Search This Blog

Thursday 24 May 2012

جہیزسے پرہیز

جہیزسے پرہیز
شادی بیاہ میں مردوںوالاکمال دکھائیں

 عصرِ حاضر میں والدین کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ لڑکی کی پرورش کریں، اُسے اچھی تعلیم دیں،اُس کی دینی و اخلاقی تربیت کریں،اسے گھریلو زندگی کے آداب و اطوار اور تہذیب و سلیقہ سِکھائیں ،اس کے لئے مناسب رشتہ تلاش کریں اور دستور کے مطابق کسی شریف اور باکردار آدمی کے نکاح میں اپنی لختِ جگر کو دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔سماجی بگاڑنے یہ بھی  اُن کی ذمہ داری ہے کہ جس لڑکے کو انہوں نے اپنی لڑکی کاشریک زندگی منتخب کیا ہے اس کے وہ مطالبات بھی پورے کریں جنہیں شاید وہ خود بھی پورے نہیں کر سکتا۔ان مطالبات کی فہرست اتنی طویل اور اتنی متنوع ہوتی ہے کہ الاماں والحفیظ مثلاًاس میںنقدی کے علاوہ دولہا کے لئے موٹر سائیکل،ماروتی کار،سونے کی گھڑی،بڑی موبائل فون،کمپوٹر لیپ ٹاپ وغیرہ چیزیں آجاتی ہیں۔یہ فہرست حسبِ حالات مختصر بھی ہوسکتی ہے اور طویل سے طویل تربھی۔بہرحال یہی وہ زر یں موقع ہوتا ہے جب خود غرض دولہے میاں اپنی مردانگی اور تمنائیں پوری کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ لڑکی کو مطلوبہ زیورات سے آراستہ کیا جائے اور اُسے اتنے سازوسامان کے ساتھ رخصت کیا جائے کہ دولہے میاں کے ساتھ ساتھ اُن کے قسمت جاگ اُٹھے کہ اس کا گھر سچ مچ سنارکی دوکان بن جائے۔لڑکی کودیئے جانے والے اس مال و اسباب کی قیمت تو متعین نہیں ہے ،البتہ اتنی بات طے ہے کہ اسے لڑکی والے کی حیثیت سے بہر حال زیادہ ہوناچائیے۔
سماد میں شادی بیاہ کے حوالے سے ہوسِ زر اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لڑکی کی شکل و صورت ،تعلیم و تربیت اور دین و اخلاق سب کچھ اس کے مقابلے میںپیچھے رہ گئے ہیں۔آج کل سب سے پہلی چیز جو دیکھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی کتنی دولت اپنے ساتھ لاسکتی ہے۔ حسن و جمال ہی کی نہیں دین واخلاق کی بھی اس قدر توہین شاید ہی دنیا نے کبھی ہی دیکھی ہو۔دولت نے ہر اعلیٰ قدر کو شکست دے رکھی ہے بلکہ کہنا چاہئے کہ شکستِ فاش گو اگر کسی چیز کو مل رہی ہے تو وہ اخلاقیات میں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں لمبی لمبی عمر تک محض اس لئے گھروں میںبیٹھی رہتی ہیں کہ بدقسمتی سے وہ ایسے ماں باپ کے گھر پیدا ہو گئیں جو ان کے لئے جہیز فراہم نہیں کر سکتے۔ان میں کتنی ہی مظلوم اور بے زبان زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں۔کچھ نیک بخت صور تحال کی نزاکت کا احساس کر کے از خود شادی کا انکار کردیتی ہیں تاکہ ان کے والدین ان کی شادی کی فکر سے آزاد ہو جائیں اور وہ اپنی اُمنگوں اور تمناوّں کا مرثیہ پڑھی ہوئی زندگی گزاردیں۔اس کے علاوہ بر صغیر میں مشترک خاندان کا عام رواج ہے۔جب کسی خاندان میںلڑکوں کی شادیاں ہوتی  ہیں اور لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں تو خاندان کے اندر بڑی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ خانگی زندگی کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان ناکتخدا ئوں کا وجود اس ظالم سماج کے خلاف مسلسل فریاد ہے لیکن کون ہے جو ان بے نوائوںکی فریاد سُنے  ؟
