Search This Blog

Wednesday, 6 June 2012

فضو لیا ت سے پرہیزلازم

فضو لیا ت سے پرہیزلازم

آج کل شہراور قصبہ جا ت میں شادی خا نہ آ بادیوں، منگنیو ں اور اس نوع کی دوسری سماجی تقریبات کا سیزن اپنی جوبن پر ہے۔عموماً اپریل کے وسط سے لے کر نو مبر تک پوری وادی میں ایسے فنکشنو ں کی دھوم مچی رہتی ہے ۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے یہا ں نو دولتیو ں کے ایک مخصو ص طبقے میں پیسہ کی ریل پیل ہے ۔اس وجہ سے معاشرے میں شادی بیاہ کے نام پر ایسی ایسی بدعتیں اور نازیبا کلچر درآ یا ہے جس کے زیر اثر حیات ِاجتما عی کے رواں رواں میں مختلف مو ذی بیماریاں پیدا ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ اب شادی بیاہ جیسے مقدس فر یضے کی اصل شکل اس حد تک بگڑ کر رہ گئی ہے کہ قلم کو یارا نہیں کہ اس کے ہمہ گیر برُے اثرا ت کا احا طہ کرے۔ بے شک شادی بیا ہ کے مو قع پر اخلا قی بندشوں کے اندر اندر خوشیا ں منا نا اور جا ئز حدود میں احباب و اقربا کی ضیا فت کر نا کو ئی ممنو عہ شئے نہیںہے ،مگر ہم نے اس کام کو اوّل تا آ خر گھر پھو نک تما شے کا ہم معنیٰ بنا کے رکھ دیا ہے۔ کشمیر ی سماج میں اکثر و بیشتر شادی بیاہ کے حوالے سے ہر چیز کی تا ن صرف کا م و دہن کی لذ ت یا بیو ں ، رسو ماتِ بد، فضولیات اورجہیز کے لین دین پر ٹو ٹتی ہے۔اس عنوان سے شادی خانہ آبادی غریب طبقات کے لئے انتہا ئی نحو ست اور تعذ یب کا دوسرا نام بن چکاہے۔ شادی کا مطلب دو انسانو ں کولا فانی پیار محبت والے رشتے میں با ہم دگر پیو ست کرکے انہیں ازدواجی زندگی کی گاڑی میںبٹھا کر شاہراہِ حیات کی منزل کی طرف گا مزن کر نا ہے ۔ اس عظیم رشتے کی اُٹھا ن نیک نیتی، خلوص اور با ہمی عزت واکرام کے اینٹ گا رے پر ہو تی ہے کیونکہ اس کے طفیل دو اجنبی ایک دوسرے کے واسطے شریکِ حیا ت بننے کا شرف پاتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر شادی کے جو ڑ میں میاں بیوی کے لئے مذ ہبی ، روحا نی ، معاشرتی، نفسیا تی اور خا نگی زندگی کی ایک کثیرالجہت دنیا بسی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ہما ر ے یہا ں ایک چھوٹے سے استثنیٰ کو چھو ڑ کر شادی کے ان اعلیٰ وارفع مقا صدکو ثانوی اہمیت دی جا رہی ہے جب کہ اوّ لیت بے ہودہ رسو مات اور ضرر رساں روا جات کو مل رہی ہے ۔اس سے شادی کے مذ ہبی اور تمدنی پہلو ؤ ں کا مفہوم اول تا آخر رسوماتِ بد کے گر دو غبا ر میں بے چہرہ ہو چکا ہے۔ بگاڑ اس قدر آ چکا ہے کہ گو یا شادی اب صرف ہمسا یوں اور دوست احبا ب رشتہ داروں میں اپنی ناک اونچی رکھنے کا بہانہ ہے ۔ اسے اجتما عی جبر کا شاخسانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر ہرکس و ناکس دیکھا دیکھی میں تمام حدودپھلا نگنے کے لئے ذہنی طور آ ما دہ رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی کو ئی مختلف اسباب کے تحت اس اجتما عی جبراور جنو ن کا حصہ بننے کو ٹھیک نہ بھی سمجھتا ہو لیکن عام مشاہدہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو سما جی فیشن کے خلاف چلنے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ شادی غمی کے باب میں مروج رسوماتِ قبیحہ کی نامعقولیت اور بہ حیثیت مجمو عی ان سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے نکتے پر فرداً فرداًہم میں کو ئی ا ختلا ف ِ رائے نہیںپا یا جا تا ہے۔ یہ کو ئی کندۂ ناتراش ہی ہو گا جوبلا چو ں و چرا ان کی تعمیل وپذیرا ئی پر ذہنی یکسوئی رکھتا ہو۔البتہ بہت ہی کم لو گ عملاً آزمائش کے ترازو میں کھرا اُ تر تے ہیں۔ قابل غور با ت یہ بھی ہے کہ آج تک ہمارے یہاں شادی بیا ہ کو نا جا ئز رسوما ت کی زنجیروں سے آزاد کر نے کے لئے بہت ساری اصلا حی مہمیں چلا ئیں گئیں مگر وہ سب یکے بعد دیگرے نا کا می کا منہ دیکھتی رہیں۔با یں ہمہ اس حو صلہ افزا ء حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ گھٹا ٹو پ اندھیرے میں بھی بعض لو گو ں کے یہاں سادہ شا دیوں کا متا ثر کن اور مثا لی اہتمام بدستو ر ہو رہا ہے ۔ اس سلسلے میں کچھ اصحا ب ِ خیر کی اصلاحی کا وشیں بھی واقعی قابل تعریف ہیں ۔ ان کے یہاں سادہ شادی کی خو ش کن تقاریب کی شان اتنی ہی نہیں کہ ان سے سنجیدگی اور وقار جھلکتا ہے بلکہ ان کو یہ چیز بھی منفرد بنا دیتی ہے کہ لذت ِ کام و دہن کے نا م پر فضو ل خرچی ، اصرا ف و تبذیر کا کھلا مظا ہرہ، گو شت پو لٹری سمیت اشیا ئے خو ردو نوش کا ہو ش ربا استعمال،وقت کابلا وجہ اور بے دریغ زیاں ،ریا کارانہ اور دکھا وے کی مہما ن نوازی اور سب سے بڑھ کر شا دی جیسے مقدس انفرادی،سماجی اور مذہبی فر یضے کو جہیز کے لین دین سے بے ہو دہ تجارت اور نرا کار و بار بنا نے کے نا قا بل ِ معا فی جر م کا ادنیٰ سا شائبہ بھی ان میں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ بلا شبہ ایسی سعید رو حو ں کی برکت سے ہی ابھی تک سو سا ئٹی میں ا خلاقِ حسنہ کاتھو ڑا بہت اُجا لا اور خدا خو فی کی ضیا پا شی کہیں کہیں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ورنہ شادی بیاہ کی بے اعتدا لیو ں نے اس سما ج کو ہر اعتبار سے بے ہودگیوں کے دلدل میںجکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں دو را ئے نہیں کہ عمو ماً کشمیری سو سا ئٹی میں گزر بسر کر نے والے ایک عا م انسان کا خوا ب بلکہ اس کی پو ری زندگی کا ما حصل عا لی شا ن مکا ن کی تعمیر اور بعد ازا ں شادی بیاہ کی پُر شکو ہ تقریب پر دوست احباب کی پرُ تکلف ضیافت کے علا و ہ کچھ اور نہیں۔عا لی شان بنگلے کی تعمیر کے لئے دیا نت و امانت اور اخلا قی اُصولوں کو روند ڈالنااور ضیا فت کے نام پر بے شمار پکوانوںسے لو گو ں کی واہ واہ سننا،شادی کا جشن مناتے وقت مفت کی بجلی سے گھر کے درو دوار کا چرا غا ں کرنا ، رات کو ما ئک لگاکرناچ نغمے کے شورو غو غاسے عوام الناس کی نیند یں حرام کرنا، آتش بازی میں بے حساب مال وزر اُڑاناوغیرہ جیسی بے ہودہ حر کات سے ان غریب نوجوا نو ں اور مہندی کو ترس رہیں دوشیزاؤں کا مذاق اُڑایا جارہاہے ۔ان کے اہلِ خا نہ کی ذہنی کو فت اور احسا س ِ محرو می کو مد نظر رکھتے ہو ئے مذہبی سکالروں اور سماجی اصلا ح کاروں کو اپنی ذمہ دا ریا ں سنجیدگی سے نبھا نے اور ان فضولیات و بدعات کا قلع قمع کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی دوشیزہ کی عمر فضولیات اوربدعات و رسومات کا پیٹ بھرنے کے انتظار میں اُس کے ہاتھ پیلے ہونے کا خواب دھرے کا دھرا نہ رہے ۔

No comments:

Post a Comment