Search This Blog

Sunday 13 May 2012

بد نصیب


بد نصیب


-فرحی نعیم
یہ دنیا دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ یہاں قدم قدم پر دکھ بکھرے پڑے ہیں۔ خوشیوں کے لمحات بہت تھوڑے لیکن غم اور مصائب بے شمار… جو چین سے جینے ہی نہیں دیتے۔ دوسروں کے رنج و الم کی داستان سن کر انسان اپنی تکالیف بھول جاتا ہے۔ ایسی ہی کہانی ساجدہ کی تھی۔ ساجدہ ایک زندہ دل لڑکی تھی۔ عمر تقریباً اٹھارہ، انیس سال۔ وہ تین بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ایک بہن بڑی اور ایک اس سے چھوٹی تھی۔ اس کی ماں ہمارے گھر کام کے لیے آتی تھی۔ وہ کبھی ماں کے ساتھ آجاتی۔ چونکہ ان کے سارے رشتہ دار گائوں ہی میں رہائش پذیر تھے، لہٰذا ایک دفعہ جب ساجدہ کی ماں کام پر آئی تو یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کا رشتہ اپنے رشتہ داروں میں کردیا ہے۔ دونوں بیٹیاں ایک ہی گھر میں دو بھائیوں سے کچھ مہینوں بعد بیاہ دی گئیں اور گائوں روانہ ہوگئیں۔ وہاں نرم گرم ان کے ساتھ چلتی رہی۔ ایک سال بعد خوشی کی خبر آئی کہ دونوں بیٹیاں ایک ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہیں۔ وہ خوشی خوشی گائوں روانہ ہوئی، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، جب ساجدہ کی والدہ واپس آئیں تو یہ عجیب و غریب خبر سنائی کہ دونوں بچے چند دن زندہ رہ کر نامعلوم بیماری میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئے حالانکہ دونوں بظاہر صحت مند اور نارمل تھے۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ نظر کھا گئی کسی کی دونوں کو‘‘۔ جمیلہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ افسوس تو ہمیں بھی بہت تھا، لیکن بہرحال خدا کی مرضی کے آگے سب انسان بے بس ہیں۔ کچھ ہی عرصے بعد جمیلہ (ساجدہ کی ماں) نے پھر خبر سنائی کہ اس کی لڑکیوں کے ہاں پھر خوشی آنے والی ہے۔ بڑی بیٹی کے ہاں تو ایک لڑکی ہوئی لیکن ساجدہ چند مہینوں کے بعد ہی اس خوشی کے آنے سے پہلے محروم ہوگئی۔ ساجدہ اس کے بعد واپس یہاں آگئی اور اپنے میاں کے ساتھ یہیں رہنے لگی اور مختلف گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرنے لگی۔ ساجدہ ایک مختلف مزاج کی لڑکی تھی۔ وہ بنگلوں میں کام کے لیے جاتی تو وہاں رہنے والی خواتین و لڑکیوں کو دیکھ کر اسے بڑا رشک آتا، وہ ان سے اپنا موازنہ کرتی اور پھر ان کے طور طریقے اپنانے کی کوشش کرتی۔ اس نے پھر شوق میں آکر مہندی لگانی سیکھی اور میک اَپ کرنے کا کورس کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈرائیونگ بھی سیکھی۔ اس دوران پھر امید کی کرن جگمگائی لیکن جلد ہی بجھ گئی۔ وہ بہت مایوس ہوگئی تھی لیکن زندگی کی جدوجہد تو جاری رکھنی تھی نا۔ سو وہ چل رہی تھی۔ اس دوران اسے ٹائیفائیڈ وغیرہ بھی ہوگیا۔ اس کی ماں اس کا علاج کراتی رہی لیکن وہ لاپروا ہوگئی تھی۔ ماں شکایت کرتی کہ یہ وقت پر دوا نہیں کھاتی، اور جب میری ڈانٹ سنتی ہے تو دن بھر کی ساری گولیاں اکٹھی ایک ساتھ کھالیتی ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو نرمی سے اسے سمجھایا کہ اس طرح تم اپنا ہی نقصان کررہی ہو، دوا بجائے فائدہ دینے کے نقصان دہ ہوجائے گی۔ دوسری طرف اس کا میاں بھی ٹھیک سے کام کاج نہ کرتا۔ وہ بھی سسرال کے ہی آسرے پر رہتا۔ اس وجہ سے بھی وہ دلبرداشتہ رہتی۔ ابھی وہ پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئی تھی کہ پھر امید کا جگنو جگمگایا۔ اس دفعہ اس نے حتی الامکان احتیاط برتی اور پھر اس کی امید برآئی۔ ایک دفعہ پھر خدا نے اسے بیٹے کی نعمت سے نوازا تھا۔ وہ بہت خوش تھی بچے کو پاکر۔ لیکن یہ خوشی بھی چند دن سے زیادہ نہیں رہی۔ بچہ بیمار رہنے لگا تھا، اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر اسے اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ بچے کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ اس کے پاس تھی۔ دورانِ علاج بچے کو خون چڑھانے کی ضرورت پڑی، اُس وقت ساجدہ اکیلی ہی اسپتال میں تھی۔ اس نے ماں کو کئی فون کیے (اس وقت موبائل اتنا عام نہیں تھا)، شوہر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بدقسمتی سے ہر کوشش بیکار گئی۔ ادھر ڈاکٹر اسے فوری طور پر خون کا بندوبست کرنے کو کہہ رہے تھے، اس کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ خود ہی کچھ کرسکے۔ اسے اور کچھ نہ سوجھا تو اپنا ہی خون دے دیا۔ غریب کا تو ویسے بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، اور سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ِزار ہے اس سے سب ہی واقف ہیں۔ بچے کو بیمار ماں کا خون چڑھا دیا گیا۔ کیونکہ ساجدہ کی طبیعت بھی آئے دن خراب رہتی تھی اور بچے کے ہونے کے بعد بھی وہ مکمل طور پر تندرست نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر وہی ہوا، ممتا کی ماری ایک دفعہ پھر ہارگئی۔ موت نے زندگی کو شکست دے دی اور وہ بچے کی لاش اٹھائے گھر آگئی۔ کتنے ہی دن وہ ہوش میں نہ رہی۔ کتنی خواہش تھی اسے بچے کی، اور ہر دفعہ یہ خواہش کیسی بے دردی سے خاک میں مل جاتی۔ اس کا پھول سا بچہ ممتا کی آغوش چند دن سے زیادہ نہ پاسکا اور منوں مٹی تلے جا سویا۔ وقت کا کام تو گزرنا ہے، سو وہ گزر جاتا ہے۔ وہ بھی آہستہ آہستہ سنبھل گئی۔ کئی مہینے گزر گئے، وہ خدا سے دعا کرتی رہی۔ اس دوران پھر امید چمکی لیکن جلد ہی بجھ گئی۔ ’’شاید میرے نصیب میں اولاد ہی نہیں‘‘۔ وہ کبھی کبھی مایوسی سے سوچتی۔ دن پر دن گزرتے چلے گئے۔ وہ تھک سی گئی تھی کہ اس دوران ایک دفعہ پھر اللہ نے اس کی گود میں خوشی بخشی اور بڑی منتوں کے بعد وہ پھر بیٹے کی ماں بن گئی۔ اس دفعہ وہ ایک نارمل بچے کی ماں تھی۔ ساجدہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ بڑی مرادوں سے اپنے بیٹے کو پال رہی تھی۔ بچہ ابھی سال بھر کا بھی نہ ہوا تھا کہ ساجدہ کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ وہ اپنے علاج کے سلسلے میں بڑی کوتاہی برتتی تھی۔ وقت پر دوا نہ کھاتی۔ اس کو پیلیا ہوگیا تھا جو صحیح اور بروقت علاج نہ کرانے سے بگڑ رہا تھا۔ اس کی ماں مختلف ڈاکٹروں کو دکھا رہی تھی لیکن ساجدہ کی بیماری قابو سے باہر ہوگئی تھی۔ اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے اور پھر یہ اندوہناک خبر آئی کہ اسے ہیپاٹائٹس سی ہوگیا ہے۔ اسے اسپتال میں داخل کرلیا گیا تھا۔ وہ علاج کراتے کراتے تنگ آگئی تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی۔ میں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ یہ وہ ساجدہ تو نہ تھی… دبلی، پتلی، کالی سی یہ لڑکی تو کوئی اور ہی تھی۔ وہ بتارہی تھی کہ ڈاکٹر نے اسے چلنے پھرنے، بولنے، ہنسنے، کھانے پینے ہر چیز سے منع کردیا ہے۔ اسے سخت پرہیز بتایا گیا ہے اور بہت زیادہ آرام کے لیے کہا گیا ہے۔ اس کا بچہ سال سے اوپر کا ہوگیا تھا۔ حقیقت تو یہ تھی کہ ڈاکٹر اس کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے، اور وہ اپنے بچے کی فکر میں تھی کہ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا! ممتا کی ماری کو جب اولاد کی خوشی ملی تو خود اس کی صحت نے جواب دے دیا تھا۔ اور پھر ساجدہ اپنے بچے کو پالنے، اس کے ناز نخرے اٹھانے اور اس کی پرورش کی حسرت لیے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ کیسی ماں تھی جب تک زندہ رہی اپنے بچے کے لیے ترستی رہی، اور جب بیٹے کی نعمت ملی تو خود اس کی زندگی نے ہی وفا نہ کی۔ ساجدہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کو جمیلہ (ساجدہ کی ماں) نے اپنے سینے سے لگالیا اور نواسے کو اپنے پاس ہی رکھ لیا، لیکن اس بدنصیب بچے کو ماں کے بعد نانی سے بھی چھڑوالیا گیا اور ایک دن اس کا باپ بہانہ کرکے اسے اپنے ساتھ گائوں لے گیا اور پھر پلٹ کر نہ آیا۔ نہ جانے وہ بچہ اب کس حال میں ہے۔ نانی نے بڑی کوشش کی کہ وہ اپنی بیٹی کی نشانی اپنے پاس رکھ لے لیکن اس کے ددھیال والے نہ مانے۔ خدا کرے وہ جہاں ہو خوش ہو، اور خدا ساجدہ کی روح کو بھی مطمئن رکھے اور اس کی مغفرت کرے۔ (آمین)

No comments:

Post a Comment