Search This Blog

Sunday, 27 May 2012

تمنا . شاہ نواز فاروقی

تمنا

شاہ نواز فاروقی
-انسان کے خیالات معمولی چیز نہیں۔ انسان جیسا سوچتا ہے ویسا بن جاتا ہے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ سوچنے کا عمل صرف ذہن تک محدود نہ رہے بلکہ وہ پورے وجود کی پکار بن جائے۔ لیکن اس بات کا مطلب کیا ہے؟ ہماری زبان کے تین لفظ ہیں: خواہش، آرزو اور تمنا۔ کہنے کو تو تینوں الفاظ ہم معنی ہیں اور شاعری میں اکثر ان کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، اور ایسا کرنا غلط بھی نہیں۔ تاہم غور کیا جائے تو یہ تین الفاظ وجود کی تین مختلف سطحوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خواہش کا لفظ وجود کے کسی ایک گوشے کی علامت ہے۔ یعنی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’ہماری خواہش یہ ہے‘ تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارے وجود کا ایک گوشہ فلاں شے کی طلب محسوس کررہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وجود کا یہ حصہ صرف ہمارا ذہن ہو، ہماری کوئی جبلت ہو۔ لیکن جیسے ہی ہم آرزو کا لفظ استعمال کرتے ہیں صورتِ حال تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ آرزو وجود کے کسی گوشے کا تقاضا نہیں ہے، بلکہ آرزو کا لفظ اس بات کا اظہار ہے کہ اب کسی چیز کی طلب میں وجود کے ایک سے زیادہ گوشے شریک ہوگئے ہیں۔ مثلاً کوئی شے ذہن کو بھی درکار ہے اور جبلتوں کو بھی مطلوب ہے۔ ایک شعر ہے ؎ خواہش سے کب ہے تیری طلب آرزو سے ہے اک سمت سے نہیں یہ غضب چار سُو سے ہے اگرچہ آرزو اور تمنا تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں، لیکن ان لفظوں کو ان کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے تو آرزو بھی ایک محدود تصور ہے۔ خواہش، آرزو اور تمنا میں جامع ترین لفظ تمنا ہے۔ خواہش اگر کنواں ہے تو آرزو جھیل ہے اور تمنا سمندر۔ خواہش اگر صرف جسم ہے تو آرزو جسم اور نفس کی یکجائی کی علامت ہے، اور تمنا بیک وقت جسم، نفس اور روح کا استعارہ۔ خواہش اگر ماضی ہے تو آرزو ماضی اور حال پر محیط حقیقت، اور تمنا ماضی، حال اور مستقبل کا مرکب۔ غالب نے تمنا کے حوالے سے ایک بے مثال شعر کہہ رکھا ہے۔ غالب نے کہا ہے ؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پایا غالب نے اس شعر میں ’’موجود‘‘ نہیں ’’ممکن‘‘ کو بھی تمنا کا محض ایک قدم قرار دیا ہے۔ اردو شاعری میں تمنا کا اس سے زیادہ بامعنی استعمال اور کہیں موجود نہیں۔ البتہ میرؔ نے تمنا کے لفظ میں معنی کی ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے، میرؔ نے کہا ہے ؎ تمنائے دل کے لیے جان دی سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے میرؔ نے اس شعر میں تین کام کیے ہیں۔ ایک کام تو انہوں نے یہ کیا ہے کہ انسانی وجود میں تمنا کے مرکز کی نشاندہی کردی ہے اور بتایا ہے کہ وہ دل کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ میرؔ نے دوسرا کام یہ کیا ہے کہ تمنا کو معلوم سے محسوس بنادیا ہے۔ میرؔ نے تیسرا کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے بتادیا کہ انسانی جان اتنی قیمتی ہے کہ اسے صرف پورے وجود کے تقاضے کی نذر کیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ جبلت کے کسی تقاضے کے لیے جان نہیں دی جاسکتی۔ صرف ذہن کے مطالبے پر جان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں دل کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب میں دل کی سب سے بڑی تمنا صرف ایک ہے، اللہ تعالیٰ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے۔ اس کے ہونے سے ہر شے موجود ہے، اس کے ہونے سے ہر چیز میں معنی ہیں۔ مذاہب بالخصوص اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی شعوری طور پر زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے بڑی تمنا سے منسلک کردیتا ہے۔ نومولود کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اللہ ہی بڑا ہے۔ اس کے سوا کوئی الہ نہیں۔ اسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اسے فلاح اور نماز کی طرف آنا چاہیے، یہاں تک کہ اس کی زندگی میں نماز ’’قائم‘‘ ہوجائے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک مسلمان کی زندگی کا جامع دستور ہے اور ساری زندگی اس دستور کی تفصیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خدا پر ایمان اور اس کے قرب نے کہیں انسان کو پیغمبر بنادیا ہے، کہیں ولی بناکر کھڑا کردیا ہے، کہیں وہ زمین پر اللہ کا نائب بن گیا ہے، کہیں اسے اشیاء پر تصرف حاصل ہوگیا ہے۔ ہماری تہذیب میں خدا پر ایمان نے تفسیر کی بے مثال روایت پیدا کی، علم حدیث کا سمندر تخلیق کیا، سیرت پر ادب کے بحرِ زخار کو جنم دیا، شاعری کی عظیم الشان روایت کو خلق کیا، فقہ کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی، فنِ تعمیر کے بے مثال نمونے دنیا کو دیے، جہاں بانی اور جہانگیری کی شاندار روایات قائم کیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ایمان کی روایت نے علم پیدا کیا ہے تو اس میں کمال کی کیا بات ہے؟ اس لیے کہ تشکیک نے بھی دنیا میں علم کی بڑی روایت پیدا کی ہے۔ اور وہ غلط نہیں کہتے۔ لیکن تشکیک کے علم کی سطح تشکیک ہی کی طرح سست ہے۔ تشکیک کی روایت کے پیدا کردہ علم کی پائیداری کا یہ حال ہے کہ مغرب میں تشکیک زدہ فلسفی دو تین دہائیوں میں ’’پرانے‘‘ ہوجاتے ہیں۔ کارل مارکس نے تشکیک کی بنیاد پر علم کا ’’تاج محل‘‘ تعمیر کیا تھا، مگر یہ تاج محل صرف 70 سال میں کھنڈر بن گیا اور آج اس تاج محل کی باقیات کو کہیں اور کیا ماسکو میں بھی لوگ ’’آثار قدیمہ‘‘ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ ماسکو وہ شہر ہے جہاں مارکس کو 70 سال تک پوجا گیا ہے۔ اس کے برعکس غزالیؒ اور رازیؒ تقریباً ایک ہزار سال سے زندہ ہیں، لیکن یہ زندگی غزالیؒ اور رازیؒ کی زندگی نہیں اُن کے موضوعات کی زندگی ہے جن میں الٰہیات کا موضوع سرفہرست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غزالیؒ اور رازیؒ کی عظمت ان کی تمنا کی عظمت ہے۔ بلاشبہ بڑی چیز کی تمنا بھی انسان کو بڑا بنادیتی ہے۔ اس کے برعکس چھوٹی چیز کی تمنا انسان کو چھوٹا بنادیتی ہیٖ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ادب میں ’’عشقِ حقیقی‘‘ کے ساتھ ’’عشقِ مجازی‘‘ کی اصطلاح بھی مروج تھی، اور ہماری شعری روایت میں بڑی شاعری وہ تھی جو بیک وقت محبوبِ حقیقی اور محبوبِ مجازی کے بیان پر مشتمل ہو۔ اس شاعرانہ روایت میں محبوبِ حقیقی خدا تھا اور محبوبِ مجازی انسان۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک ہماری شاعری ’’حقیقت‘‘ کے شعور کی حامل تھی اُس وقت تک ’’مجاز‘‘ بھی حسین تھا، جمیل تھا، بامعنی تھا، اور اس کا عشق بھی عشق کہلانے کا مستحق تھا۔ لیکن عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا تعلق یہ ہے کہ جب تک مجازی عشق، عشقِ حقیقی سے جڑا ہوا ہے اُس وقت تک وہ عشق ہے، لیکن عشقِ حقیقی سے تعلق توڑتے ہی عشقِ مجازی صرف ’’ہوس‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری روایت میں بڑی تمنا سے وابستگی یا عدم وابستگی تصورات اور اشیاء کی حقیقت اور معنویت کو اسی طرح تبدیل کرتی ہے۔ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ وہ خواہش، آرزو اور تمنا کے فرق سے آگاہ نہیں، اور اس نے اکثر صورتوں میں خواہش ہی کو تمنا سمجھ لیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو سرے سے وجودِ باری تعالیٰ کے قائل ہی نہیں، چنانچہ خدا ان کی تمنا ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو خدا کو مانتے تو ہیں مگر انہوں نے خدا کے شریک ایجاد کرلیے ہیں، یعنی انہوں نے بڑی تمنا میں خدا کے ساتھ ان کو بھی شریک کرلیا ہے جو ہرگز خدا کہلانے کے مستحق نہیں۔ رہے مسلمان، تو ان کی بڑی تعداد کے لیے خدا محض ایک عقیدہ، محض ایک تصور ہے۔ وہ ان کی تمنا نہیں ہے۔ ان کے پورے وجود کی پکار نہیں ہے۔ خدا سے مسلمانوں کی محبت اکثر صورتوں میں پارٹ ٹائم محبت ہے۔ تو پھر مسلمانوں کی ترجیح اوّل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک لفظ میں ہے: دنیا۔ مسلم معاشرے اپنے بچوں کو شدت، گہرائی اور تواتر کے ساتھ صرف ایک بات بتارہے ہیں: تمہیں پڑھنا ہے اور دل لگا کر پڑھنا ہے، تمہیں محنت کرنی ہے اور جان توڑ محنت کرنی ہے، تمہیں تعلیمی محاذ پر کامیاب ہونا ہے اور بہترین انداز میں کامیاب ہونا ہے تاکہ تم ایک اچھا روزگار حاصل کرسکو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روزگار ہماری سب سے بڑی تمنا بن گیا ہے۔ اصول ہے: انسان روشنی کے ساتھ رہتا ہے روشنی بن جاتا ہے، عطر بناتا ہے تو اس سے خوشبو آنے لگتی ہے، کوئلوں کا کام کرتا ہے تو اس کے ہاتھ کالے ہوجاتے ہیں۔ ایسی باتوں کو لوگ دنیا کے انکار کے مترادف سمجھتے ہیں۔ لیکن دنیا کے اقرار اور دنیا کی پوجا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدا انسان کی تمنا ہو تو دنیا اپنے مقام پر رہتی ہے، ورنہ دنیا خود خدا بن جاتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت اصل چیز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے بینک اکائونٹ میں پچاس ارب روپے ہوں اور وہ انہیں پچاس روپوں کے برابر سمجھتا ہوں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بسا اوقات انسان پچاس روپے کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لیتا ہے۔ یہی دنیا کے تمنا بن جانے کی صورت ہے۔

No comments:

Post a Comment