Search This Blog

Tuesday 15 May 2012

قرآن کی بے حرمتی…مغرب کاشرمناک کردار

قرآن کی بے حرمتی…مغرب کاشرمناک کردار

حشمت اللہ صدیقی 
-امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کو نذرِآتش کرکے ایک مرتبہ پھر اسلام اور مسلمانوں سے مغرب کے تعصب کا عملی ثبوت دیا ہے۔ یہ مغرب کا دیرینہ ایجنڈا ہے جس کو ماضی کی صلیبی جنگوں کے درمیان پروان چڑھایا گیا، جس کے تحت اسلام، پیغمبر اسلامؐ‘ قرآن پاک‘ قرآنی قوانین، اسلامی معاشرہ وثقافت کے خلاف مسلسل نفرت و استہزا اور تعصب پر مبنی پروپیگنڈا مختلف ادوار میں مختلف شکلوں میں کیا جاتا رہا ہے، امریکی پادری کے خبث ِباطن کے اظہار پر مبنی حالیہ شرمناک واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔کبھی خاکوں کے ذریعے توہین وگستاخیٔ رسولؐ کی جاتی ہے، کبھی جوتے اور کپڑوں کے ڈیزائن کے ذریعے توہین کا پہلو نکلتا ہے، توکبھی اسلام و پیغمبراسلامؐ کے خلاف منفی پروپیگنڈے پر مبنی فلم ’’فتنہ‘‘ اور سلمان رشدی کی ’’شیطانی آیات‘‘ کا چرچا ہوتا ہے، اورکبھی اسلام دشمنوں کو ’’سر‘‘ کا خطاب دے کر اسلام سے اپنی عداوت کا اظہار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ قرآن کا متبادل تیارکیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کی حکومتوں کے رویّے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جوآزادیٔ اظہارکے خوشنما پردے میں ایسے اسلام دشمن عناصرکی پردہ پوشی کرتی ہیں۔ مغرب کے اس دوہرے معیارکے باعث ایسے عناصرکو حوصلہ ملتا ہے اور ایسے واقعات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے، لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام کی 57 سے زیادہ مسلم حکومتیں ایسے واقعات پر بے حسی کا شکار ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دینی جذبات و حمیت کی نمائندگی کرتے ہوئے ان شرمناک واقعات پرکوئی قابل ذکر ٹھوس عملی قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومتوں کی اس کمزوری کے باعث ہی مغرب میں نائن الیون کے بعد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے پردے میں جو کہ دراصل ’’اسلام کے خلاف جنگ‘‘ ہے، اسلام اور مسلمانوںکو دہشت گردی سے جوڑنے کا منظم منصوبہ ہے۔ وہاں تہذیبوں کے تصادم کے ذریعے اسلام اور شعائرِاسلام کے خلاف بھی منظم منصوبے پرعمل کیا جارہا ہے، جبکہ ہمارے حکمران مغرب کی غلامی و عالمی استعمارکی سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان حکمرانوں میں جرأت نہیں کہ اسلام اور مسلمانوںکا دفاع کرسکیں اور ایسے شرمناک ودل آزار واقعات پرکوئی سخت قدم اٹھائیں۔ یہ تو سلالہ جیسے واقعہ پر بھی خاموش تماشائی ہیں، ڈرون حملوں پر بھی صرف لفاظی کررہے ہیں اور ناٹو سپلائی بحال کرنے کے لیے جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا اپنی خودمختاری اور سلالہ کے شہداء اور ڈرون حملوں میں بے گناہوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں؟ لیکن اسلام اور قرآن کی بے حرمتی تو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کیا ہم اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوں گے؟ یاد رکھیے اسلام‘ نبی آخرالزماںؐ اور اس کی کتاب قرآن مجیدکی حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے جیسے کہ اس نے اپنے گھرکعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ کرنے والے ابرہہ کے لشکرکو اپنے حکم سے پرندوںکے ذریعے تہس نہس کرکے عبرت کا نمونہ بنادیا تھا۔ اسی اللہ نے قرآن پاک کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہوا ہے۔ لیکن وہ امت کی آزمائش کرنا چاہتا ہے، وہ قرآن سے ہماری محبت کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ ہم بحیثیت اہلِ ایمان و اہل قرآن کیا قربانی دے سکتے ہیں۔ ایسے واقعات بحیثیتِ مجموعی پوری امت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ چیلنج وہی قبول کرسکتے ہیں جو قرآن کی عظمت و ہدایت پر ایمان رکھتے ہوں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ لیکن کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ دنیا کے کسی اسلامی ملک میں قرآن کا مکمل قانون نافذ نہیں! تمام ممالک میں اکثر قرآنی عدل وانصاف و عدلِ اجتماعی کے بجائے مغربی قوانین کا چربہ نافذ ہے! اگر ہم آج قرآن کے قانون و نظامِ عدل کو نافذ کردیں تو بڑی سے بڑی سپرپاور اسلام و قرآن کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن ہمارے یہاں ایسے واقعات پر محض چند روزہ احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیاں، قراردادیں، بائیکاٹ کا نعرہ لگتا ہے، پھر خاموشی طاری ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ دوبارہ کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ ہمیں خواب ِغفلت سے جاگنے کی ضرورت ہے، او آئی سی کے ذریعے اقوام متحدہ میں اسلامی ممالک کی جانب سے قرارداد لائی جانی چاہیے جس کے تحت مقدس الہامی کتب‘ انبیاء کرام و شعائر اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ و توہین کرنے والوں پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلاکر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے اور ان کی پس پردہ حمایت کرنے والی حکومت کو بھی اپنے جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔

No comments:

Post a Comment