Search This Blog

Sunday 24 June 2012

عافیہ زندہ ہے اور قوم ؟؟؟

 احوال پاکستان

 

عافیہ زندہ ہے اور قوم ؟؟؟

مظفر اعجاز  
- پورے پاکستان میں بلکہ بیرونِ ملک بھی یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ہے۔ لیکن شام کو وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں نے بھی اس خبر کی تردید کردی اور سرکاری ذرائع سے بھی تردید ہوگئی۔ دو روز بعد امریکی حکومت اور امریکا میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس خبر کی تردید کردی… اور یوں سب مطمئن ہوگئے کہ ڈاکٹر عافیہ خیریت سے ہیں۔ اس خیریت کی اطلاع میں امریکی حکومت نے حسب معمول جھوٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ عافیہ کی 19 جون کو اپنے گھر والوں سے کراچی میں بات چیت ہوئی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے نے تو گویا امریکی مؤقف کو ہی آگے بڑھا دیا ہے۔ امریکی جس طرح عافیہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، سفارت خانے کی وضاحت میں بھی وہی زبان استعمال ہوئی ہے۔ سفارت خانے کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستانی نژاد خاتون سائنسدان‘‘۔ اس جملے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عافیہ پاکستانی نژاد امریکی ہیں… اور سائنسدان ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ سائنسدان ضرور ہیں، لیکن اس لفظ کے استعمال سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ عافیہ نیوکلیئر سائنسدان ہیں۔ وہ ماہرِ تعلیم ہیں لیکن سوشل سائنسز کو نیوکلیئر سائنس بنایا جاتا ہے۔ قونصل خانہ کہتا ہے کہ ہم جیل حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اگر ہمارا قونصل خانہ مسلسل رابطے میں رہتا تو اسے عافیہ کی صحت کے بارے میں ایک ایک بات پتا ہوتی۔ عافیہ کی صحت اگر ٹھیک ہوتی تو یہ افواہیں بھی نہ پھیلتیں۔ انہیں تو اس افواہ سے پتا چلا ہوگا کہ عافیہ جیل میں ہیں، اور اب تو امریکا میں خاتون سفیر ہیں، شاید وہ یہ جانتی ہوں کہ عورت ہونے کے ناتے جیل میں رہنا، اور غیر ملکی جیل میں رہنا کیا معنی رکھتا ہے! دوسرا بڑا جھوٹ یہ بولا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کراچی میں اُن کے اہلِِ خانہ ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق فروری میں جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور نیلسن منڈیلا کے ساتھ جیل کاٹنے والے رہنما احمد کتھراڈا سے ملاقات کی اور انہوں نے امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو دبائو میں آکر امریکی حکام نے منٹ بھر کی ٹیلی فون کال کراچی میں کروادی۔ اور اب بھی افواہ کی وجہ سے جیل حکام نے امریکی حکومت کے کہنے پر مختصر گفتگو کروا دی۔ ورنہ ’’ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں‘‘ سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عافیہ کو جیل مینوئل کے مطابق سہولتیں حاصل ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو جس ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی ہے اس سزا کے مطابق بھی انہیں جیل مینوئل کے تحت سہولیات نہیں دی جارہیں۔ پاکستانی قونصل خانے کے افسر کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ تو بہت ہی بڑا جھوٹ ہے۔ خود ان کے اپنے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قونصلیٹ کے ایک افسر باقاعدگی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقاتیں کرتے ہیں، لیکن پھر بتایا گیا ہے کہ آخری ملاقات اپریل 2012ء میں ہوئی تھی۔ گویا تین ماہ گزرنے کو ہیں باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہنے والے کی ملاقات کو۔ تین ماہ میں تو عام صحت مند آدمی کا حلیہ بگڑ سکتا ہے۔ عافیہ جیسی خاتون کی صحت تو ہر روز نگرانی کی متقاضی ہے۔ یہ تو سارے جھوٹ وہ ہیں جو عموماً امریکی اور پاکستانی حکام بولتے رہتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی عافیہ کو امریکی قرار دیتے دیتے خود چلے گئے۔ جنرل پرویز عافیہ کو بیچ گئے اور بعد میں کہتے ہیں کہ میں تو جانتا تک نہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کا بیان امریکی بیان کی فوٹو کاپی ہے، لہٰذا اس پر تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال تو حکمرانوں سے ہے جو پاسبان پاکستان کے صدر نے پوچھا ہے کہ کیا تعزیت کے انتظار میں ہیں؟ لیکن ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستانی قوم بھی تعزیت کے انتظار میں ہے، جنازے کو کاندھا دینے کے لیے پہنچنے کے انتظار میں ہے۔ افواہ پر مشتمل ٹیلی فون پیغام پڑھ کر لوگ تشویش میں مبتلا ہوگئے، فون کر کرکے خیریت معلوم کرتے رہے اور خیریت کی پریس کانفرنس کی اطلاع پاکر سب اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔ حکومت سے تو کوئی توقع نہیں۔ حکومت تو اب بھی نئے وزیراعظم اور عدلیہ کی جنگ کے چکر میں ہے۔ نام نہاد اپوزیشن اس جنگ کا حصہ بن کر سب کی توجہ دوسری جانب مبذول کرارہی ہے۔ کاش ملک ریاض نے ٹی وی اینکرز کو عافیہ کا معاملہ اٹھانے کے لیے بھی دو دو کروڑ دے دیے ہوتے تو شاید یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ لیکن اب تو ملک ریاض کو بھی اپنے لیے وکیل نہیں مل رہا۔

No comments:

Post a Comment