احوال پاکستان
بہ شکرءیہ روزنامہ جسارت
سودکی حلت پر ایک تحریرکاتنقیدی جائزہ
متفرق
-(کراچی کے ایک کثیرالاشاعت اخبارمیں اتوار15 اپریل کو جناب یاسرپیرزادہ کا ایک مضمون بعنوان ’’سود‘‘ شائع ہواہے۔ اس کے حوالے سے لندن سے ڈاکٹر طارق سعید نے اپنے خیالات کا اظہارکیاہے۔ یہ جوابی مضمون اسی اخبارمیں شائع ہونا چاہیے تھا لیکن کسی مصلحت کے تحت ایسا نہیں ہوسکا۔ ڈاکٹرطارق نے اپنا مضمون جسارت کو بھیج دیاہے جس میں یاسرپیرزادہ ہی کو مخاطب کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔یہ ایک اہم موضوع ہے اس لیے قارئین جسارت کے استفادہ کے لیے شائع کیاجارہاہے۔) برادریاسرپیرزادہ صاحب‘ 15 اپریل 2012ء کو جنگ اخبارمیں آپ کے چھپنے والے مضمون کے حوالہ سے آپ سے فون پر بات ہوئی اور پھر اس سلسلہ میں ایک برق نامہ ارسال خدمت کیا جس کا آپ نے فی الفور جواب عنایت کیا۔ اس کے لیے میں بہت شکرگزارہوں۔ مگر آپ کے مضمون کے حوالہ سے چندگزارشات آپ کے گوش گزارکرنا چاہتاہوں۔ مضمون کی تمہید میں آپ نے دوافراد کے حوالے سے سودکی حلت کی ضرورت کا ذکرکیاہے۔ مگر نعمان صاحب کا بغیر بینک اکائونٹ کے کاروبارچلانا ایک معجزہ ہی معلوم ہوتاہے کیونکہ 9/11 کے بعد بین الاقوامی مالیاتی قوانین اتنے سخت ہیں کہ آپ معمولی سے معمولی Transactionکے لیے بھی بینک کے محتاج ہیں ۔ ثانیا سابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز کے ڈاکومینٹیشن کے نام پر مسلط کردہ قوانین سے یہ حضرت کیوں کرنمٹتے ہوں گے سمجھ سے بالاتر ہے۔ رہامولوی صاحب کافتویٰ تو محترم فتویٰ دینا مفتی کاکام ہے عام مولوی کا نہیں۔ اورغالباً آپ نے لفظ مولوی تحقیراً لکھاہے رہا سوال موجودہ اسلامی بنکاری کا تو یہ کہانی پھرسہی… آپ کی تمہید کے دوسرے کردارماسٹرصاحب کے داماد کی بددیانتی سے سود کی حلت کس طرح سے ثابت ہوتی ہے‘ یہ بھی میری ناقص عقل سے بالاتر ہے۔ سودی بینکاری کے نظام میں بینکوں کے فیل ہونے اور فراڈ کے ذریعہ کتنے لوگ اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں یہ بھی قابل تحقیق مضمون ہے خاص طور پر 2007ء کا مشہور زمانہus prime mortgage یا Pongi schemes لیکن کیا آپ یہ بتانا گواراکریں گے کہ قومی بچت کی اوسط شرح سود 14 فیصد سالانہ ہو اور حکومت کی اعلان کردہ افراط زرکی شرح 15 فیصد سالانہ ہوتو بیچارے ماسٹر صاحب کیا دھوتے ہوںگے اورکیا نچوڑتے ہوں گے۔ آپ نے اپنے مضمون میں سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی بے توقیری کا ذکرکرکے دل خوش کردیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ مگر بندرکی بلا طویلے کے سرپررکھتے ہوئے Barking ON the Wrong Tree کے مصداق‘ الزام اس سلسلہ میں مناسب فتویٰ کے نہ ہونے پر رکھ دیا۔ اگر کبھی موقع ملے تو اصول الفقہ کی کسی بھی کتاب میں فتویٰ کا باب ضرورپڑھیے گا۔ عزیزبھائی! اسلام کی تو اساس ہی انسان کی حرمت اور تقدس پرہے‘ حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد ‘ انسان کی عزت وتکریم کو کعبہ پر فضیلت اسلام نے ہی تو دی ہے۔ میرے نبیؐ ہی نے تو فرمایاکہ اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکردو۔ اگرآپ اس سلسلہ میں ضروری سمجھتے ہیں توسنیے ’’اسلام صرف اتناہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی میں یہ معاشی دوڑکھلی اور بے لاگ ہو‘ بلکہ یہ بھی چاہتاہے کہ اس میدان میں دوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے درد نہ ہوں بلکہ ہمدرد اور مددگارہوں‘‘ (حوالہ‘مولانا مودودیؒ)۔ معاشیات اسلام‘ صفحہ 25 مطبوعہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈلاہور)۔ یہ سرمایہ داری کا نظام ہی تو ہے جس نے انسان کو بے توقیر کرکے اسفل السافلین بنادیاہے اوراب تاثریامی روددیوارکج کے مصداق معاشی ترقی اور اخلاقی تنزلی میں تناسب راست پایاجاتاہے۔ رہا سوال ترجمہ میں لفظ سود آنے اور کاروبارکے حرام ہونے کا تو یہ الفاظ ہی کا توجھگڑا ہے ‘ مارو اور کولیسٹرل ڈیمیج کہہ کر جان چھڑالو۔ اسلام میں لفظ اور ان کے معانی مسئلہ نہیں بلکہ کاروبارکی نوعیت‘ افرادکے رویے اور اس کے نتیجہ میں فروغ پانے والا معاشرہ اورخرابیاں قابل توجہ اور اصل ترجیح ہیں۔ محترم حسن نثارصاحب نذیرناجی صاحب جیسے تمام احباب کو گلہ ہے کہ اگرآئین پاکستان سے لفظ اسلام نکل جائے اورتمام برائیوںکے خلاف فتویٰ جاری ہوجائے تو پاکستان کے پسے ہوئے عوام کو راحت نصیب ہوجائے گی۔ مگر ان احباب میں سے کسی نے بھی ایک لفظ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لکھناگوارانہیں کیا کہ جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ انسان پرانسان کی حکومت اور اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے خوش بختی کیوں کرآئے گی یہ بات میری عقل سے بالاہے کسی نے کیا خوب کہاہے کہ جتنے ازم بھی ہیں جہاں میں ان سے انساں کو کیاملاہے چھوڑکر دامن مصطفیٰ کو آدمی کرب میں مبتلا ہے اگرفتویٰ ہی چاہیے تو پھر قرآن اٹھائیے جوکہتاہے کہ ’’حضرت شعیب نے کہا اے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے۔ لہٰذا وزن اورپیمانے پورے کرو لوگوں کو ان کی چیزمیں گھاٹا نہ دو‘‘۔ (الاعراف85) ۔ (جاری ہے )
|
No comments:
Post a Comment