کچھ باتیں جاپان کی
اطہر علی ہاشمی
-عزیزم عامرخان چھ برس تک ٹوکیو یونیورسٹی میں جاپانیوںکو اردوپڑھاکر واپس آگئے ہیں۔ اب ان کو جاپانی زبان خوب آگئی ہے ۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹرظفراقبال چھٹیوں میں الباحہ ‘ سعودی عرب سے کراچی آئے ہوئے تھے‘ انہیں ابھی چھ سال نہیں ہوئے اس لیے عربی میں رواں نہیں ہوئے ہیں تاہم اب تو سعودی بھی ’’شویاشویا‘‘ اردوسمجھنے لگے ہیں۔ جدہ میں ایک عرب ٹیکسی ڈرائیورنے پوچھا’’یمین اوسیدھا‘‘ یعنی دائیں طرف مڑوں یا سیدھا لے لوں۔ بہرحال ڈاکٹرظفراقبال سے استفادہ کرنے اور ان کی سرگزشت سننے کے لیے ان کے چاہنے والوں نے کراچی پریس کلب میں ایک عشائیہ رکھا۔یہیں پر عامرخان سے بھی نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ ان سے جستہ جستہ ’’جاپان گزشت ‘‘ بھی سنی۔ بٹ صاحب نے پریس کلب کے سیکرٹری موسیٰ کلیم کو اکسااکساکر ان کے باربارایران جانے اور وہاں کے تجربات سنوانے کا اہتمام کیا‘ ایران اس سرزمین پاک وہند پرہمیشہ سے مہربان رہاہے اور اس نے کئی تحفے برعظیم کو عطاکیے ہیں ان میں قزلباش‘ مہرالنساء عرف نورجہاں‘ محترمہ نصرت بھٹو اور فرح نازاصفہانی سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک بہت سے نوادرات ہیں۔ گیلان ایران کا صوبہ بھی ہے اورشہربھی ۔ ایسے مہربان ملک کو تو باربارجاکردیکھنا چاہیے ۔ شاید اسی شوق میں موسیٰ کلیم وہاں جاتے رہے ہیں اور واپس بھی آجاتے ہیں‘اکیلے۔ اسی طرح یہ محفل قصہ تین درویش والی محفل بن گئی جس میں درویش تو اور بھی تھے مگر وہ لب بستہ رہے۔ عامرخان نے جاپان کے حوالے سے بڑی دلچسپ بات یہ بتائی کہ جاپانی زبان میں گالی نہیں ہوتی۔ بھلا یہ بھی کوئی زبان ہوئی۔ سیدمودودی نے کہیں لکھاہے کہ جب وہ لاہورمیں فروکش ہوئے توپنجابی گالیوں سے بھی آشنا ہوگئے۔ یہ اوربات کہ شاید کبھی تصورمیں بھی کسی کو گالی نہ دی ہو حالانکہ دلی سے نسبت تھی جہاں کے کرخندارمزنگ بازار لاہور کے خوش فکروں سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ شورش کاشمیری مرحوم صحافت اورخطابت میں ایک بڑا نام ہے۔کئی باران کو سننے کا اتفاق ہوا۔ لکھنے اورتقریرکرنے میں یکساں روانی اوربے ساختگی جیسے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ اس روانی اور زبان دانی کا دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب الحمرامارکیٹ مال روڈ میںکوثر نیازی اور شورش کاشمیری کا آمنا سامنا ہوا۔ اس زمانے میںکوثر نیازی کے شہاب اورشورش کے چٹان میںقلمی معرکہ برپاتھا۔مارکیٹ میں بھی شورش نے کوثرنیازی کو لاجواب کردیا۔ ہمارا اسکول کا زمانہ تھا اور قریب ہی کمرشل بلڈنگ میں قیام پذیر ہماری خالہ نے کچھ خریدنے کے لیے الحمراء مارکیٹ بھیجا تھا۔ شورش مرحوم ہاتھاپائی میں بھی کسی سے کم نہ تھے۔ ہاتھ پائوں کے مضبوط ‘ قدآورشخص تھے۔ ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ جاپانی کسی سے لڑتے ہوں گے توکیا کہتے ہوں گے۔ عامرخان کا کہناہے کہ انہوں نے چھ برس کے قیام میں جاپانیوں کو آپس میں لڑتے ہی نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کہ وہ یہ کام گھرجاکرکرتے ہوں۔ ان کی زبان میں سب سے بڑی اور واحدگالی ہے ’’باکا‘‘ ۔ہم یہ سن کر ذرا سنبھل کر بیٹھ گئے کہ اس کے معانی تو بہت ہی فحش ہوں گے۔ معلوم ہواکہ اس کا مطلب ہے ’’پاگل‘‘۔ بھلا بتائیے‘ یہ بھی کوئی گالی ہوئی۔ اردوشاعری میں تویہ لفظ بہت عام ہے مثلاً میں پاگل‘ میرا منواپاگل‘‘ ۔ شاعرخود اپنے آپ کو پاگل کہہ رہاہے اور ممکن ہے صحیح کہہ رہاہو۔ لوگ پیار‘ محبت میں بھی ایک دوسرے کوپاگل‘پگلاکہہ دیتے ہیں۔ اوراردو پنجابی کی گالیاں ‘بقول ابن صفی مرحوم کے تمام کوائف کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ ہمارے شاعرکا تو محبوب بھی گلیارا ہوتاہے۔ ممکن ہے کہ ہیروشیماوناگاساکی کی تباہی اور سامراجی طاقتوں کے سامنے ہتھیارڈالنے کے بعد سے مزاج میں تبدیلی آگئی ہو۔ شایدکوئی جاپانی غاصب اورقابض فوجیوں کو گالی دے بیٹھاہو اس کے بعد سے چپ لگ گئی ہو۔ اب تمام جاپانی چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ اورچلتے پھرتے سائے محسوس ہوئے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ جاپانی زبان میں لطیفے بھی نہیں ہیں۔ خیرپاکستان کی وزیرخارجہ محترمہ حنا ربانی کھرجاپان کا دورہ کرآئی ہیںجاپانی اپنی ہی زبان میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ جاپانی وزیرخارجہ صاحب سے ملاقات کی تصویرمیں حنا ربانی تورنگ لارہی ہیں۔ جانے مترجم نے کیا ترجمہ کیاہوگا۔ جاپانی زبان میں لطیفے بے شک نہ ہوں لیکن مذکورہ محفل میں یہ لطیفہ سننے کو ضرورملا۔ امریکا کے مونیکالیونسکی فیم صدر بل کلنٹن ٹوکیو آرہے تھے۔ جاپان کے وزیراعظم کو انگریزی کے چند خیرمقدمی جملے یاد کرائے گئے۔ جب بل کلنٹن سے ملاقات ہوئی توجاپانی وزیراعظم نے رٹا ہوا جملہ ادا کیا ’’ہائوآریو؟‘‘ بھلاہوجاپانی تلفظ کا کہ HOW کی ادائیگی WHO کی طرح ہوئی یعنی ہوآریو؟ بل کلنٹن کو شوخی یا مسخری سوجھی۔ امریکی اس میں ماہرہیں۔ انہوں نے ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا’’I am Husband OF Heleri‘‘ (میں ہیلری کا شوہرہوں)۔ جاپانی وزیراعظم نے دوسرا تیارجملہ اچھال دیا۔ ’’ME Too‘‘ ۔یعنی میں بھی۔ راوی اس پرخاموش ہے کہ بل کلنٹن کا اس پرکیا ردعمل تھا۔ شاید دل ہی دل میں کہاہو’’ You too۔‘‘ یہ جملہ ہیلری کے لیے بھی ہوسکتاہے۔ ہیلری کلنٹن وہی خاتون ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں دعویٰ کیاہے کہ ایمن الظواہری‘ پاکستان میں ہیں۔ اس پر ایس ایم ایس چل رہے ہیں کہ یہ بات وہ کہہ رہی ہیں جنہیں اتنا نہیں معلوم تھا کہ ان کے بیڈروم میں مونالیونسکی ہیں۔ یہ ان لوگوں کی خوش گمانی ہوسکتی ہے جو امریکی کلچرسے پوری طرح واقف نہیں‘ ہیلری کلنٹن بڑی باخبرخاتون ہیں‘خاتون اول بنے رہنے کا شوق سمجھوتوں پر مجبورکردیتاہے۔کہیں کہیں ’’مرداول‘‘ بھی سمجھوتوں پرمجبورہوتے رہے ہیں۔ عامرخان نے بتایاکہ ایک ہوٹل میں دو پاکستانیوں میں سے ایک نے دوسرے کو ایک سخت گالی دے دی جس پر جھگڑا‘ شروع ہوگیا۔ پولیس آگئی۔ اس کو گالی کا مفہوم ہی سمجھ میں نہیں آیا ۔ پولیس افسرپوچھتے رہے کہ کیا اس شخص نے تمہاری والدہ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے‘ والدہ اگرپاکستان میں ہے توکیا یہ شخص پاکستان گیاتھا؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو جھگڑا کس بات پر؟آخرگالی کھانے والے نے ہاتھ جوڑدیے۔ ممکن ہے کہ اپنی زبان میں دوچارگالیاں بھی دی ہوں۔ جن کی زبان میں سرے سے گالیوں کا تصورہی نہ ہو وہ ان کی ’’چاشنی‘‘ کیا سمجھیں گے۔ عربی سے ناواقف پاکستانی بھی توسعودیوںکی تعریف کرتے رہے ہیں کہ شاباش ہے اس قوم کو‘گالی کے جواب میں بھی تلاوت ہی کرتے ہیں۔ گالیوںکے انتخاب میں عرب بھائی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں‘کلّاب‘ حمار اوردجال تو زبان زدعام ہیں۔ سناہے کہ وہ پاکستانی جوبرطانیہ کے کارخانوں‘ خاص طور پرنیو کاسل وغیرہ میں مزدوری پرگئے تھے ان کا جب انگریز ساتھیوں سے جھگڑاہوتاتھا تو انگریزی کی گالیوں سے جی نہیں بھرتاتھا۔ جتنی یاد تھیں وہ دے کر’’And More Over‘‘ کہہ کرغبارنکالتے تھے۔ اب تو خوب رواں ہیں۔ جاپای زبان’’بے گالی‘‘ سہی لیکن جاپانیوں کی اپنی زبان توہے ہرقوم کی ہوتی ہے۔ گونگی توپاکستانی قوم ہے کہ اپنی کوئی زبان ہی نہیں۔ ان سے بھی انگریزی میں بات ہوتی ہے جو اپنی زبان بول رہے ہوتے ہیں۔ بحریہ کے سابق سربراہ اور موجودہ چیئرمین نیب فصیح بخاری نے توانگریزی کے سواکسی اورزبان میں بات کرنے ہی سے انکارکردیا تھا کہ مجھے اردونہیں آتی۔ اردونہ سہی‘ ان کی کوئی مادری زبان توہوگی‘ وہ زبان جس میں ماں نے لوریاں سنائی ہوں گی‘ باپ‘دادا سے جس زبان میں بات کرتے ہوں گے۔ کیا اپنے بزرگوں سے بھی انگریزی بولتے رہے؟ ہمارے وزیراعظم تو انگریزی میں انٹرویودیتے ہوئے سوال ہی نہ سمجھ پائے اورکچھ کا کچھ کہہ گئے۔ وہ بھی کوئی ترجمان کیوں نہیں رکھ لیتے۔ اب تک مذاق بن رہاہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے جاپانی وزیراعظم کی طرح یہ نہیں کہا’’Me Too‘‘ ۔
|
No comments:
Post a Comment