سب سے بڑا مسئلہ اُس لڑکی کا ہے جو جہیز کے بغیر اپنے شوہر کے گھر چلی جائے۔اُس میں لاکھ خوبیاں سہی اُس کی یہ غلطی معاف نہیں ہوسکتی کہ وہ خالی ہاتھ اپنے میکے سے آئی ہے۔اس سے باز پرس کرنے والا صرف اس کاشوہر ہی نہیں ہوتا بلکہ شوہر کا پورا خاندان اُس کا ڈنڈابردارمحاسب ہوتا ہے۔اُسے اپنے اس ناکردہ جرم کا ایک ایک فرد کو حساب دینا پڑتا۔اس کی عام سزا تحقیر وتذلیل،طنزوتعریض اور مارپیٹ ہوتی ہے۔اس کے نتیجے میں اُسے خانہ بدر بھی کیا جاتا ہے اور شوہر سے علیحدگی بھی ہو سکتی ہے۔اتنا ہی نہیں اس ’’جر م‘‘کی پاداش میںاسے کبھی کبھار اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔جہیز کے لئے جان لینے کے واقعات اس قدر زیادہ ہورہے ہیںکہ اب ان میں کوئی ندرت یا نیا پن نہیں ہے۔ان کی نوعیّت روز مرّہ کے حادثات کی ہوکر رہ گئی ہے۔کبھی یہ سزا شوہرنامراد دیتا ہے اوراگر اسے اس میں کوئی تامُل یا ہچکچاہٹ ہو تو خاندان کے دوسرے افراد اس ’خدائی‘خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔
بسا اوقات جہیز کے مسائل و مصا ئب سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے عورت خودکشی کو بھی ترجیح دینے لگتی ہے۔اس کے لئے کبھی وہ مٹی کے تیل اور پیٹرول کا سہارا تک لیتی ہے۔کھبی کسی اونچی عمارت سے چھلانگ لگاتی ہے،کبھی گلے میں پھندا لگا کر چھت سے لٹک جاتی ہے،کبھی زہرکھا کر ہمیشہ کی نیند سو جانا چاہتی ہے۔خداہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی معصوم جانیں اس خونِ آشام جہیز کی نذر ہو رہاہے  اور ابھی اور کتنی معصوم جانیں نذر ہوں گی۔ جہیز کے اس ذلیل فعل سے جنگل کے درندے بھی شرمارہے ہوں گے۔جہیزکی ان ہلاکت خیزیوں کو آج ہر شخص اپنے سر کے آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے بلکہ دیکھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے کی بہت بڑی اکثریت نے اسے ایک ناگزیر سماجی خرابی کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔اس کے نزدیک موجودہ حالات میں لڑکوں کے لئے جہیز لینا اور لڑکیوں کو جہیز دینا اس قدر ضروری ہوگیا ہے کہ اس سے بچنے کی کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو بہرحال جہیز دینا ہی پڑتا ہے۔( اس میں لڑکے کے تمام مطالبات زرکی تکمیل بھی شامل ہے ) اس کے بغیر ان کی شادی نہیں ہوسکتی۔والدین اس کی ہمت نہیں کرسکتے کہ ان کی لڑکی بن بیاہی گھر بیٹھی رہے۔جو شخص جہیز دیتا ہے وہ اپنی باری پرجہیز لینے پر مجبور بھی ہے۔اُس سے یہ مطالبہ بے جاسا ہوگا کہ وہ تو اپنی لڑکیوں کو جہیز کے ساتھ رخصت کرتا ہے اور دوسروں کی لڑکیاں اُس کے گھر خالی ہاتھ آئیں۔ ہوسکتا ہے اس ’’نقصان‘‘ کو بعض لوگ برداشت کرجائیں،ہر شخص کو یہ صورت قابل قبول نہیں۔
اس منطق کی رو سے سوچئے کہ وہ انسان کتنا بدقسمت ہوگا جس کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اور جو ریاضی کے اس فامولے کے تحت نقصان پر نقصان اُٹھاتا رہے،اور پھر کتنا خوش قسمت ہے وہ شخص جس کے یہاںصرف لڑکے ہوں اور جہیز کی دولت سے وہ مسلسل نہال ہوتا چلا جائے۔
