Search This Blog

Friday, 11 May 2012

مومن کا زیور .... حیا

مومن کا زیور .... حیا

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 
مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مغرب نے ریاست کو چرچ سے جدا کرکے بہت کچھ کھو دیا ہے چونکہ اس سے ریاستی امور ،اخلاقیات کی مہک سے محروم ہو گئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ پہلی جنگ عظیم کی اندوہناک بھٹی میں جاگرا جہاں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور اتنی قتل وغارت گری ہوئی کہ خون کی ندیاں بہہ نکلیں پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی کئی ملین انسانوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر گھاس پھوس کی طرح جلا دیا گیا۔اُن کا قصور یہ تھا کہ وہ عیسائی نہیں بلکہ یہودی تھے پھر جاپان میں کیا ہوا۔ سفاک حملہ آوروں نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایٹم بم گرا کر معصوم لوگوں کے دو ہنستے بستے شہروںیعنی ہیروشیما اورناگا ساکی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا،یہ سب اخلاقی پستی کی کرب ناک داستانیں ہیں۔ کوریا، ویتنام،گلف وار،عراق او ر افغان جنگوں سمیت یہ ساری قتل وغارت صرف معاشی وسائل پرقبضہ کرنے کےلئے تھی جس کا اقوام متحدہ کے چارٹر کےمطابق کوئی قانونی جواز تھا نہ اخلاقی۔ اخلاقیات کی تباہی کی سلسلے میں آج کے جدید دور میں بھی کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ گوانتاناموبے میں قیدیوں کو ننگا کرکے اُن پرکتے چھوڑے گئے، افغانستان میں مسلمان نوجوانوں کو قتل کرکے ان پر پیشاب کیا گیا او رپھر فلم بنائی گئی اورڈرون حملوں سے درجنوں بلکہ سیکٹروں بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ سب کچھ مذہب اور اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اس حیوانیت کو انسانیت کہنا ، انسانیت کی توہین کے مترادف ہو گا۔ یہ سب کچھ جنیوا کنونشن کےخلاف ہے۔ 
دراصل ریاستی امور سے مذہبی سوچ اور اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جانے کے بعد مغربی قوموں کے افراد بھی بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب مغرب کا نعرہ ”آزادی “کا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جس کو میں اورآپ اور ساری مہذب دنیا مادر پدر آزاد، آزادی کہتے ہیں۔ اس آزاد ی کا مطلب عریانی ہے اور بے حیائی بھی۔اس آزادی کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپکے جوان سال بیٹیاں یا بیٹے بے شک بغیر شادی کے اپنے جوڑے چن لیں اور حتی کہ ناجائز بچے بھی پیدا کرلیں توماں باپ کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے کوئی سوال بھی کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ایسے بچوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

یورپ کے سمندری ساحلوں پر سیاحوں کے ہجوم میں سرعام بدکاری کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا (ناروے‘ ڈنمارک اور سویڈن) میں فری سیکس کا قانون ہے۔ سال 2001ءمیں جب میں بطور چیئرمین واہ نوبل گروپ آف کمپنیز سویڈن کے شہرسٹاک ہوم گیا تو وہاں ایک پارک میں میں نے ایک اُدھیڑ عمر عورت کو جسے خاتون کہنا خواتین کی توہین ہوگی، ننگے پھرتے دیکھا ۔ میں نے اپنے میزبان سویڈن میجر سورن سے تذبذب میں پوچھا کہ اگر یہ عورت پاگل ہے تو ا س کو ہسپتال داخل کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس نے جواب دیا کہ یہ پاگل نہیں یہ تو ایک آزاد شہری ہے اور اپنی زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے ، ہمیں ا س سے کیا غرض، یہاں کا قانون اس کو ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو گائے، بھینس اور گدھی کو بھی اپنی شرم گاہیں چھپانے کیلئے دُم کی ہیں اور انسانوں کو عقل بخشی ہے کہ وہ لباس میں رہیں لیکن مغربی تہذیب تو لگتا ہے کہ حیوانیت سے بھی آگے نکل چکی ہے اور بدقسمتی سے اب یہ کینسر ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 
ایک مومن، اہل ایمان اور مسلمان کا بہت قیمتی زیور ”حیا“ ہی ہے۔ آزادی بھی اس کو ضرور ہے لیکن اسلامی تعلیم کے مطابق صرف حدود و قیود کے دائرے کے اندر۔ نبی کریم کا فرمان ہے کہ:
” حیا ہمارے ایمان کا ایک لازمی جزو ہے“۔ 
قرآنِ کریم میں ارشاد ربانی ہے:
”جولوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے اُن کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا“۔ (سورئہ نور آیت۱۹)

