ہے بہ نسبت اُن لوگوں کے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا۔‘‘ (الحدید 10) مفسرین اس آیتِ مبارکہ کو صدیق اکبرؓ کے ایمان و انفاق کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ اوّلین ایمان لانے والوں اور اللہ کے لیے مال خرچ کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انفاق کی تحسین اس طرح فرمائی: ’’کسی کے مال نے مجھے ایسا نفع نہ دیا جیسا ابوبکر کے مال نے دیا۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و شخصیت کے بے شمار پہلو اور فضائل و مناقب کی طویل فہرست ہے جو ایک مفصل مقالے کی متقاضی ہوسکتی ہے۔ زیرنظر مضمون میں ہم صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان و استقامت اور انفاق فی سبیل اللہ کے چند واقعات اور ان کی اہمیت کی جانب اشارہ کریں گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مکہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی تھے جنھوں نے یہ دعوت بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کرلی۔ آپؓ کا قبولِ اسلام اپنے رفیق یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت پر یقین اور ایمان کا مظہر تھا۔ قبولِ اسلام کے بعد 23 سال تک حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی تحریک کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ اسلام قبول کرنے کی پاداش میں ہر طرح سے ستائے گئے۔ مشرکینِ مکہ نے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہجرت سے پہلے 13 سال تک مکہ میں کفار اور مشرکین کے خلاف اسلامی تحریک کے ساتھ جرأت و استقامت کے ساتھ کھڑے رہے۔ ہجرت کا مرحلہ آیا تو تمام تر خطرات کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں سفر کیا، غار ثور میں قیام کیا اور مدینہ پہنچے۔ مدینہ پہنچ کر جب کفار و مشرکین اور یہود سے قتال و جہاد کا وقت آیا تو ہر معرکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ وصالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نازک موقع پر دینی و ایمانی بصیرت کا ثبوت دیا، غم زدہ مسلمانوں کو تسلی دی اور ان کا ایمان و عقیدہ بھی بچایا۔ مرتدین نے جب اسلام کی بنیاد ڈھانے کی کوشش کی تو اس کے دفاع کے لیے میدان میں نکلے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت اور زکوٰۃ کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے والوں کے سر کچل دیے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ قبولِ اسلام کے بعد اوّل روز سے تادمِ مرگ ایمان و اسلام پر نہ صرف قائم رہے بلکہ جرأت و استقامت کے ساتھ دین کی اشاعت و تبلیغ اور اس کی اقامت کے لیے سرگرم رہے۔ آپؓ کے اسلام و ایمان کا عرصہ کم و بیش ربع صدی پر محیط ہے، لیکن اس طویل عرصے میں اسلام اور اسلامی تحریک سے کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیرت و شخصیت کا ایک اور وصف آپؓ کا اللہ کے راستے میں انفاق ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں ایمان و یقین کے بعد اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ وسائل ہیں۔ باطل قوتوں کے خلاف اور غلبۂ اسلام کے لیے مادی وسائل یا مال و دولت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ مال و دولت بھی اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کو دے کر آزماتا ہے کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ مال و دولت کی آزمائش میں بھی ہمیشہ سرخرو رہے۔ آپؓ کا شمار مکہ کے دولت مند تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپؓ نے اپنی دولت کا بڑا حصہ مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو سردارانِ مکہ کی غلامی سے نجات اور رہائی دلانے کے لیے خرچ کیا۔ مشرکینِ مکہ مسلمان غلاموں اور باندیوں پر تشدد کرتے تھے جسے آپؓ برداشت نہ کرپاتے، چنانچہ انہیں بھاری رقم کے عوض رہائی دلاتے۔ روایات میں آتا ہے کہ قبولِ اسلام کے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس 40 ہزار درہم تھے جنہیں آپؓ نے اسلام کی راہ میں خرچ کیا اور ہجرت کے موقع پر صرف پانچ ہزار درہم باقی رہے جنہیں لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔ مدینہ ہجرت کے بعد کفارِ مکہ، یہودِ مدینہ اور شامی رومیوں کے خلاف جو جنگیں ہوئیں ان میں بھی آپؓ نے انفاق فی سبیل اللہ کی بے نظیر مثالیں قائم کیں، خصوصاً غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ لاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ’’ابوبکر! اہل و عیال کے لیے کچھ چھوڑا؟‘‘ فرمایا ’’ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا ہے۔‘‘ مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد شاہانہ امارت و حکومت اختیار کرنے کے بجائے فقر و درویشی کو اختیار کیا۔ حکومت سے نہایت قلیل وظیفہ پر گزارا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت‘ آپؓ کا جذبۂ ایمان و استقامت اور اللہ کی راہ میں جذبۂ انفاق مسلمانوں کے لیے، بالخصوص اسلامی تحریک کے علم برداروں کے لیے نمونہ ہے۔ آج جب کہ ہر جانب سے اسلام اور مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں، اسلام کی بنیادوں کو ڈھانے کی سازشیں ہورہی ہیںاور طاغوتی طاقتیں اسلام کے خلاف متحد ہورہی ہیں‘ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ ایمان و انفاق کو اختیار کیا جائے۔