Search This Blog

Friday 25 May 2012

آج کا ترکی .... ایک روشن مثال

آج کا ترکی .... ایک روشن مثال .

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ 
آج سے کئی برس قبل جب میں ترک دوست بعصوص سلیم کےساتھ استنبول کی ایک بڑی عمارت میں داخل ہوا تو میں سمجھا کہ ہم یہاں کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں آ گئے ہیں۔ فرش پر سرخ رنگ کے قالین بچھے ہوئے تھے حتیٰ کہ سیڑھیوں پر بھی قالین بچھا تھا۔ لفٹیں تیزی سے اوپر نیچے آ جا رہی تھیں۔ ابھی تک میں عالم حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ ہوٹل ہے یا کارپوریشن کا دفتر، اتنے میں ہم ڈپٹی ڈائریکٹر قدیربے کے دفتر میں قدم رکھ چکے تھے۔ قدیربے نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور استنبول کارپوریشن کی تاریخ اور منصوبوں کے بارے میں آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی کتاب مجھے پیش کی۔ اسی اثناءمیں انہوں نے کارپوریشن کے چیف ایڈمنسٹریٹر کو ہماری آمد کے بارے میں بتایا۔ اس مردِ شفیق نے باقی مصروفیات ترک کر کے فرمایا کہ میں ”مسافر“ کےلئے چشمِ براہ ہوں۔
ڈاکٹر ارمن ٹنسر نہایت تپاک سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ میٹروپولیٹن گورنمنٹ کو سٹی کونسل تشکیل دیتی ہے۔ یہ سٹی کونسل 199 ارکان پر مشتمل ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ استنبول کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی جماعت کو دوسری ٹرم کےلئے منتخب کیا گیا ہو۔ رفاہ کے میر رجب طیب اردگان نے ایک ٹرم میں ایسے کام کئے جو کارپوریشن کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے لگن اور جانفشانی سے کام کیا اور استنبول کے شہریوں کو وہ وہ سہولتیں بہم پہنچائیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ اُنکی دیانت، امانت، محنت اور جانفشانی کے چرچے دور نزدیک ہر جگہ پہنچ گئے۔ وہ اہل استنبول کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ 
اس وقت میں رجب طیب اردگان سے نہ مل سکا کیونکہ وہ پسِ دیوار زنداں تھا۔ ایک ”جذباتی“ تقریر کی پاداش میں ترکی کی فوجی عدالت نے انہیں یہ سزا دی۔ تب طیب اردگان نے دل میں یہ ٹھان لی کہ خدمت خلق کا جو جرم انہوں نے استنبول میں انجام دیا ہے وہ جرم اب اُن سے ترکی کے چپے چپے میں سرزد ہو گا۔ وہ جیل سے رہا ہوئے، انہوں نے کھربوں کی کرپشن والی استنبول کارپوریشن کو یوں پاک صاف کیا کہ اپنے پرائے سب پکار اٹھے کہ اب یہاں ایک لیرے کی بھی بدعنوانی نہیں ہوتی۔ 
جن دو شخصیات کی اذانوں نے ترکی کو بیدار کیا ہے ان میں استاد بدیع الزماں نورسی اور پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔ اربکان ترکی کے وزیراعظم بھی رہے اور اِنکا انتقال 2011ءمیں ہوا۔ استاذ نجم الدین اربکان نے 9 ماہ میں ”ملی گورش“ کے نام سے نوجوانوں کی تحریک شروع کی۔ ترکی کے فوجی حکمرانوں نے اُن کا راستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور انکی جماعت پر پابندی عائد کر دی۔ وہ ہر پابندی کے بعد نئی جماعت بنا کر میدان میں نکل آئے۔ ملی نظام پارٹی، پھر سلامت پارٹی، پھر رفاہ پارٹی، پھر فضیلت پارٹی، اسکے بعد سعادت پارٹی۔ ترکی کے موجودہ حکمران رجب طیب اردگان اور صدر ترکی عبداللہ گل پروفیسر نجم الدین اربکان کے ہی ساتھی اور شاگرد ہیں، سیاسی طریق کار سے اختلاف پر اُن سے الگ ہوئے۔ انہوں نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) بنائی اور دو بار کے بعد اب تیسری مرتبہ برسر اقتدار آ گئے ہیں۔ 