اس طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اے پیغمبر اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ(باہر نکلا کریں تو)اپنے اُو پر چادر اوڑھ لیا کریں۔ یہ امر اُن کےلئے موجب شناخت ہوگا تو کوئی اُنکو ایذا نہ دےگا اورخدا بخشنے والا مہربان ہے“۔(سورہ الاحزاب آیت59)۔میں اپنی مرحوم بیگم کی مغفرت کیلئے دعاگو ہوں۔ چار عشروں کی رفاقت میں‘ میں نے انکے سر سے دوپٹہ سر سے سرکتے نہیں دیکھا۔ صرف 66 برس کے بڑھاپے میں ہی نہیں‘ بلکہ 24 سال کی جوانی میں بھی۔

بدقسمتی سے اب پاکستانی معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جار ہی ہے۔ کیبلز پر انتہائی واہیات پروگرام دیکھ کر اب ٹیلی ویژن پر شرم وحیا سے عاری اشتہار بھی مہذب لگنے شروع ہو گئے ہیں۔پیمرا بالکل غیر موثر اور ناکارہ ہو چکا ہے یا اُنکے اندربے حیائی کو روکنے کی وہ ایمانی طاقت نہیں رہی جس کا اُن کا منصب متقاضی ہے۔ صرف احکامات نکال کر اُس پر عمل کی یقین دہانی نہ کرانے سے مسائل حل نہیںہونگے۔ ا س بے حیائی اور بدکاری کو دیکھ کر ہماری جوان نسل اور بچے جو ہمارا ایک انمول سرمایہ ہیں، اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حیا کا پردہ پھٹ جائے تو انسان بے حیائی کے گہرے سمند رمیں غرق ہو جاتا ہے۔ موبائل ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور کیبلز نیٹ ورک کے غلط استعمال سے ہماری جوان نسل اخلاقی طور پر اس طرح تباہ ہو رہی ہے جیسے رانی کھیت کی بیماری سے لاکھوں مرغے اور مرغیاں یک دم ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جوان بیٹیاں اور بہنیں ناجائز بچوں کو جنم دیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ہندوستانی اور مغربی افسوس ناک عریانی کے مناظر دیکھ کر ہمارے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ جوان نسل اگر بے راہ روی کا شکار ہو گئی تو مستقبل کے پاکستان کا محافظ کون ہو گا؟ 8مئی کے ایک اردو اخبار میں یہ خبر پڑھ کر میرا کلیجہ منہ کو آ گیا کہ ضلع صوابی کے ایک گاﺅں میں ایک ماں نے اپنی نوجوان بیٹی کو تیزاب پلا کر موت کی نیند سلا دیا اور بیٹی نے اپنی ماں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ وجہ یہ تھی کہ کنواری بچی ماں بننے لگی تھی۔ اسکے علاوہ ایک اور خبر کےمطابق پنجاب کے ایک دور افتادہ گاﺅں کی ایک خاتون ڈاکٹر گائنا کالوجسٹ نے اسلا م آباد کے ایک نہایت قابل احترام اور معروف صحافی جناب انصار عباسی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ اسکے پاس آئے دن چھوٹی کنواری بچیاں ور اُنکی مائیں استقاط کرانے کیلئے آتی ہیں اور ایک ماں نے تو ڈاکٹر صاحبہ کو بتایا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی تو ہم اپنی بچی کو زہر پلا دے دیں گے۔ قارئین ہمارے معاشرے کو تباہ کرنےوالا خطرناک وائرس یہی ہے۔