اس منطق کا حاصِل یہ ہے کہ کسی برائی کو ہم محض اس وجہ سے نہ صرف یہ کہ گوارہ کریں بلکہ عملََا اختیار کرلیں کہ دنیا اس کا ارتکاب کررہی ہے اور اس سے لطف اورفائدہ اُٹھا رہی ہے۔اس طرح آدمی رشوت،خیانت،فریب اور مکاری کو بھی جائز قرار دے سکتا ہے۔اس لئے کہ یہ نسخے آج کی دنیا میں بڑے ہی مجرب اور کامیاب نسخے ہیں اور جو انہیں استعمال نہیں کرتا وہ سراسر نقصان میں رہتا ہے۔
اسی قسم کی غلط توجیہات دنیا کی ہر بُرائی کو استحکام عطا کرتی ہیں۔ان سے انسان کے ضمیر میںاس کے خلاف جو کھٹک ہوتی ہے وہ بھی جاتی رہتی ہے اور وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز کے نام پر جو ذیادتی ہورہی ہے اسے دنیا کا کوئی بھی مذہب،کوئی فلسفۂ اخلاق اور قانون جائز قرار نہیں دے سکتا۔ آج کل ہماری وادی کے بیشتر اخبارات کا ایک خاص موضوع یہی جہیز ہے۔اس کے خلاف مختلف سماجی،اصلاحی اور مذہبی حلقوں سے آواز اُٹھتی رہتی ہے۔حکومت بھی قانون کے ذریعے اس پر پابندی لگانا چاہتی ہے لیکن کسی بھی خرابی کو بدلنے کے لئے حکومت اور سماج کا دباوّ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ذہن و فکر کی تبدیلی اور خدا اور آخرت کے خوف کی ضرورت ہے۔اسلام یہی فرض انجام دیتا ہے۔وہ سب سے پہلے سماج کے غلط دستور اوررسم و رواج کو توڑتا ہے اور زندگی کا صاف ستھرا اور آسان طریقہ سکھاتا ہے۔اسلام نے ازدواجی زندگی کے تمام مسائل کو بھی بہت آسانی سے حل کیا ہے۔اس کے نزدیک نکاح سادگی اورسہولت اور آرام سے ہونا چاہئے۔اسے مشکل اور دشوار بنانا بہت بڑی زیادتی ہے۔اس سلسلہ میں اسلام کی بعض اصولی تعلیمات کا ذکر کیا جارہاہے۔
۱اسلام اس بات کا شدت سے مخالف ہے کہ کسی بھی معاملہ میں ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار کیا جائے۔اس کے نزدیک کسی کی کمزوری اور مجبوری سے غلط فائدہ اُٹھانا اور اس کااستعمال کرنا سراسر ناجائز ہے۔جہیز کے نام پر لڑکی والوں کا استحصال بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔اسلام اس کا کسی حال میں روادار نہیں ہے۔
۲شادی بیاہ لڑکی والوں سے بے جا دولت سمیٹنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ بعض بلند مقاصد کے لئے ہوتی ہے۔وہی شادی کامیاب ہے جن سے ان نیک مقاصد کی تکمیل ہو۔ہوسِ زر میں ان مقاصد کو پسِ پست ڈال دینا سراسر غلط اور ناپسندیدہ ہے۔
۳)مرد کو اــــﷲ نے قواّم بنایا ہے۔وہ اسی حیثیت سے عقد نکاح کرتا ہے۔وہ اس عہد و پیماں کے ساتھ لڑکی کا ہاتھ پکڑتا ہے کہ وہ اس کے نان و نفقہ و لباس اور رہائش وغیرہ کا ذمہ دار ہے،جس کو خدائے تعالیٰ نے یہ مقام عطا کیا ہو اس کے لئے یہ بات سخت توہین کی باعث ہے کہ وہ شادی سے چند دن پہلے لڑکی یا اس کے سرپرستوں کے سامنے ’’جہیز ‘‘ کے نام پر دستِ سوال دراز کرے اور جب اپنی مراد پوری نہ ہو تو پھر کسی دوسری لڑکی کے در پر پہنچ جائے۔