رجب طیب اردگان کی اس مخیر العقول اور عظیم کامیابی کا راز بڑا سادہ ہے۔ وہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ اپنی ذات کی نفی اور عوام کی خدمت بلکہ بے پناہ خدمت۔ طیب اردگان سے پہلے گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چند ترک دوستوں سے میں نے اسلام آباد میں پوچھا کہ طیب اردگان کی پے بہ پے کامیابیوں کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ترکی میں دکانداروں سے پوچھیں، گاہکوں سے پوچھیں، طلبہ سے پوچھیں، حکومتی ملازمین سے پوچھیں یا پرائیویٹ اداروں کے اہلکاروں سے پوچھیں آپ کو ایک ہی جواب ملے گا ہم طیب اردگان کےساتھ ہیں، ہم اس سے دل و جان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ہم اسے کھونا نہیں چاہتے۔ اس نے ترکوں کی حالت بدل دی ہے، اس نے ہمیں فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا ہے، وہ ایک دیانتدار اور دردمند حکمران ہے۔ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے سروے کےمطابق ترک عوام حکومت کی تعلیمی پالیسی، اسکی اقتصادی پالیسی اور صحت پالیسی سے بہت خوش ہیں تقریباً 60 فیصد عوام حکومت کے اقدامات سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ دل و جان سے ان خوشگوار کاموں کی قدر کرتے ہیں۔ 
ترک عوام پہلے ہسپتالوں میں ذلیل و خوار ہوتے تھے، غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ ڈاکٹر مریض کو انسان نہیں سمجھتے تھے، سرکاری ہسپتال سے ادویات لینے کےلئے چار چار سو افراد کی لمبی قطاریں بنی ہوتی تھیں لیکن اردگان نے کہا کہ جن غریبوں کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہے اسکی کفیل خود حکومت ہو گی، اسی طرح 18 برس سے یا اس سے کم عمر کے تمام بچوں کے علاج معالجے کے اخراجات بھی حکومت ادا کرےگی یہ تعداد تین کروڑ نوے لاکھ بنتی ہے۔ مریض کو نظر انداز کرنا جرم بنا دیا گیا بہت بڑا جرم، ڈاکٹروں کو اس جرم کی پاداش میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا، سرکاری ڈاکٹر کم پڑ گئے تو عوام کے علاج کےلئے پرائیویٹ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ 
چند روز پہلے میں نے ہفت روزہ امریکی جریدے ”ٹائم“ میں پڑھا کہ اس وقت جاپان اور سنگاپور کی نہیں ترکی اور انڈونیشیا کی اقتصادی ترقی باعثِ تقلید ہے۔ امریکی جریدے نے لکھا کہ اب تک ترکی کو ایک مسلمان ملک ہونے کی حیثیت سے اسکی عوامی خدمت، فلاحی منصوبوں اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کو نظر انداز کیا گیا مگر اب جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 
ترکی اپنی تعلیمی ترقی کے اعتبار سے بھی تمام مسلمان ملکوں پر سبقت لے گیا ہے اب وہاں سو فیصد شرح خواندگی ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک کی طرح ترکی نے بھی سارے ملک کےلئے یکساں تعلیم، ایک جیسا نصابِ تعلیم اور اپنی زبان میں تعلیم کا نظام رائج کیا ہے۔ سائنس ہو یا آرٹ، عمرانی علوم ہوں یا تجارتی علوم سب کچھ اپنی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ قومی زبان میں پڑھنے سے تعلیم آسان اور عام فہم ہو گئی ہے۔ آج ترکی کے ڈاکٹر، ترکی کے انجینئر، ترکی کے ماہرینِ تجارت و اقتصادیات ساری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں اور نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ جو غلامی اور غلامانہ سوچ سے ابھی تک دامن نہیں چھڑا سکے۔ 

No comments:

Post a Comment