Search This Blog

Wednesday 6 June 2012

ان کا حصہ


ان کا حصہ

عبدالرحمان مخلص

انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ اپنی خوشیوں اور مسرتوں سے زیادہ اپنے دکھ درد کو دوسروں پر ظاہر کر کے اُن کی ہمدردیاں حاصل کرنے کامتمنی رہتا ہے۔(غم و اندوہ اور دکھ درد کی آگ اور دھویں کو اپنے وجود میں جذب کر کے جینے والے  لوگ بہت کم ہوتے ہیں) انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ دوسروں کو اس کے دکھ درد میں شامل ہونے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ پرائے تو خیر! اپنے عزیز و اقارب بھی بسا اوقات دوسروں کے غم کی کہانی کو ہنسی مذاق کا سامان بناتے ہیں اور متاثر ہونے کے بجائے محظوظ ہو جاتے ہیں۔ رہی عورتوں کے مختلف مواقع پر دوسروں کے لئے رونے اور بین کرنے کی بات(بین کرنا اسلام میں حرام ہے) سو وہ بے چاریاں اپنے ہی کسی دُکھ کو یاد کر کے دھاروں دھار روتی اور آنسو بہاتی ہیں۔ یعنی   ؎

کون روتا ہے کسی کے حال پہ اے دوست

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

ایک صاحب ستر برس کی عمر تک ’’آگ‘‘ تھے لیکن جب اس سرحد کے آگے قدم رکھا تو ’’راکھ‘‘ بن چکے تھے۔آگ اور راکھ میں جو فرق ہوتا ہے، اُسے بیان کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ ہر کوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی پڑائو پر اس کھیل تماشے کا خود نہ صرف احساس کرتا ہے بلکہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیتا ہے۔بڑھاپے اور بیماری میں چونکہ بہت ہی قریبی رشتے داری ہوتی ہے، اس لئے وہ صاحب بھی ایک دن ’’صاحب فراش‘‘ ہو گئے۔ کئی دن دو انتہائوں(Two Extremes)کو دیدے پھاڑ پھاڑ کے دیکھا اورپھر پنے بڑے بیٹے کو بے اختیار آواز دی جو کچن میں اپنے بیٹے ’’منا‘‘ کو گود میں لے کر بڑے پیار دُلار سے اُس کے منہ میںLactogen_II چاندی کے چمچے سے ٹپکا رہا تھا۔ منا قلقاریاں مارتے ہوئے اسے نگل رہا تھا اور مسکراتی آنکھوں سے اپنے ’’پاپا‘‘ کو دیکھ رہا تھا۔’’پاپا‘‘ خوشی سے باغ باغ ہورہے تھے۔(گارڈن،گارڈن لکھنا زیادہ مناسب رہتا!)باپ کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو اُس نے اَن سنی کر دی۔ آوازدوسری بار آئی تو اس کے چہرے کے خطوط کشیدہ ہوگئے۔ تیسری آواز ذرا کرخت تھی جیسے پہاڑ کے اُس طرف کہیں بجلی گری ہو۔ بیٹا طوعاً و کرہاًاُٹھا اور ’’بابا‘‘ کے کمرے میں چلاگیا جہاں وہ بوڑھا تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ بستر پر چِت لیٹا تھا۔ اُسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ شام کی شفق پھولی ہو جس کے دُنبال میں گپ اندھیرا ہوتا ہے۔ اس نے زور سے کہا:

’’اتنی دیر سے چِلّا رہا ہوں اور تم ٹس سے مس نہیں ہوتے!‘‘

’’بس اب تو آگیا نا؟! …خاموش ہو جائو!کیا بات ہے؟!‘‘

’’میری ٹانگوں میں سخت درد ہورہا ہے!‘‘

’’بابا! بڑھاپے میں ایسا ہی ہوتا ہے!‘‘

’’ْمیری کمر بھی دُکھ رہی ہے!‘‘

’’یہ بھی بڑھاپے کااثر ہے!‘‘

’’سانس پھول رہی ہے!‘‘

’’یہ بھی بڑھاپا ہے!‘‘

’’سر چکرا رہا ہے!‘‘

’’یہ بھی بڑھاپا ہے!‘‘

’’نظر میں دھندلاہٹ ہے!‘‘

’’یہ بھی بڑھاپا ہے!‘‘

’’کوئی بھی چیز ڈھنگ سے ہضم نہیں ہوتی!‘‘

’’یہ بھی بڑھاپا ہے!‘‘……

اپنے ہر سوال کے جواب میں ’’بڑھاپا‘‘ کی گرداش سن کر بڑے میاں کو غصہ آگیا اور اس نے بیٹے کو ایک لطیف سی ’’پدرانہ‘‘ گالی دی اورکہا:

’’اُلو کے پٹھے…یہ کیا’’بُڑھاپا بُڑھاپا‘‘ کی رٹ لگا دی؟!

اس پر بیٹے نے فرمایا ’’بابا! غصہ ہونا بھی بڑھاپا ہی ہے!!‘‘ اور بڑے میاں خاموش ہو گئے۔Ella Wheeler Wilcoxنے اپنی نظم ’’Solitude‘‘ میں کیا ہی خوب بات کہی ہے:

Rejoice, and men will seek you,

Grieve, and they will turn and go.

They want full measure of your pleasure

But they do not need your woe.

Be glad, and your friends are many,

Be Sad, and you will lose them all.

(ترجمہ: خوش رہو اور لوگ تمہیں تلاش کریں گے۔ غمگین رہو تو لوگ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے، وہ تمہاری خوشی سے بھرپور حصہ چاہتے ہیں۔ اُنہیں تمہارے دکھوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خوش رہو تو تمہارے بے شمار دوست ہیں۔ غمگین ہو جائو تو تمہارا کوئی بھی نہیں ہے) کیونکہ    ؎

درا نجمن جائے مدہ ہمچو منے را

افسردہ دل افسردہ کُند انجمنے را

(ایک افسردہ دل ساری انجمن کو افسردہ بنا لیتا ہے اس لئے مجھ افسردہ دل کو اپنی انجمن میں جگہ مت دو)

رابطہ:-سیر جاگیر سوپور (کشمیر)

 ای میل : armukhlis1@gmail.com ؛  

موبائل: 9797219497

No comments:

Post a Comment