ارجب طیب اردگان .... مشعل راہ
سرور منیر رائو ـ
ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کے حالات زندگی اور سیاسی جد وجہد تیسری دنیا کے ابھرتے ہوئے سیاسی راہنماﺅں اور قائدین
کیلئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طیب اردگان ایک ایسی مقناطیسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے سیاسی نظام کی سمت کو بدل کر رکھ دیا ہے انہوں نے ترکی کے سیاسی کلچر کو ایک تعمیری اورنئی جہت عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے عزم ،ہمت، حوصلے، دانشمندی اور حکمت عملی کی بنا پر ترکی کو متحد، مستحکم اور عالمی برادری میں ممتاز مقام دلایا ہے۔
ترکی میں ہونےوالے عام انتخابات میں رجب طیب اردگان کی سیاسی جماعت نے تیسری بار کامیانی حاصل کر کے ترکی کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے انتخابات جیتنے اوروزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ اردگان نے جس طرح ترکی میں امن و امان قائم کیا ہے اور ترقی کی راہ ہموار کی ہے وہ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ترک وزیر اعظم اردگان نظریاتی اعتبار سے کٹر مسلمان ہیں۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد سے 1996تک اقتدار پر فوج کا قبضہ رہا۔ لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر جو بھی وزیر اعظم بنا وہ فوج کا چہرہ رہا۔ ترکی کی فوج نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر پورے ترکی میں اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی شعوری کوشش کی لیکن جون 1996میں اربکان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک کے سیاسی نظام میں بتدریج فوج کا اثر کم ہونا شروع ہوا۔ اور معاشرے میں اسلامی تشخص بھی اجاگر ہونے لگا۔ طیب اردگان ترک نیوی کے ایک کیپٹن کا بیٹا ہے اس کا بچپن غربت میں گزرا، ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے اردگان استنبول شہر میں ٹافیاں فروخت کیا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اردگان استنبول کا مئیر بنا۔ اس نے اپنے عزم اور اصلاحات کے ذریعے استنبول کو ایک مثالی شہر بنا دیا۔ استنبول کو منشیات سے پاک شہر قرار دیا گیا انسانی سمگلروں اور عصمت کے بیوپاریوں کا خاتمہ کیا، شہر بھر کی سڑکوں کو پختہ اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا۔ استنبول کو جدید اور قدیم تہذیب کے گہوارے کے طور پر محفوظ کرنے کیلئے بھی مرحلہ وار پروگرام شروع کیا۔شہر کو سیاحوں کےلئے پر کشش بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے اہم اقدامات کیے۔آج کی جدید دنیا میں استنبول دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں دنیا بھر کے سیاح تفریح کیلئے ترجیحی بنیادوں پر آنے کے خواہشمند ہیں۔ استنبول جو یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے آبنائے باسفورس پر تعمیر کیا جانے والا پل یورپ اور ایشیا کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار بھی استنبول شہر میں ہے۔
استنبول اردگان کا آبائی شہر ہے۔ طیب اردگان نے اسی شہر کے گلی محلوں میں پرورش پائی اور اسی شہر میں اس نے گیارہ سال قبل 2001میں اپنی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ عوام نے ان ساتھ دیا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ترکی کی تاریخ میں اردگان اور انکی سیاسی جماعت واحد مثال ہے جو تواتر سے تیسری بار اقتدار میں آئی ہے۔
طیب اردگان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پانچ وقت کی نمازباقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی شراب نہیں پی۔ انکی اہلیہ ایمان اردگان اور بیٹیاں سمیہ اور اسریٰ سر پر سکارف لیتی ہیں اور مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔طیب اردگان کا سیاسی انداز عوامی طرز کا ہے۔ وہ اچانک شہر کے کسی بھی حصے میں جا کر عوام میں بیٹھ جاتے ہیں۔خاص طور پر وہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے ملکی حالات کے بارے میں فیڈ بیک کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت ہمارے معاشرے میں دائیوں کی طرح ہے وہ عوام کی اجتماعی سوچ کے مظہر اور حالات کے رخ کے بارے میں اچھی رہنمائی کرتے ہیں۔
طیب اردگان نے یہ کامیابی امریکہ، یورپ اور مغربی میڈیا کی مخالفانہ مہم اور سیکولر قوتوں کے مقابلے میں حاصل کی ہے۔ ترکی کی فوج نے ماضی میں ایسی آئینی ترامیم کروائیں جس کی وجہ سے ترکی کے سیاسی نظام میں فوج کا ایک خاص کردار قائم رہا۔ ان آئینی ترامیم کیلئے اردگان کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ اردگان کی خواہش ہے کہ وہ ترکی کو ایک نیا جمہوری آئین دیں۔ انہوں نے اپنی کامیابی کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے تعاون اور اتفاق رائے سے نیا آئین تشکیل دینگے۔ترک فوج نے ماضی میں ملک میں سیکولرازم کے فروغ اور سیاسی قائدین کو راہ سے ہٹانے کیلئے انتہائی اقدامات کیے جن میں عدنان میندریس کی پھانسی سے لےکر نجم الدین اربکان کی برطرفی کے علاوہ تین مارشل لاﺅں کا نفاذ بھی ہے۔ ترکی کے موجودہ آئین کے تحت کوئی بھی شخصیت تین بار سے زیادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ اس اعتبار سے اگر اردگان آئینی ترامیم نہ کرا سکے تو ان کی یہ آخری ٹرم ہو گی۔
اردگان کی شخصیت اوران کا ذاتی کردار ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں۔ انہوں نے ترکی کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ترقی کےساتھ ساتھ بین الاقومی طور پر ترکی کے پرچم اور وہاں کے شہریوں کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا ہے .
کیلئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ طیب اردگان ایک ایسی مقناطیسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے سیاسی نظام کی سمت کو بدل کر رکھ دیا ہے انہوں نے ترکی کے سیاسی کلچر کو ایک تعمیری اورنئی جہت عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے عزم ،ہمت، حوصلے، دانشمندی اور حکمت عملی کی بنا پر ترکی کو متحد، مستحکم اور عالمی برادری میں ممتاز مقام دلایا ہے۔
ترکی میں ہونےوالے عام انتخابات میں رجب طیب اردگان کی سیاسی جماعت نے تیسری بار کامیانی حاصل کر کے ترکی کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے انتخابات جیتنے اوروزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ اردگان نے جس طرح ترکی میں امن و امان قائم کیا ہے اور ترقی کی راہ ہموار کی ہے وہ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ترک وزیر اعظم اردگان نظریاتی اعتبار سے کٹر مسلمان ہیں۔ ترکی میں خلافت کے خاتمے کے بعد سے 1996تک اقتدار پر فوج کا قبضہ رہا۔ لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر جو بھی وزیر اعظم بنا وہ فوج کا چہرہ رہا۔ ترکی کی فوج نے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر پورے ترکی میں اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی شعوری کوشش کی لیکن جون 1996میں اربکان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے ملک کے سیاسی نظام میں بتدریج فوج کا اثر کم ہونا شروع ہوا۔ اور معاشرے میں اسلامی تشخص بھی اجاگر ہونے لگا۔ طیب اردگان ترک نیوی کے ایک کیپٹن کا بیٹا ہے اس کا بچپن غربت میں گزرا، ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے اردگان استنبول شہر میں ٹافیاں فروخت کیا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب اردگان استنبول کا مئیر بنا۔ اس نے اپنے عزم اور اصلاحات کے ذریعے استنبول کو ایک مثالی شہر بنا دیا۔ استنبول کو منشیات سے پاک شہر قرار دیا گیا انسانی سمگلروں اور عصمت کے بیوپاریوں کا خاتمہ کیا، شہر بھر کی سڑکوں کو پختہ اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنایا۔ استنبول کو جدید اور قدیم تہذیب کے گہوارے کے طور پر محفوظ کرنے کیلئے بھی مرحلہ وار پروگرام شروع کیا۔شہر کو سیاحوں کےلئے پر کشش بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے اہم اقدامات کیے۔آج کی جدید دنیا میں استنبول دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں دنیا بھر کے سیاح تفریح کیلئے ترجیحی بنیادوں پر آنے کے خواہشمند ہیں۔ استنبول جو یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہے آبنائے باسفورس پر تعمیر کیا جانے والا پل یورپ اور ایشیا کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔ استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مزار بھی استنبول شہر میں ہے۔
استنبول اردگان کا آبائی شہر ہے۔ طیب اردگان نے اسی شہر کے گلی محلوں میں پرورش پائی اور اسی شہر میں اس نے گیارہ سال قبل 2001میں اپنی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اور 2002 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ عوام نے ان ساتھ دیا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ترکی کی تاریخ میں اردگان اور انکی سیاسی جماعت واحد مثال ہے جو تواتر سے تیسری بار اقتدار میں آئی ہے۔
طیب اردگان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پانچ وقت کی نمازباقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی شراب نہیں پی۔ انکی اہلیہ ایمان اردگان اور بیٹیاں سمیہ اور اسریٰ سر پر سکارف لیتی ہیں اور مردوں سے مصافحہ نہیں کرتیں۔طیب اردگان کا سیاسی انداز عوامی طرز کا ہے۔ وہ اچانک شہر کے کسی بھی حصے میں جا کر عوام میں بیٹھ جاتے ہیں۔خاص طور پر وہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے ملکی حالات کے بارے میں فیڈ بیک کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی حیثیت ہمارے معاشرے میں دائیوں کی طرح ہے وہ عوام کی اجتماعی سوچ کے مظہر اور حالات کے رخ کے بارے میں اچھی رہنمائی کرتے ہیں۔
طیب اردگان نے یہ کامیابی امریکہ، یورپ اور مغربی میڈیا کی مخالفانہ مہم اور سیکولر قوتوں کے مقابلے میں حاصل کی ہے۔ ترکی کی فوج نے ماضی میں ایسی آئینی ترامیم کروائیں جس کی وجہ سے ترکی کے سیاسی نظام میں فوج کا ایک خاص کردار قائم رہا۔ ان آئینی ترامیم کیلئے اردگان کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ اردگان کی خواہش ہے کہ وہ ترکی کو ایک نیا جمہوری آئین دیں۔ انہوں نے اپنی کامیابی کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کے تعاون اور اتفاق رائے سے نیا آئین تشکیل دینگے۔ترک فوج نے ماضی میں ملک میں سیکولرازم کے فروغ اور سیاسی قائدین کو راہ سے ہٹانے کیلئے انتہائی اقدامات کیے جن میں عدنان میندریس کی پھانسی سے لےکر نجم الدین اربکان کی برطرفی کے علاوہ تین مارشل لاﺅں کا نفاذ بھی ہے۔ ترکی کے موجودہ آئین کے تحت کوئی بھی شخصیت تین بار سے زیادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ اس اعتبار سے اگر اردگان آئینی ترامیم نہ کرا سکے تو ان کی یہ آخری ٹرم ہو گی۔
اردگان کی شخصیت اوران کا ذاتی کردار ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں۔ انہوں نے ترکی کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی ترقی کےساتھ ساتھ بین الاقومی طور پر ترکی کے پرچم اور وہاں کے شہریوں کی عزت و تکریم میں اضافہ کیا ہے .
No comments:
Post a Comment