بر صغیر کی آزادی کے لیے پہلا جہاد
آصف جیلانی
-بر صغیر میں مغل تخت کے تحفظ اور انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے تسلط کے خلاف ایک سو پچپن سال قبل 11 مئی 1857 ء کو انگریزی فوجوں کے ہندوستانی سپاہیوں نے جو بغاوت کی تھی ا س کے اصل اسباب کیا تھے اور اس کی اصل نوعیت کیاتھی اس کے بارے میںہر نقطہ نگاہ کے تاریخ دانوں میں پچھلی ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے برابر بحث جاری ہے۔ بہت سے مؤرخ اسے برصغیر کی پہلی جنگ آزادی قرار دیتے ہیں بعض تاریخ دان اسے پسے ہوئے عوام کی طرف سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض اسے اشرافیہ کے خلاف غریب طبقہ کی معرکہ آرائی تصور کرتے ہیں اور بعض اسے کسانوںاور دیہی طبقہ کی بغاوت کہتے ہیں لیکن گزشتہ پچاس برس میں جو نئی دستاویز ات اور نجی کاغذات منظر عام پر آئے ہیں ان کے بغور مطالعہ سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ11 مئی 1857 ء کو میرٹھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں نے جوعلم بغاوت بلند کیا تھا اور جس کے سایہ میں بڑے پیمانہ پر عوام بھی انگریزوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے تھے وہ در حقیقت بر صغیر میں غیر ملکی مذہب کے بڑھتے ہوئے تسلط کے خلاف پہلا جہاد تھا اور منفرد جہاد اس اعتبار سے کہ اس میں مسلمان اور ہندو دونوں اپنے اپنے مذہب اور دھرم کے تحفظ کے لیے ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بلاشبہ11 مئی 1857 ء سے ایک عرصہ قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے سپاہیوں میں اپنے بہت کم بھتہ (تنخواہ) کے خلاف بے چینی پھیل رہی تھی او بڑی تعداد میں گورکھا اور سکھ فوجیوں کی بھرتی کے خلاف شدید جذبات بھڑک رہے تھے اسی کے ساتھ بر صغیر کے اشراف اور عوام دونوں اودھ پر انگریزوں کے قبضہ اور دلی میں مغل تاج دار کی بڑھتی ہوئی بے بسی اور بے اختیاری پر سخت نالاں تھے لیکن گیارہ مئی کو میرٹھ میں سپاہیوں کی بغاوت کی اصل وجہ خالص مذہبی تھی ۔مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے جن میں اکثریت اعلیٰ ذات کے ہندو وں کی تھی نئی اینفیلڈ رائفلوں کے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جن پر گائے اور سور کی چربی چڑھی ہوتی تھی اور جن کو رائیفل میں بھرنے کے لیے انہیں دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ اسی انکار پر 9 مئی کو58 سپاہیوں کو دس دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ اس پر سپاہیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے مشتعل ہوکرچھائونی میں اپنے انگریز افسروں کو ہلاک کر کے دارالحکومت دلی کی سمت کوچ کیا تھا۔ یہ رمضان المبارک کی سولہویں تاریخ تھی۔ گو یہ فوری وجہ تھی بغاوت کی لیکن اند ر ہی اند انگریزوں کے خلاف جو چنگاری سلگ رہی تھی وہ 11 مئی کو یوں آگ بن کے بھڑکی اس کی بنیادی وجہ دراصل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی وہ پالیسی تھی جس کے تحت برطانوی عمل دار مغل دربار کے یکسر خاتمہ اور عیسائی قوانین کے نفاذ اور بر صغیر میں عیسائیت کے غلبہ کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ اس مہم میں پیش پیش دلی کے پادری جان جینگز تھے جنہوں نے بڑے پیمانہ پر دلی میں عیسائیت کا پرچار شروع کیا تھا۔ دلی مشن کے نام سے انہوں نے جو منشور جاری کیا تھا اس میں طاقت کے بل پر برصغیر کے عوام کو ان کے بقول ان کے جھوٹے مذاہب سے نجات دلانے اور برصغیر میں عیسائیت کے غلبہ کا پیمان کیا گیا تھا۔ اس دوران کمپنی کے انگریز فوجی افسروں میں بھی عیسائیت کا اثر تیزی سے بڑھ رہا تھا اور وہ پریڈ کے دوران ہندوستانی سپاہیوں کے سامنے انجیل پڑھتے تھے۔ اسی زمانہ میں دلی میں بڑی تعدا د میں مساجد اور مندروں کو مختلف بہانوں سے مسمار کیا جارہا تھا اور ان مساجد اور مندروں کی اراضی ضبط کر کے انہیں گرجا گھروں کی تعمیر کے لیے دیا جارہا تھا۔ پھر ملک کے مختلف علاقوں میں اسلامی مدرسوں اور ہندووں کے پاٹھ شالائوں کو وہ سرکاری مالی اعانت بند کردی گئی تھی جو صدیوں سے دربار کی طرف سے انہیں ملتی تھی۔ اس اقدام کو ہندووں اور مسلمانوں کے مذہبی تعلیمی اداروں کی بیخ کنی اور اس کے مقابلہ میں عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔ پھر 1837 ء میں انگریزوں نے فارسی کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی اور اس کی جگہ انگریزی نافذ کی تو برصغیر کے عوام میں یہ احساس جاں گزیں ہوا کہ انگریز بڑی تیزی اور منظم طریقہ سے اپنا اثر بڑھا رہے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر جنہیں پورے برصغیر کے عوام جن میں ہندووں کی اکثریت تھی اپنا بادشاہ تسلیم کرتے تھے ان کی بے بسی اور بے اختیاری پر ناراضی اور غصہ بڑھ رہا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کی عملاً حکمرانی لال قلعہ کے اندر محدود ہو کر رہ گئی تھی اور حقیقتا وہ قلعہ میں قید ی بن کر رہ گئے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ میرٹھ سے جو تین سو باغی سپاہی دلی آئے وہ سب سے پہلے لال قلعہ گئے تھے جہاں انہوں نے بادشاہ کو اپنی بغاوت اور اس کے اسباب سے باخبر کیا اور اپنے حکمران کی حیثیت سے ان کا تحفظ طلب کیا اور اسی کے ساتھ باغیوں نے مغل تاج دار سے کہا کہ وہ ان کی قیادت کریں۔ وزیر اعظم احسان اللہ خان نے بادشاہ کی بے کسی کا اظہار کیا اور کہا کہ بادشاہ کا خزانہ خالی ہے اور ان کے پاس انہیں تنخواہیں دینے کے لیے رقم نہیں اس پر باغیوں نے کہا کہ ہم پورے ملک کی آمدنی سے بادشاہ کا خزانہ بھر دیں گے ہمیں بس بادشاہ کی آشیر باد اور سرپرستی چاہئے ۔ اس کے بعد باغی سپاہیوں نے یکے بعد دیگرے بادشاہ کے سامنے آکر اپنا سر خم کیا اور بہادر شاہ ظفر نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور یوں مغل تاج دار نے باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ لال قلعہ سے نکل کر باغی سپاہیوں نے دلی میں انگریز فوجی افسروں پر حملہ شروع کیا اور شہر میں چن چن کر عیسائیوںکو نشانہ بنایا۔ سرکاری دستاویزات اور عینی شاہدوں کی شہادتوں کے مطابق حملوں کے دوران انگریزیا فرنگی مردہ باد کے نعرے نہیں لگا رہے تھے بلکہ کافر اور نصرانی مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ باغی سپاہیوں نے اس دوران ان انگریزوں کو ہاتھ نہیں لگایا جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ ان میں سے دو انگریز نو مسلم عبداللہ بیگ اور سارجنٹ میجر گورڈن نمایاں تھے جنہوں نے خود باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔ میرٹھ سے دلی آکر حملہ کرنے والے باغیوں کی اکثریت ہندووں کی تھی جنہوں نے جامع مسجد پر جہاد کا پرچم لہرایا یہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے مجاہدین غازی اور جہادی کہلارہے تھے۔ ان کے ساتھ گوالیار سے آنے والا غازی دستہ بھی شامل ہوگیا جس نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تک فاقہ کرے گا جب تک کافروں کا قلع قمع نہیں کر دیاجاتا یا خود ختم نہیں ہو جاتا۔ اس دوران دلی کے دینی مدرسوں میں یہ فتوی چسپاں کیا گیا کہ تمام اہل ایمان کافروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ مولوی باقر کے دلی اردو اخبار میں باغی سپاہیوں کو جہادی قراد دیا گیااور اس معرکہ آرائی کو جہاد سے تعبیر کیا گیا۔ ان مجاہدین کے سربراہ مولوی سرفراز علی تھے جنہوں نے شاہجہاں پور میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارا مذہب خطرہ میں ہے ۔ ہم اپنی سرزمین کی حاکمیت کھو بیٹھے ہیں اور ناپاک کافروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ یوں انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت کا مقصد واضح تھا ۔ باغیوں نے گو پہلے ہلہ میں انگریز وں اور ان کی سپاہ کو دلی سے کھدیڑ دیا تھا لیکن انگریزی فوجوں نے دلی کو محاصرہ میں لے لیاجسے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی بہادر شاہ ظفر کی حامی سپاہ نہ توڑ سکیں اور انگریز فوجیں بھی شہر میں داخل نہ ہو سکیں۔اس دوران انگریزوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ بقر عید کے موقع پر گاؤ کشی کے معاملہ پر ہندووں اور مسلمانوں کو لڑانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس صورت حال میں مایوس ہو کر بہادر شاہ ظفر نے دلی چھوڑ کر حج پر جانے کی کوشش کی لیکن راستے چونکہ بند تھے لہٰذا ناکام رہے۔ 14 اگست 1857 ء کو فوجی بساط اس وقت پلٹی جب بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن پنجاب سے ایک ہزار انگریز فوجیوں او ربھاڑے کے ڈیڑھ ہزار سکھ اور مسلمان فوجیوں کو لے کر دلی کے مورچہ پر پہنچے اور پنجاب کے راجاؤں نے خوراک اور دوسری کمک فراہم کی۔ اس کے مقابلہ میں محاصرہ کی وجہ سے دلی میں خوراک کی شدید قلت ہوگئی تھی اور مالی اور فوجی وسائل ختم ہوتے جارہے تھے ۔ اس صورت حال میں ۸ ستمبر کو انگریز فوجوں نے دلی پر توپ خانہ سے زبردست حملہ کیا اور 13 ستمبر کو کشمیری دروازہ کو بارود سے اڑا کر شہر میں داخل ہوگئیں اور اس پیمانہ پر قتل عام شروع کیا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ انگریزوں کے انتقام کی آگ تھی جو چار دن تک بھڑکتی رہی۔ یہ انگریز افسر کھلم کھلا اپنے آپ کو حضرت عیسی کا سپاہی قرار دیتے تھے ۔ 16 ستمبر کو تمام باغی سپاہی اور جہادی مولوی سرفراز کی قیادت میں لال قلعہ گئے اور انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ دلی کے تمام شہری اور مضافات کے عوام ان کے ساتھ ہیں اور ان کے تخت کے تحفظ کے لیے لڑنے اور فرنگیوں کو ملک سے باہر نکال دینے کے لیے تیار ہیں ۔ انہوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ ان کی قیادت کریں۔ اس موقع پر بہادر شاہ ظفر نے باغی سپاہ کی قیادت کا فیصلہ کیا اور قلعہ سے روانہ ہوئے لیکن وزیر اعظم احسان اللہ خان کے مشورہ پر بادشاہ قلعہ میں لوٹ گئے۔ یہ اقدام انگریزوں کے خلاف مغل خاندان کی مزاحمت کا اختتام تھا۔ دوسرے دن سترہ ستمبر کو علی الصبح مغل تاجدار اپنی بیگم زینت محل اور وزیر اعظم کو بتائے بغیر نہایت خاموشی کے ساتھ ایک کشتی میں پرانے قلعہ کے گھاٹ گئے اور وہاں سے نظام الدین اولیا کی درگاہ گئے ۔