اہلِ مصر کے لیے نیا امتحان
حافظ محمد ادریس
-سال 2011ء مصر کے لیے ایک اور یادگار اور خوشگوار تبدیلی لے کر آیا۔ مصری قوم نے ایک تاریخی جدوجہد اور عوامی تحریک کے ذریعے صدیوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ شاہ فاروق کی بادشاہت کے خاتمے کے بعد1953ء میں فوجی حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس وقت سے لے کر گزشتہ سال 2011ء تک تین بدترین آمروں نے ملک کو ظلم و ستم کی آماجگاہ بنائے رکھا۔ عظیم فرزندانِ اسلام دارو رسن اور گولیوں کا نشانہ بنے، نیک سیرت نوجوانوں کی بے داغ جوانیاں زنداں خانوں کی نذر ہوئیں اور وہ بیس بیس سال جیلوں میں گزار کر باہر نکلے تو بوڑھے ہوچکے تھے۔ جمال عبد الناصر، انوار السادات اور حسنی مبارک کسی اخلاقی ضابطے اور انسانی اقدار کو نہیں جانتے تھے۔ وہ درندے تھے اور پوری درندگی کے ساتھ وادیٔ نیل پر پنجے گاڑے ،درندگی کا ارتکاب کرتے رہے۔ گزشتہ سال بے پناہ قربانیوں کے بعد کامیاب عوامی تحریک نے حسنی مبارک کا تختہ الٹا اور مصری عوام کو پہلی بار آزادانہ انتخابات کا موقع ملا تو انہوں نے اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ حزب الحریت والعدالہ اور حزب النور، دو اسلامی جماعتوں پر اعتماد کیا۔ اخوان ساڑھے بیالیس فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر اور حزب النور ساڑھے پچیس فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے۔ گویا اسلامی قوتوں کے مقابلے پر مصری عوام نے سیکولر، لبرل، لیفٹ اور رائٹ اور سابق حکومتی اور مغرب نواز عناصر سبھی کو مسترد کر دیا۔ پارلیمنٹ اور سینٹ ہر دو ایوانوں میں اسلامی جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ 23اور 24مئی کو ملک میں بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر پہلے صدارتی انتخابات ہوئے۔ ان میں کل 13 امیدوار میدان میں تھے۔ ووٹنگ کا تناسب قدرے کم یعنی 46 فیصد رہا تاہم پہلے اور دوسرے نمبر پر اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی اور سابق حکومت کا نمائندہ و سابق وزیراعظم جنرل (ر) احمد شفیق آئے۔ اب انہی دو امیدواروں کے درمیان 15اور 16جون کو حتمی فیصلے کے لیے کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ کئی امیدواروں نے پہلے مرحلے کے دوران ہونے والی انتخابی بے ضابطگیوں کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی مگر چیف الیکشن کمشنر فاروق سلطان نے تمام عذر داریاں مسترد کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انتخابات میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی۔ عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کوئی بڑا اور نمایاں واقعہ ایسا سامنے نہیں آیا جس کی بنیاد پر نتائج تبدیل ہونے کا امکان ہوتا ہم آخری گنتی کے وقت کئی انتخابی مراکز پر مبصرین کو اور امیدواروں کے نمائندوں کو بھی کائونٹنگ ہال میں نہیں جانے دیا گیا۔ عبوری فوجی کونسل کے سربراہ، خود ساختہ فیلڈ مارشل، جنرل حسین طنطاوی انتقال اقتدار کے معاملے میں اب تک بالواسطہ ٹال مٹول کے حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں واضح طور پر سابقہ حکومتی کارپردازوں کے ساتھ ہیں۔ ظاہر ہے وہ سابقہ نظام اور اسٹیٹس کو کا حصہ ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھی ایک مضمون میں صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں دھاندلی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ احمد شفیق کے حق میں سرکاری عملے نے بے ضابطگیاں کی ہیں۔ پارلیمان اور سینٹ کے انتخابات میں حسنی مبارک دور کے امیدوار جس طرح پٹے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے یہ نتائج بالکل غیر حقیقی اور مضحکہ خیز نظر آتے ہیں۔ جنرل حسین طنطاوی انقلابی قوتوں کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ مختلف حربوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ احمد شفیق سے لوگوں کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی صدارتی امیدوار کے خلاف کہیں بھی کوئی احتجاجی اور شدید رد عمل سامنے نہیںآیا البتہ موصوف جب ووٹ ڈالنے گئے تو عوام نے ان پر جوتے پھینکے۔ وہ انتظامیہ اور پولیس کی حفاظت میں وہاں سے واپس پلٹے۔ ان کا رنر اپ ہونا اہل مصر کے لیے باعثِ حیرت و صدمہ ہے۔ مصر میں مثبت تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں حریت پسند حلقوں میں خوشگوار تاثر پیدا ہوا ہے۔ عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکوں نے اس تبدیلی پر خوشیاں منائی ہیں مگر ابھی تک معاملات کو خوش اسلوبی سے منطقی انجام تک پہنچنے میں کافی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنا ہوگا۔ فوجی جرنیل جن ممالک میں اقتدار کے نشہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان کا یہ خمار مشکل ہی سے کافور ہوا کرتا ہے۔ ترکی میں البتہ بظاہر عوامی جمہوری حکومت نے مدتِ مدید کے بعد جرنیلوں کے پر کاٹنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈیڑھ درجن جرنیل جو کبھی ہمہ مقتدر شمار ہوتے تھے، جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ اب مصر میں بھی اللہ کرے یہ بہارِ جاں فزا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرسکے۔ اگر انتقال اقتدار پر امن اور جمہوری طریقے سے عمل میں آگیا تو قوی امید ہے کہ مصر جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ ناصری گروپ کے امیدوار حمدین صباحی نے پہلے تو اخوان کی دعوت کو مسترد کر دیا تھا مگر اب انہوں نے بھی احمد شفیق کے مقابلے پر ضرب المثل کے مطابق حب علی میں نے نہ سہی، بغضِ معاویہ ہی میں ڈاکٹر محمد مرسی کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔
اب دو بدو مقابلہ اخوان کے امیدوار مردِ درویش جناب ڈاکٹر محمد مرسی اور حسنی مبارک دور کے وزیراعظم اور کرپشن کلب کے ممبر، احمد شفیق کے درمیان کانٹے دار ثابت ہوگا۔ مصر کے 5کروڑ رجسٹر ووٹر جن میں سے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ نے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالے، اگر گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تو سابقہ آمریت کی باقیات کا جنازہ نکلنے کا امکان ہے۔ اگر ٹرن آئوٹ کم ہوا تو جنرل طنطاوی کی فوجی انتظامیہ کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ یہ اہلِ مصر کا بڑا امتحان ہے۔ اللہ کرے وہ اس میں سرخرو ہوسکیں اور اپنے شہدا کی قربانیوں کی لاج رکھ سکیں۔ عالم اسلام کے مقبول ترین عالم اور خطیب مفکر اسلام علامہ یوسف القرضاوی نے اہل مصر سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ اس صدارتی انتخاب کو دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ نہ سمجھیں بلکہ یہ دو نظاموں کے درمیان مقابلہ ہے۔ ایک جانب خوفِ خدا سے مالا مال، کرپشن سے پاک صاف، عدل و انصاف کے علمبردار اور انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے والے نظریات کے حامل لوگ ہیں اور دوسری جانب آمریت و کرپشن کے نمائندے ، مصرکو انسانی خون میں نہلانے والے فساد زدہ نظام کے علمبردار ہیں۔ مصری عوام کو بڑی سوچ سمجھ اور شعور کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔ قرضاوی صاحب کی پوری دنیا میں اور اپنے آبائی وطن مصر میں بے پناہ عزت اور احترام ہے۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے اختتام پر حزب النور نے پہلی مرتبہ کھلے دل کے ساتھ اخوان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوزائیدہ سیاسی جماعت اور اس کے سلفی راہ نما سیاسی لحاظ سے خاصے پختہ، بالغ نظر اور باشعور ہیں۔ اس سے قبل انھیں اخوان اپنے حریف نظر آتے تھے کیوں کہ دونوں پہلی اور دوسری پوزیشن پر فائز تھے۔ اب انہوں نے محسوس کرلیا ہے کہ اگر ان دونوں اسلامی پارٹیوں کے درمیان اس معرکۂ انتخاب میں ہم آہنگی و یگانگت پیدا نہ ہوسکی تو انقلاب دشمن قوتیں فائدہ اٹھائیں گی جو سب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ اسی کو سیاسی پختگی کہا جاتا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر ان کی ہائی کمان کے اس فیصلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں حزب النور نے اخوان کے سابق رکن عبد المنعم ابو الفتوح کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے اخوان کے فیصلے کے علی الرغم خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا تھا، اس لیے اخوان سے ان کا اخراج ہوگیا تھا۔ وہ چوتھے نمبر پر رہے۔ ان کے کل ووٹ چالیس لاکھ پچاس ہزار تھے۔ صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں امیدواروں کے ووٹ ایک دوسرے سے کافی قریب رہے۔ اخوان کے ڈاکٹر محمد مرسی کے ووٹ 57لاکھ 65ہزار، احمد شفیق کے 55 لاکھ 5ہزار، ناصری پارٹی کے امیدوار حمدین صباحی کے اڑتالیس لاکھ ووٹ تھے۔ حزب النور کے حمایت یافتہ ابو الفتوح ساڑھے چالیس لاکھ ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ عرب لیگ کے سابق جنرل سیکرٹری اور دور آمریت میں مصر کے وزیر خارجہ عمرو موسیٰ مغربی قوتوں اور لبرل عناصر کی حمایت سے پانچویں نمبر پر رہے۔ ان کے ووٹوں کی تعداد پچیس لاکھ اسی ہزار کے قریب تھی۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کا ذاتی تعارف دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی مصر کی کامیاب سیاسی جماعت حزب العدالت و الحریت کے صدر ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے انجینئر اور کیلیفورنیا یونیورسٹی (امریکا) سے پی ایچ ڈی ہیں۔ مصر کے منطقہ شرقیہ میں 1951ء میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ماسٹر ڈگری کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔ 1982ء میں ڈاکٹریٹ کی۔ کچھ عرصہ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں تدریس کی۔ پھر وطن واپس آگئے اور انجینئرنگ یونیورسٹی زقازیق (مصر) میں صدر شعبہ اور پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ دور طالب علمی ہی سے اخوان سے متاثر تھے۔ طویل عرصے تک اخوان کی مجلس اعلیٰ ’’مکتب ارشاد‘‘ کے رکن رہے۔ جب حزب العدالت وجود میں آئی تو اخوان کی قیادت نے ان کو اس کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اخوان کی طرف سے 2000 تا 2005ء کی پارلیمان کے رکن رہے اور عالمی پارلیمانی کمیٹی نے انھیں دنیا کا بہترین پارلیمانی رکن قرار دیا۔ صہیونیت کے خلاف قائم تنظیم میں بھی اہم خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور اس تنظیم کے اساسی ارکان میں سے ہیں۔ مصر کا ہر شہری گواہی دیتا ہے کہ ڈاکٹر محمدمرسی کے دامن پہ کوئی دھبہ نہیں۔ ائیر مارشل احمد شفیق حسنی مبارک دور کا آخری وزیراعظم ہے، جسے عوامی تحریک کے دوران وزیراعظم احمد نظیف کی کابینہ کے استعفا کے بعد حکومت سازی کا حکم دیا گیا۔ اس نے کابینہ بنائی مگر یہ محض 29جنوری سے 3مارچ 2011ء تک صرف پانچ ہفتے چل سکی۔ پھر صدر حسنی مبارک اور وزیراعظم احمد شفیق کے ساتھ پورے نظام کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ احمد شفیق 1941ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے بعد ائیرفورس میں بھرتی ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے 1991ء میں ہوائی فوج کے اعلیٰ عہدے وائس ائیر مارشل پر فائز ہوگئے۔ ملازمت کے دوران اٹلی اور بعض دیگر ممالک میں مصری سفارت خانے کے ملٹری اتاشی بھی رہے۔ 1994ء میں ائیر مارشل بنائے گئے۔ وہ مصر کی ائیر فورس کے طویل ترین سربراہ رہے۔ حسنی مبارک کے منظور نظر تھے، توسیع ملتی رہی اور 6 سال اس منصب پر فائز رہنے کے بعد 2002ء میں ریٹائر ہوئے۔ ملازمت کے بعد انھیں کئی اہم مناصب عطا کیے گئے۔ وہ سول ایوی ایشن کے وزیر رہے۔ وزارت کے دوران نھوں نے سرکاری زمینوں میں سے ہزاروں ایکڑ زمین حسنی مبارک کے بیٹے محمد حسنی مبارک کو کوڑیوں کے بھائو بیچی۔ موصوف پر کرپشن کے کئی الزمات ہیں۔ آغاز میں الیکشن اتھارٹی نے ان کو صدارتی منصب کے لیے نااہل قرار دیا تھا مگر انہوں نے عذر داری پیش کی تو فوجی کونسل نے ان کو کلیئر کر دیا۔ اب معرکہ محض دو امیدواروں کے درمیان نہیں، ان دو کرداروں کے درمیان بلکہ انقلاب و آمریت کے علمبرداروں کے درمیان ہے۔
|
No comments:
Post a Comment