دُکھ کی بات یہ ہے کہ معاشرے کی اس بتاہ کن پستی کی طرف کسی کا بھی کوئی دھیان نہیں۔ نام نہاد روشن خیال والدین بھی اپنی اولاد کےساتھ ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر واہیات گفتگو اور بے حیا مناظر کایہ گند ہضم کر جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور کیبل آپریٹرز صرف کمائی کے دھندے میں مصروف ہیں۔ قلم کاروں کو یہ معاشرہ کش دیمک نظر ہی نہیں آرہی اور حکومت اور پمرا کی ترجیحات تو بالکل مختلف ہیں۔ ملک کے صدر کے پارلیمانی نظام میں کوئی قانونی اختیارات نہیں، وزیراعظم کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت مجرم قرار دے چکی ہے ۔ سینٹ کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کی سپیکر غیر جانب دار رہنا بھی چاہیں تو موجودہ نظام میں ایسا ممکن نہیں ۔ پاکستان صرف پاکیزہ اور نیک ماﺅں، بہنوں اور بزرگوں کی وجہ سے قائم ہے لیکن بے حیائی اوربدکاری کے پھیلتے ہوئے کلچر کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ہمارے قانون سازاداروں کے منتخب ارکان اسمبلیوں میں بیٹھ کر شراب نوشی اور بدکاری کےخلاف سخت قوانین توبناتے ہیں لیکن شاہرہ دستور کو عبور کرکے جب وہ پارلیمانی لاجز تک پہنچتے ہیں توبہت سے وڈیرے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔

ہماری ایک بدنصیب خاتون ایکٹریس کے ننگے فوٹو نہ صرف ہندوستان اور پاکستان بلکہ یوٹیوب پر پوری دنیا میں دکھائے گئے۔اسکے باوجود پاکستان کے کئی ٹی وی چینلوں نے اس عورت کو اپنے پروگراموں میں خوش آمدید کہا لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کو حاصل کرتے وقت تحریک پاکستان کے مجاہدوں کا نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ“ کا قانون حرکت میں نہ آ سکا۔ بچوں کی تربیت گھر کی چار دیواری سے شروع ہو جاتی ہے۔ میری ڈیڑھ سالہ نواسی رامین جب مجھے او رمیری بیٹی کو نماز ادا کرتے دیکھتی ہے تو وہ بھی سر پر دوپٹہ لے کر سجدے کرتی ہے۔ انگلینڈ سے آئی ہوئی میری دس سالہ نواسی نتاشا بی بی کو جب میں نے کہا کہ بیٹاآپ کو پینٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھ کر میں خوش نہیں ہوتاچونکہ اس سے جسم اچھی طرح ڈھانپا نہیں جا سکتا جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی ہے تو وہ چند گھنٹوں میں اپنی ماں کےساتھ بازار جاکر شلوار قمیض اور دوپٹہ خرید لائی اور میرے سامنے کھڑی ہو کر کہنے لگی ”ابو جی اب میں کیسی لگ رہی ہوں“ تو میں نے ا س کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ”اب آپ پری لگ رہی ہیں۔ اب اگلی بات اُس نے خود کہہ دی، کہنے لگی”ابو جی! میں نے قرآن شریف ختم کیا ہوا ہے ، اب نماز بھی شروع کرونگی“۔ یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوگیا۔ 

بچوں کو پیار سے سمجھا کر راہِ راست پر لانا ہمارا بہت اہم فریضہ ہے۔ اس سے بھی بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ بے راہ راوی کا پرچار کرنےوالے، ٹیلی ویژن اور کیبل نیٹ ورک کے لائسنس منسوخ کرے۔ بچے انٹرنیٹ سے ضرور مستفید ہوں چونکہ یہاں علم کا سمندر ہے،ٹیلی ویژن کے معلوماتی اورتفریحی پروگرام بھی ضرور دیکھیں لیکن اس آزادی کی وہ حدود و قیود نہ پھلانگی جائیں جن کا تعین گھر کے بزرگ اور والدین کریں چونکہ ”حیا “مومن کا زیور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”کہہ دو کہ خدا بے حیائی کے کام کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیتا“۔(سورة الاعراف آیت27)۔



Disclaimer :The views expressed by the author in this feature/article/news story are entirly his own and not necessarily reflect my views. 

No comments:

Post a Comment