مولانا حالی نے کہاتھا
متفرق
-مولانا حالیؒ نے کہا تھا: ’’ہرچند کوئی قصبہ اور کئی گائوں اور کوئی شہر زمانے کی زبردست تاثیروں سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ لیکن جب تک مسلمانوں میں اسلام باقی ہے اور شریعت کی قید سے آزاد نہیں ہوتے‘ اس وقت تک ہمارے خاندانوں کی عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کے لیے پردے کا ایک ایسا پاک اور محکم قاعدہ موجود ہے جس پر زمانے کی تاثیر کا کوئی افسوں اور کوئی منتر چل نہیں سکتا۔ بعض مسلمان ممالک نے مکان‘ طعام لباس اور سواری غرض کہ ہر چیز میں اہل یورپ کی پیروی اختیار کرلی ہے مگر چونکہ شریعت کی پابندی نے انہیں پردے سے آج تک آزاد ہونے نہیں دیا۔ اس لیے جس قدر عفت اور پاک دامنی وہاں کے مسلمانوں میں اب تک موجود ہے۔ یورپ کی کسی قوم میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں پایا جاتا۔ پس اے میرے بزرگووعزیزو! پردے کے حکم اور مضبوط قاعدے کو ہاتھ سے نہ چھوڑو کہ اس اخیر زمانے میں صرف یہ ایک چیز باقی رہ گئی ہے جس کی بدولت ہم تمام دنیا کی قوموں پر فخر کرسکتے ہیں اور صرف یہی ایک چیز ایسی ہے جس سے قوم میں غیرت اور حمیت باقی رہ سکتی ہے۔ وماعلینا الالبلاغ!۔!! مولانا الطاف حسین حالیؒ برصغیر کے تمام پڑھے لکھے مسلمان جانتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے ایک جلیل القدر مفکر و مدبر تھے انہوں نے تحریر ‘ تقریر اور شاعری کے ذریعے ملت کو اس وقت جھنجھوڑ کر بیدار کرنے کا کام کیا تھا جب 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانان برصغیرپربرطانوی حکومت نے زندگی کا دائرہ تنگ کر رکھا تھا اور مقامی اکثریت آبادی بھی اپنی روایتی زمانہ سازی سے کام لیتے ہوئے غاصب حکومت کے ساتھ ہوگئی تھی۔ (جب کہ غیرملکی اقتدار کے خلاف یہ پہلی بڑی عوامی جدوجہد تھی جس کا بگل مسلمانوں نے بجایا تھا) تاج برطانیہ کا قبضہ اس وقت کئی مسلم ملکوں پر بھی تھا۔ لہٰذا 1857ء میں مسلمانوں کے عزم و حوصلے اور ان کی نظریاتی اساس کو دیکھ کر اس نے مسلم ملکوں کے عوام کو ان کی اصل سے ہٹانے کی کوششیں تیز تر کردیں۔ سب سے موثر حربہ تہذیبی یلغار کا تھا۔ چنانچہ مسلم ملکوں کی خوشحال آبادیوں نے اپنے رہن سہن ‘ خورونوش اور لباس پرحکمراں تہذیب کا وہ رنگ غالب کرلیا تھا جس کی طرف کہ مولانا حالی نے اشارہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان نہ صرف یہ کہ شرعی احکام سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ اپنے عقائد اور بنیادی اقدار پر مصر اور قائم رہے اور حجاب و پردہ ان میں سے ایک تھا۔
|
No comments:
Post a Comment