Search This Blog

Tuesday, 12 June 2012

ناٹو اب صلیبی جنگ لڑرہا ہے؟

ناٹو اب صلیبی جنگ لڑرہا ہے؟

آصف جیلانی 
- 17سال قبل اُس زمانے کے ناٹو کے سیکریٹری جنرل ولی کلائس نے پیش گوئی کی تھی کہ سوویت یونین کی مسماری، مشرقی یورپ میں سوویت چنگل میں جکڑے ہوئے ممالک کی آزادی، اور ناٹو کے حریف وارسا معاہدے کے ڈھیر ہوجانے کے بعد اب ناٹو کا معرکہ ’’شدت پسند اسلام‘‘ سے رہے گا، کیونکہ اُن کی رائے میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسلامی شدت پسندی ناٹو کے اتحاد اور مغربی معاشرے کے لیے سنگین ترین خطرہ بن کر ابھری ہے اور مغرب کے لیے اسلام اسی نوعیت کا خطرہ ہے جس طرح اس سے پہلے کمیونزم خطرہ تھا۔ ولی کلائس کی یہ پیش گوئی اُس وقت صحیح ثابت ہوگئی جب 9/11 کے بعد جارج بش نے اعلان کیا تھا کہ یہ صلیبی جنگ ہے اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ طویل ہوگی۔ دراصل اسی اعلان کے بعد اسلام کے خلاف ناٹو کی معرکہ آرائی شروع ہوئی جس کو خود مغرب میں 10ویں صلیبی جنگ کا نام دیا گیا، جس کی ابتدا اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا قلع قمع کرنے کے بہانے افغانستان پر حملے سے ہوئی، جس میں ناٹو کی افواج پیش پیش تھیں۔ یہ جنگ پچھلے دس برس سے جاری ہے جس پر 44 ارب ڈالر کے خرچے کے بعد بھی ناکامی برابر ناٹو کی افواج کا منہ چڑاتی رہی ہے، اور اب ناٹو کے سردار امریکا نے اس جنگ میں شکست قبول کرلی ہے اور 2012ء میں افغانستان سے پسپائی کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران تیل کی دولت کا لالچ ناٹو کو کشاں کشاں لیبیا لے گیا اور قذافی کی حکومت گرانے کے لیے ناٹو نے فضائی حملوں میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ صحیح ہے کہ لیبیا کے عوام قذافی کے استبداد سے سخت نالاں تھے اور ان کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے تھے، لیکن اس وقت بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا کہ یورپ کے دفاعی معاہدے کا شمالی افریقہ کے ملک لیبیا سے کیا تعلق ہے کہ وہ فوجی مداخلت پر تلا ہوا ہے؟ لیکن ناٹو کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ یورپ کے دفاعی مفادات لیبیا سے وابستہ ہیں۔ یہ دلیل پیش کی گئی کہ یورپ، خاص طور پر اٹلی میں تیل صاف کرنے کے تمام کارخانے لیبیا کے ہلکے تیل کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور اگر ان کارخانوں میں لیبیا کے تیل کی رسد بند ہوگئی تو یورپ کی معیشت کو زک پہنچے گی۔ اس کے علاوہ یہ دلیل بھی پیش کی گئی کہ شمالی افریقہ میں لیبیا کی جغرافیائی حیثیت فوجی اعتبار سے بے حد اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناٹو کے پانچ ملکوں امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور کینیڈا نے لیبیا میں سات ماہ پر محیط فوجی کارروائی پر چار ارب ڈالر سے زیادہ کا خرچ برداشت کیا۔ اب امریکا اور اس کا اتحادی اسرائیل چاہتے ہیں کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ناٹو کی طرف سے براہِ راست یا بالواسطہ فوجی مداخلت کی جائے جو آئندہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بے حد اہمیت کی حامل ہوگی۔ لیکن ناٹو کے ممبر ممالک جو پہلے ہی افغانستان کی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، شام میں الجھنے سے انکاری نظر آتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے ناٹو اپنے مستقبل کے بحران سے دوچار ہے، جسے اپنے تشخص کا بحران بھی کہا جارہا ہے۔ اپریل 1949ء میں جب معاہدۂ شمالی اوقیانوس کا ادارہ (ناٹو) تشکیل دیا گیا تھا تو اس کا بنیادی مقصد سوویت یونین کے خطرے کا مقابلہ کرنا اور یورپ کا دفاع مضبوط بنانا تھا۔ ناٹو کے پہلے سیکریٹری جنرل لارڈ ازمے کا کہنا تھا کہ ناٹو کا مقصد روسیوں کو باہر رکھنا، امریکا کو یورپ کے اندر رکھنا اور جرمنوں کو زیر رکھنا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے بکھرنے اور ناٹو کے مدمقابل فوجی معاہدے (وارسا معاہدہ) کے خاتمے کے بعد ناٹو کا نہ کوئی حریف رہا تھا اور نہ اس کا کوئی قانونی جواز باقی رہا تھا، کیونکہ یورپ کے لیے کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ باقی نہیں رہا تھا۔ مشرقی یورپ کے وہ تمام ممالک جو سوویت یونین کے زیراثر تھے اور وارسا معاہدے کے ممبر تھے، ناٹو کے خیمے میں آن گھسے۔ یوں ناٹو کے ممبر ممالک کی تعداد 28 تک پہنچ گئی۔ روس سے بھی یورپ کو کوئی خطرہ باقی نہیں رہا تھا، بلکہ اب روس کو ناٹو کے میزائلوں سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت جب کہ ناٹو کے وجود پر سوال اٹھ رہے تھے امریکا نے اس ادارے پر بھرپور غلبہ حاصل کرنے کے لیے برسلز میں ناٹو کا سپریم الائیڈ ہیڈکوارٹر ختم کردیا اور امریکا میں نارک ورجینیا میں نیا الائیڈ کمانڈ قائم کیا۔ امریکا کے ارادے بڑے واضح تھے، وہ دنیا بھر پر اپنا فوجی تسلط قائم کرنے کے وسیع منصوبے کے لیے ناٹو کا سہارا لینا چاہتا تھا اور پچھلے دس برس کے دوران امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب رہا ہے۔ امریکا نے ناٹو کو برقرار رکھ کر مغرب کی اسلحہ ساز صنعت کے مفادات کا بھی تحفظ کیا ہے۔ یہ طاقت ور صنعت چاہتی ہے کہ دنیا میں علاقائی جنگی کشمکش کا سلسلہ جاری رہے تاکہ اسلحہ کی کھپت برقرار رہے۔ لیبیا کی خانہ جنگی کی بدولت اس صنعت کو پانچ ارب ڈالر کا مالی فائدہ ہوا ہے۔ اگر ناٹو کا وجود سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ 21 سال پہلے ختم ہوجاتا تو اسلحہ کی صنعت کو یہ نعمت حاصل نہ ہوتی۔ عملی طور پر اب یورپ کو اپنی سلامتی کا کوئی خطرہ لاحق نہیں، بلکہ سنگین مالی بحران اب اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اور اسی بحران کے ناٹو پر بھی خطرناک سائے منڈلا رہے ہیں۔ ناٹوکے ممبر ممالک اپنے مالی بحران اور بڑے پیمانے پر اخراجات میں تخفیف کی وجہ سے اپنے دفاعی اخراجات میں 20 سے 25 فی صد تک کمی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناٹو کے بیشتر ممالک جتنی جلد ممکن ہوسکے افغانستان کی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ناٹو کے سنگین مسائل کے باوجود امریکا اس ادارے کو ہر صورت میں برقرار رکھنے پر اٹل نظر آتا ہے۔ اس کے پس پشت امریکا کے تین بنیادی مقاصد ہیں: (1) ناٹو کے بل پر دنیا میں اپنا فوجی تسلط پھیلانا۔ (2) اسلحہ ساز صنعت کے مفادات کو فروغ دینا۔ (3) ناٹو کے ذریعے اسلام کے خلاف صلیبی جنگ جاری رکھنا۔ 1995ء میں ناٹو کے سابق سیکریٹری جنرل ولی کلائس نے جو پیش گوئی کی تھی وہ صحیح ثابت ہوئی ہے، اور اب ناٹو کمیونزم کی مانند اسلام کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور اس کے خلاف نبرد آزما ہے۔

No comments:

Post a Comment