۴جہیز کے نہ ملنے پر عورت کے ساتھ بالعموم جو زیادتی ہوتی ہے اس کا کوئی دینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ جہیز یا مال و اسباب کے لئے عورت کو تنگ کرنے کی جگہ اسلام نے عورت کی دلجوئی کا حکم دیا ہے۔ ’’مہر‘‘ اس کی علامتِ خاص ہے ۔مہر کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت اپنے گھر اور خاندان سے چونکہ جدا ہوتی ہے،اس لئے مرد مہر کی شکل میں خلوص و محبت کا تحفہ پیش کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اس کا دشمن نہیں بلکہ مخلص،ہمدرد اور غم خوار ہے۔ پھر جہیز کے لئے پریشان کرنا عورت کے ساتھ حسن  سلوک کی اس تعلیم کے بھی خلاف ہے جو اسلام نے دی ہے۔
جس شخص کے سامنے یہ پاکیزہ اور مقدس تعلیمات ہوں اُس کا وہ ذہن ہرگز نہیں ہوسکتا جو آج کے نوجوانوں کا ذہن ہے۔وہ جہیز کے نام پر عورت اور اس کے گناہ گارانہ خاندان کے استعمال کی جگہ ان سے ہمدردی اور محبت کارویہ اختیار کرے گا اور اپنے حسنِ سلوک شرافت اور انسانیت کا ثبوت فراہم کرے گا۔
جہیز کا ایک علاج تو یہ ہے کہ سماج میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔دوسرا علاج یہ ہے کہ جو لوگ جہیز کی خرابی کو محسوس کر رہے ہیں وہ ہمت کر کے اس کے لین دین کو ختم کریں۔اس معاملے میں لڑکی والے تو مظلوم ہیں اُنہیں نصیحت کی نہیں بلکہ ہمدردی کی ضرورت ہے۔البتہ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے خلاف اقدام ہونا چاہئے۔
اس موضوع پراپنی خامہ فرسائی  تک پہنچانے سے پہلے بعض باتوں کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے تاکہ اس مسئلہ میں اسلام کا نقطئہ نظر پوری طرح سامنے آجائے۔
۱:شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو اپنا نیا گھر بسانا ہوتا ہے۔اس فعل میں لڑکے والے بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں اورلڑکی والے بھی۔لیکن یہ ان کی اپنی صوابدید اور مالی وسعت سے مشروط ہے۔اگر نیا جوڑا اس معاملہ میں تعاون کا مستحق ہو تو تعاون کو پسندیدہ ہی کہا جائے گا۔یہ تعاون پیسہ کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور سازو سامان کی شکل میں بھی۔لیکن واضح رہے یہ نہ تو فرض ہے اور نہ واجب اورنہ نکاح کی شرط کہ اس کے بغیر نکاح ہی نہیں ہوتا۔
۲:شادی کے موقع پر دولہا اور دلہن کو اعزہ و اقارب اور دوستوں و احباب کی طرف سے تحفے اور ہدیے دیئے جاسکتے ہیں لیکن اسے جواز ہی کی حد میں ہونا چائیے۔اسے ضروری سمجھنا یا اس کے نہ دینے پر بُرا ماننا اور شکوہ شکایت کا پیدا ہونا سراسر غلط ہے۔تحفہ اور ہدیہ خوش دلی سے ہوتا ہے ورنہ وہ تحفہ نہیں تاوان اور جرمانہ ہوگا۔
۳:شادی کے موقع پر لڑکی کو جو زیور یا سامان دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ وہ شوہر یا سسرال والوں کی ملکیت ہے۔اس کی مالک اصلا لڑکی ہو تی ہے۔اُس کی اجازت کے بغیر اس میں خرچ کرنا قطعاًجائز نہیں۔
۴آخری بات یہ کہ اسلام نے نکاح کو آساں بنا رکھا ہے۔اس لئے سماج کی وہ ساری بندشیں جن سے اس میں دشواری پیدا ہو قابل مذمت ہیں۔ان سے ہمیں احتراز کرنا چائیے۔
یہ ہے اعتدال کی راہ جواسلام نے دکھائی ہے۔اس میں محبت اور ہمدردی ہے،حسنِ سلوک ہے،ظلم و زیادتی کی ممانعت ہے اور اس کے ساتھ انسان کے جذبات اور ضروریات کی بھر پور رعایت بھی ہے۔اس پر عمل درآمدہو تو جہیز کے جھگڑے ختم ہی نہیں ہوں گے بلکہ پرسکون خاندانی زندگی بھی نصیب ہوگی۔کاش کہ ہم اس خدائی اہتمام کی طرف پلٹ آئیں۔
Email:Ishfaqparvaz@hotmail.co.uk 

No comments:

Post a Comment