ان کے ساتھ وہ موئے مبارک تھے جو چودہویں صدی سے خاندن تیموریہ کی تحویل میں تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے یہ موئے مبارک درگاہ کے منتظمین کے حوالے کیے اور قریب میں ہمایوں کے مقبرہ میں پناہ گزیں ہوگئے۔ 18 ستمبر کو سورج گرہن تھا اور دلی میں تین گھنٹے تک اندھیرا چھایا رہا۔ 20 ستمبر کو انگریزی فوجوں نے سکھ فوجیوں سمیت جامع مسجد میں فتح کا جشن منایا اور رقص سرود برپا رہا۔ سامنے لال قلعہ کے دیوان خاص میں انگریز فوجی افسروں نے ملکہ وکٹوریہ کی صحت کے جام نوش کیے اور اعلان کیا کہ بر صغیر میں مغل خاندان کا دور ختم ہوگیا۔ اس رات ہمایوں کے مقبرہ میں بہادر شاہ ظفر کے جنرل بخت خان نے مغل تاجدار کو ان کے ہمراہ لکھنؤ چلنے اور وہاں سے مزاحمت جاری رکھنے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔ دوسرے دن بہادر شاہ ظفر نے اس شرط پر کہ ان کی جان بخش دی جائے گی اپنے آپ کو ولیم ہڈسن کے حوالہ کر دیا اور انگریزی فوجوں کے سخت پہرے میں لال کنویں میں ملکہ زینت محل کی حویلی میں قید کر دیے گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے سولہ میں سے تین بیٹوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ۔ جنہیں ولیم ہڈسن نے دلی کی فصیل کے باہر خونی دروازہ پر ننگا کر کے گولی مار دی اور ان کی برہنہ لاشیں کوتوالی کے سامنے ٹانگ دیں۔ یہ برصغیر میں آزادی کے لیے پہلے جہاد کا خاتمہ تھا اور اسی کے ساتھ مغل سلطنت کے 332 سالہ دور کا سورج غروب ہوگیا ۔ دو وجوہ تھیں اس جہاد کی ناکامی کی۔ ایک دلی دربار انگریزوں کے مالی اور فوجی وسائل کے مقابلہ میں مات کھا گیا ۔ پھر بہادر شاہ ظفر پر سپاہیوں کی بغاوت اچانک بجلی کی طرح آن گری تھی انہیں منصوبہ بندی کی کوئی مہلت نہیں ملی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ شعر وشاعری اور موسیقی میں فنامعمر بادشاہ فوجی حکمت عملی سے یکسر تہی دامن تھے اور پھر دلی سے ایسے چمٹے رہے کہ وہاں سے نکلنے کے لیے آمادہ نہیں تھے حالانکہ ان کے کمانڈر بخت خان نے ان پر بہت زور دیا تھا کہ وہ دلی سے نکل کر لکھنؤ منتقل ہو جائیں اور وہاںسے مزاحمت جاری رکھیں کیونکہ ہریانہ ’ بہار ’ یوپی اور سی پی میں عوام فرنگیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور لڑ رہے ہیںاورپورے ملک میں عوام ا ن کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ نہ مانے۔ اگلے تین مہینے دلی کے لوگوں کے لیے قیامت کے گزرے۔ سڑکوں اور محلوں میں جا بجا ٹکٹکیاں کھڑی تھیں اور روز انہ بغاوت کے شبہہ میں درجنوں افراد کو پھانسی دی جاتی تھی۔ اس دوران انگریزی فوجوں نے لکھنؤ کانپور جھانسی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں باغیوں کا قلع قمع کردیا اور آخر کار جنوری 1858 ء میں بیاسی سالہ بیمار اور نہایت نحیف و کمزور بہادر شاہ ظفر کے خلاف بغاوت غداری اور قتل کے الزام میں فوجی کمیشن کے سامنے مقدمہ چلایا گیا۔ اس کورٹ مارشل میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ بغاوت بین الاقوامی اسلامی سازش تھی ۔دو مہینہ کی سماعت کے بعد بہادر شاہ ظفر کو ملک بد ر کرنے کی سزا دی گئی۔ اور 7 اکتوبر 1858ء کو بر صغیر میں مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ کو ان کی ملکہ زینت محل اور دو بیٹوں کے ساتھ ایک بیل گاڑی میں کلکتہ روانہ کردیا گیا ۔ چار سال بعد 7 نومبر 1862ء کو 87 سال کی عمر میں مغل سلطنت کا آخر ی چراخ رنگون میں گل ہو گیا۔
|
No comments:
Post a Comment